غناء کرنے والے اور مرثیہ خوان کو قبر سے اندھا اور گونگا کر کے اٹھایا جائے گا
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒغناء کرنے والے اور مرثیہ خوان کو قبر سے اندھا اور گونگا کر کے اٹھایا جائے گا
شیعہ کی معتبر کتاب مجمع المعارف میں ہے
از رسول خداﷺ منقول است که محشور خواہد شد صاحب غنا و خوانندگی از قبرش کو روگنگ که چون زنا کار و سازنده پیچ غیبت که بلند کند آواز خود را بخواندگی مگر آنکه خداد و شیطان فرستد که بر دوش او سوار شده و بپاشنه پایانی خود بسینه و پشت او زنند تا وقتی و اگزار دو فرمود که بر که يكدريم بصاحب ساز و بدوالت فساد وید نزد خدا شدید تر است از زناء با ادر خود بفتاد بار۔
(مجمع المعارف حاشیه برحليته المتقین صفحہ 63 حرمت غنا مطبوعه تہران طبع قدیم)۔
ترجمہ: رسول اللہﷺ سے منقول ہے کہ غناء کرنے والا اور مرثیہ خوان کو قبر سے زانی کی طرح اندھا اور گونگا اٹھایا جائے گا اور کوئی گانے والا جب مرثیہ خوانی کے لیے آواز بلند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دو شیطان اس کی طرف بھیج دیتا ہے جو اس کے کندھے پر سوار ہو جاتے ہیں وہ دونوں اپنے پاؤں کی ایڑیاں اس کی چھاتی اور پشت پر اس وقت تک مارتے رہتے ہیں جب تک وہ نوحہ خوانی ترک نہ کرے اور رسول اللہﷺ نے فرمایا جو کوئی شخص کسی ساز بجانے والے کو ایک درہم دیتا ہے اور اسے گانے بجانے والا آلہ لے کر دیتا ہے تو اس کا ایسا کرنا اپنی سگی ماں سے ستر مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ برا ہے۔
ماتمی کی دبر سے فرشتے آگ ڈال کر اس کے منہ سے نکالیں گے جبکہ ماتمی کی شکل کتے کی ہوگی:
حیات القلوب میں ہے:
أنحضرتﷺ فرمود وزنی را دیدم برصورت سگ و آتش درد برش داخل میکردند و از دهانش بیرون می آید و ملائکه سر و بدنش رابگر زبانی آہن می زوند فاطمه سلام الله علیها گفت اے پدر بزرگوار من امر اخبرده که عمل و سیرت ایشان چه بود که حق تعالیٰ این نوع عذاب برایشان مسلط گرداند حضرت گفت که آن زنی که بصورت سنگ بود و آتش در دبرش میکردند او خوانند و نوحه کننده و حسود بود۔
(1۔ حیات القلوب جلد 2 صفحہ 563 باب بست و چہارم در معراج آنحضرت مطبوعہ نو لکشور)
(2۔ عیون اخبار الرضا جلد 2صفحہ 11 ماراه رسول ﷺ فی المعراج الخ مطبوعه نجف اشرف طبع قدیم)
(3۔ انوار نعمانیہ جلد طبع جدید صفحہ 216 مطبوعه تبریزنی ذکر نور ملکوتی و طبع قدیم صفحہ 68 دستی)
ترجمہ: حضورﷺ نے فرمایا میں نے ایک عورت کتے کی شکل میں دیکھی کہ فرشتے اس کی دبر سے آگ داخل کرتے ہیں اور منہ سے آگ باہر آجاتی ہے اور فرشتے آہنی گرزوں کے ساتھ اس سر اور بدن کو مارتے ہیں سیدہ فاطمهؓ نے پوچھا میرے بزرگوار ابا جان مجھے بتلائیے کہ ان عورتوں کا دنیا میں کیا عمل اور عادت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اس قسم کا عذاب مسلط کر دیا ہے حضورﷺ نے فرمایا کہ وہ عورت جو کتے کی شکل میں تھی اور فرشتے اس کی دبر میں آگ جھونک رہے تھے وہ مرثیہ خوان نوحہ کرنے والی اور حسد کرنے والی تھی۔
ائمہؓ کی طرف سے محافل میں جھوٹی کہانیاں بیان کرنے کی ممانعت:
سیدنا باقرؒ کا ارشاد:
در کافی مروی است از امام محمد باقر علیه السلام که فرمود اول کسیکه تکذیب میکند دروغ گوراخداوند عزو جل است پس از آن دو فرشته که با او مقرب اند بعد ازاں خودش که اشتباه ندارد و میداند دروغ گفته و هم در آنجا و در کتاب الاعمال از آنجناب مروی است که فرمود حق تعالیٰ برائے شر و بدیا قفلها مقرر کرده و کلید آن قفلهار اشراب قرار داده دروغ بدتر از شراب و نیز در کافی از امیر المومنين عليه السلام روایت شده که فرمود والله نخواند چشید مزه و طعم ایمان راتا آنگاه که ترک کند دروغ را چه از رونی جدبا شد پا مزاح و خوش طبعی و در جامع الاخبار از رسول خدا روایت کرده که فرمود بر گاه دروغ گوید مومن بدون عذر لعنت کند اور ایفتاد هزار ملک و از دل او بوی گندی بیرون آید و بالا رود تابعرش رسد پس لعنت کنند اور احمله عرش و حق تعالیٰ بواسطه آن یک دروغ هفتاد زنا براد نویسد که آسان تر آنها مثل آنست که کسی با مادر خودزنا کند و از حضرت امام حسن عسکری علیه السلام روایت است که تمام خباثت را در خانه ای گزاشته اند و دروغ را کلیدان قرار داده اند۔
(منتہی الامال جلد 1 صفحہ 545)
ترجمہ: سیدنا محمد باقرؒ سے کافی میں مروی ہے کہ جھوٹے کی سب سے پہلے تکذیب کرنے والا خود اللہ تعالیٰ ہے پھر وہ فرشتے جو اللہ تعالیٰ کے نہایت مقرب ہیں پھر خود جھوٹا کہ جسے بلا شک و شبہ یہ معلوم ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اس مقام پر کتاب الاعمال میں بھی سیدنا محمد باقرؒ سے ایک اور روایت مذکور ہے فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام شر اور برائیوں کے تالے مقرر کیے ہیں ان تمام کی کنجی شراب ہے اور جھوٹ تو شراب سے بھی بدتر ہے کافی میں بھی سیدنا علیؓ سے روایت آئی ہے فرماتے ہیں خدا کی قسم! جب تک کوئی شخص جھوٹ کو ترک نہیں کرتا وہ ایمان کا مزہ اور ذائقہ حاصل نہیں کر سکتا وہ جھوٹ چاہے بطورِ خوش طبعی مزاح یا جان بوجھ کر بولا جائے۔
جامع الاخبار میں رسول اللہﷺ سے مروی ہے آپﷺ نے فرمایا جب کوئی ایمان دار بلا عذر جھوٹ بولتا ہے تو اس پر ستر ہزار فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے دل سے بدبو باہر نکلتی ہے اور عرش تک پہنچ جاتی ہے پھر عرش کو اٹھانے والے فرشتے اس جھوٹے پر لعنت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس جھوٹے کے ایک جھوٹ کے بدلے ستر زنا لکھ دیتا ہے ان میں سے کم ترین زنا ہے جو کوئی اپنی سگی ماں سے کرے امام عسکری سے روایت ہے کہ تمام خباثتوں کو ایک گھر میں بند کر کے رکھتے ہیں اور جھوٹ ان سب کی کنجی ہے۔
حاصلِ کلام:
صاحبِ منتہی الامال یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ کے نام پر منعقد کی گئی محفل میں اگر سچی حکایات و واقعات بیان کیے جائیں اور آپؓ کی شہادت کے متعلق صحیح روایات ذکر کی جائیں سیدنا حسینؓ کے اعمال و اقوال بیان کیے جائیں اور کربلا کے میدان میں آپؓ کی استقامت علی الحق اور دین پروری کے سچے واقعات سنائیں جائیں تو یہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ ثواب کا باعث بھی ہیں اور عوام کے لیے باعث ہدایات و تقلید بھی ہیں لیکن جو لوگ ان حقائق کی بجائے جھوٹی روایات من گھڑت قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں (جیسا کہ سیدنا قاسمؒ کی مہندی گھوڑے کا رونا وغیرہ) تو یہ اتنا عظیم جرم ہے جو ایک بار نہیں ستر بار زنا کرنے سے بھی زیادہ برا ہے جس کا ادنیٰ ترین گناہ اپنی سگی والدہ سے زنا کے برابر ہے پھر اس دروغ گو پر اللہ کی لعنت ستر ہزار عام فرشتوں کی لعنت حاملین عرش مخصوص فرشتوں کی لعنت بھی ہوتی ہے۔
(بحوالہ فقہ جعفریہ جلد 3 صفحہ 179)
اس لیے اسی مقام پر لکھتے لکھتے شیخ قمی یہاں تک لکھ گیا ایسی محفل میں ہرگز نہیں جانا چاہیے وہ لکھتا ہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ سے دریافت کیا گیا کہ "از قصه خوانان که آیا گوش دادن بایشاں حلال است حضرت فرمود حلال نیست "
ترجمہ: یعنی ایسی محفلوں میں جاکر ذاکروں سے غلط سلط روایات سننا جائز ہے آپ نے فرمایا جائز نہیں۔
مزید فرمایا:
پس آں گوش کننده را پرستیده۔
ترجمہ: ایسی غلط مرثیہ خوانی سننے والا دراصل شیطان کا پجاری ہے۔
باید از مجالس شان اعراض کرد و سخنان ایشان را گوش نکرد۔
ترجمہ: ان کی مجالس میں نہ جانا چاہیے اور ان کی باتوں کی طرف کان نہ دہرنے چاہیں۔
مروجہ ماتم کارکن اعظم غناء ہے
لغت کی معتبر کتاب "المنجد " میں صفحہ 393 پر غناء کی یہ تعریف کی گئی ہےـ
الغناء من الصوت ما طرب به۔
ترجمہ: غناء ایسی آواز کو کہتے ہیں۔ (جس کو سر اور راگ کے ساہت نکلنے سے) طرب ولذت پیدا ہوتی ہو۔
کتبِ شیعہ میں لفظ غناء کی تعریف ملاحظہ ہو:
معارف اسلام میں ہے:
الغناء بامد الصوت المشتمل على الترجيع المطرب وما سمى في العرف الغناء وان لم يطرب سواء كان في شعرام قران ام غيرهما۔
(معارف اسلام صفحہ 38)۔
ترجمہ: لفظ غناء کو جب مد کے ساتھ پڑھا جائے تو اس آواز کو کہتے ہیں جو کبھی بلند اور کبھی پست نکالی جائے اس سے سننے والا لذت محسوس کرے اور ہر وہ آواز جسے عرف عام میں گانا کہا جائے وہ "غناء" ہے چاہے ایسی آواز شعر کہتے وقت قرآن کی تلاوت یا کسی اور مقام پر نکالی جائے اور اگرچہ اس میں لذت و خوشی نہ بھی ہو۔
شیعہ کی معتبر کتاب منتہی الامال میں ہے:
اما غناء پس شکی نیست در حرمت و مذمت گوش کردن آں مطلقا چه در مصیبت و مرثیه خوانی حضرت سید الشہدا باشد یا غیر آں و حقیقت غناء بماں نصوت لویست خواه با ترجیع باشد یا از تقطیع صوت و موزون کردن اور حاصل شود چنانچه در لحن مشهور تصنیف و نوحه بانی موازن۔
(منتہی الامال جلد 1 صفحہ 549 در مذمت غناء و عدم جواز غناء در مراثی مطبوعه تہران طبع جدید)۔
ترجمہ: غناء کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور اس کا سننا قابلِِ مذمت ہے چاہے کسی مصیبت کے وقت یا سیدنا حسینؓ ان کے مرثیہ پڑھتے وقت یا کسی اور جگہ ہی کیوں نہ ہو۔
اور "غناء" در حقیقت وہ آواز ہے جو لہو و لعب کے طور پر نکلی ہو پھر عام ہے کہ ایسی آواز سر کے ساتھ یا ویسے ہی موزوں آواز کے ساتھ نکالی جائے جیسا کہ راگ و سر میں یا رونے پیٹنے کے وقت سے موزوں آواز نکالی جائے۔
خلاصہ: لغت و شرع میں غناء وہ آواز کہلائی جو موزوں آواز سے نکالی گئی ہوـ