Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کے بارے میں رسولﷺ اور آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

شیعہ کے بارے میں رسولﷺ اور آلِ رسولؓ کی تعلیمات

سیدنا عثمانؓ کے دور حکومت میں یہودی سازش کے مرکزی کردار عبداللہ بن سبا نے جس نظریے کو فروغ دیا اور مختصر الفاظ میں یوں تھا ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وصی (جس کے متعلق وصیت کی جائے) حضرت یوشع علیہ السلام تھے اسی طرح آنحضرتﷺ کے وصی سیدنا علیؓ ہیں آپﷺ‎ کے بعد سیدنا علیؓ کو امام اور جانشین ہونا چاہیے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ نے سیدنا علیؓ اور آپؓ کی اولاد کا حق غصب کیا (وغیرہ وغیرہ)۔

(کشف الحقائق از سید نور الحسین شاہ بخاریؒ)۔

منافقوں کے اس سرغنہ نسلی یہودی نے ہی سیدنا علیؓ کے دور میں آپؓ کی الوہیت کا نعرہ بلند کیا سیدنا علیؓ نے اس شرکیہ نعرے پر اسے اس کے ستر ساتھیوں کے ساتھ زندہ جلا دیا تھا۔

(از کشف الحقائق ،سید نور الحسن بخاریؒ)

عبد اللہ بن سبا کے اس یہودی فکر نے ہی نئے مذہب کو فروغ دیا اسلام کو جنگوں کے ذریعے ختم کرنے سے عاجز آنے والے یہودی اور عیسائیوں اور مجوسیوں نے بالاخر خاندان نبوت سے محبت کا دعویٰ کر کے تکفیرِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جو نظریہ پیش کیا اس نے سیدنا علیؓ کے دور میں شیعانِ علی کے نام سے ایک گروہ کو جنم دیا۔

شیعانِ علی کا یہ گروه سیدنا علیؓ سے محبت کی بجائے جنگِ صفین میں بغضِ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی بنیاد پر منظر عام پر آیا تاہم یہ لوگ ایک سیاسی مشن اور گہری سازش کے تحت سیدنا علیؓ کی صفوں میں داخل ہو گئے تھے۔

ان کی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دشمنی اور سیدنا علیؓ اور خاندانِ نبوت سے اندرونی عداوت کے شواہد تو ہم سیدنا علیؓ اور آپؓ کی اولاد کی زبانی آئندہ صفحات میں نقل کریں گے۔

پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دشمن گروہ کے بارے میں آنحضرتﷺ کی پیشگوئی اور چند اکابرین اسلام کی ابتدائی تصریحات نقل کی جا رہی ہیں۔ شیعہ مذہب کا باقاعده فروغ تو 301 ھ میں ہوا جس کے نتیجے میں جھوٹے راویوں اور کذاب مورخوں نے سیدنا علیؓ اور ائمہ اہلِ بیتؓ کی طرف بے بنیاد روایات منسوب کیں جس کا کچھ ذکر ابتدائی اوراق میں بھی آچکا ہے

شیعہ مذہب کے اس دوسرے جنم نے کلمہ کی تبدیلی تحریفِ قرآن اور تکفیرِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے ایسے ایسے شگوفے وضع کیے جس سے انسانی عقل انگشت بدنداں رہ جاتی ہے۔

شیعہ نے عقیدہ امامت کو ثابت کرنے کے لیے شریعت کی پوری تصویر تبدیل کر دی جب عقلی اور نقلی طور پر دعویٰ امامت ثابت نہ ہو سکا اور سیدنا علیؓ سمیت ائمہ اہلِ بیتؓ ہی کا کردار اور تعلیمات سب سے بڑی رکاوٹ بن گئیں تو "تقیہ خ" کا ہتھکنڈہ وضع کیا گیا مٙن گھڑت روایات سے دیوانوں کے دیوان بھر دیے گئے گزشتہ اوراق میں شیعہ عالم ڈاکٹر موسٰی موسی کے اعتراف حق میں ہمارے دعوے کا اثبات ہو چکا ہے۔ 

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دشمن گروہ کے بارے میں آنحضرتﷺ کی پیش گوئی

عن عبدالله ابن عباسؓ قال كنت عند النبیﷺ وعند علىؓ فقال النبیﷺ يا علىؓ سيكون فی امتى قوم ينتحلون حب اهل البيت لهو يسمون الرافضه قاتلوهم فانهم مشركون۔

(مجمع الزوائد جلد 1 صفحہ 21)۔

ترجمہ: اے سیدنا علیؓ میری امت میں ایک گروہ ہوگا جو اہلِ بیتؓ کی محبت کا دعویٰ کرے گا (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) پر طعن و تشنیع ان کی علامت ہو گی ان کو رافضی کہا جائے گا ان سے جنگ کرنا کیونکہ وہ شرک ہوگا۔

قال قلت الحسن بن علىؓ الشيعه يزعمون ان علياؓ يرجع قال كذب اولئك الكذابون لو علمنا ذالك ما تزوج نساوه ولا قمنا ميراثه۔

(مجمع الزوائد جلد 1 صفحہ 12 بحوالہ عاصم بن عبد الله)۔

ترجمہ: آپ فرماتے ہیں میں نے سیدنا حسن بن علیؓ سے پوچھا کہ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ سیدنا علیؓ واپس آئیں گے تو سیدنا حسنؓ نے فرمایا ان کذابوں نے جھوٹ بولا اگر ہم یہ جانتے ہوتے تو آپؓ کی بیوائیں شادی نہ کرتیں اور ہم آپؓ کی میراث تقسیم نہ کرتے۔ 

ائمہ اہلِ بیتؓ اور آپؓ کی اولاد کی طرف سے شیعہ سے بیزاری اور برات کا اعلان

شیعه مذہب کے راویوں کے بارے میں آپ نے ائمہ اہلِ بیتؓ کی آراء ملاحظہ کیں اب ہم آپ کے سامنے سیدنا علیؓ سیدنا حسینؓ اور آپؓ کی اولاد کے وہ ارشادت پیش کریں گے جس سے واضح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ خود کو شیعانِ علی کہلانے والے سیدنا علیؓ اور آپؓ کی اولاد کے کتنے دشمن تھے خود سیدنا علیؓ اور آپؓ کی اولاد ان سے کسی قدر بیزاری اور نفرت کا اظہار کرتی تھی۔

خاندانِ نبوت سے محبت کی آڑ میں حضراتِ خلفاء راشدینؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکفیر و تفسق کرنے والوں نے خاندانِ نبوت کو کس قدر اذیتیں پہنچائیں ان پر قاتلانہ حملے کیے ان کے اموال کو لوٹا ان کو ہر قدم پر دھوکہ دیا ہر جگہ سادہ لوح ائمہ کو فریب اور بے وفائی دکھوں سے رنج والم سے دو چار کیا

خاندانِ نبوت کے خلاف چھپے ہوئے اندرونی کفر اور گہرے بغض نے اولادِ رسولﷺ کو کہاں کہاں رلایا رسول اللہﷺ کی بیٹیوں کی حرمت کو کس کس جگہ پامال کیا؟ یہودیت و سبائیت نے کیسے کیسے چرکے لگائے ایک ایک امام اور ایک ایک صاحبزادے کو کس کس طرح ذلت و حقارت کی دہلیز تک پہنچایا؟ سیدنا علیؓ کی شہادت سے لے کر سانحہ کربلا تک کہاں کہاں اس قوم نے اولادِ پیغمبرﷺ سے انتقام لیا؟۔

محبت اہلِ بیتؓ کے پُرفریب دعووں کے نیچے چھپی ہوئی یہودیت نے معصوم اور دودھ پیتے بچوں کو بیچارگی اور بے وفائی کے کچوکے لگائے۔

پھر یہ سب کچھ کسی سُنی کی کتاب کا مواد نہیں بلکہ خود انہی کا ذخیرہ کُتب "شاہد عدل" کے طور پر تاریخ کے افق پر اعتراف حقیقت کر رہا ہے۔

آج کے دور میں ایسی بو قلمونی اور حیرت انگیز فریب کاری کا کوئی تصویر ہی نہیں کر سکتا جیسے افتراء سے خاندانِ نبوت کو عہد قدیم میں واسطہ پڑا تھا۔

سیدنا علیؓ اور آپؓ کی اولاد کے ائمہ کی زبانی ان پر انہی کے راگ الاپنے والوں کے ہاتھوں کیا بیتی؟ ملاحظہ فرمائیے:

سر دھنٸے۔ حیرت و استعجاب کی گہرائیوں میں جاں بلب ہو جائیے اور غور کیجئے کہ کس طرح قاتلوں نے عقیدت مندی کا روپ دھارا؟ دھوکہ بازوں نے محبت کا واویلا کیا فریب کاروں نے کرشمہ ابلیس کو بھی مات کیا پیغمبرِ اسلام کی اولاد سے الفت کی آڑ میں اصحابِ رسولﷺ کی تکفیر کی فسوں کاری کے پردوں میں خاندانِ نبوت سے بھی انتقام لیتے رہے۔

بیچارے امام چیختے رہے شہزادگان پیغمبر دہائی دیتے رہے ادھر آستینوں میں سانپ چلتے رہے خط لکھ کر بلانے والوں اور عقیدت و محبت کے دعویداروں نے گہرے انس و پیار کے راگ الاپنے والوں نے ایک طرف دجل و تلیس کا ریکارڈ قائم کیا دوسری طرف خاندانِ نبوت کے ایک ایک فرد کے نام پر علیحدہ علیحدہ مذاہب گھڑ لیے علیحدہ علیحدہ نظریے تشکیل دیے وحدت اسلامی کو پارہ پارہ کر کے خود اولادِ رسولﷺ کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔

اسی ستم کیشی اور ستم کاری کا رونا سیدنا علیؓ نے کیسے رویا؟ سیدنا زین العابدینؒ نے کیسے دکھ کا اظہار کیا؟ سیدہ زینبؓ اورسیدہ رقیہؓ" کے اشکوں نے حقیقت کس طرح آشکار کی؟ اولادِ سیدنا علیؓ نے کس طرح اس دھوکے کو آشکار کیا؟ ملاحظہ فرمائیں کتابیں بھی ان کیں کہانی بھی ان کی اور فریادیں اولادِ رسول کیں ہم یہاں کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

سیدنا علیؓ نے اپنے شیعوں سے کہا خدا تمہارے چہروں کو رسوا کرے اور تم بد بخت ہو:

نہج البلاغه:

الدليل والله من نصر تموه ومن رمى بكم فقد بافوق تابل انكم والله كثير في الباحات قليل تحت الرايات واني لعالم بما يصلحكم ويقيكم اودكم ولكني لا اری اصلاحكم بافساد نفسي اضرع الله حدودكم واتعس حدودكم لا تعرفون الحق كمعرفتكم الباطل ولا تبطلون الباطل كما بطالكم الحق۔

(نہج البلاغہ خطبہ 29 صفحہ 99 مطبوعہ بیروت فی توبیخ بعض اصحابہ)۔

ترجمہ: خدا کی قسم جس کی تم مدد اور نصرت کر دو وہ ذلیل ہے تم اسے لڑائی میں چھوڑ کر بھاگ جاؤ گے اور مغلوب ہو کر اسے خوامخواہ ذلت نصیب ہوگی اور جس شخص نے تمہیں دشمن کے مقابلہ کے لیے بھیجا اس نے ایک تیر بے پیکان چلایا قسم خدا کی تم اپنے مکانوں کی فضا میں تو بہت بچتے ہو مگر میدان میں عَلم کے نیچے تمہاری تعداد بہت ہی قلیل ہوتی ہے بے شک میں اس چیز سے خوب واقف ہوں جو تمہارے فتنہ و فساد کی اصلاح کر سکتی ہے تمہاری کجی کو سیدھا کر سکتی ہے جابر اور ظالم بادشاہوں کی سیاستوں کا تمہارے ساتھ عمل در آمد ہو سکتا ہے میں اپنے نفس کو فاسد کر کے تمہاری اصلاح نہیں چاہتا خدا تمہارے چہروں کو ذلیل و رسوا کرے تمہارے نصیب اور مقدر کو پسند کر دے تم بد بخت ہو کیا تم حق کو اتنا بھی نہیں جانتے جتنا کہ باطل کو پہچانتے ہو کیا تم ابطال باطل میں اتنی کوشش بھی نہیں کر سکتے جتنی کہ حق کو چھپانے کے لیے کوشش میں لاتے ہو۔

(نیرنگ فصاحت صفحہ 80 مطبوعہ یوسفی)۔

سیدنا علیؓ ایک غلام سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بدلے 10 شیعہ فروخت کرنے پر تیار تھے (نہج البلاغہ)

لو ددت والله ان معاويهؓ صارفني بكم صرف الدينار بالدرهم فاخذ مني عشرة منكم واعطاني رجلا منهم يا اهل الكوفه منبت منكم بثلاث واثنين صم ذو والسماع و بكم ذو و كلام و عمي ذو وابصار لاحرار صدق عند اللقاء ولا اخوان نقه عند البلاء تربت ايديكم۔ 

(نہج البلاغہ خطبہ97 صفحہ142 مطبوعہ بیروت)۔

ترجمہ: قسم خدا کی تمہارے ان افعال سے بیزار ہو کر میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں کے سیدنا امیرِ معاویہؓ مجھ سے اس طریقے سے تمہارا معاوضہ کرے کہ دینار طلائے مسواک کے عوض درہم نقرہ مسواک مجھے میسر ہو اور دس نقرہ تم سے لے لے اور فقط ایک مرد شامی میرے حوالے کر دے اے اہلِ کوفہ! میں تمہاری تین خصلتوں اور دو خصلتوں کے سبب سے تم میں مبتلا ہو رہا ہوں حالانکہ تم صاحبِ گوش ہو مگر امرِِ حق کے سننے سے تمہارے کان بہرے ہیں سچی بات میں تمہاری زبان گنگ ہے حالانکہ تم صاحبِ زبان ہو تم دیکھتے ہو صاحبِِ ابصار ہو اور اندھے بنے ہوئے ہو نہ تم دوستوں کی ملاقات کے وقت مردان راست گو اور آزاد ہو اور نہ بلاؤں کے وقت موثق اور معتمد بھائی تمہارے ہاتھ خاک آلودہ ہو جائیں تم ہمیشہ فقیر رہو۔ 

(نیرنگ فصاحت صفحہ 131 مطبوعہ یوسفی)۔

سیدنا علیؓ نے شیعوں سے جدائی اور خلفائے راشدینؓ سے جا ملنے کی دعا کی (نہج البلاغہ)

ولودوت ان الله فرق بيني وبينكم والحقني بمن هو حق بی منكم قوم والله ميا مين الراعي مراجيع الحلم مقاويل بالحق متاريك للبغي مضوا قدما على الطرية واوجفوا على المحجه فظفوا بالعقبي الدائمه والكرامه البارده۔

(نہج البلاغہ صفحہ 174 خطبہ نمبرہ116 مطبوعہ بیروت طبع جدید)۔

ترجمہ: اب تو میری دعا ہے اور میں اسی بات کو دوست رکھتا ہوں کہ پروردگار عالم میرے اور تمہارے درمیان تفرقہ اندازی کر دے اور مجھے ان لوگوں کے ساتھ ملحق فرما دے جو تم سے زیادہ میرے لیے سزاوار ہوں وہ ایسے لوگ تھے قسم خدا کی ان کی اراء اور تدبیریں میمون اور مبارک تھیں وہ دانشمندانہ اور حکیمانہ بردباریوں کے مالک تھے وہ راست گفتار تھے وہ بغاوت اور جور و ستم کے ترک کرنے والے تھے گزر گئے درآنحالیکہ ان کے پاؤں طریقہ اسلام پر مستقیم تھے وہ راہ واضح پر چلے اور ہمیشہ رہنے والی سرائے عقبہ میں فتح و فیروزی حاصل کی نیک اور گوارا کرامتوں سے فیضیاب ہو گئے۔ 

(نیرنگ فصاحت صفحہ 168 مطبوعہ یوسفی)۔

اتباعِِ حق سے بھاگنے کے سبب سیدنا علی المرتضیؓ نے اپنے شیعوں کو نافرمان گدھوں سے تشبیہ دی (احتجاج طبرسی)

يا ايها الناس انما استقرتكم لجهاد هؤلاء فلم تنفروا و اسمعتكم فلم تجيبوا و نصحت لكم فلم تقبلوا شهودا بالغيب اتلوا عليكم الحكمه فتعرضون عنها واعظكم بالموعظه البالغه فتنفرون عنها كانكم حمر مستنفره فرت من قسوره۔

(احتجاج طبرسی جلد 1 صفحہ 254 احتجاج علیہ السلام علی قومہ وحشہ لہم الجہاد نجف اشرف مطبوعہ قم خیابان طبع جدید طبع قدیم صفحہ 93)۔

ترجمہ: لوگو! میں نے تمہیں جہاد پر نکلنے کو کہا لیکن تم تیار نہ ہوئے تم کو دین کی باتیں سنائی تم نے کوئی جواب نہ دیا تم کو بالمشافہ نصیحتیں کی لیکن تم نے انہیں قبول نہ کیا تمہیں واضح نصیحت کی لیکن نافرمان گدھوں کی طرح بھاگنے لگے جیسا وہ شیر سے ڈر کر بھاگتے ہیں۔

سیدنا علیؓ نے کہا شیو تم مجھے کذاب سمجھتے ہو اس لیے میں اللہ سے تم سے جدائی کی دعا کرتا ہوں (احتجاج طبرسی)

لاهل كوفه اخبركم بما يكون قبل ان يكون لتكونوا منه علی حذر و لتنذروا به من اتعظ واعتبر كانی بكم تقولون ان علياؓ يكذب كما قالت قريش لنبيهاﷺ‎ وسيدها نبی الرحمه محمد بن فيا ويلكم فعلی من اكذب علی الله فانا اول من عبده و وحده اصبحت لا اطمع فی نصرتكم ولا كمك فرق الله بينی وبينكم۔

ترجمہ: اے اہلِ کوفہ! میں تم کو اس چیز کی خبر دیتا ہوں جو ابھی ہونے والی ہے تاکہ تم اس سے اپنا بچاؤ کر سکو اور پھر اس آدمی کو جو عبرت اور نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے ڈرا سکو اور گویا کہ اس ڈرانے اور واضح نصیحت کرنے میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن تم کہتے ہو کہ علی جھوٹ بولتا ہے جیسا کہ قریش نے نبی پاکﷺ کے متعلق کہا تھا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے (معاذ اللہ) اے اہلِ کوفہ! تمہارے لیے ہلاکت ہو پس میں کس پر جھوٹ بولوں گا کیا میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتا ہوں حالانکہ میں ہی وہ پہلا آدمی ہوں کہ جس نے شریعتِ مصطفیﷺ میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اس کو وحدہ لا شریک کہا کیا اس کے رسولﷺ پر جھوٹ کہوں گا حالانکہ سب سے پہلے میں ہی ان پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی اور اس کی مدد کی میں نے اس حال میں صبح کی نہ تو میں تمہاری مدد کی طمع کرتا ہوں اور نہ تمہاری بات کی تصدیق کرتا ہوں بلکہ میری تو اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میرے اور تمہارے درمیان تفرقہ اندازی کر دے۔

سیدنا علیؓ نے فرمایا میری دعا ہے کہ میرے اور شیعوں کے درمیان کوئی معرفت نہ ہو انہوں نے میرا دل جلا دیا ہے (احتجاج طبرسی)

والله لوددت ان معاويهؓ صارفنی بكم صرف لا دينار بالدرهم فاخذ منی عشره منكم واعطانی واحدا منهم والله لوددت انی لم اعرفكم ولم تعرفونی فانها معرفه جرت ندما لقد ورثتم صدری غيظا وافسدتم علی امری۔

(احتجاج طبرسی جلد اول صفحہ 256 توبیخ علیہ السلام اصحابہ نشاقلهم عن القتال)۔

ترجمہ: بخدا مجھے یہ بات پسند ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ مجھ سے درہم کے بدلے دینار سے سودا کرے یعنی مجھ سے دس کوفی شیعہ لے کر ایک شامی دے دے قسم بخدا مجھے یہ بات پسند ہے کہ نہ میں تم کو پہچانوں اور نہ تم مجھ کو کیونکہ اس معرفت نے ذلت کو کھینچا ہے اور تم نے میرے سینے میں غضب کو پیدا کیا ہے اور میرے معاملے کو تم نے نافرمانی اور ذلت کے ساتھ خراب کر دیا ہے۔

صفحہ 403

شیعوں کی بد عہدی کے سبب سیدنا علیؓ نے دعا کی اے اللہ پانی میں نمک کی طرح ان کے دل پگلا دے (احتجاج طبرسی)

اللهم انی قد مللتهم وملونی وستمتهم و سئمونی اللهم لا ترض عنهم اميرا ولا ترضهم عن امير و امث قلوبهم كما يماث الملح بالماء اما والله لو اجد بدا من كلامكم ومراسلتكمك فافعلت۔

(احتجاج طبرسی جلد اول طبع قدیم قم خیابان صفحہ257 تبع جدید صفحہ 95)۔

ترجمہ: اے اللہ! میں نے شیعوں کو پریشان کیا اور انہوں نے مجھے پریشان کیا میں نے ان کو دکھ دیا انہوں نے مجھے دکھ دیا اور اے اللہ نہ خوش کر ان سے کسی امیر کو اور نہ ان کو کسی امیر سے اور ان کے دلوں کو ایسا پگھلا دے کہ جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے اللہ کی قسم اگر میں نے تم سے کلام کرنے اور خط و کتابت کی گنجائش بھی پائی تو پھر بھی نہ تم سے کلام کروں گا اور نہ تم سے خط و کتابت کروں گا۔

سیدنا رضا نے فرمایا ہمارے شیعوں میں ہزار میں سے ایک بھی مخلص نہیں اگر ان کا امتحان لوں تو سب مرتد ثابت ہوں:

حليتہ المتقين مع مجمع المعارف

از حضرت امام رضا عليه السلام مرویست که اگر در مقام تمیز شیعه را برائم نیابیم ایشان را مگر وصف کنند بزبان و اگر امتحان کنیم نیابم مگر مرتد و اگر خلاصه و زبده کنیم ایسان را از بزار یکی خالص نباشد تا آنکه فرمود تکیه میکنند بر مسند با و میگویند ماشیعه علی بستیم و نیست شیعه علی مگر کسیکه فعل او قولش را تصدیق نماید و از امام حسن عسکری مروی است که بر رسول خداﷺ وحی شد که فلانی نگاه میکند نجانه بمسایه و از دیدن تا محرم مضائقه ندار دانحضرت غضبناک شده فرمود بیا در ید اور اکسی گفت یا رسول اللهﷺ او از شیعه شما است و اعتقاد بنبوت شماد ولایت علی دارد و از دشمنان شما بیزاری میجوید فرمود مگوان شیعه ما است پس تحقیق دروغ میگوند آگاه باش شیعه ما کسی است که متابعت کند ما را در اعمال ما و آنچه ذکر کردی از اعمال ما نیست۔

(حليتہ المتقين مع مجمع المصارف صفحہ 7 مطبوعہ تہران در نصائح)۔ 

ترجمہ: سیدنا رضا سے روایت ہے کہ اگر شیعوں کو کسوٹی پر لے جاؤں تو انہیں صرف زبانی جمع خرچ کرنے والا پاؤں گا اور اگر امتحان لوں گا تو مرتد ہی نکلیں گے اگر ان کا نچوڑ نکالوں تو ہزار میں سے ایک بھی خالص اور مخلص نہیں ملے گا حتیٰ کہ فرمایا مسندیں لگا کر بیٹھے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم "شیعانِِ علی" ہیں لیکن سیدنا علیؓ کا شیعہ وہی ہے جس کا فعل اس کے قول کے مطابق ہو امام حسن عسکری سے روایت ہے کہ حضورﷺ پر وحی ہوئی کہ فلاں اپنے ہمسایہ میں نامحرم عورتوں کو دیکھتا ہے اور اسے کوئی گناہ نہیں سمجھتا آپﷺ نے اسے بلوایا کسی نے عرض کی یا رسول اللہﷺ وہ آپ کا شیعہ ہے آپ کی نبوت سیدنا علیؓ کی ولایت پر ایمان رکھتا ہے اور آپ کے دشمنوں سے بیزاری کرتا ہے آپﷺ نے فرمایا یہ نہ کہو کہ وہ ہمارا شیعہ ہے کیونکہ یقیناً وہ جھوٹ بکتا ہے غور سے سننا ہمارا شیعہ وہ ہے جو اعمال میں ہماری متابعت کرے اور جو کچھ اس آدمی کے بارے میں تو نے ذکر کیا وہ ہمارے اعمال میں سے نہیں۔ (لہٰذا وہ ہمارا شیعہ نہیں)۔

روضہ کافی:

 قال حدثنی موسى بن بكر الواسطى قال قال لى ابو الحسن عليه السلام لوميزت شيعتی لم احدهم الا واصفه ولو امتحنتهم لما وجدتم الا مرتدين ولو تخلصتهم لما خلص من الألف واحد ولو غربتهم غربة لم يبق منهم الا ما كان لی انهم طال ما اتكوا على الارائك فقالوا نحن شیعه علی انما شیعه على من صدق قوله فعله۔

(روضة کافی جلد 8 صفحہ 228 انما شیعہ علی من صدق قولہ فعلہ مطبوعہ تہران طبع جدید طبع قدیم صفحہ 107)۔ 

ترجمہ: موسیٰ بن بکر واسطی نے کہا مجھے سیدنا علیؓ نے بتایا اگر میں اپنے شیعوں کو پرکھوں تو صرف باتونی نکلیں گے اگر میں امتحان لوں تو مرتدین کا ٹولہ نظر آئے گا اور خلوص دیکھوں تو ہزار میں سے ایک بھی مخلص نہ ملے گا اگر تحقیق سے چھان بین کروں تو ایک بھی نہ بچے گا عرصہ دراز سے مسندوں پر تکیہ لگائے کہتے ہیں ہم "شیعانِِ علی" ہیں سیدنا علیؓ کا شیعہ وہ ہوتا ہے جس کا فعل اس قول کی تصدیق کرے اور یہ بات ان سے کوسوں دور ہے محض زبانی جمع خرچ کرنے سے سیدنا علیؓ کا شیعہ نہیں بنا جا سکتا۔

میدانِ کربلا میں سیدنا حسینؓ نے شیعوں کی بد عہدی کے سبب ان پر لعنت کی (جلاء العیون)

 بروایت دیگر آنحضرتﷺ در خطبه فرمود حمد میکنم خداوند را که دينارا فرید و خانه فنا و نیستی گردانید و ابلش تا تبغیر احوال ممتحن ساخت پس فریب خورده کسی است که ازان باز می خورده بدبخت کیست که مفتون آن گردد پس فریب نه دید شمارا این غدار بدر ستیکه قطع میکند امید امیدواران خود و نا امید میگرد اند طمع کنندگان خود را و می بینم شمارا که جم شده اید برائے امری که خدارا نجشم آورده اید برخود و غضب او را متوجه بخد گردانیده و از رحمت او خود را محروم ساخته اید پس نیکو پروردگاریست پروردگار مادید بندگانیند شما برائی او اول اقرار کردید بفرمان برداری او و ایمان آوردید در ظاهر به پیغمبرا و واکنون جمعیت کرده اید برائی کشتن ذریت و عزت او شيطان برشما غالب گردیده ایست دیا و خدارا از خاطر شما محو کرده است پس لعنت بر شما باد و بر ارادت ما با دای بیوفایان جفاکار غدار ما را در پنگام اضطرار بعد دو یاری خود طلبید چون اجابت شما کردیم و بهدایت ونصرت شما آمدیم شمشیر کینه بروئے ما کشیدید۔

(جلاء العیون جلد دوم صفحہ 556 خطبہ آفسر در دو برابر سپاهِ کوفہ مطبوعہ تہران طبع جدید)۔

ترجمه: بروایت دیگر سیدنا حسینؓ نے فرمایا میں اس خدا کی حمد کرتا ہوں جس نے دنیا کو پیدا کیا اور خانہ فنا و نیستی بنایا اور اہالیان دنیا کا تبغیر احوال امتحان کیا واضح ہو کہ فریب خوردہ وہی شخص ہے جس نے دنیا سے قریب کھایا اور بد بخت وہی ہے جو دنیا کا مفتون و گرویدہ ہوا اے گروہ اشرار تم کو دنیا غدار فریب نہ دے تحقیق کہ دنیا اپنے امیدواروں کی امید کو قطع اور اپنے طمع کرنے والوں کو نا امید کر دیتی ہے میں تم کو دیکھ رہا ہوں کہ تم اس کام کے لیے جمع ہوئے ہو کہ خدا کو تم نے اپنے اوپر خشمگین کیا ہے اور اس کی رحمت سے محروم ہوئے ہو واضح ہو کہ ہمارا پروردگار نیکو کار ہے اور تم اس کے خراب اور بدکار بندے ہو پہلے تم نے اس کی فرمانبرداری کا اقرار کیا اور بظاہر اس کے پیغمبرﷺ پر ایمان لائے اور آپ ہی اس پیغمبرﷺ کی ذریت اور عترت کو قتل کرنے پر جمع ہوئے ہو شیطان تم پر غالب ہوا ہے اور اس نے یادِ خدا تمہارے دلوں سے محو کر دی ہے تم پر اور تمہارے ارادے پر لعنت ہو اے بیوفایان جفاکاراں خدا کی تم پر وائے ہو تم نے ہنگام اضطراب و اضطرار اپنی مدد کو مجھے بلایا اور جب میں نے تمہارا کہنا قبول کیا اور تمہاری نصرت اور ہدایت کرنے کو آیا اس وقت تم نے شمشیر کینہ مجھ پر کھینچی۔

بازارِِ کوفہ میں ماتم کرنے والے شیعوں کو سیدہ زینبؓ کا خطاب ہمیشہ جہنم میں رہو تمہیں ہمارے قاتل ہو (جلاء العیون)

 بشير بن حزیم اسدی گفت در آن وقت زينبؓ خاتون دختر امير المومنين اشاره کر دیسونی مردم که خاموش شوید و باں شدت و اضطراب چنان سخن میگفت که گویا از زبان حضرت امیر المومنين سخن میگوید پس بعد از ادائی محامد الهی و درود حضرت رسالت پنابی و صلوات بر ابل بيت اخیار و عترت اطهار گفت اما بعد اے اہل کوفه و ابل غدر و مکر و حيله أيا شما برما میگرید پنوز آب دیده ما از جور شمانه ایستاده و ناله از ستم شما ساکن نگر دیده مثل شما مثل آن زنست که رشته خود را محکم می تابید و باز میکشود و شما نیز رشته ایمان خود را گستید و نیست در میان شما مگر دعوی بے اصل و سخن باطل و تعلق فرزند کنیزان و عیب جونی دشمنان و نیستید مگر مانند گیاهی که در مذبله روید یا نقره که ارانش قبر کرده باشند بدتوشه برانی خود با آخرت فرستادید و خود را مخلد در جهنم گردانیدید شما بر ما گریه و ناله میکنید خود ما را کشته اید و بر مامی گرید د بلی والله باید که بسیار بگریدد و کم خنده کنید و عیب دعار ابدی بر خود خریدید و لوٹ ایں عار را از پیچ بابی از جامه شما زائل نخواهد شد و بچه چیز تدارک میتوانید کرد کشتن جگر گوشه خاتم پیغمبران و سید جوانان بهشت را کسی را کشتید که ملان برگزیدگان شما و روشن کنده حجت سما بود و در پر نازله باد پناه می بردید و دین و شریعت خودا از آدمی آموختید لعنت بر شماد باد که بد گناهی کردید و خود را از رحمت خدا نا امید گردانیدید. زیان کار دنیا و آخرت شوید مستحق عذاب الهی گردیدید مذلت و مسکنت برائے خود خریدید بریده بادوستانی شما موانی بر شما ای اهل کوفه چه جگر گوشها از حضرت رسالت پاره پاره کردید و چه پردگیان از مخدارت حجرات اوبی ستر کردید۔

 (جلاء العیون جلد دوم صفحہ 593 مطبوعہ تہران طبع جدید خطبہ سیدہ زینب در کوفه)۔

ترجمه: بشیر بن حریم اسلامی کہتا ہے کہ اس وقت سیدہ زينبؓ دختر امیر المومنین نے اشارةً کہا خاموش رہو اس حالتِ اضطراب و شدت میں اس طرح کلام کرتی تھیں گویا امیر المومنین کلام فرماتے ہیں پس بعد ادائے حمد الہٰی و درود سید مختار و اہلِ بیتؓ اخیار و عترت اطہار فرمایا امابعد اے اہلِ کوفہ اے اہلِ مکرو غدرو حیلہ تم ہم پر گریہ کرتے ہو اور خود تم نے ہم کو قتل کیا ہے ابھی تمہارے ظلم سے ہمارا رونا موقوف نہیں ہوا اور تمہارے ستم سے ہمارا فریاد و نالہ ساکن نہیں ہوا تمہاری مثل اس عورت کی ہے جو اپنی رسی کو مضبوط بنتی اور کھول ڈالتی تھی تم نے بھی اپنی ایمان کی رسی کو توڑا اور اپنے کفر کی طرف پھر گئے نہیں تمہارا دعویٰ مگر سراسر بے اصل اور ایک فنِ باطل اور مانند خوشامد کنیزاں و عیب جوئی دشمنان اور مثل ایسی ہے جیسے گھاس گھورے پر اُگی ہو قبر سیاہ و تیرہ تار پر آرائش نقرہ کار کی گئی ہو تم نے اپنے لیے آخرت کا توشہ و ذخیرہ بہت خراب بھیجا اور اپنے آپ کو ابد الاباد سزاوار جہنم کیا تم ہم پر گریہ و نالہ کرتے ہو حالانکہ تم ہی نے ہم کو قتل کیا ہے سچ ہے واللہ لازم ہے کہ تم بہت گریہ کرو اور کم خندہ کرو تم نے عیب و عار ابدی خود خرید کیا اس عار کا دھبہ کسی پانی سے تمہارے جامہ سے زائل نہ ہو گا جگر گوشہ ختم پیغمبراں و سید جوانان بہشت کے قتل کرنے کا کس چیز سے تدارک کر سکتے ہو تم نے اس شخص کو قتل کیا جو تمہارے پیشواؤں کا جائے پناہ اور تمہاری حجتوں کا روشن کرنے والا تھا اور ہر مصیبت و بلا میں تم اس سے پناہ چاہتے تھے دین و شریعت کو اس سے اخذ کیا تم پر لعنت خدا ہو تم نے وہ گناہ کیا جس سے رحمت خدا سے نا امید ہو گئے اور گنہگار دنیا و آخرت ہو کے مستحقِ غضب الہٰی ہوئے اور اپنے لیے ذلت و خسران مول لیا تمہارے یہ ہاتھ قطع کیے جائیں اے اہلِ کوفہ تم پر وائے تم نے کن جگر گوشہائے رسول کو قتل کیا اور کن پرداران اہلِ بیتؓ رسول کو بے پردہ کیا۔ 

(جلاء العیون جلد دوم صفحہ 270 مطبوعہ لاہور)۔

فاطمہ بنتِ حسینؓ نے ماتمی شیعوں کے حق میں کہا:

تم ہی ہمارے قاتل ہو تمہارے چہروں پر خاک (جلاء العیون):

اما بعدا اے اہل کوفه و اهل مکر گوغدر تكبر و حیله حقتعالی ما اہلِ بیت رسالت را بشما مبتلا گردانیده و شمارا بما ممتحن ساخته و ابتلائے مارا بر ما نعمت گردانیده و علم خود را بما داده و فهم و معارف را بما عطا کرده مانیم صندوق علم خدا و مخزن حکمت خدا و حجت خدادر زمین بر جميع عباد و بلاد گرامی داشته است مارا بكرامت خود و تفصیل داده است ما را ببرکت پیغمبر خود بر بسیاری از مخلوقات بفضيلت بسیار ظاهر پس شما تکذیب کردیدمار او مارا کافر شعر دید و قتال ما را حلال دانستید و اموال مارا غارت کردید و مارا اسیر کردید مانند اولاد ترک و کابل چنانچه دیر و زجد مارا کشنید و پیوسته خون اہلِ بیت از دم شمشیر ہائے شما میچکد برانی کینمائی دیرینه و دیدهای و دلبانی شما ساد شد بکشتن ما شما فخر کردید که ما کشتیم علیؓ و فرزندان علیں وا بشمشیر بانی بندی و زنان ایشان را اسیر کردیم ای گوینده خاک و خاشاک در دهان توباد۔

(جلاء العیون جلد دوم صفحہ 594/595 خطبه سیدہ فاطمہ بنتِ حسینؓ مطبوعہ تہران طبعِ جدید)۔

ترجمہ: اما بعد اے اہلِ کوفہ اہلِ غدر و مکر و تکبر و حیلہ حق تعالٰی نے ہم اہلِ بیتِ رسالت کو تمہارے ہاتھ مبتلا کیا ہے اور تمہارا ہم سے امتحان لیا ہے اور ہماری بلاؤں کو ہم پر نعمت کیا ہے اور اپنا علم ہم کو دیا ہے اور فہم و اِدراک ہم کو عطا کی ہے اور ہم ہی زمین خدا صدوق علم خدا مخزن حکمتِ خدا جمیع عباد و بلاد پر وارث ہیں اور ہم کو اپنی کرامات سے بزرگ کیا اور ہم کو اپنے پیغمبر کی برکت سے تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے تم نے ہماری تکذیب کی اور کافر سمجھا اور ہم پر قتال کرنا حلال سمجھا اور ہمار ا مال غارت کیا اور ہم کو مانند اسیرانِ ترک و دیلم اسیر کیا کل کے روز تم نے ہمارے پدر بزرگوار کو قتل کیا اور بسبب کینہ ہائے دیرینہ ہر وقت ہم اہلِ بیتؓ کا خون تمہاری تلواروں سے ٹپکا اور ہمارے قتل کرنے سے تمہارے دل شاد ہوئے اور تم میں سے فخر کرنے والے نے فخر کیا کہ میں نے سیدنا علیؓ اور ان کے فرزندان کو شمشیر ہائے ہندی سے قتل کیا اور ان کی عورتوں کو اسیر کیا اے فخر کرنے والے تیرے منہ میں خاک ہو۔

(جلاء العیون مترجم جلد دوم صفحہ 272۔273 مطبوعہ لاہور)۔

بازارِ کوفہ میں ماتمی شیعوں سے سیدہ امِ کلثومؓ نے کہا اے قاتلانِ سیدنا حسینؓ تمہارے منہ سیاہ اور رات خراب ہو (جلاء العیون)

پس امِ کلثومؓ دختر دیگر حضرت سیده النساءؓ صدا بگریه کرد و از بورج محترم ندا کرد حاضر از اکه ای اہلِ کوفه بدا بحال شما و ناخوش باد رویانی شما بچه سبب برادرم حسین را خواندید و یاری او نکردید او را بقتل آوردید و اموال او را غارت کردید و پردگیان حرم سرانی او را اسیر کردید وانی برشما و لعنت بر رویبانی شما مگر نمیدانید که چکار کردید و چه گنابان و اوزار بر پشت خودبار کردید و چه خونبانی محترم ریختید و چه دختران محترم و مکرم را نالان کردید و مال چه جماعت را بغارت بردید کشتید بهترین خلق را بعد از حضرت رسالتﷺ۔ 

(جلاء العیون جلد دوم صفحہ 595۔592 مطبوعہ تہران طبع جدید ذکر خطب سیدہ امِ کلثوم در کوفہ)۔

ترجمہ: بعد اس کے سیدہ امِ کلثومؓ دوسری دختر سیدہ فاطمہؓ نے صدائے گریہ و زاری بلند کی اور رو رو کر آواز دی کہ اے اہلِ کوفہ تمہارا حال اور مال بُرا ہو اور تمہارے منہ سیاہ ہوں تم نے کسی سبب سے میرے بھائی سیدنا حسینؓ کو بلایا اور ان کی مدد نہ کی اور انہیں قتل کر کے مال و اسباب لوٹا اور ان کے پروگیان عصمت و طہارت کو اسیر کیا وائے ہو تم پر اور لعنت ہو تم پر کیا تم نہیں جانتے کہ تم کیا ظلم و ستم کیا ہے اور گناہوں کا اپنی پشت پر انبار کیا ہے اور کیسے خونہائے محترم کو بہایا ہے اور دخترانِ محمدﷺ کو نالاں کیا اور کن بزرگوں کے مال کو تم نے لوٹا بعد حضرت رسول اللہﷺ تم نے بہترین خلقِ خدا کو قتل کیا۔

( ترجمہ جلاء العیون جلد دوم صفحہ نمبر 273 مطبوعہ لاہور)۔

(بحوالہ عقائدِ جعفریہ جلد اوّل از مولانا محمد علی بلال گنج لاہور)۔