یوم عاشورہ پر قرآن خوانی
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒیومِ عاشورہ پر قرآن خوانی "سنتِ شبیری ہے" اور ماتم کرنا بے صبری سے کام لینا اور ” طریقہ شیطانی" ہے
ناسخ التواريخ:
فقال ارجع اليهم فإن استطعت ان توخرهم وتدفعهم عنا الشيعه لعلنا نصلى لربنا الليله وندعوه ونستغفروه فهو يعلم انی قد احب الصلوه له وتلاوه كتابه وكثره الدعاء والاستغفار۔
(1۔ ناسخ التواريخ حالات سید الشہداء جلد دوم صفحہ 217۔218 مطبوعہ تہران طبع جدید)۔
(2۔ ارشاد شیخ مفید صفحہ 230 فی درد و شمر بن ذی الجوش بارض کربلا مطبوعہ تم طبع جدید)۔
ترجمہ: محرم الحرام کی دسویں رات کو سیدنا حسینؓ نے عباس بن علی سے فرمایا ان یزیدیوں کی طرف جاؤ اور اگر ہو سکے تو آج کی رات ان کو ہم سے دور رکھنے کی کوشش کرو اگر ایسا ہو جائے تو آج رات ہم اپنے رب کی جی بھر کر عبادت کریں گے اس سے دعائیں مانگیں گے اس سے گناہوں کی معافی کی درخواست کریں گے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے کہ میں صرف اسی کی رضا کی خاطر نماز پڑھنا محبوب رکھتا ہوں اسے ہی راضی کرنے کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں اور کثرت دعا اور استغفار محض اس کی خوشنودی کے لیے سرانجام دیتا ہوں۔
ذبح عظیم میں ہے:
تمام مورخین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ شبِ عاشورہ سیدنا حسینؓ نے شب بیداری اور عبادت گزاری میں کاٹی یہی وہ رات تھی جس کی مہلت نہایت مشکل سے عمر بن سعد نے سیدنا حسینؓ مقام کو دی تھی علامہ ابو اسحاق مدائنی اسفرائنی "ضیاء العینین فی مقتل الحسینؓ" میں لکھتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ اور آپ کے تمام اصحاب نے یہ رات عبادت میں گزاری ان کی تسبیح کی آوازیں ایسی آتی تھیں جیسے شہد کی مکھیوں کی آواز میں اڑنے کے وقت پیدا ہوتی ہیں تمام شب کوئی قیام میں تھا کوئی رکوع میں اور کوئی سجود میں۔
(دیکھو ترجمہ صفحہ 84)۔
اور امام طبری بھی لکھتے ہیں کہ اس رات کو سیدنا حسینؓ آپؓ کے اہلِ بیتؓ و اصحاب تمام شب نماز و مناجات میں مشغول رہے۔
(دیکھو صلاح النشائين باسناد طبری صفحہ 39) اور مقتل ابو مخنف میں ہے:
مقتل ابی مخنف میں ہے
ثم في الليله التاسعه من المحرم كان لاصحابه روی کدوى النحل من الصلوه والتلاوه۔
(ذبح عظیم تصنیف مولوی اولاد حیدر فوق بلگرامی شیعی صفحہ 215 مطبوعه لاہور)۔
نویں محرم کی رات سیدنا حسینؓ اور آپؓ کے اصحاب نے ذکر عبادت اور تلاوت قرآن میں صرف فرمائی ان کی آوازیں ایسی تھیں جیسی شہد کی مکھیوں کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔
فروعِ کافی:
فقال نحن اهل البيت انما فحرع قبل المصيبه فاذا وقع امر الله رضينا بقضائه وسلمنالامره۔
(فروع کافی جلد سوم صفحہ 217)
ترجمہ: فرمایا (سیدنا جعفر صادقؒ نے ہم اہلِ بیتؓ بے قرار ہوتے ہیں قبل مصیبت لیکن جب مصیبت آجاتی ہے تو قضائے الہٰی پر راضی ہو جاتے ہیں اور اس کے حکم کو تسلیم کر لیتے ہیں۔
فروع کافی
عن ابی عبد الله عليه السلام قلت ما الجزع قال اشد الجزع الصرخ بالويل والعويل ولطم الوجه والصدر وجز الشعر من النواسی واقام النواحه فقد ترك الصبر واخذ فی غير طريقه ومن صبر واسترجع وحمد الله عزوجل فقد رضی بما صنع الله وواقع اجره على الله ومن لم يفعل ذالك جرى عليه القضاء وهو ذمیم و احبط الله اجره۔
(فروع کافی جلد 3 صفحہ 222 کتاب الجنائز باب الصبر والجزع والاسترجاع)۔
ترجمہ: فرمایا (سیدنا جعفر صادقؒ) نے جب میں نے پوچھا جزع کیا ہے اشد جزع زور سے رونا پیٹنا منہ پر طمانچے مارنا سینہ کوٹنا سر کے بال نوچنا اور نوحہ کرتا ہے یہ صورت ترک صبر کی ہے اور صحیح طریقہ کو چھوڑنا ہے اور جس نے صبر کیا اور انا للہ وانا الیہ راجعون کیا اور اللہ کی حمد کی تو وہ اللہ کی مشیت پر راضی ہوا اور اجر اپنا اللہ پر رکھا اور جس نے ایسا نہ کیا حکمِ خدا تو جاری ہو کر رہا اور وہ قابلِ مذمت قرار پاتا ہے اور اس کا اجر ختم کر دیا جاتا ہے۔
(الشافی ترجمه فروع کافی جلد سوم صفحہ 186۔187)۔
اسی طرح لفظ "جزع " کا اطلاق ان آنسوؤں کے بہنے پر بھی ہوتا ہے جو کسی مصیبت اور دکھ کی وجہ سے بہتے ہوں لیکن اس کو کوئی بھی نا جائز نہیں کہتا لیکن اگر کسی شخص نے بوقتِ مصیبت بال نوچے اور سینہ کوبی کی تو یہ جزع سیدنا جعفر صادقؒ کے نزدیک ناجائز و حرام ہے بلکہ سیدنا جعفر صادقؒ نے مصیبت پڑنے کے بعد اس قسم کے جزع کو "کافرانہ جزع" فرمایا ہے سیدنا جعفر صادقؒ کا قول ہے:
جامع الاخبار:
ان الجزع والبلاء يستقبلان الى الكافر۔
(جامع الاخبار صفحہ 132 مطبوعہ نجف اشرف)۔
ترجمہ: جزع اور مصیبت کافر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
نیز آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:
جامع الاخبار:
الصبر من الايمان بمنزلة الراس من الجسد ولا ايمان لمن لا صبر له۔
(جامع الاخبار صفحہ 132 مطبوعہ نجف اشرف)۔
ترجمہ: صبر کا ایمان میں وہ مقام ہے جو جسم انسانی میں سر کا ہے اور جو بے صبرا ہے وہ ایمان سے خالی ہے۔