ماتم کی ممانعت پر آنحضرتﷺ اور ائمہ اہل بیتؓ کی تعلیمات
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒماتم کی ممانعت پر آنحضرتﷺ اور ائمہ اہلِ بیتؓ کی تعلیمات
فرمان رسول مقبولﷺ سیدنا جعفر صادقؓ کی روایت:
عن ابی عبدالله عليه السلام قال قال رسول اللهﷺ ضرب المسلم يده على فخذه عند المصيبه احباط لاجره۔
(فروع کافی جلد 3 صفحہ 224 کتاب الجنائز باب الصبر و الجزع الخ طبع جدید)۔
ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؓ روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہﷺ نے فرمایا: مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا اس کے اجر و ثواب کو ضائع کر دیتا ہے۔
حضورﷺ کی اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ بوقتِ مصیبت رانوں پر ہاتھ مارنے سے اجر و ثواب ضائع ہو جاتا ہے تو جو شخص زنجیر زنی سینہ کوبی اور بال نوچنے میں مصروف ہو اس کے اجر و ثواب کا ضیاع تو ہوگا ہی ساتھ ہی نامہ اعمال میں برائیوں کا اضافہ بھی ہوگا گویا دوہرا نقصان اٹھانا پڑا بلکہ تین گنا ایک نیکیاں ضائع دوسرا گناہ لازم تیسرا اپنا آپ برباد (اللہ ہدایت عطا فرمائے)۔
فرمان رسولﷺ 2:
اصولِ کافی:
قال اخبرنی عمرو بن شمر اليمانی يرفع الحديث الى على عليه السلام قال قال رسول اللهﷺ واله فمن صبر على المصيبه اماه الله تعالىٰ ثواب ثلث مائه درجه ما بین الدرجه الى الدرجه ما بين السماء والارض۔
(اصولِ کافی جلد 2 صفحہ 91 کتاب ایمان والكفر باب الصبر مطبوعه تہران طبع جدید)۔
جامع الاخبار مصنفه شیخ صدوق صفحہ 132 الفصل الحادی والسبعون مطبوعه نجت اشرف)۔
ترجمہ: حضورﷺ نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے مصیبت پر صبر کیا اس کو اللہ تعالیٰ نے تین سو درجات عطا فرمائے ایسے درجات کہ ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اس قدر فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہے۔
آنحضرتﷺ کی سیدہ فاطمہؓ کو نصیحت:
اذامت لا تخمشی على وجها ولا تغشرى على شعرا ولا ننادى بالريل والعويل ولا تقیمی علی نائحه۔
(فروع کافی جلد 5 صفحہ 527 کتاب النکاح باب سنته مبایعه النبیﷺ میر مطبوعه تہران طبع جدید)۔
ترجمہ: حضور سرور کائناتﷺ نے اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمہؓ کو فرمایا بیٹی جب میں انتقال کر جاؤں تو میری وفات پر اپنا منہ نہ پیٹنا اپنے بال نہ کھولنا اور واویلا نہ کرنا اور نہ ہی مجھ پر نوحہ کرنا رسول کریمﷺ کا سیدہ فاطمہؓ کو کس قدر واضح الفاظ میں ارشاد موجود ہے کہ میری فوتگی پر ایسے افعال نہ کرنا جو شیعہ حضرات کے ہاں مروجہ ماتم میں کیے جاتے ہیں۔
و من ضرب يده على فخذه على فخذه عند مصيبه حبط عمله۔
(نہج البلاغه صفحہ 495 باب المختار من حکم امیر المومنین علیه السلام حکم 144 مطبوعہ بیروت طبع جدید چھوٹا سائز)۔
ترجمہ: سیدنا علیؓ فرماتے ہیں صبر کا نزول مصیبت کی مقدار پر ہوتا ہے (یعنی جتنی بڑی مصیبت آتی ہے اتنا ہی بڑا صبر درکار ہوتا ہے جس نے بوقت مصیبت اپنے رانوں پر ہاتھ مارے تو اس کے تمام اچھے اعمال ضائع ہو گئے۔
سیدنا علیؓ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ جتنی بڑی مصیبت آئے اتنا ہی اس پر صبر کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اتنا صبر عطا فرما دیتا ہے جتنا وہ کسی مصیبت میں کرنا چاہے اگر کوئی شخص مصیبت کے وقت صبر کی بجائے جزع فرع (مروجہ ماتم) کرے گا تو اس کے نیک اعمال ضائع ہو جائیں گے لہٰذا فرمانِ سیدنا علیؓ سے معلوم ہوا کہ مروجہ ماتم کرنے والوں کو نیکی کا حصول تو کجا بلکہ ان کی پہلے سے موجود نیکیاں بھی برباد ہو جاتی ہیں اور چھاتی پیٹ پیٹ کر سرخ کر لینے اور چھریاں مار کر خون بہانے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔
(بحوالہ تحفہ جعفریہ)۔
سیدنا حسینؓ کا ارشاد:
"اے سکینہ تو بہت جلد میرے پاس آ تا کہ میں تجھ کو اس طرح وداع کروں جیسے مرنے والا وداع کیا جاتا ہے میں تجھ کو وصیت کرتا ہوں اس فرزندِ صغیر کے بارے میں اور بعد اس کے عیال و یتیموں اور ہمسایوں کے باب میں کہ سب کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا اور جبکہ میں قتل ہو جاؤں تو تم اپنی چادر اور گریبان مت پھاڑنا اور نالہ و فریاد کر کے نہ رونا بلکہ اے سکینہ حکم الٰہی پر صبر کرنا کیونکہ ہم صاحبان صبر اور اہلِِ احسان ہیں مجھے اپنے باپ اور دادا اور بھائی کی اقتداء کرنی چاہیے جب ان کے حقوق کو اہلِ طغیان و غضب نے غارت کیا۔
(ذبح عظیم صفحہ 288 سیدنا حسینؓ کی تنہائی اور بے کسی کے حالات مطبوعہ کتب خانہ اثنا عشری لاہور مغل حویلی)۔
سیدنا علیؓ کادوسرا ارشاد:
نہج البلاغہ:
ومن كلامه عليه السلام قاله وهو يلي غسل رسول اللہﷺ و تجهره بابی انت و امي يا رسول اللہﷺ لقد القطع بموتك مالم ينقطع بموت غيرك من البوه والانباء و
اخبار اسلماء خصصت حتىٰ صرت مسليا عمن سواك و عممت حتىٰ صار الناس فیک سواء ولو لا انك امرت بالصبر ونهيت عن الجزع لانفدنا عليك ماء الشوون
(نہج البلاغه خطبه 225 صفحہ 355 مطبوعہ بیروت طبع جدید چھوٹا سائز)۔
ترجمہ: جب آپؓ جناب رسول اللہﷺ کو غسل دے کر کفنانے لگے تو فرمایا: میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں آپﷺ کی وفات سے نبوتِ وحی آسمان کی خبریں منقطع ہو گئیں جو کمی آپ کے غیر کے مرنے سے نہ ہوئی تھیں آپ کی مصیبت پہنچے ہمیں پہنچیں حتیٰ کہ اپنے غیر کی مصیبت سے ہمیں مطمئن کر دیا (آپﷺ کی وفات سے جو مصیبت ہم پہ پڑی ہے دوسرے کی موت میں یہ رنج و اندوہ کہاں) آپ کی مصیبت ایک عام مصیبت ہے حتیٰ کہ لوگ آپ کی مصیبت سے یکساں پریشان ہو رہے ہیں اور اگر آپ صبر کا حکم نہ دیتے جزع فرع سے منع نہ فرماتے تو ہم اس مصیبت پر مجرائے اشک کا پانی انتہا کو پہنچا دیتے (آنکھ اور دماغ کی تمام رطوبتیں قربان کر دیتے)۔
(ترجمہ نیرنگ فصاحت صفحہ 327 مطبوعہ یوسفی و علی طبع قدیم)۔
ائمہ اہلِِ بیتؓ کے جدِ امجد سیدنا علیؓ کا یہ فرمان پڑھنے اور سننے کے بعد کوئی بھی محبِِ اہلِِ بیتؓ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مروجہ ماتم ائمہ اہلِِ بیتؓ کے نزدیک بالکل ممنوع اور حرام نہیں ہے کیونکہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے نے واضح طور پر فرما دیا کہ مروجہ ماتم اگر جائز ہوتا تو ہم ہلاک ہو جاتے کیونکہ دنیا کی تمام مصیبتیں اگر یکجا جمع کر دی جائیں تو وہ مجموعی طور پر رسول اللہﷺ کے وصال کی مصیبت کی ہم پلہ نہیں ہو سکتیں لہٰذا اگر کسی مصیبت پر جزع و فزع (مروجہ ماتم جائز ہوتا تو سیدنا علیؓ نے حضورﷺ کے انتقال کے وقت ضرور ماتم کرتے لیکن آپؓ نے اس سے منع کیا اور صبر و تحمل کا درس دیا۔
سیدنا علی المرتضٰیؓ کا تیسرا ارشاد:
من لا يحضرہ الفقيہ:
قال عليه السلام لفاطمه عليها السلام حين قتل جعفر بن ابی طالب لا تدعى بويل ولا تكل ولا حزن ولا حرب وما قلت فيه فقد صدقت۔
(من لا يحضره الفقيہ صفحہ 56 في العزاء والجزع عند المصيت مطبوعه لكھنؤ و طبع قدیم)۔
(من لا يحضر و الفقيہ صفحہ 112 جلد مطبوعه تہران طبع جدید تعزیت و الجزع)۔
ترجمہ: سیدنا جعفرؓ بن ابی طالب کی شہادت کے وقت سیدنا علیؓ نے اپنی زوجہ مطہرہ سیدہ فاطمہؓ سے کہا کسی کی موت پر اور کسی کے دورانِ جنگ شہید ہو جانے پر غم کھاتے ہوئے واویلا کے ساتھ ماتم نہ کرنا اور جو کچھ اس کے بارے میں میں نے کہا ہے وہ سچ کہا ہے۔
سیدنا حسینؓ کا ارشاد:
فقالت والكلاه ليت الموت اعدمنی اليوه اليوم ماتت امي فاطمهؓ و ابی علیؓ واخی الحسنؓ اللہ عليهم السلام يا خليفقه الماضين و ثمال الباقين فنظر اليها الحسينؓ فقال لها با ايه لا يذهبن حلمك الشيطن وقال لها ايتها يا اختاه اتقى اللہ وتعزى بعزاء اللہ واعلمي ان اهل الأرض يموقرن واهل السماء لا يبقون جدی خیر منی و ابی خیر منی واعی خیر منی اخی خير منی ولی ولكل مسلم برسول اللہﷺ اسوه فعز اما بهذا ونحوه وقال لهايا اخيه انی اقسمت علیک فابری قسمی لا تشقى على جيبا ولا تخمشی على وجها ولا تدعى على باويل والثبور۔
(1۔ الارشاد شیخ مفید صفحہ 232 فی مکالمتہ الحسین علیہ السلام مع اخته زينبؓ مطبوعہ قم خیابان ارم)۔
(2۔ اعلام الوری مصنفہ فضل ابنِِ حسن طبری صفحہ 236 امر الامام اختاه زينب بالصبر مطبوعہ بیروت طبع جدید)۔
ترجمہ: "جس وقت سیدنا حسینؓ نے میدانِ کربلا میں اپنے خیمہ سے نکل کر یزیدیوں کے مقابلہ کے لیے جانے لگے تو آپؓ کی ہمشیرہ سیدہ زینبؓ کہنے لگیں ہائے افسوس! کاش میری موت آجاتی اور آج کے دن میں یہ حالات نہ دیکھتی میری والدہ سیدہ فاطمہؓ میرے والد سیدنا علیؓ میرے بھائی سیدنا حسنؓ اس دنیا سے رخصت ہوگئے اے گزرے لوگوں کے خلیفہ اے آنے والوں کے سرمایہ سیدنا حسینؓ نے سیدہ زینبؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا: اے پیاری بہن! آپ کے صبر کو کہیں شیطان نہ لوٹ لے اور فرمایا: اے ہمشیرہ خوفِ خدا اپناؤ اور اللہ کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق تعزیت کرو خوب سمجھ لو تمام اہلِِ زمین مر جائیں گے اہلِِ آسمان باقی نہ رہیں گے میرے نانا میرے بابا میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے میرے اور ہر مسلمان کے لیے رسول اللہﷺ کی زندگی اور آپ کی ہدایات ایک بہترین نمونہ ہیں تو ان کے طریقہ کے مطابق تعزیت کرنا اور فرمایا: اے اماں جائی میں تجھے قسم دلاتا ہوں میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی بلاکت و بربادی کے الفاظ بولنا۔
سیدنا محمد باقرؒ کا ارشاد:
عن جابر عن أبی جعفر عليہم السلام قل قلت له ما الجزع؟ قال اشد الجزع الصراخ بالويل والعويل ولطم الرجه و جز الشعر من النواصی و من اقام النواحه فقد ترك الصبر واخذ فی غير طريقه ومن صبر و استرجع وحمد الله عزوجل فقد رضی بما صنع الله ووقع اجره علی الله ومن لم يفعل ذالك جری عليه القضاء و هو ذميم واحبط الله تعالیٰ اجره۔
(فروعِ کافی جلد 3 صفحہ 222 کتاب الجنائن باب الصبر و الجزع والاسترجاع طبع جدید)۔
ترجمہ: سیدنا جابرؓ کہتے ہیں میں نے سیدنا جعفرؓ سے جزع کے متعلق پوچھا یہ کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا شدید جزع یہ ہے کہ کوئی شخص ویل عویل الفاظ چیخ کر نکالے اور اپنے چہرہ کو پیٹے پیشانی کے بال نوچے اور جس نے نوحہ کیا اس نے صبر کو چھوڑ اور صحیح طریقہ کو چھوڑ کر دوسرے راہ چل پڑا اور جس نے صبر کیا اور بوقتِ مصیبت استرجاع (انالله وانا اليه راجعون) کہا اور اللہ کی حمد بیان کی تو اس نے اللہ کو راضی کر لیا اس کا اجر اللہ کے حضور ہے اور جو بوقتِ مصیبت ایسا نہ کرے گا اس پر حکمِ خداوندی تو ہو کر رہے گا لیکن وہ قابلِ مذمت ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کا ثواب و اجر کو ضائع کر دیا۔
سیدنا باقرؒ کا دوسرا ارشاد:
عن ابی جعفر علیه السلام قال ما من عبد يصاب المصيبته فيسترجع عند ذكره المصيبته ويصبر حين تفجاه الاغفر الله له ما تقدم من ذنبه وكلما ذكر مصيبته فاستر جع عند ذكر المصيبته غفر الله له كل ذنب اكتسب فيما بينهما۔
(فروع کافی جلد 3 كتاب الجنائز باب الصبر و الجزع الخ صفحہ 224 طبع جدید)۔
ترجمہ: سیدنا باقرؒ کہتے ہیں جس آدمی کو کوئی مصیبت پہنچے پھر وه انا لله وانا اليه راجعون کہے اللہ تعالیٰ اس کے وہ تمام گناہ معاف کر دیتا ہے جو مصیبت کے آنے کے وقت سے انا للہ وانا اليه راجعون کہنے تک اس نے کیے ہوں گے۔
سیدنا جعفر صادقؒ کا فرمان
فروع کافی:
عن جراح المدائنی عن ابی عبد الله عليه السلام قال لا يصلح الصياح على الميت ولا ينبغی ولكن الناس لا يعرفونه والصبر خير عن علاء بن كامل قال كنت جالسا عند ابی عبدالله عليه السلام فصرخت صارخه من مالدار فقام ابو عبدالله عليه السلام ثم جلس فاسترجع وعاد في حديثه حتیٰ فرغ منه ثم قال انا لنحب ان تعافی فی انفسنا و اولادنا و اموالنا فاذا وقع القضاء فليس لنا ان نحب ما لم يحب الله لنا۔
(فروع کافی جلد 3 كتاب الجنائز باب الصبر و الجزع الخ صفحہ 226 طبع جدید)۔
ترجمه: جراح المدائنی نے سیدنا جعفر صادقؒ سے روایت کی آپؒ نے فرمایا میت پر چیخنا چلانا درست نہیں اور لوگوں کو یہ نہ کرنا چاہیے لیکن لوگ اس کی وقعت کو جانتے نہیں صبر ہر حال میں سب کے لیے بہتر ہے علاء بن کامل سے روایت ہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ پاس بیٹھا تھا تو گھر سے ایک عورت کے چیخنے کی آواز آئی سیدنا جعفر صادقؒ کھڑے ہو گئے پھر بیٹھے اور انا لله وانا اليه راجعون پڑھا پھر سے اپنی گفتگو شروع کر دی یہاں تک آپ گفتگو مکمل کر چکے پھر فرمایا ہمیں یہ بات بہت پسند ہے کہ ہم اپنی جانوں مالوں اور اولادوں کے بارے میں برائی سے بچیں جب اللہ کی تقدیر آجائے تو ہمیں یہ بات بہت پسند ہونا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اس کی ناپسند سے بچنا چاہیے۔
سیدنا جعفر صادقؒ کا دوسرا ارشاد
فروع کافی
عن ابی عبدالله عليه السلام قال ان الصبر و البلاء يستتبعان الى المومنين فياتيه البلاء وهو صبور و ان الجزع والبلاء بستتبعان الى الكافر فياتيه البلاء وهو جزوع۔
(1۔ فروعِ کافی جلد 3 باب الصبر والجزع صفحہ 223 مطبوعه تہران طبع جدید)۔
(2۔ فروعِ کافی جلد 1 صفحہ 57 طبع قدیم)۔
ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں بے شک صبر اور مصیبت دونوں مومن کی طرف آتے ہیں جب کوئی مصیبت اس پر آتی ہے وہ اس وقت انتہائی صبر کرنے والا ہوتا ہے اور جزع وبلا آگے پیچھے کافر کے پاس آتے ہیں جب اس کے پاس مصیبت آتی ہے تو وہ انتہائی رونے پیٹنے والا ہوتا ہے۔
سیدنا جعفر صادقؒ کا تیسرا فرمان:
اصول کافی:
عن ابی عبد الله عليه السلام قال الصبر من الايمان بمنزلة الراس من الجسد فاذا ذهب الراس ذهب الجسد كذالك اذا ذهب الصبر ذهب الايمان۔
(اصولِ کافی جلد 2 صفحہ 87 کتاب الایمان والكفر باب العبر مطبوعه تہران طبع جدید)۔
ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا صبر کا ایمان سے ایسا تعلق ہے جیسا جسم انسانی کے ساتھ سر کا جب سر نہ رہے جسم نہیں رہتا اور جب صبر نہ رہے ایمان نہیں رہتا۔
سیدنا زین العابدینؒ کا ارشاد:
عن على بن الحسينؓ قال الصبر من الأيمن بمنزله الراس فی الجسد ولا ايمان لمن لا صبر له۔
(جامع الاخبار مصنفه شیخ صدوق صفحہ 132 افضل الحادی والسبعون في الصبر)۔
ترجمہ: سیدنا زین العابدینؒ نے فرمایا صبر کا مقام ایمان میں ایسا ہے جیسا کہ سر کا آدمی کے جسم میں وہ بے ایمان ہے جس کے ہاں صبر کی صفت نہیں۔
آنحضرتﷺ کا ارشاد:
بروایے فرمود که ہفت نفر در قبر از قبله رد گرداں شوند خمر فروش و مصر بر شراب و شهادت دهنده بنا حق و محتكرور بواخوار و عاق والدين و نوحه گرو فرمود که بر که کتمان شهادت نما ید حق تعالیٰ گوشت اور انجوراند باودر حضور خلائق و داخل جهنم شود در حالتے که زبان خود می خاید۔
(مجمع المعارف حاشیه برحليته المتقین صفحہ 168 مطبوعه تہران طبع جدید)۔
ترجمہ: بمطابق ایک روایت رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سات آدمیوں کا قبر میں منہ قبلہ کی طرف سے پھیر دیا جاتا ہے۔
- شراب بیچنے والا
- شراب لگا تار پینے والا
- ناحق گواہی دینے والا
- جوا باز
- سود خور
- والدین کا نا فرمان
- ماتم کرنے والا۔
اور حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا جو شخص گواہی کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس کا اپنا گوشت کھانے کو کہے گا اور وہ میدانِ حشر سب لوگوں کے سامنے اپنا گوشت کھائے گا اور جہنم میں اس حالت سے داخل ہوگا کہ اپنی زبان کو کاٹ رہا ہوگا۔