Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ مذہب کے بانیان اور راویوں کے بارے میں آل رسولﷺ کی تعلیمات

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

شیعہ مذہب کے بانیان اور راویوں کے بارے میں آلِ رسولﷺ کی تعلیمات

آپ نے گزشتہ اوراق میں خاندانِ نبوت کے ساتھ شیعانِ علی کی ستم کاریوں کی ہلکی سی جھلک ائمہ و خاندان کے سرکردہ افراد کی زبانی انہی کی معتبر کتب سے ملاحظہ کی اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ "شیعانِ علی" سے خاندانِ نبوت نے جس طرح چرکے کھائے ہیں اس سے عام انسان پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ان لوگوں نے جور و ستم اور ظلم و تعدی میں اندرونی یہودیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاندانِ رسولﷺ کی عورتوں اور بچوں کو بھی معاف نہیں کیا دشتِ کرب و بلا میں آلِ رسولﷺ کو ایسے ایسے چرکوں سے دکھ دیئے جو انہی کی زبانی آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔

 اب ہم اس گروپ کو باقاعدہ تشکیل دینے اور شیعہ مذہب کی تدوین و تاسیس کرنے والوں کے بارے میں ائمہ اصلیت کے ارشادات انہی کی زبانی ناظرین کے سامنے پیش کریں گے۔

خاندانِ رسول کے برگزیدہ امام ہی آپ کو بتائیں گے کہ ان کی محبت اور الفت کی آڑ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکفیر کرنے والوں نے کسی طرح کذب و افتراء کے ریکارڈ قائم کیے۔

اسلام کی بنیادوں کو منہدم کرنے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کو داغدار کرنے والے اس گروہ کے ناقلین راویان اور نام نہاد محدثین کے بارے میں اولادِ رسولﷺ نے کیا آراء قائم کی ہیں ان مقدس فرامین اور واضح ارشادات کی روشنی میں شیعہ کی تمام کتابوں اور صحاحِ اربعہ کی حیثیت دنیا کے

سامنے آشکار ہو جاتی ہے اس حقیقت کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ شیعہ کا سارا مذہب اور پورا دین چھوٹے راویوں کذاب ناقلوں کی خامہ فرسائی کا نتیجہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکفیر کو محبت اصلیت کے پردے میں جس طرح لپیٹا گیا ہے وہ جھوٹ کا پلندہ اور فریب کاری کا شاہکار ہے آئیے یہاں بھی سر دہن کر ائمہ کے ارشادات ملاحظہ فرمائیں۔

سیدنا رضا نے شیعہ راویوں کو کذاب قرار دے کر ان پر لعنت کی:

رجال کشی:

  وابی يحيىٰ الواسطىؒ قال قال ابو الحسن الرضا عليه السلام كان بنان يكذب على على بن الحسين عليه السلام فاذاقه الله حر الحديد و كان مغيرة بن سعيد يكذب علی ابی جعفر علیه السلام فاذاقه الله حرا الحديد وكان محمد بن بشير يكذب على ابي الحسن موسىٰ عليه السلام فاذاقه الله حر الحديد وكان ابو الخطاب يكذب على ابی عبد الله عليه السلام فاذاقه الله حر الحديد والذي يكذب على محمد بن فرات۔

(رجال کشی صفحہ 256 مطبوعہ کربلا تذکرہ ابو الخطاب)۔

ترجمہ: ابو یحییٰ واسطیؒ نے کہا کہ سیدنا رضا نے فرمایا بنان علی بن حسین پر اتہام کرتا تھا مغیرہ بن سعید ابو جعفرؓ ان پر اتہام کرتا تھا اور محمد بن بشیر امام موسیٰ کاظم پر اتمام کرتا تھا اور ابو الطاب سیدنا جعفر صادقؒ پر اتہام اور محمد بن فرات کی بھی تکذیب کرتا تھا اللہ تعالیٰ ان سب تکذیب کرنے والوں کو گرم لوہے کا عذاب چکھائے۔

شیعہ لوگوں کے مذہب کے معتمد راوی اور ان پر سیدنا رضاؒ کی لعنت

بنان مغیرہ بن سعید محمد بن بشیر اور ابو الخطاب شیعہ حضرات کے معتمد راویوں میں سے ہیں اکثر و بیشتر صحاح اربعہ کی روایات کے یہی راوی ہیں ان قابلِ اعتماد رواہ کے بارے میں سیدنا رضاؒ نے سخت بددعا کی اور کہا اللہ ان کو دوزخ میں لوہے کا گرم عذاب دے۔

 آپ ہی بتائیں ان کی روایات کا کیا مقام ہوگا پھر جن کتابوں میں ان "گرووں" کی روایات مذکور میں وہ کس درجہ کی کتب شمار ہو سکتی ہیں ہم پچھلے باب میں انہی سے روایت کردہ ان الفاظ کا ذکر کر چکے ہیں جن میں سے ائمہ اہلِ بیتؒ کی گستاخیاں ثابت ہوتی تھیں اب ہماری بات کی تصدیق کر ہی دیں گے مذکورہ عبارت جن ائمہ کی طرف ان راویوں نے منسوب کیں وہ شرارت تھی گستاخی تھی بہتان تھا افترا تھا اور انہیں بدنام کرنے کی مزموم سیعی تھی۔

سیدنا باقرؒ نے اپنے باپ کے راویوں پر ان کی دروغ کوئی کی وجہ سے لعنت کی

رجال کشی کی عبارت ملاحظہ ہو:

عن ابي بكير عن زراره عن ابي جعفر عليه السلام كل مسمعته بقول لعن الله بنان البيان وان بنانا لعنه الله كان يكذب على ابي اشهد ان ابی على بن حسين كان عبدا صالحا۔

(رجال کشی صفحہ 655 مطبوعہ کربلا تذکرہ ابو الخطاب)۔

ترجمہ: ابی بکیر زرارہ سے روایت کرتا ہے کہ سیدنا باقرؒ کو فرماتے میں نے سنا اللہ "بنان البیان" پر لعنت کرے کیونکہ بنان ملعون میرے والد سیدنا زین العابدینؒ پر جھوٹ باندھا کرتا تھا حالانکہ میرے والد ایک نیک ادمی تھے۔

رجال کشی:

حدثنی محمد بن عيسیٰ عن يونس عن مسمع كره بن ابی سيار قال سمعت ابا عبد الله عليه السلام بقول لعن الله بريدا لعن الله زراره۔

(رجال کشی صفحہ 134 مطبوعہ کربلا تذکرہ زرارہ بن ایمن)۔

ترجمہ: بحدف اسناد ابھی سیاد نے کہا، میں نے سیدنا جعفر صادقؒ سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے برید اور زرارہ پر اللہ کی لعنت ہو۔

رجال کشی:

حدثني الحسن بن الكليب الاسدي عن ابيه كليب الصداوي انهم كانوا جلوسا ومعهم عزفر البصير في وعده من احي بهم معهم ابو عبد الله عليه السلام قال فابتداءابو عبد الله من عير ذكرلزراره فقال لعن الله زراره لعن الله زراره لعن الله زراره ثلاثه مرات۔

(رجال کشی صفحہ نمبر 135 مطبوعہ کربلا تذکرہ زرارہ)۔

ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ کے متعلق حسن بن کلیب کہتا ہے کچھ لوگ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے اپنا کلام ذرارہ پر تین مرتبہ ان الفاظ کے کہنے سے شروع کیا، اللہ زرارہ پر لعنت کرے۔

مقامِ غور:

ان تین حوالہ جات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ خود ائمہ اہلِ بیتؒ نے تین شخصوں (بنان زرارہ اور برید) پر اللہ کی پھٹکار اور اس کی لعنت بھیجی ان جلیل القدر ائمہ اہلِ بیتؓ کا کسی پر ان الفاظ میں لعنت بھیجنا کوئی معمولی واقعہ نہیں اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین شخص ایسے جرم کے مرتکب پائے گئے جن کی بنا پر ائمہ اہلِ بیتؓ کی زبان سے ان کے لیے بار بار لعنت خدا صادر ہوئی اور ایک عام پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے کہ حضورﷺ نے کسی پر لعنت کرنے کے بارے میں فرمایا: اگر وہ اس کا مستحق ہوا تو ٹھیک ورنہ لعنت کرنے والے پر وہ لعنت لوٹ آئے گی تو یہاں معاملہ عام آدمی کا نہیں بلکہ اہلِ بیتؓ کے جلیل القدر ائمہ کا ہے وہ ان تینوں کے کرتوتوں سے بخوبی واقف تھے جن کی بناء پر انہوں نے ان پر اللہ کی لعنت بھیجی توائمہ اہلِ بیتؓ کا ان پر لعن طعن کرنے سے ثابت ہوتا ہے یہ تینوں مسلمان ہی نہ تھے کیونکہ کسی مسلمان پر لعنت کرنا قطعاً جائز نہیں لہٰذا ان غیر مسلموں سے جتنی روایات آئی ہیں وہ مردود اور ناقبول ہیں ایک طرف ائمہ اہلِ بیتؓ ان پر بار بار لعنت بھیجیں اور دوسری طرف اسی کتاب "رجال کشی" میں ان کی مدح سرائی کی گئی ہے۔

شیعہ کی صحاح اربعہ کا راویوں پر ائمہ کا عدم اعتماد شیعہ کی بنیادی کتابیں صحاح اربعہ کے راویوں کے بارے میں ائمہ کا فرمان:

حدثنی ابو جعفر محمد بن قولويه قال حدثني محمد بن ابی القاسم ابو عبد الله المعروف بما جيلويه عن زياده بن ابی الحلال قال قلت لابي عبدالله ان زراره روی منك في الاستطاعة شيئا فقبلنا منه وصدقناه وقد احببت ان اعرضه عليك فقال ماته فقلت يزعم انه سالك عن قول الله عزو جل (ولله على الناس حج البيت من استطاع اليه سبيلا) فقلت من ملک زاد او راحله فقال لك كل من ملك زاد ا وراحله فهو مستطيع للحج وان لم يحج فقلت نعم فقال ليس هكذا سالني ولا هكذا قلت كذب على والله كذب على والله لعن الله زراره لعن الله زراره انما قال لى من كان لهم زاد و راحله فهو مستطيع للحج قلت قد وجب عليه قال فمستطيع هو فقلت لا حتى يوذن له قلت فاخبر زراره بذلك قال نعم قال زیاد فقدمت الكوفه فلقيت زراره فاخبرته بما قال ابو عبدالله و سكت عن لعنه قال اما انه قد اعطاني الاستطاعه من حيث لا يعلم وصاحبکم ھذا لیس لہ بصر بكلام الرجال۔

(رجال کشی صفحہ 132۔133 مطبوعہ کربلا تذکرہ زرارہ)۔

ترجمہ: زیاد بن ابی حلال نے کہا میں نے سیدنا جعفر صادقؒ سے پوچھا آپ سے زرارہ نے "استطاعت" کے متعلق کچھ بیان کیا ہے تو ہم نے اسے قبول بھی کیا اور اس کی تصدیق بھی کی میں چاہتا ہوں کہ وہ مسئلہ آپ کے روبرو پیش کروں فرمایا: پیش کرو میں نے کہا زرارہ کا خیال ہے کہ اس نے آپ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں سوال کیا "لوگوں پر اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج ہے جو ان میں استطاعت رکھیں" تو آپ نے اسے فرمایا کہ جو شخص سفرِ خرچ اور سواری کا مالک ہو تو اس نے آپ سے پوچھا ہر وہ شخص جو سفر خرچ اور سواری کا مالک ہو وہ حج کی استطاعت رکھنے والا ہے اگرچہ اس نے حج نہ کیا ہو تو آپ نے فرمایا ہاں یہ سن کر سیدنا جعفر صادقؒ فرمانے لگے نہ اس طرح اس نے مجھ سے سوال کیا اور نہ ایسا میں نے اس کو جواب دیا اس نے مجھ پر جھوٹ گھڑا اللہ کی اس پر لعنت (تین مرتبہ آپ نے یہ الفاظ کہے) زرارہ نے مجھ سے یوں سوال کیا تھا کہ وہ آدمی جس کے پاس زاد و راحلہ ہو وہ حج کا مستطیع ہے؟ میں نے کہا اس پر حج واجب ہے اس نے کہا پھر وہ مستطیع ہوا؟ میں نے کہا جب تک اس کو اجازت نہ ملے وہ مستطیع نہیں کہلا سکتا۔

راوی کہتا ہے میں نے سیدنا جعفر صادقؒ سے عرض کی کہ میں زرارہ کو اس کی خبر کر دوں؟ آپ نے فرمایا ضرور راوی (زیاد) کہتا ہے کہ میں کوفہ گیا اور زرارہ سے ملاقات ہوئی میں نے اس سے سیدنا جعفر صادقؒ کے ارشاد اور لعنت کا تذکرہ کیا زرارہ لعنت کے جواب میں تو خاموش رہا کہنے لگا کہ لیکن "مستطیع " ہونے کی خبر انہوں نے ہی دی ہے جیسے وہ نہیں جانتے تمہارا یہ صاحب (سیدنا جعفر صادقؒ ) لوگوں کے کلام کی بصیرت نہیں رکھتا۔