اقلیتوں کی سیٹ کے لئے خود کو غیر مسلم ظاہر کرنے کی شرعی حیثیت
اقلیتوں کی سیٹ کے لئے خود کو غیر مسلم ظاہر کرنے کی شرعی حیثیت
سوال:(1) اس دفعہ جو حکومت نے اقلیت کو سیٹ دینے کا اعلان کیا ہے تو اس کے لالچ میں کمزور ایمان والے مسلمان ظاہر میں اپنے آپ کو عیسائی ثابت کرکے وہ سیٹ لینے لگے۔ یہی مسئلہ ہمارے شہر بھیرہ میں پیش آیا کہ ایک شخص کو چند مسلمانوں نے مل کر بظاہر عیسائی بنا کر عدالت میں پیش کر دیا اور اس پر حلفیہ بیانات دے کر اقلیت کی سیٹ پر عیسائیوں کا نمائندہ بنا دیا۔ تو اب وہ شخص جو بظاہر عیسائی ہوا اور دوسرے مسلمان جو یہ تجویز بنانے والے تھے، مرتد ہوں گے یا مسلمان سمجھے جائیں گے؟
(2) اگر وہ مسلمان ہو کر تجدیدِ نکاح بھی کر لیں لیکن ووٹ استعمال کرنے کا وقت آئے تو عیسائیوں کا نمائندہ بن کر استعمال کریں اور تجویز بنانے والے بھی اس بات پر خوش ہوں، تو اب ان کا کیا حکم ہے؟ مسلمان یا مرتد ہوں گے، اور ان کے ساتھ نباہ کرنا کیسا ہے؟
جواب:(1) واضح رہے کہ ایمان اور اسلام ایک بہت بڑی دولت ہے دنیا و مافیھا اس کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ کسی بھی وقت اگر کسی شخص کے دل میں اسلام، حقیر اور خفیف نظر آجائے یا کسی بھی وقت باستثناء صورتِ اکراہ کے زبان پر کلمہ کفر جاری کرلے (معاذاللّٰہ) تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے بلکہ بعض اعمال مثلاً: :سجود للصنم: اور شدّ زنار وغیرہ سے بھی شخص دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔ صورتِ اکراہ مستثنیٰ ہے :مقوله تعالیٰ الا من اکرہ و قلبه مطمئن بالایمان الایۃ:
افسوس ہے کہ اب وہ زمانہ آگیا ہے جس کے متعلق رسول اللّٰہﷺ نے بایں الفاظ پیشن گوئی فرمائی ہے :ياتي علي الناس زمان يصبح الرجل فيه مؤمنا ويمسي كافرا ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا او كما قال:
آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج کل اکثر مسلمان کہلانے والے معمولی سی ضرورت کیلئے بلاوجہ کلماتِ کفریہ کہنے اور اپنے آپ کو کافر کہنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتے۔
بشرطِ صحت واقعہ شخص مذکورہ دائرہ اسلام سے نکل گیا ہے، بلکہ اس شخص کو عیسائی بنانے کی تجویز پیش کرنے والوں کا ایمان بھی خطرہ سے باہر نہیں ہے۔ ان سب پر لازم ہے کہ فوراً تجدیدِ اسلام کرکے توبہ اور استغفار کریں، اور نکاحوں کی تجدید کر لیں۔
(2) اگر عیسائیوں کا نمائندہ اپنے آپ کو ظاہر کرے تو کفر ہے اور اگر عیسائیوں کا مسلمان نمائندہ اپنے آپ کو ظاہر کرے تو کفر نہ ہو گا۔
بہرحال ایسے شخص کو تجدیدِ نکاح کرنی ضروری ہے۔ اس سیٹ سے اس صورت میں مستعفی ہونا لازم ہے۔ بصورت ان لوگوں کے توبہ تائب نہ ہونے کے دیگر مسلمانوں کو ان سے قطع تعلق کرنی ضروری ہے۔
(فتاویٰ مفتی محمودؒ:جلد:1:صفحہ:167)