سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا علیؓ کے باہمی تعلقات
علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہسیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا علیؓ کے باہمی تعلقات
علامہ خالد محمود:
الحمدللہ و سلام علی عباده الذین اصطفی اما بعد!
سیدنا علی المرتضیٰؓ قریش کے بطن بنو ہاشم میں سے تھے سیدنا ابوبکر صدیقؓ قریش کی ایک مختصر شاخ بنو تمیم کے فرد تھے دونوں ایک برادری کے نہ تھے مگر سبقت فی الاسلام کے ناطے دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے اور دینی کاموں کے سوا سماجی اور معاشرتی دوائرِ زندگی میں بھی وہ ایک دوسرے سے خاصے خوشگوار تعلقات رکھتے تھے آپس میں وہ خیر خواہی تھی جو مؤمنين کو ہی ایک دوسرے سے ہوسکتی ہے انس و مؤدّت کی یہ راہیں آلِ سبا کے اس تصوّر کو یکسر ختم کرتی ہیں جو یہ ان حضرات (معاذ اللہ) کو آپس میں عداوت و منافرت کے فاصلے میں گھرے ہوئے بتلاتا ہے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے سیدنا علیؓ کے ساتھ یہ تعلقات حضورﷺ کی وفات سے پہلے بھی قائم تھے اور حضورﷺ کی وفات کے بعد بھی قائم رہے ان میں مودّت و محبت کی یہ فضا برابر قائم تھی اور سیدنا علیؓ نے سیدنا صدیق اکبرؓ کو ان کی وفات کے بعد بھی جب کبھی اپنے ہاں یاد کیا تو نیکی سے ہی ياد كيا وكفىٰ بالله شهيدا۔
"نام نیک رفتگاں ضائع مکن
تابماند نام نیکت برقرار"۔
خلافت سے پہلے کے تعلقات:
سیدنا علیؓ کو سیدہ فاطمہؓ کی خواستگاری پر سیدنا ابوبکرؓ نے ہی آمادہ کیا تھا اور آپ ہی سیدنا عمرؓ اور سیدنا سعد بن معاذؓ کو ساتھ لے کر اس بات کے لیے سیدنا علیؓ کے پاس پہنچے تھے ملا باقر مجلسی لکھتا ہے:
پس ابوبکرؓ با عمرؓ و سعد بن معاذؓ گفت که بی خیزید بنزد علیؓ رویم و اورا تکلیف نمایم که خواستگاری فاطمهؓ بکند و اگر تنگدستی اورا مانع شده باشدما اورا دریں باب مدد کنیم۔
(جلاء العیون صفحہ 121 بحار الانوار جلد 10 صفحہ 37)۔
ترجمہ: پس سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا عمرؓ اور سیدنا سعدؓ کو کہا آؤ سیدنا علیؓ کے پاس چلیں اور اسے آمادہ کریں کہ وہ حضورﷺ سے سیدہ فاطمہؓ کا رشتہ مانگیں سیدنا علیؓ کو اگر یہ عذر ہوں کہ وہ غریب ہیں تو ہم ان کی مالی امداد کریں۔
یہ صرف نکاح کی ہی تجویز نہیں اسمیں وہ خیر خواہی لپٹی ہے جو ایک برادری اور خاندان کو ایک دوسرے سے ہوتی ہے سیدنا ابوبکرؓ کا دل سیدنا علیؓ کے لیے کس جذبہ ترحم سے بھرا پڑا تھا کہ ان کے لیے خاتونِ جنت کا رشتہ تجویز کیا اور اپنے مال و جان سے سیدنا علیؓ کے لیے اس منزلت کی تمنا کی جو اس مبارک رشتے سے سیدنا علیؓ کو حاصل ہوتی تھی۔
رسالت مابﷺ کی سیدنا ابوبکرؓ پر نظرِ قدر:
آنحضرتﷺ سیدنا ابوبکرؓ کے اس جذبہ خیر خواہی سے ناواقف نہ تھے جو انہیں اہلِ بیتِؓ رسالت کے بارے میں حاصل تھا سو آپ نے بھی جہیز سیدہ فاطمہؓ کے لیے سیدنا ابوبکرؓ کو ہی سربراہ بنایا اور انہیں ضروری رقم دی تاکہ سیدہ فاطمہؓ کے لیے شادی کی اشیاء خریدی جاسکیں محمد بن حسن طوسی (460ھ) نقل کرتا ہے:
ثم قبض رسول اللهﷺ من الدراهم بكلتا يديه فاعطاها ابابكرؓ و قال ابتع لفاطمةؓ ما يصلحها من ثياب واثاث البيت واردفه بعمار بن ياسرؓ وبعدة من اصحابه فحضروا لسوق فكانوا يعرضون الشئ مما يصلح فلا يشترونه فى يعرضوه على ابى بكرؓ فان استصلحه اشتروه۔
(کتاب الامالی جلد 1 صفحہ 30 جلا العیون صفحہ 136)۔
ترجمہ: پھر رسول اللہﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے درہم لیے اور سیدنا ابوبکرؓ کو دیںٔے اور کہا سیدہ فاطمہؓ کے لیے کپڑے اور گھر کی چیزیں خرید لائیں اور ان کے ساتھ سیدنا عمار بن یاسرؓ اور کئی دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کو بھیجا یہ سب حضرات بازار گئے جو چیز مناسب تھی وہ دکھاتے رہے کوئی چیز نہ خریدتے جب تک وہ سیدنا ابوبکرؓ کو نہ دکھا دیں آپؓ اسے پسند کرتے تو وہ اسے خریدتے تھے۔
ابنِ شہر آشوب (588ھ) بھی لکھتا ہے:
وانفذ عماراًؓ و ابابكرؓ وبلالاًؓ لا بتياع ما يصلحها۔
(مناقب ابنِ شہر آشوب جلد 4 صفحہ 20)۔
ترجمہ: اور آپؓ نے سیدنا عمارؓ کو سیدنا ابوبکرؓ کو اور سیدنا بلالؓ کو ان چیزوں کی خرید کے لیے بھیجا جو سیدہ فاطمہؓ کو چاہیے تھیں۔
سیدہ فاطمہؓ کے نکاح کی خبر اور سیدنا ابوبکرؓ:
سیدنا علیؓ کی حضورﷺ سے جب نکاح کی گفتگو ہوچکی اور حضورﷺ کے پاس سے آ رہے تھے تو راستے میں سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ ملے آپؓ نے بتلایا کہ آپؓ کی سیدہ فاطمہؓ سے رشتہ کی بات ہو گئی ہے تو سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ پر اس کا جو اثر ہوا اسے سیدنا علیؓ کی زبان مبارک سے سنیے:
ففرحا بذلك فرحا شديداً و رجعا معی الى المسجد فما توسطناه حتىٰ لحق بنا رسول اللهﷺ وان وجهاء يتهلل سرور و فرحا۔
(المناقب للخوارزمی صفحہ 251۔252 کشف الغم صفحہ 483۔484 بحار الانوار جلد 10 صفحہ 38)۔
ترجمہ: سو یہ دونوں بہت زیادہ مسرور ہوئے اور دونوں میرے ساتھ مسجد میں آئے ہم مسجد کے درمیان بیٹھے تھے کہ حضور اکرمﷺ آ ملے اور آپ کا چہرہ بھی خوشی سے دمک رہا تھا۔
جن حضرات کی حضورﷺ نے مجلسِ نکاح میں شرکت چاہی:
یہ صحیح ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ راستے میں سیدنا علیؓ کو ملے تھے اور آپؓ کے نکاح کی خبر ملنے پر وہ خود ہی سیدنا علیؓ کے ساتھ ہوگئے تھے یہاں تک کہ تینوں حضرات مسجد میں آگئے اور پھر وہیں حضورﷺ بھی آپہنچے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ حضورﷺ جب اپنے گھر سے چلے تھے تو آنحضرتﷺ اپنے خادم خاص سیدنا انس بن مالکؓ کو حکم دے کر چلے تھے کہ بارہ افراد کو اس مجلسِ نکاح میں آنے کی دعوت دو پانچ مہاجرین اور چھ انصار سیدنا علیؓ سمیت کل بارہ ہو جائیں گے علی بن عیسیٰ الارسبیلی (687ھ) سیدنا انسؓ سے روایت کرتا ہے کہ حضورﷺ نے مجھے کہا:
فانطلق فارع لى ابابكرؓ و عمرؓ و عثمانؓ وعلياؓ وطلحةؓ و الزبيرؓ وبعددهم من الانصار۔
(کشف الغم جلد 1 صفحہ 471)۔
ترجمہ: تو جا اور میرے لیے سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ سیدنا علیؓ سیدنا طلحہؓ سیدنا زبیرؓ اور اتنی ہی تعداد میں انصار کو بلا لا یہ حضرات سیدہ فاطمہؓ کے نکاح کے گواہ بنے مہاجرین میں سے جو پانچ حضرات نکاح کے گواہ ہوئے افسوس ہے کہ شیعہ ان ہی سے چار کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ معاذ اللہ سب منافق تھے حاصل اس کا یہ نکلتا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا علیؓ کو اپنے نکاح کے لیے مہاجروں میں سے ایک بھی مؤمن گواہ نہ مل سکا آنحضرتﷺ کی مکی برادری کا یہی چھ حضرات سرمایہ تھے (دو اور بزرگ بھی ان میں شامل ہیں محب الدین الطبری (664ھ) نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کو بھی ان مدعو میں ذکر کیا ہے ذخاںٔر العقبی فی مناقب ذوی القربی صفحہ 30) اور آپؓ نے سیدہ فاطمہؓ کے نکاح میں انہی کی شرکت چاہی تھی اور انہی کو بلانے کے لیے سیدنا انسؓ کو بھیجا تھا اور خدا کی قدرت دیکھئے کہ ادھر سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ خود ہی سیدنا علیؓ کی ہمراہی میں چلے آ رہے تھے حضورﷺ کا ہی یہ انتخاب تھا جن پر مشتمل سیدنا عمرؓ نے اپنی کمیٹی بنائی تھی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کس ترتیب سے زبانِ رسالت پر آئے:
حضور نے ان حضرات کو جب مجلس نکاح میں بلایا تو ترتیب وہ تھی جو آئندہ خلافت میں عمل میں آنے والی تھی (1) سیدنا ابوبکرؓ (2) سیدنا عمرؓ (3) سیدنا عثمانؓ (4) سیدنا علیؓ کسے معلوم تھا کہ یہ حضرت اسی ترتیب سے خلفاںٔے راشدین ہوں گے زبانِ رسالت پر یہ ترتیب یونہی نہ آگئی تھی جب یہ نکاح وحی الٰہی کے ساںٔے میں ہو رہا تھا تو اس کے دیگر پہلو بھی امرِ الٰہی کے تحت ہی وقوع میں آرہے تھے جب حضورﷺ نے سیدہ ام کلثومؓ سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں دی تھی اس وقت بھی تو آپﷺ کا عمل وحی الٰہی کے ہی تابع تھا (امام بخاریؒ کہتے ہیں حضورﷺ نے فرمایا تھا ناں زوجت ام کلثومؓ من عثمانؓ الا لوحی من السماء۔
(تاریخ کبیر جلد 2 حصہ اول صفحہ 281 میں نے سیدہ ام کلثومؓ سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں وحی سماوی سے دی ہے)۔
والدہ کی وفات پر شریکِ غم
سیدنا علیؓ کی والدہ فاطمہ بنت اسد کی وفات مدینہ منورہ میں آنحضرتﷺ کی زندگی میں ہوئی حضورﷺ نے انہیں اپنی قمیض مبارک کفن کے لیے دی آپﷺ اس کی قبر میں بھی اترے قبر میں میت کو کس کس نے اتارا محدث طبرانی (360ھ) روایت کرتے ہیں۔
ادخلها اللحد هو والعباسؓ وابوبكر الصديقؓ۔
(مجمع الزوایمہ جلد 9 صفحہ 257 جمع الفوائد3 صفحہ 408)۔
ترجمہ: سیدنا علیؓ کی والدہ کو آپﷺ نے سیدنا عباسؓ اور سیدنا ابو بکرؓ نے قبر میں اتارا۔
آنحضرتﷺ سیدنا عباسؓ اور سیدنا علیؓ تو سب ہاشمی تھے ایک بطن سے تھے سیدنا ابوبکرؓ تو ہاشمی نہ تھے قریش کے بطن بنو تمیم میں سے تھے سیدنا ابوبکرؓ کا اس انداز میں سیدنا علیؓ کے قریب ہونا ان کے باہمی انس و مودت کا پتہ دیتا ہے غم کے مواقع پر حقیقت بولتی ہے دل ایک دوسرے کی طرف کھچتے ہیں غم کے لمحے منافقت کے سائے میں بسر نہیں ہوتے ان سے حقیقی تعلقات کا پتہ چلتا ہے۔
سیدہ فاطمہؓ کی وفات پر شریک ِغسل:
سیدہ فاطمہؓ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آپؓ کو فکر تھی کہ آپؓ کا جنازہ کہیں بلا پردہ نہ اٹھایا جائے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی اہلیہ اسماء بنتِ عمیسؓ آپؓ کی تیمار دار تھیں آپؓ نے سیدہ فاطمہؓ کو تسلی دی اور بتایا کہ میں نے حبشہ میں باپردہ چار پائی کا طریق دیکھا ہے اور سیدہ فاطمہؓ کے سامنے چارپائی پر چھپر کھٹ بنا کر دکھایا آپؓ اس پر خوش ہوںٔیں یہ آخر تبسم تھا جو خواتین نے خاتونِ جنت کے چہرہ پر دیکھا اور یہ فضیلت خلیفہ وقت سیدنا ابوبکرؓ کی اہلیہ کو ملی آپ کا یہ جنازہ پھر اسی طرح رات کی تاریکی میں اٹھایا گیا اور رات کو ہی آپؓ کو دفن بھی کردیا گیا۔
سیدہ فاطمہؓ کے غسل میں دو عورتیں شریک تھیں ایک خلیفہ وقت سیدنا ابوبکرؓ کی بیوی اور دوسری سلمٰی جو حضورﷺ کے غلام ابو رافع کی بیوی تھی سیدنا علیؓ ان کی مدد کرنے والے تھے اہلِ سنت تذکرہ نگاروں نے بی بی سلمٰی کے تذکرہ میں اس غسلِ سیدہ فاطمہؓ کا ذکر بھی کیا ہے۔
(دیکھیٔے الاستیعاب لابنِ عبد البر جلد4 صفحہ 322 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 478)۔
یاد رہے کہ شیعہ علماء نے بھی اس واقعہ غسل کا اعتراف کیا ہے۔
(کشف الغمہ 2 صفحہ 61 طبع جدید)۔
سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا علیؓ امام اور مقتدی کے کردار میں:
آئیے ان دونوں حضرات کو اب امام اور مقتدی کے کردار میں دیکھیں سیدنا علیؓ کس طرح سیدنا ابوبکرؓ کی امامت کو تسلیم کرتے تھے۔
امام اور مقتدی میں جو جذبہ عقیدت اور رشتہ مودّت قائم ہوتا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ میں یہ مودّت بھی قائم تھی سیدنا ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو سیدنا علیؓ پانچ وقت کی نماز سیدنا ابوبکرؓ کی امامت میں پڑھتے تھے باہمی بات چیت بھی ہوتی اور آپ کبھی سیدنا علیؓ سے سیدہ فاطمہؓ کی بیمار پرسی بھی کرلیتے سیدنا علیؓ کے شاگرد سلیم بن قیس السلالی کی کتاب نجف اشرف میں چھپ چکی ہے اسمیں ہے:
وكان علىؓ يصلى في المسجد الصلوات الخمس فلما صلى قال له ابوبكرؓ وعمرؓ كيف بنتِ رسول اللهﷺ إلى ان ثقلت فساً لا عنها۔
(کتاب سلیم بن قیس صفحہ 223-225 مطبع حیدریہ نجف اشرف)۔
ترجمہ: سیدنا علیؓ پانچوں وقت کی نماز مسجد نبوی میں پڑھتے تھے آپؓ جب فارغ ہوتے تو سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ آپؓ سے سیدہ فاطمہؓ کا حال دریافت کرتے یہاں تک کہ آپؓ میں اٹھنے کی ہمت نہ رہی پھر بھی وہ آپؓ کے بارے میں پوچھتے رہے۔
اس وقت کے معاشرے میں اس تصور کو راہ نہیں ملتی کہ آپؓ نماز پنجگانہ جماعت سے نہ پڑھتے ہوں اور مسجد میں بھی آتے ہوں حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
وهذا حق فان علىؓ بن ابى طالب لم يفارق الصديق في وقت من الاوقات ولم ينقطع في صلوة من الصلوات خلفه۔
(البدایہ جلد 5 صفحہ 249)۔
ترجمہ: اور یہ حق ہے بیشک سیدنا علیؓ نے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو کسی وقت بھی نہیں چھوڑا اور آپؓ نے آپؓ کے پیچھے نمازوں میں کبھی علیحدگی اختیار نہ کی۔
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: آپ کے ساتھ نمازوں میں آپ کی موجودگی آثار میں موجود تھے۔
الآثار من شهوده معه الصلوات۔
(البدایہ جلد6 صفحہ302)۔
احمد بن علی طبرسی کتاب الاحتجاج میں آپؓ کی نماز کا نقشہ یوں بیان کرتا ہے۔
قام وتهيا للصلوة وحضر المسجد وصلى خلف ابى بكرؓ۔ (كتاب الاحتجاج صفحہ53)۔
ترجمہ: آپؓ کھڑے ہوئے نماز کا ارادہ کیا مسجد میں آئے اور سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے نماز پڑھی تفسیر علی بن ابراہیم القمی 307ھ میں کسی یہودی صفت شخص نے لفظ صلّی (اس نے نماز پڑھی) کو لفظ وَقَفَ (وہ کھڑا ہوا) سے بدل دیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے صرف کھڑے ہوئے تھے مقتدی نہ ہوئے تھے جماعت سے نماز نہ پڑھتے تھے نماز اپنی پڑھتے تھے استغفر اللہ العظیم سیدنا علیؓ کے عمل کو نفاق میں رنگنے کی یہ حرکت کسی مسلمان کی نہیں ہو سکتی تفسیر قمی کے الفاظ ملاحظہ ہوں: کس دیدہ دلیری سے سیدنا علیؓ کی غلط تصویر اتاری گئی ہے ثم قام وتهياً للصلوة وحضر المسجد و وقف خلف ابی بكرؓ وصلى لنفسه۔
ترجمہ: پھر آپؓ اٹھے نماز کا ارادہ کیا اور مسجد میں چلے آئے سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور نماز اپنی ہی پڑھی۔
(تفسیر قمی صفحہ 295 طبع قدیم)۔
یہاں آخر میں صلی لنفسہ کے الفاظ بھی بڑھا دیںٔے ہیں جو کتاب الاحتجاج میں نہیں تھے اور یہ اضافہ لفظ صلی کو وقف سے بدلنے کی تائید میں وضع کیا گیا ہے۔
اس عبارت کا لفظ لفظ بتلا رہا ہے کہ عبارت کس طرح بدلی گئی ہے سیدنا علی المرتضیٰؓ کے عمل کو کسی طرح منافقانہ نہیں کہا جا سکتا آپؓ کا سیدنا ابوبکرؓ کی اقتداء کرنا امر مسلم ہے جسکا انکار نہیں کیا جاسکتا بشیخ الطاںٔفہ محمد بن حسن طوسی 460 نے سید مرتضیٰ علی العہدی 436ھ کی کتاب الشافی کی تلخیص کی ہے اسمیں سید مرتضیٰ لکھتا ہے۔
وان ادعى صلوة مظهر اللاقتداء فذلك مسلم لانه الظاهر
ترجمہ: اور اگر ایسی نماز کا اس نے دعویٰ کیا ہے جو آپؓ کے مقتدی ہونے کو ظاہر کرے تو یہ بات تسلیم شدہ ہے کیونکہ ظاہر یہی ہے۔
(التلخيص الشافی صفحہ 354)
شیعہ متاخرین بلا انکار تسلیم کرتے ہیں سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے نماز پڑھتے رہے انکا خاتم المحدثین ملا باقر مجلسی لکھتا ہے:
حضر المسجد وصلی خلف ابي بكرؓ۔
(مراة العقول صفحہ 388)۔
ترجمہ: پھر وہ اٹھے اور نماز کے قصد سے وضو فرما کر مسجد میں تشریف لاںٔے اور سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے نماز میں کھڑے ہوگئے۔
پھر ملا مقبول امامی بھی لکھتا ہے:
پھر وہ اٹھے اور نماز کے قصد سے وضو فرما کر مسجد میں تشریف لائے اور سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے نماز میں کھڑے ہوگئے۔
(ترجمہ ملا مقبول صفحہ 415)۔
سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کی:
ابنِ شہاب زہری (124ھ) کہتے ہیں سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت وفاتِ نبوی کے فوراً بعد نہ کی تھی چھ ماہ بعد کی تھی امام زہری نے وہ دور نہیں پایا جس کی وہ بات کر رہے ہیں انہیں کس نے اس بات کی خبر دی وہ اس کا نام نہیں لیتے تاہم اس روایت سے اتنا پتہ ضرور ملتا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کی بیعتِ خلافت کے لیے آپؓ پر کوئی جبر نہ کیا گیا تھا اگر ایسا ہوتا تو سیدنا علیؓ کی بیعت چھ ماہ بعد نہ ہوتی فوراً ہو جاتی سیدنا علیؓ نمازیں تو پہلے دن سے ہی سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے پڑھتے تھے کیا یہ ان کی امامت کا اقرار نہ تھا؟ رہی یہ بیعتِ خلافت تو اس میں یہ چھ ماہ کی تاخیر بتلا رہی ہے کہ یہ بیعت طوع و رضا سے تھی جبر و اکراہ سے نہ تھی اور نہ سیدنا علیؓ کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ وہ جبر سے غلط بیعت کر سکتے تھے۔
روایت تاخیرِ بیعت کی تحقیق:
یہ چھ ماہ بعد بیعت کرنے کی روایت صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 209 میں عقیل بن خالد عن ابنِ شہاب سے منقول ہے اصل حدیث کی راویہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ ہیں یہ ساری روایت سیدہ عائشہؓ کی ہی ہے یا اس میں اس کے راوی ابنِ شہاب کا اپنا ادراج بھی ہے اس کے لیے سنن کبریٰ امام بیہقی جلد 6 صفحہ 300 پر معمر عن ابنِ شہاب کی یہ روایت دیکھیے:
قال معمر قلت للزہری کم مکثت فاطمۃؓ بعد النبیﷺ قال ستۃ اشہر فقال رجل للزھری فلم یبایعہ علی حتیٰ ماتت فاطمۃؓ قال ولا احد من بنی ھاشم۔
مسند ابی عوانہ جلد4 صفحہ146 میں بھی اسے ابنِ شہاب کے جواب کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
امام بیہقی لکھتے ہیں:
وقول الزھری فی قعود علیؓ من بیعۃ ابی بکرؓ حتیٰ توفیت فاطمۃؓ منقطع۔
(سنن کبریٰ جلد6 صفحہ30)۔
ترجمہ: اور زہری کا یہ قول ہے کہ سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کے لیے (چھ ماہ تک) بیٹھے رہے یہاں تک کہ سیدہ فاطمہؓ فوت ہوگئیں سند کی رو سے منقطع ہے۔
اور پھر ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
والذی روی ان علیاؓ لم یبایع ابابکرؓ ستۃ اشھر لیس من قول عائشۃؓ انما ھو من قول الزھری فادرجہ بعض الرواۃ فی الحدیث عن عائشۃؓ فی قصۃ فاطمۃؓ و حفظہ معمر بن راشد فرواہ مفصلاً و جعلہ من قول الزھری منقطعا۔ (الاعتقاد علی مذھب السلف صفحہ180 مصر)۔
ترجمہ: اور یہ بات جو روایت کی گئی ہے کہ سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت چھ ماہ تک نہ کی تھی سیدہ عائشہؓ کی کہی بات نہیں ہے یہ زہری کا قول ہے جو بعض راویوں نے سیدہ عائشہؓ کی روایت میں داخل کردیا ہے معمر بن راشد نے اسے یاد رکھا ہے اور اسے تفصیلاً روایت کیا ہے اور اس (چھ ماہ کی تاخیر) کو روایت سے ہٹ کر زہری کی بات کہا ہے۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی اور علامہ شہاب الدین قسطلانی نے بھی امام بیہقی کی اس تحقیق کو قبول کیا ہے۔
وقد صح ابن حبان وغیرہ من حدیث ابی سعید الخدری وغیرہ ان علیا بایع ابابکرؓ فی اول الامر واماما وقع فی مسلم عن الزھری ان رجلا قال له لم یبایع علیؓ ابابکرؓ حتیٰ ماتت فاطمۃؓ قال لا ولا احد من بنی ھاشم فقد ضعفہ البیہقی بان الزھری لم یسندہ وان الروایۃ الموصولۃ اصح۔ (فتح الباری جلد 7 صفحہ 399 ارشاد الساری جلد 4 صفحہ 158)۔
ترجمہ: اور ابنِ حبان اور دوسرے محدثین نے سیدنا ابو سعید خدریؓ کی روایت کو کہ سیدنا علیؓ نے اولاً ہی سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تھی صحیح قرار دیا ہے اور مسلم کی روایت میں جو زہری کی بات ہے کہ ایک شخص نے اسے کہا کہ سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کی اس وقت تک بیعت نہیں کی جب تک سیدہ فاطمہؓ فوت نہ ہوگئیں اور زہری نے کہا "اور نہ کسی اور ہاشمی نے بیعت کی" سو اسے امام بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے کہ زھری نے اسکی کوئی سند پیش نہیں کی اور جو روایت موصول ہے وہی صحیح ہے۔
حافظ ابنِ کثیر (774ھ) لکھتے ہیں:
قد اتفق الصحابۃؓ علی بیعۃ الصدیقؓ فی ذلک الوقت حتیٰ علیؓ بن ابی طالب والزبیرؓ۔
( البدایہ والنہایہ جلد5 صفحہ249)۔
ترجمہ: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اسی وقت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیعت پر اتفاق ہو گیا تھا سیدنا علیؓ اور سیدنا زبیرؓ نے بھی اسی وقت بیعت کرلی تھی۔
روایت ابی سعید الخدریؓ:
جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ نامزد کرلیا گیا اور آپؓ مسجد نبوی میں تشریف لائے اور وہاں بیعت عام ہوئی تو سب مہاجرین و انصار نے آپؓ کی بیعت کی آپ منبر پر تشریف لائے آپؓ نے دیکھا کہ سیدنا زبیرؓ نہیں ہیں آپؓ نے انہیں بلایا اور فرمایا:
ابن عمۃ رسول اللهﷺ و حواریہ فقام اردت ان تشق عصا المسلمین؟ قال لا تثریب یا خلیفۃ رسول اللهﷺ فقام وبایعہ۔
(سنن کبریٰ جلد8 صفحہ143)۔
ترجمہ: اے حضورﷺ کے پھوپھی زاد بھائی اور آپؓ کے حواری تم چاہتے ہو کہ مسلمانوں کی یکجا طاقت میں رخنہ ڈالو؟ سیدنا زبیرؓ نے کہا نہیں اے خلیفہ رسولِ خدا کوئی عذر نہیں آپؓ اٹھے اور بیعت کرلی اسی طرح آپؓ نے سیدنا علیؓ کو بلایا اور اسی طرح بات چیت ہوئی اور پھر سیدنا علیؓ نے بھی آپؓ کی بیعت کرلی۔
یہ روایت وہیب نے داؤد بن ابی ہند سے انہوں نے ابو نضرہ سے انہوں نے سیدنا سعیدؓ سے نقل کی ہے ابو نضرہ سے اسے حریری نے بھی روایت کیا ہے حریری سے علی بن عاصم نے ان سے سیدنا سعید بن المسیبؓ کے صاحبزادے قاسم نے اسے نقل کیا ہے۔
(کنز العمال جلد3 صفحہ137)۔
حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
ھذا اسناد صحیح محفوظ من حدیث ابی نضرۃ وفیہ فائدۃ جلیلۃ وھی مبایعۃ علیؓ بن ابی طالب اما فی اول الیوم او فی الیوم الثانی من الوفاۃ وھذا حق فان علیؓ ابن طالب لم یفارق الصدیق فی وقت من الاوقات ولم ینقطع فی صلوۃ من الصلوات خلفہ۔
(البدایہ والنہایہ جلد5 صفحہ349)۔
ترجمہ: یہ سند صحیح ہے اور ابو نضرہ (جو اسے ابو سعید سے لیتے ہیں) سے پوری طرح محفوظ ہے اسمیں ایک بڑا افادہ ہے اور وہ سیدنا علیؓ کا وفات کے پہلے یا دوسرے دن (سیدنا ابوبکرؓ کی) بیعت کرنا ہے اور یہ حق ہے سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کو کسی وقت بھی نہیں چھوڑا اور آپکے پیچھے نمازیں پڑھنے میں آپ ایک نماز میں بھی علیحدہ نہیں رہے۔
حاکم نے سیدنا علیؓ اور سیدنا زبیرؓ سے اس موقع پر یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں:
ان ابابکرؓ احق الناس بھا انہ لصاحب الغار وثانی اثنین وانا لنعرف شرفہ وخیرہ ولقد امرہ رسول الله بالصلوۃ بالناس وھو حی۔
(مستدرک حاکم جلد3 صفحہ166، البدایہ والنہایہ جلد6 صفحہ302)۔
ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ بلاشبہ خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں آپ حضورﷺ کے غار کے ساتھی ہیں آپؓ ثانی اثنین ہیں اور ہم آپ کے شرف کو اور آپؓ کے خیر ہونے کو جانتے ہیں بیشک آپؓ کو حضورﷺ نے اپنے حین حیات نماز کی امامت کا حکم دیا تھا۔
اسکی سند جید ہے اور یہ الفاظ سیدنا علیؓ کی شان کے عین مناسب ہیں ابنِ ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں بھی یہ الفاظ نقل کیے ہیں:۔
انا لنری ابابکرؓ احق الناس بھا لصاحب الغار وانا لنعرف سنہ وامرہ رسول اللهﷺ بالصلوۃ وھو حی۔
(شرح نہج البلاغہ جلد 1 صفحہ 54 تقطیع کلاں)۔
آپ کے اس بیان میں سیدنا ابوبکرؓ کی بزرگی عمر کا ایک کھلا اعتراف ہے سیدنا علیؓ جن کی عمر اس وقت 27 سال کے قریب تھی اس نبی کی خلافت کا کیسے تصور کر سکتے تھے جو اس ذمہ داری پر چالیس سال کی عمر میں آیا تھا۔
بعض علماء نے نقل کیا ہے کہ سیدنا علیؓ نے اس لیے بیعت میں تاخیر کی کہ آپؓ پہلے قرآن کریم یاد کرنا چاہتے تھے یہ بات خلاف عقل ہے بیعت کا تعلق نظم سلطنت سے ہے قرآنِ کریم یاد کرنا ایک علمی خدمت ہے ان میں کوئی تعارض نہیں ان جیسے مدبر انسان سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایسی کمزور بات کہے اور بیعت اور جمعِ قرآن میں تعارف ثابت کرے۔
ثانیاً: یہ روایت سنداً منقطع ہے سیدنا علیؓ تک متصلاً نہیں پہنچی علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
قال ابنِ حجر ھذا الاثر ضعیف لانقطاعہ۔
(اتقان جلد1 صفحہ57)۔
ترجمہ: ابنِ حجر کہتا ہے یہ اثر ضعیف ہے کیونکہ سیدنا علیؓ تک نہیں پہنچتا اس میں انقطاع ہے۔
سیدنا علیؓ خود فرماتے ہیں:
فلما قبض رسول اللہﷺ نظر المسلمون فی امرھم فانا رسول اللہﷺ قد ولی ابابکرؓ امر دینھم فولوہ امر دیناھم فبایعہ المسلمون وبایعتہ وکنت اغزو اذا اغزانی واٰخذ اذا اعطانی وکنت سوطا بین یدیہ فی اقامۃ الحدود۔ (کنزالعمال جلد6 صفحہ82 طبع قدیم)۔
ترجمہ: جب حضورﷺ کی وفات ہوئی مسلمانوں نے اپنے نظم حکومت میں فکر کی کیا پاتے ہیں کہ حضورﷺ نے ان کے دینی کام کی ولایت سیدنا ابوبکرؓ کو دی ہے سو انہوں نے اپنے دنیوی کام کی ولایت بھی انہیں ہی سونپ دی سو سب مسلمانوں نے آپؓ کی بیعت کی اور میں نے بھی کی جب آپؓ مجھے کسی معرکے میں بھیجتے میں جاتا رہا اور جو کچھ مجھے دیتے میں لیتا رہا میں آپ کے ہاتھ میں ایک کوڑے کی طرح تھا جو اقامت حدود کی ذمہ داری ادا کر رہا ہو۔
آپؓ کا سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کرنا اتنا واضح اور روشن ہے کہ شیعہ علماء کیا قدماء کیا متاخرین کوئی اس کا انکار نہ کرسکے انہوں نے اگرچہ اسے تقیہ پر محمول کیا تاہم اقرار بیعت سے انہیں کبھی انکار نہیں رہا دینی بات میں تقیہ ہو اور وہ مأمور من اللہ کرے یہ بات تسلیم کرنا بہت مشکل ہے۔
محمد بن یعقوب کلینی (329ھ) لکھتا ہے:
كتم علىؓ امره فبايع مكرھا حيث لم يجد اعوانا۔
(فروع کافی جلد3 صفحہ129 لکھنؤ)۔
اور سیدنا باقرؒ سے نقل کرتا ہے:
وابوا ان يبايعوا حتىٰ جاؤوا بامير المؤمنين مكرها فبايع۔
(فروع کافی جلد3 صفحہ115)۔
امامیہ کا علم الہدی شریف مرتضیٰ (436ھ) لکھتا ہے:
فالظاهر الذى لا اشكال فيه انه عليه السلام بايع مستدفعاً للشر و فرارا من الفتنة۔
(کتاب الشافی صفحہ 209 طبع قدیم)۔
سو یہ چیز بالکل ظاہر ہے جس میں کوئی اشکال نہیں کہ سیدنا علیؓ نے شر کے دفعیہ کے لیے اور فتنے سے بچنے کے لیے سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کی۔
کتاب الشافی کی ابو جعفر محمد بن حسن الطوسی (460ھ) نے تلخیص کی ہے اس میں محمد بن حسن طوسی لکھتا ہے:
ثم مد یده فبايعه۔
(تلخیص الشافی صفحہ 398۔399)۔
پھر آپؓ نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور آپ کی بیعت کی۔
محمد بن حسن طوسی کی امالی میں سیدنا علیؓ کے یہ الفاظ پڑھیے:
فبايعت ابابكرؓ كما بايعتموه وكرهت ان اشق عصا المسلمين وان افرق جماعتهم ثم ان ابابكرؓ جعلها لعمرؓ من بعده وانتم تعلمون انی اوی الناس برسول اللهﷺ و بالناس من بعده فبايعت عمرؓ كما بايعتموه فوفيت له ببيعته حتىٰ لما قتل جعلنی سادس ستة فدخلت حيث ادخلنی۔
(کتاب الامالی جلد2 صفحہ12)۔
ترجمہ: سو میں نے سیدنا ابوبکرؓ کی اسی طرح بیعت کی جس طرح تم نے کی تھی اور میں نے ناپسند کیا کہ مسلمانوں کی جمعیت میں تفرقہ ڈالوں اور ان کے اتفاق کو ٹکڑے ٹکڑے کروں پھر سیدنا ابوبکرؓ نے اپنے بعد اسے سیدنا عمرؓ کو دے دیا اور تم جانتے ہو کہ میں تمام لوگوں میں سے حضورﷺ کے زیادہ قریب تھا اور جو آپﷺ کے بعد آئے ان کے بھی میں زیادہ قریب تھا پھر میں نے بھی سیدنا عمرؓ کی بیعت کی جس طرح تم نے کی یہاں تک کہ میں نے ان کی بیعت کا پورا حق ادا کیا پھر جب آپؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا آپؓ نے مجھے چھ کی شوری میں رکھا جہاں بھی آپؓ نے مجھے داخل کیا میں داخل ہوا۔
شیخ ابو منصور احمد بن على الطبرسی امامی لکھتا ہے سیدنا اسامہ بن زیدؓ مدینہ واپس آئے تو آپؓ نے لوگوں کو سیدنا ابوبکرؓ کے گرد اژدہام کیے ہوئے پایا آپ نے سیدنا علیؓ کو بھی وہاں دیکھا اور ان سے پوچھا کیا ہورہا ہے آپ نے کہا تم دیکھ ہی رہے ہو سیدنا اسامہؓ نے پھر آپؓ سے پوچھا: فهل بایعته۔
(کتاب الامالی جلد 2 صفحہ 121)۔
کیا آپؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کرلی ہے؟ آپؓ نے فرمایا نعم (ہاں) کرلی ہے۔
شریف رضی (404ھ) نے سیدنا علیؓ سے آپؓ کا یہ خطبہ نقل کیا ہے:
فنظرت فی امری فاذا طاعتی سبقت بيعتى واذا الميثاق فی عنقى لغيری۔
(کتاب الاحتجاج صفحہ50)۔
ترجمہ: سو میں نے اپنے معاملہ میں غور کیا او میرا ماتحت رہنا میرے امیر ہونے پر سبقت لے گیا اور میری گردن میں دوسرے کی اطاعت کا میثاق لٹکا تھا۔
اثناء عشری شیعہ اسے تقیہ کی بعیت کہتے ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ورنہ میثاق کے کیا معنیٰ؟ آپ سے یہ میثاق کس نے لیا تھا؟ اگر حضور خود انہیں یہ تاکید کر گئے تھے تو پھر اختلاف کیا رہا اور بیعت دل سے نہ ہو تو بھی بیعت ہی ہوتی ہے اور شرعاً امیرِ بیعت کی تمام ذمہ داریاں لازم آتی ہیں سیدنا علیؓ سے ان کے عہدِ خلافت میں کہا گیا کہ سیدنا زبیرؓ نے آپؓ کی بیعت دل سے نہیں کی اس پر سیدنا علیؓ نے یہی اصول بیان کیا کہ بیعت دل سے نہ ہو تو بھی اس پر بیعت کی تمام ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں آپ نے فرمایا:
يزعم انه قد بايع بيده ولم يبايع بقلبه فقد اقر بالبيعة وادعى الوليجة فليات عليها بامر يعرف والا فليدخل فيما خرج منه۔
(شرح نہج البلاغہ جلد 1 صفحہ 89)۔
ترجمہ: وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے بیعت صرف ہاتھ سے کی دل سے نہیں کی تو یہ بھی تو بیعت کا اقرار ہی ہے اس نے اب اس ولیجہ کا دعویٰ کیا ہے اسے پھر اس کا اسی طرح پابند ہونا چاہئے جو طریق معروف ہو وگرنہ جس عہد سے نکلا ہے اسمیں پھر آجائے۔
معلوم ہوا بیعت بیعت ہے گو دل برداشتہ ہو یہی وجہ ہے کہ بتسیریہ فرقہ کے شیعہ اثناء عشری شیعوں سے اس بات پر متفق نہ ہو سکے کہ سیدنا علیؓ کی سیدنا ابوبکرؓ بیعت بیعتِ مکرہ تھی اور یہ بات کسی طرح سیدنا علیؓ کی شان کے لائق نہیں کہ ان کے اس عوامی عمل کو بیعت مکرہ کہا جائے تیسری صدی کے شیعہ عالم ابو محمد الحسن النوبختی کی کتاب فرق شیعہ (شیعوں کے مختلف فرقوں کے بیان میں) نجف اشرف میں چھپی ہے اس میں ان کے بتسیریہ فرقے کا موقف اس طرح لکھا ہے:
ان علياؓ لهما الأمر ورضى بذلك وبايعهما طائعا غیر مكره وترك حمد لهما فنحن راضون كما رضى الله المسلمين له ولمن بايع لا يحل لنا غير ذلك ولا يسع منا احدا الا ذلك فان ولاية ابی بكرؓ صارت رشداً وهدى تسليم على ورضاه۔ (فرق الشیعہ صفحہ42 طبع نجف اشرف)۔
ترجمہ: بیشک سیدنا علیؓ نے خلافتِ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کے سپرد کر دی اور اس پر راضی رہے ان دونوں کی بیعت کی اور دل سے کی کسی مجبوری سے نہ کی اور آپؓ اپنے حق سے ان دونوں کے حق میں دست بردار ہوگئے سو ہم بھی راضی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے مسلمانوں کو اس سے اور تمام بیعت کرنے والوں سے راضی رکھا۔
ہمارے لیے اس کے سوا کچھ کہنا حلال نہیں اور ہم میں سے کسی کے بس میں اس سے زیادہ نہیں بلاشبہ سیدنا ابوبکرؓ کی سلطنت رشد و ہدایت تھی کیونکہ سیدنا علیؓ نے اسے تسلیم کیا اور اس پر راضی رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے عہدِ خلافت میں قدم قدم پر ان کے ساتھ تھے اور آنحضرتﷺ کے مشن اور پروگرام کی تکمیل میں ہر دو کی پرواز پروانہ وار تھی بات بات پر دونوں جمع ہوتے اور اپنے آقا کے ہر وعدے اور ارشاد کے گرد وفا کا پہرہ دیتے تھے۔
آنحضرتﷺ کی نصیحت اپنے ملنے والوں کو تھی کہ آئندہ مجھے نہ پاؤ تو تم سیدنا ابوبکرؓ کے پاس آنا (وہ میری نیابت میں تمہاری بات سنیں گے) ایک عورت آپﷺ کے پاس ایک معاملہ لے کر آئی آپﷺ نے فرمایا:
ان لم تجدينی فلاتی ابابکرؓ۔
(صحیح بخاری جلد1 صفحہ516)۔
تو آئے اور مجھے نہ پائے تو سیدنا ابوبکرؓ کے پاس چلی آنا۔
اس میں حضورﷺ نے بتلا دیا کہ میری نیابت اور خلافت سیدنا ابوبکرؓ کے پاس آئے گی اور اللہ اور مسلمان انہی کو میرا جانشین چنیں گے۔
(صحیح مسلم جلد2 صفحہ273)۔
جشی بن حبادہ کہتے ہیں میں سیدنا ابوبکرؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اس نے کہا کہ حضورﷺ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپﷺ مجھے تین دفعہ ہاتھ بھر کر کجھوریں دیں گے مگر آپﷺ کی وفات ہوگئی اس نے یہ صورتِ حال سیدنا ابوبکرؓ کے سامنے رکھی کہ اب اس وعدے کو کون پورا کرے گا آپؓ نے سیدنا علیؓ کو بلایا اور فرمایا:
اے ابا الحسنؓ یہ شخص کہتا ہے کہ حضورﷺ نے اس سے تین مشت کھجوروں کا وعدہ فرمایا تھا آپؓ اسے تین دفعہ دونوں ہاتھ بھر کر کجھوریں دیں۔
سیدنا علیؓ نے اس حکم کی تعمیل کی اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی پیش کردہ کھجوروں سے اسے تین دفعہ ہاتھ بھر کر کجھوریں دیں جب آپؓ تعمیل حکم کر چکے تو آپؓ نے سیدنا علیؓ سے کہا اب ان کھجوروں کو جو اپنے اسے دی ہیں شمار کریں ہر بار کی کھجوریں ساٹھ عدد نکلیں سیدنا ابوبکرؓ نے اس پر فرمایا:
صدق رسول اللهﷺ سمعته ليلة الهجرة ونحن خارجون من مكه الى المدينة يقول يا أبابكرؓ كفى وكف علىؓ فی العدالة سواء۔
(کتاب الامالی جلد 1 صفحہ67)۔
ترجمہ: حضورﷺ نے سچ فرمایا مں نے آپؓ کو ہجرت کی رات جب کہ ہم مکہ سے مدینہ کی طرف جا رہے تھے کہتے سنا ہے اے سیدنا ابوبکرؓ میری اور سیدنا علیؓ کی ہتھیلی کے پیمانے برابر ہیں۔
غور کیجئے اس خلافت میں کس طرح یہ دونوں حضرات آپس میں شیر و شکر تھے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کسی طرح حضورﷺ کے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے پابند تھے اور کس طرح لوگ آپ کو جانشینِ رسول سمجھ کر آپ کے پاس آتے تھے اور آپ بھی کس فرطِ عقیدت سے حضورﷺ کی طرف سے لی گئی ان ذمہ داریوں کو پورا کرتے تھے سیدنا علیؓ کی مٹھی سے دلوانا بتلاتا ہے کہ آپؓ کس طرح قدم قدم پر آپ سے موافق ہونے کی تمنا رکھتے آپؓ نے اس شخص کو اتنی ہی کجھوریں دیں کہ اگر حضورﷺ بھی دیتے تو گنتی یہی ہوتی غور کیجیئے آپؓ نے کس طرح حضورﷺ کی مٹھی کا پیمانہ بھی اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا اور سیدنا علیؓ کو ساتھ لے کر چلنے میں آپؓ کسی طرح حضورﷺ سے وفاداری کی لذت محسوس کرتے تھے۔
خلافتِ صدیقی میں سیدنا علیؓ کی مالی امداد:
الحمدللہ سیدنا علیؓ کے سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کرنے سے وہ بادل چھٹ گئے جو انتشار پسندوں نے سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا علیؓ کے مابین اٹھا رکھے ہیں اور یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ سیدنا علیؓ کی یہ بیعت دل سے تھی منافقانہ نہ تھی اس کی تائید ان واقعات سے ہوتی ہے جن میں سیدنا علیؓ کا خلیفہ اول سے مالی امداد قبول کرنا آستانہ خلافت پر دلی حاضری ہے۔
آنحضرتﷺ کے عہد میں سیدہ فاطمہؓ اور انکی اولاد کا گزارہ الاؤنس فدک کی آمدنی سے آتا تھا سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں فدک کی وہی آئینی پوزیشن قائم رکھی جو حضورﷺ کے عہد میں تھی کہ اس کی آمدنی سیدہ فاطمہؓ کے ہاں پہنچتی رہے یہ اس لیے کہ آپؓ (سیدنا ابوبکرؓ) حضورﷺ کے اختیار کردہ طریقے سے تجاوز نہ کرنا چاہتے تھے سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کا فدک کی مالی امداد کو قبول کرنا بتلاتا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا علیؓ کے مابین ہرگز کوئی مناقشہ یا ناراضگی نہ تھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس سلسلہ میں اپنی مالی پالیسی کی اس طرح وضاحت فرمائی۔
انما ياكل ال محمد فی هذا المال الى والله لا اغير شياء من صدقه رسول اللهﷺ من حالها التی كانت عليه فی عهد رسول اللهﷺ ولا عملن فی ذلك بما عمل فيها رسول اللهﷺ۔
(طحاوی شریف جلد 1 صفحہ 298 باب الصدقہ علی بنی ہاشم)۔
ترجمہ: بیشک حضورﷺ کی اولاد اسی سے اپنی خوراک پائے گی بخدا میں صدقات رسولﷺ کو اس حال سے جس میں وہ حضورﷺ کے وقت میں تھے کسی چیز کو اس کے مقام سے نہ بدلوں گا اور اس میں میرا عمل وہی رہے گا جو ان کے بارے میں حضورﷺ کا تھا۔
صحیح بخاری کے الفاظ بھی ملاحظہ کیجئے:
انما ياكل آل محمد فی هذا المال والله لقرابة رسول اللهﷺ احب الی ان أصل من قرابتی۔
(صحیح بخاری جلد1 صفحہ576)۔
ترجمہ: بیشک حضورﷺ کی اولاد اسی سے کھائے گی بخدا مجھے حضورﷺ کے اقرباء اپنے اقرباء سے زیادہ عزیز ہیں کہ میں انہیں اپنے سے ملا رکھوں خیال کیجئے آپ نے یہ الفاظ محض سطحی طور پر نہیں کہے قسم کھا کر کہتے ہیں فرماتے ہیں:
والذی نفسی بيده القرابة رسول اللهﷺ احب الى ان اصل من قرابتی۔
(صحیح بخاری جلد1 صفحہ526)۔
خلافتِ صدیقی میں اقرباء رسول کے منصرم امور کون تھے:
یہ بات اہلِ علم سے مخفی نہیں کہ آنحضرتﷺ کے قریب رشتہ داروں کا مال خمس میں حصہ ہوتا تھا سیدنا عباسؓ اور سیدنا علیؓ دونوں بنی ہاشم میں سے تھے اور دونوں اقرباء رسول میں سے تھے ان دونوں کے اپنے اپنے گھر تھے اور دونوں کی اپنی اولاد تھی سیدنا زید بن حارثہؓ کو بھی حضورﷺ نے بیٹا بنا رکھا تھا سیدنا عباسؓ آپ کے سب سے زیادہ قریبی تھے لیکن سیدہ فاطمہؓ کے سبب سیدنا علیؓ اپنے آپ کو سب اقرباء رسول میں مقدم سمجھتے تھے اور حضورﷺ کے ان قرابتداروں کو جو خمس ملتا وہ آپ حضورﷺ کے جملہ اقرباء میں تقسیم فرماتے اور یہ سب حضورﷺ کی اجازت سے تھا حضور اکرمﷺ کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے بھی آپ کی اس حیثیت کو باقی رکھا اور آپؓ ہی عہدِ صدیقی میں خمس اقرباء رسول میں تقسیم کرتے تھے۔
سیدنا علیؓ نے یہ عہدہ حضورﷺ سے مانگ کر لیا تھا:
ایک دن سیدنا علیؓ سیدنا عباسؓ اور سیدنا زیدؓ کو ساتھ لے کر حضورﷺ کے پاس پہنچے اور کہا حضورﷺ اس مال خمس پر آپ مجھے متولی بنا دیں آپ کے سامنے ہی میں اسے بنو ہاشم میں تقسیم کرنے لگ جاؤں آپ کے بعد کوئی مجھ سے اس کے بارے میں اختلاف نہ کر سکے گا یہ معاملہ چونکہ بنو ہاشم کا اپنا اندرونی معاملہ تھا حضورﷺ نے اسے منظور فرمالیا اور سیدنا علیؓ حضورﷺ کے عہد مبارک میں ہی خمس تقسیم کرنے لگے امام ابو یوسفؒ (182ھ) سیدنا علیؓ سے روایت کرتے ہیں
فَقَسَمْتُهُ فی حياتهﷺ ثم ولانيد ابوبكر رضى الله عنه فقسمته في حياته ثم ولانيه عمر فَقَسَمْتُه فی حياته۔
(کتاب الخراج صفحہ 29 مسند احمد صفحہ 85)۔
ترجمہ: سو میں ہی اسے حضورﷺ کے عہد میں تقسیم کرتا رہا پھر سیدنا ابوبکرؓ نے مجھے اموالِ خمس کا متولی بنایا اور میں ہی انہیں آپؓ کی حیات میں تقسیم کرتا رہا پھر سیدنا عمرؓ نے مجھےان اموال کا والی رکھا اور آپؓ کے عہد میں بھی میں ہی انہیں تقسیم کرتا رہا۔
ہمیں افسوس ہے کہ پھر سیدنا عمرؓ کے دور میں سیدنا علیؓ اور سیدنا عباسؓ ان اموال کی تقسیم اور مصارف میں آپس میں الجھ پڑے اور ان میں سنگین اختلافات پیدا ہو گئے تھے سیدنا عمرؓ نے پھر بھی ان میں دخل دینا پسند نہ کیا آپ یہی چاہتے تھے تھے کہ آپ سے حضور اکرمﷺ کے عہد مبارک سے انحراف نہ ہونے پائے یہ اختلافات چلتے رہے یہاں تک کہ سیدنا علیؓ سیدنا عباسؓ پر غالب آگئے اور سیدنا عباسؓ نے اپنا حق چھوڑ دیا پھر یہ اموال سیدنا علیؓ کے خاندان میں رہے صحیح بخاری میں ہے:
اعرض عنها عباسؓ فكانت هذه الصدقة بيد علىؓ ثم كانت بعد علىؓ بيد حسن بن علیؓ ثم بيد حسين بن علىؓ ثم بيد على بن الحسين وحسن بن حسن كلاهما كانا يته اولانها۔
(صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 576 مسند ابی عوانہ جلد 4 صفحہ 140 سنن کبریٰ بہیقی جلد 6 صفحہ 299)۔
ترجمہ: سیدنا عباسؓ ان سے کنارہ کش ہوگئے اور یہ سب سیدنا علیؓ کے ہاتھ لگے آپؓ کے بعد یہ سیدنا حسنؓ کے ہاتھ میں رہے پھر سیدنا حسینؓ کے ہاتھ میں اور ان کے بعد سیدنا زین العابدینؓ اور سیدنا حسنؓ کے بیٹے سیدنا حسن دونوں کی مشترکہ تولیت میں رہے اور یہ دونوں انہیں وصول کرتے رہے۔
شارح نہج البلاغہ ابنِ ابی الحدید بھی لکھتا ہے:
فغلب على عباساؓ عليها فكانت بيد علىؓ ثم كانت بيد الحسنؓ ثم كانت بيد الحسينؓ ثم بيد على بن الحسين والحسن بن الحسن۔
(شرح نہج البلاغہ جلد 4 صفحہ 118)۔
ترجمہ: سیدنا علیؓ سیدنا عباسؓ پر غالب آ گئے اور پھر یہ اموال سیدنا علیؓ کے ہاتھ میں رہے پھر سیدنا حسنؓ کے ہاتھ میں پھر سیدنا حسینؓ کے ہاتھ میں۔
ان مباحث سے یہ بات بالکل کھل جاتی ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نے ان حضرات اہلِ بیتؓ کے ساتھ کوئی زیادتی نہ کی تھی اموالِ خمس برابر ان کی تولیت میں دیںٔے جاتے رہتے اور یہ حضرات بھی بکمال رضا و رغبت انہیں وصول کرتے رہے ان حضرات میں کچھ بھی کشیدگی ہوتی یا کسی طرف غصب خلافت یا غصب فدک کی گرانی ہوتی تو صورتِ حال اور باہمی معاملات اس طریق پر قائم اور جاری نہ رہتے سیدنا زین العابدینؓ کے بیٹے سیدنا زیدؒ کہتے ہیں:
اما انا فلو كنت مكان ابی بكرؓ لحكمت بمثل ما حكم به ابوبكرؓ فی فدك۔
(البدایہ والنہایہ جلد 5 صفحہ 290 سنن کبریٰ جلد 6 صفحہ 302)۔
ترجمہ: میں بھی اگر سیدنا ابوبکرؓ کی جگہ ہوتا تو فدک کے بارے میں وہی فیصلہ کرتا جو سیدنا ابوبکرؓ نے کیا تھا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ حضرات اہلِ بیتؓ باغِ فدک کی آمدنی برابر وصول کرتے رہے اور صحابہ کرامؓ نے فدک اپنے کسی حق میں ہرگز نہ روک رکھا تھا زمین کی قیمت اس کی آمدنی کی وجہ سے ہوتی ہے اور یہی زمین کی اصل دولت ہے۔
جب فدک کی آمدنی سیدہ فاطمہؓ اور ان کی اولاد پر صرف ہوتی رہی تو یہ بات کتنی بے وزن ہو کر رہ جاتی ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نے سیدہ فاطمہؓ سے غصب فدک کیا یا یہ کہ وہ ان سے ناراض رہیں معترضین یہ نہیں سوچتے کہ اگر فدک آپؓ سے چھن گیا تھا تو پھر سیدہ فاطمہؓ اور ان کی اولاد کا گزر اوقات آخر کس تنخواہ سے ہوتا رہا ہے ابنِ سیم بحرانی (679ھ) لکھتا ہے۔
وكان ياخذ غلتها فيدفع اليهم منها ما يكفيهم ثم فعلت الخلفاء بعده كذلك۔
(شرح نہج البلاغہ جلد 5 صفحہ127 شرح درہ نجفیہ صفحہ 232)۔
ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ فدک کی پیداوار کو ان کی ضرورتوں کے مطابق ان حضرات کی طرف بھیجتے رہے اور آپؓ کے بعد کے خلفاء اسی پر عمل پیرا رہے۔
فیض الاسلام علی نقی بھی لکھتا ہے:
خلاصه ابوبکرؓ غلہ و سود آں گرفتہ و بقدر کفایت باہل بیت علیهم السلام سے داد و خلفاںٔے بعد ازو ہم بر آں اسلوب رفتار نمودند۔
(شرح نہج البلاغہ جلد 5 صفحہ 690)۔
ترجمہ: حاصل یہ ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ فدک کی پیداوار اور اس کا نفع وصول کر کے اہلِ بیتؓ کو ان کی ضرورت کے مطابق دیتے اور بعد کے خلفاء بھی اسی طریق پر چلتے رہے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا یہ فیصلہ اتنا صحیح تھا کہ سیدنا علیؓ جب خلیفہ ہوئے اور انتشار پسندوں نے مسئلہ فدک پھر اٹھانا چاہا تو آپؓ نے فرمایا مجھے حیا آتی ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کے فیصلہ کو بدلوں علم الہدی سید مرتضیٰ لکھتا ہے:
فلما وصل الامر الى علىؓ بن ابى طالب كلم فی رد فدك فقال انى لاستحى من الله ان ارد شياء منع منها بوبكرؓ و امضاه عمرؓ۔
(کتاب الشافی صفحہ 331۔412)۔
ترجمہ: جب خلافتِ سیدنا علیؓ تک پہنچی تو آپؓ سے التماس کی گئی کہ فدک (سیدہ فاطمہؓ کے وارثوں کو) لوٹا دیں آپؓ نے فرمایا مجھے حیا آتی ہے کہ اس چیز کو واپس کروں جو سیدنا ابوبکرؓ نے منع کی اور سیدنا عمرؓ نے بھی اسے ہی باقی رکھا۔
اور لوگ بھی سیدنا ابوبکرؓ کے فیصلے کو اس طرح دل سے قبول کیے ہوںٔے تھے کہ اگر خلیفہ وقت سیدنا علیؓ بھی اس کے خلاف چلتے تو اس قلمرو کے لوگ بھی سیدنا علیؓ کو چھوڑ جاتے جہاں آپؓ کی حکومت تھی آپؓ خود فرماتے ہیں:
ورددت فدك الى ورثة فاطمةؓ ورددت صاع رسول كما كان اذا لتفرقوا عنى۔
(روضا الکافی صفحہ 51۔53 لکھنؤ صفحہ 30 تہران)۔
ترجمہ: اور اگر میں فدک سیدہ فاطمہؓ کے وارثوں کو لوٹا دوں اور حضورﷺ کے عہد کے صاع پیمانے کو اس کے اصل حال پر لے آؤں تو یہ لوگ بھی (جو اس وقت میری قلمرو میں ہیں) مجھے چھوڑ جائیں گے۔
حافظ ابنِ عبدالبر لکھتے ہیں:
فكان على يسير فى الفي مسيرة ابى بكر الصديقؓ فی القسم وازا ورد عليه مال لم يبق منه شئى الاقسمه ولا يترك فی بيت المال منه الاما يعجز عن قسمته فی يومه ذلك۔
(الاستیعاب جلد 3 صفحہ47 مع الاصابہ)۔
ترجمہ: سیدنا علیؓ اموالِ فںٔی کی تقسیم میں سیدنا ابوبکرؓ کی سیرت پر ہی چلتے رہے آپؓ کے پاس جب بھی اموال آتے آپ بیت المال میں کچھ نہ رہنے دیتے سب تقسیم کر ڈالتے مگر وہی جو آپ اس دن تقسیم کر سکیں
یہاں تک بات فںٔی و غنائم کے بارے میں تھی اب ذرا آگے چلئے سیدنا علیؓ نے وہ باندیاں بھی قبول کیں جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے بحیثیتِ امیر المؤمنین انہیں دیں یہ آپؓ کے ان کی خلافت کو قبول کرنے اور ان کی جنگوں کو اسلامی جہاد تسلیم کرنے کی ایک کھلی شہادت اور ان حضرات کے باہمی خوشگوار تعلقات کا ایک کھلا نشان ہے
1۔ محدث عبد الرزاق روایت کرتے ہیں:
عن إبی جعفر قال اعطى ابوبكرؓ علياؓ جارية قد خلت ام ايمنؓ علىؓ فاطمةؓ فأیت فيها شياء فكرهته۔
(المصنف 6 صفحہ303)۔
ترجمہ: سیدنا باقرؒ سے روایت ہے سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا علیؓ کو ایک باندی دی سیدہ ام ایمنؓ سیدہ فاطمہؓ کے پاس آئیں اور انہوں نے آپ میں کچھ بوجھ سا پایا سو آپؓ نے بھی اسے پسند نہ کیا۔
سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے وقت سیدنا خالد بن ولیدؓ نے بنو تغلب پر چڑھائی کی جنگی قیدیوں میں الصهباء نامی ایک باندی تھی سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے یہ سیدنا علیؓ کو دے دی اگر آپ کا جہاد اسلامی جہاد نہ ہو تو الصہبا کا حضرت کی ملک میں آنا اور آپ کا اسے قبول کرنا کبھی اس طرح نہ ہوتا سیدنا علیؓ کا بیٹا عمر اسی باندی سے تھا ابنِ سعد لکھتا ہے:
عمر الأكبر بن على بن ابى طالب واحد الصهبا وهی ام جيب وكانت سبيته اصابها خالد بن الوليد حيث اغار على بن تغلب۔
(طبقات ابنِ سعد صفحہ86)۔
ترجمہ: سیدنا علیؓ کے بیٹے عمر اکبر کی والدہ صہبا تھیں اسے ہی ام حبیب کہتے ہیں یہ باندی تھیں جو خالد بن ولید کے ہاتھ لگیں جب آپ نے بنو تغلب پر لشکر کشی کی تھی۔
2۔ خولہ بنتِ جعفر بن قیس المعروف خفیہ سے کون واقف نہیں یہ محمد بن حنفیہ کی ماں ہیں سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے مسیلمہ کذاب کے خلاف جو جنگ کی یہ خولہ اس کے قیدیوں میں آئی تھیں۔
(البدایہ7 صفحہ 331 فتوح البلدان صفحہ 117)۔
سیدنا ابوبکرؓ نے یہ خادمہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کو دی۔
ان ابابكرؓ اعطى علياؓ ام محمد بن حنفیه۔
(طبقات ابنِ سعد جلد5 صفحہ66)۔
ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ نے محمد بن حنفیہ کی ماں (خولہ) سیدنا علیؓ کو دی تھیں۔
ابنِ خلکان بھی لکھتا ہے:
واستول على جاريه من سبى حنفيه فولات له محمد بن على الذی يدعى محمد بن حنفيه۔
ترجمہ: سیدنا علیؓ کے ہاں ایک باندی سے جو بنو حنفیہ کے قیدیوں میں آئی تھیں ایک لڑکا ہوا جسے محمد بن علی اور محمد بن حنفیہ کہا جاتا ہے۔
علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے:
در روایات شیعه وارد شده است کہ چون اسیراں رابہ نزد ابوبکر آورند مادر محمد بن حنفیه در میں آنہا بود۔
(حق الیقین)۔
مجلسی نے وہ روایات تو درج نہیں کیں لیکن ان کے مشہور مورخ ابنِ عقبہ (828ھ) نے اس کا کچھ ذکر کیا ہے:
وهی من سبی اهل الردة وبها يعرف ابنها ونسب اليها۔ (عمدۃ الطالب صفحہ 353 فی النساب ابی طالب صفحہ 331/7)۔
حافظ ابنِ کثیر لکھتا ہے:
سباها خالد ايام اهل الردة من بنى حنفيه فصارت لعلى بن ابى طالب فولات له محمداً۔
( البدایہ والنہایہ جلد 7 صفحہ 331)۔
سیدنا خالد بن الولیدؓ نے حیرہ کا مال ایک طیلسانی چادر اور ایک ہزار درہم نقد سیدنا ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیجے آپؓ نے وہ چادر کسے دی آپؓ کی یہ نظر شفقت سیدنا حسینؓ پر پڑی بلازری (277ھ) لکھتا ہے:
ووجد الى ابى بكرؓ بالطيلسان مع مال الحيره وبالألف درهم فوھب الطیلسان للحسين بن على رضى الله عنهما۔
(فتوح البلدان صفحہ254)۔
یہ نظر اختصاص اسی طرح ہے جس طرح سیدنا عمرؓ نے فتح ایران کے بعد ساسانی شاہزادی شہر بانو سیدنا حسینؓ کے تملک میں دی تھی۔
سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ کی علمی مجالس میں:
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی مجلس علمی جس سے آپ فقہی مسائل میں مشورہ لیتے تھے فاضل اصحابِ رسولﷺ پر مشتمل تھی اس کے ممبران میں سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ سیدنا علیؓ سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ سیدنا معاذ بن جبلؓ سیدنا ابی بن کعبؓ اور سیدنا زید بن ثابتؓ معروف شخصیتیں ہیں سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ سیدنا ابوالدرداءؓ اور سیدنا جابرؓ بھی جب دستیاب ہوتے یہ بھی اس مجلس کے ممبر ہوتے یہ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اہلِ الرای تھے انہیں اہلِ فقہ بھی کہا جاتا ورنہ اصحابِ حدیث تو سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جس نے حضورﷺ سے ایک حدیث بھی روایت کی وہ اصحابِ حدیث میں سے ہوگیا ابنِ سعد لکھتے ہیں:
ان ابابكر الصديقؓ كان اذا نزل به امر يريد فيه مشاورة اهل الرای واهل الفقه ودعا رجالا من المهاجرين والانصار دعا عمرؓ و عثمانؓ و علياؓ وعبد الرحمن بن عوفؓ ومعاذ بن جبلؓ وابى بن كعبؓ وزيد بن ثابتؓ وكل هولاء يفتی في خلافة ابی بكرؓ۔
(طبقات ابنِ سعد جلد 3 صفحہ 109 باب اہلِ علم والفتویٰ من اصحاب رسول اللہﷺ)
شیعی مورخ احمد بن ابی یعقوب عباسی بھی لکھتا ہے:
وكان من يوخذ عند الفقه فی ايام ابی بكرؓ علىؓ بن ابی طالب وعمر بن الخطابؓ ومعاذ بن جبلؓ وابی بن كعبؓ و زيد بن ثابتؓ و عبدالله بن مسعودؓ۔
(تاریخ یعقوبی جلد 2 صفحہ 138)۔
ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ کے دور میں جن علماء سے فقہ حاصل کی جاتی تھی وہ سیدنا علیؓ سیدنا عمرؓ سیدنا معاذؓ سیدنا ابی بن کعبؓ سیدنا زید بن ثابتؓ اور سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ تھے۔
(ریاض النضرہ جلد 1 صفحہ 130 البدایہ والنہایہ جلد 6 صفحہ 315 کنز العمال جلد 3 صفحہ 142)۔
کے ان روایات میں اہلِ الرای اہلِ الفقہ اہلِ فتویٰ سب متقارب الفاظ ہیں اور یہ وہ حضرات ہیں جن کا علم و فقیہ عمق اور اجتہاد و استنباط ہی میں کناروں سے اترتا تھا۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ کا ان علمی مجالس میں ہونا بتلاتا ہے کہ آپ ان حضرات صحابہ کرام رضوان رضوان اللہ علیہم اجمعین کا غیر نہ تھے انہی میں ساتھ تھے علیحدگی کے تصور نے اس گزر گاہ میں راہ نہ پاںٔی تھی۔
سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ کے سیاسی مشیروں میں:
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں:
خرج ابى شاهراً سيفه راكبا على راحلته الى ذى القصة فجاء علىؓ بن ابى طالب فاخذ برھام راحلته وقال اين يا خليفه رسول اللهﷺ اقول لك ما قال لك رسول اللهﷺ يوم احد ثم سيفك ولا تفجعنا بنفسك فوالله لان اصبنابك لا يكون للا سلام بعدك نظام ابدأ رجع وامضى الجيش۔
سیدنا ابوبکرؓ نے جب مانعین زکوٰۃ سے جنگ کا ارادہ کیا تو بھی سیدنا علیؓ سے مشورہ کیا یہی حبِ الدین الطبری ذخائر العقیٰ میں نقل کرتے ہیں:
عن على وقد شاور ابوبكرؓ فی قتال اهل الردة بعد ان شاور الصحابة فاختلفوا عليه فقال ما تقول يا ابا الحسنؓ فقال ان تركت شياء مما اخذ رسول اللهﷺ منهم فانت على خلاف رسول اللهﷺ۔
(ذخائر العقبیٰ صفحہ97)۔
ترجمه: سیدنا ابوبکرؓ نے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کرنے کے بعد (اور انہوں نے اسمیں آپس میں اختلاف کیا تھا) سیدنا علیؓ سے بھی مشورہ فرمایا کہا اے ابا الحسنؓ آپ کی کیا رائے ہے آپؓ نے فرمایا اگر آپؓ نے ان سے ایک چیز لینی بھی (جو حضورﷺ ان سے لیا کرتے تھے) چھوڑ دی تو آپؓ کی سیرت حضورﷺ کے خلاف ہوجائے گی۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ کہتے ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے غزوہ روم کا ارادہ کیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا آپؓ کے سیاسی مشیر سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ سیدنا علیؓ سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ اور سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ سب تشریف لائے سیدنا علیؓ کچھ نہ بولے اس پر سیدنا ابوبکرؓ نے آپؓ کو نام لے کر کہا آپ کی رائے کیا ہے۔
قال ابوبكر ماذا ترى يا ابا الحسنؓ فقال ارى انك ان سرت اليهم بنفسك او بعثت اليهم نصرت عليهم ان شاء الله تعالیٰ فقال بشرك الله بخير و من این علمت ذلك قال سمعت رسول اللهﷺ يقبل لا يزال هذا الدين ظاهرا على كل من ناواه حتىٰ يقوم الدين واهله ظاهرون فقال سبحان الله ما احسن هذا الحديث۔
(کنز العمال جلد3 صفحہ 144۔143)۔
ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ نے کہا اے ابوالحسنؓ تمہاری کیا رائے ہے؟ آپؓ نے فرمایا آپؓ خود انکی طرف جائیں یا کسی دوسرے کو ان کی طرف بھیجیں آپؓ ان پر اللہ کی مدد پائیں گے آپ نے کہا اللہ مجھے خیر دے تم نے یہ کہاں سے جانا سیدنا علیؓ نے فرمایا میں نے حضور اکرمﷺ کو فرماتے سنا آپﷺ نے فرمایا تھا یہ دین اس وقت تک ہر شخص پر جو اس سے دور ہوا غالب رہے گا جب تک دین قاںٔم رہے گا اور اہلِ دین ظاہر رہیں آپ نے فرمایا سبحان اللہ یہ کیسی عمدہ حدیث ہے۔
شیعہ مؤرخین نے بھی یہ روایت لکھی ہے:
اراد ابوبكرؓ ان يغز والروم فشاور جماعة من اصحاب رسول اللهﷺ فقدموا واخروا فاستشار علىؓ بن إلى طالب فاشاران يفعل قال ان فعلت ظھرت فقال بشدت بخير۔ (ناسخ التواریخ جلد 2 کتاب 2 صفحہ 158)۔
ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ نے جنگِ روم کا ارادہ کیا اور آنحضرتﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا انہوں نے کچھ مختلف باتیں کیں پھر آپؓ نے سیدنا علیؓ سے مشورہ کیا آپؓ نے فرمایا آپ یہ جنگ کر گزریں اگر کریں گے تو (اللہ کی) مدد پائیں گے آپؓ نے فرمایا تو نے خیر کی بشارت دی ہے
سیدنا علیؓ صرف سیاسی مشیر ہی نہ تھے آپؓ کے عملی رفیق بھی تھے آپ نے جب ان مہمات کا ارادہ فرمایا تو آپؓ نے جو دستے مدینہ کی حفاظت کے لیے مقرر کیے ان پر جن لوگوں کو نگران مقرر کیا ان میں سیدنا علیؓ سیدنا طلحہؓ سیدنا زبیرؓ اور سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ بھی تھے
فجعل الصديق على انقاب المدينة حراسا يبيتون بالجيوش حولها فمن امراء الحرس علىؓ بن ابى طالب والزبير بن العوامؓ وطلحة بن عبید اللهؓ وسعد بن ابی وقاصؓ وعبد الرحمٰن بن عوفؓ وعبد الله بن مسعودؓ۔ (البدایہ جلد 6 صفحہ 311 تاریخ ابنِ حریر طبری 3 صفحہ 323 ابنِ خلکان 2 صفحہ 858)۔
ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ نے مدینہ کی فصیلوں پر پہرے دار مقرر کر دیںٔے جو لشکروں کے گرد رات بھر پہرہ دیتے تھے ان پہرہ داروں کے امراء میں سیدنا علیؓ سیدنا زبیرؓ سیدنا طلحہؓ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ بھی تھے۔
سیدنا علیؓ ایک جگہ خود فرماتے ہیں:
فنهضت فی تلك الاحداث حتىٰ زاح الباطل وزهق واحسان الدين۔
(نہج البلاغہ)
ترجمہ: سو میں ان حوادث میں (جو خلافتِ سیدنا ابی بکرؓ میں بصورتِ ارتداد اٹھے) میدان میں نکلا یہاں تک کہ باطل زائل ہوا اور جڑ سے جاتا رہا اور دین پھر سے قائم ہوا۔
شارح نہج البلاغہ ملا فتح اللہ کاشانی اس کی شرح میں لکھتا ہے:
بداں کہ در زمان خلافت ابی بکرؓ بسیارے از عرب برگشتند از دین و مرتد شدند و اصحاب در آں امر عاجز و حیران شدند چوب آنحضرت اس امر را چناں دید اصحاب را دلداری کرده بزور بازوۓ حیدری اہلِ ارتداد رابقر فرستاد و باز امر دین را انتظام داد۔
(شرح نہج البلاغہ)۔
ترجمہ: جان لو کہ خلافتِ سیدنا ابی بکرؓ میں بہت سے عرب دین سے برگشتہ ہو گئے اور مرتد ہو گئے تھے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان فنتوں میں بہت عاجز اور حیران تھے جب سیدنا علیؓ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دلداری کی اور بازو حیدری سے مرتدین کو جہنم واصل کیا اور دین پھر سے نظم سلطنت پا گیا۔
اجرائے حدود و تعزیرات میں شرکت:
ایک جگہ یہ رسم قبیح پائی گئی کہ جس طرح لڑکی نکاح کر کے رخصت کی جاتی ہے لڑکوں کو بھی رخصت کرتے تھے سیدنا خالد بن ولید نے سیدنا ابوبکرؓ کو لکھا سیدنا امیر المومنینؓ نے میٹنگ بلائی ان من سیدنا علیؓ بھی تھے آپؓ نے فرمایا:
ان هذا ذنب لم تعمل به امة الا امة واحده ففعل الله بهم ما قد علم ارى ان نحرقه بالنار فاجتمع رای اصحاب رسول الله ان يحرق بالنار فحرقه خالد۔
(سنن کبریٰ بہیقی جلد 8 صفحہ 232 کنز العمال جلد 3 صفحہ 99)۔
ترجمہ: یہ ایسا گناہ ہے جو ایک امت کے سوا کسی نے نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ نے پھر ان سے جو کچھ کیا تمہیں علم ہے میری رائے ہے کہ ہم اسے اس لاش کو نذرِ آتش کریں سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس پر متفق ہوگئے کہ اسے آگ سے جلا دیا جائے سو سیدنا خالد بن ولیدؓ نے ایسا ہی کیا۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ نے سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ کی جاری کردہ تعزیرات کو عین سنت فرمایا اور ان کے عمل کو آئندہ کی دلیل ٹھہرایا ہے امام ابو یوسفؒ شراب پینے کی سزا کے بارے میں آپ سے نقل کرتے ہیں:
قال جلد رسول اللهﷺ اربعين وابوبكر الصديقؓ اربعين وكملها عمر بن الخطابؓ ثمانين ولكل سنة۔
(کتاب الخراج صفحہ 165 المصنف 7 صفحہ 379 صحیح مسلم 2 صفحہ 72)۔
ترجمہ: فرمایا حضورﷺ نے چالیس کوڑوں کی سزا دی سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے بھی چالیس کوڑوں کی سزا دی سیدنا عمرؓ نے اس سزا کو اس کے آخری درجے میں نافذ کیا اور اسی کوڑوں کی سزا دی اور ان سے ہر ایک عمل سنت ہے۔
ہاں آپؓ نے اپنا عمل سیدنا عمرؓ کے مطابق اختیار فرمایا تاہم سیدنا ابوبکرؓ کے حق میں حق کی گواہی دی آپ کا اپنا فیصلہ یہ تھا ملا محمد بن یعقوب کلینی لکھتا ہے:
ان فی كتاب على صلوة الله عليه يضرب شارب الخمر ثمانين۔
(دیکھںٔیے اصول کافی جلد 1 صفحہ 41 صفحہ57 صفحہ407 جلد 2 صفحہ 278 صفحہ 259 صفحہ 484 صفحہ 486 صفحہ 666 شرح الفقیہ صفحہ 13 صفحہ 24 صفحہ 26 الکافی جلد 3 صفحہ 9 صفحہ 175 صفحہ 253 صفحہ397 صفحہ 539 استبصار جلد 9 صفحہ 289 صفحہ 368 صفحہ 389 صفحہ 390 جلد 5 صفحہ 136 صفحہ 279 صفحہ 541 جلد 6 صفحہ 202 صفحہ207 صفحہ 219 صفحہ 220)۔
ترجمہ: کتابِ سیدنا علیؓ میں ہے کہ شراب پینے والے کو اسی کوڑوں کی سزا دی جائے سیدنا علیؓ کی اس کتاب کا ذکر شیعہ کے اصولِ اربعہ میں متعدد مقامات پر ملتا ہے
سیدہ فاطمہؓ کی وفات پر تعزیت:
جب سیدہ فاطمہؓ فوت ہوئیں تو سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ سیدنا علیؓ کے پاس تعزیت کے لیے آئے اور انہیں کہا کہ بنتِ رسولﷺ کے جنازے میں ہمارا انتظار کرنا سلیم بن قیس لکھتا ہے:
فاقبل ابوبكرؓ و عمرؓ تعزيان علياؓ ويقولان له يا ابا الحسن لا تسبقنا با الصلوة على ابنة رسول اللهﷺ۔
(کتاب سلیم بن قیس صفحہ 226)۔
ترجمہ: پس سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ سیدنا علیؓ سے تعزیت کرنے آئے اور یہ کہنے کہ اے ابا الحسنؓ آپؓ بنتِ رسول پر نماز پڑھنے میں ہم سے جلدی نہ کرنا۔