Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

بنات اربعہؓ شیعہ کتب کی روشنی میں

  محمد ذوالقرنین الحنفی

بناتِ اربعہؓ شیعہ کتب کی روشنی میں

السلام علی من اتبع الھدیٰ

آج کل شیعوں کی طرف سے ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ رسولﷺ کی چار بیٹیاں نہیں بلکہ صرف ایک بیٹی سیدہ فاطمہؓ ہی تھیں، اور رسولﷺ کی باقی تین بیٹیوں سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ اور سیدہ اُمِ کلثومؓ کا انکار کر دیتے ہیں، جبکہ ان کا یہ اعتراض جہالت اور اپنی کتب سے نا واقفیت کے سواء کچھ نہیں، بعض شیعہ تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ اور سیدہ اُمِ کلثومؓ، سیدہ خدیجہؓ کی بہن کی بیٹیاں تھیں اور بعض شیعہ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب بیٹیاں تو سیدہ خدیجہؓ کی ہی تھیں لیکن ان کے سابقہ شوہر سے تھیں۔

تو آج کی اس تحریر میں ہم شیعہ کتب سے یہ ثابت کریں گے کہ یہ چاروں رسولﷺ کی بیٹیاں تھیں، اور یہ سب رسولﷺ کو سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئیں، ذیل میں شعیہ کتب سے رسولﷺ کی چار بیٹیاں ہونے پر مستند ترین حوالے ملاحظہ فرمائیں۔

شیخ صدوق جو کہ شیعوں کے نزدیک امام المحدثین ہے وہ اپنی کتاب الخصال میں باب باندھتا ہے کہ نبیﷺ کی سات اولادیں تھیں اور اس باب میں اپنی صحیح سند سے سیدنا جعفر صادقؒ کا قول نقل کرتا ہے کہ:

نبیﷺ کی سیدہ خدیجہؓ سے جو اولاد پیدا ہوئی وہ سیدنا قاسمؓ ،اور سیدنا طاہرؓ جو کہ عبداللہ ہیں، اور سیدہ اُمِ کلثومؓ، اورسیدہ رقیہؓ، اورسیدہ زینبؓ اور سیدہ فاطمہؓ ہیں، سیدہ فاطمہؓ کی شادی سیدنا علیؓ بن ابی طالب سے ہوئی اور سیدہ زینبؓ کی شادی سیدنا ابو العاصؓ بن الربیع سے ہوئی اور سیدہ اُمِ کلثومؓ کی شادی سیدنا عثمان بن عفانؓ سے ہوئی وہ رخصتی سے پہلے ہی وفات پا گئیں تو نبیﷺ نے سیدہ رقیہؓ کی شادی بھی سیدنا عثمان بن عفانؓ سے کر دی، اور نبیﷺ کے بیٹے سیدنا ابراہیمؓ، سیدہ ماریہؓ قبطیہ سے پیدا ہوئے۔

(الخصال،جلد 2،صحفہ نمبر 275)

حواشی میں شیعہ محقق نے اس روایت کی سند کو معتبر صحیح کہا ہے۔

یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شیعہ کتاب کی صحیح سند کی روایت کے مطابق بھی رسولﷺ کی چار بیٹیاں تھیں اور یہ سب رسولﷺ کو سیدہ خدیجہؓ سے پیدا ہوئیں، سیدہ زینبؓ کا نکاح تو سیدنا ابوالعاصؓ(بعد میں مسلمان ہو گئے تھے) سے ہوا اور سیدہ اُمِ کلثومؓ اور سیدہ رقیہؓ کی شادی یکے بعد دیگرے سیدنا عثمانؓ سے ہوئی۔

شیخ صدوق اسی باب میں اگلی روایت بھی سیدنا جعفرصادقؒ سے نقل کرتا ہے کہ:

ایک دن نبیﷺ گھر تشریف لائے تو سیدہ عائشہ صدیقہؓ، سیدہ فاطمہؓ سے کہہ رہی تھیں، اے خدیجہؓ کی بیٹی آپ یہ سوچتی ہیں کہ میری ماں(خدیجہؓ) ہم (باقی بیویوں) سے افضل ہیں،ان میں ایسی کیا خوبی تھی؟ وہ بھی تو ہماری طرح ہی تھیں، تو سیدہ فاطمہؓ یہ سن کر رونے لگیں تو نبیﷺ نے پوچھا اے فاطمہ کیوں روتی ہو؟ تو فاطمہ نے سب کچھ بتایا تو نبیﷺ غصہ ہوئے پھر فرمایا! اے حمیرا(عائشہؓ) اللہ نے بچے پیدا کرنے والی عورت کو مبارک کیا ہے،اور خدیجہؓ سے مجھے طاہر جو کہ عبداللہؓ ہیں وہ پیدا ہوئے اور قاسمؓ ،اور فاطمہؓ اور رقیہؓ اور اُمِ کلثومؓ اور زینبؓ پیدا ہوئیں۔

(الخصال،جلد 2،صحفہ نمبر 276،277)

یہاں پر شیعہ روایت کے مطابق رسولﷺ نے خود سیدہ عائشہؓ سے فرمایا کہ اللہ نے مجھے سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے چار بیٹیاں عطا فرمائی ہیں۔

اب شیعہ کی معتبر ترین کتاب الکافی کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں۔

شیعہ زاکر یعقوب کلینی لکھتا ہے:

نبیﷺ نے سیدہ خدیجہؓ سے شادی کی تو بعثت سے قبل سیدہ خدیجہؓ سے سیدنا قاسمؓ ، سیدہ رقیہؓ، سیدہ زینبؓ اور سیدہ اُمِ کلثومؓ پیدا ہوئے اور بعثت کے بعد طیب و طاہر(طیب و طاہر سیدنا عبداللہؓ کے لقب ہیں) اور سیدہ فاطمہؓ پیدا ہوئیں۔

(الکافی،جلد1،صحفہ نمبر 278)

اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کی سب سے معتبر کتاب میں بھی رسولﷺ کی چار بیٹیاں ہونے کا ذکر ہے نہ کہ ایک۔

شیعہ زاکر علامہ مجلسی: رسولﷺ کی اولاد کے باب میں سیدنا جعفر صادقؒ سے بسند معتبر روایت نقل کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ یہ روایت بسند معتبر ابنِ بابویہ نے بھی نقل کی ہے کہ:

رسولﷺ کی اولاد سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے سیدنا طاہرؓ، سیدنا قاسمؓ ،سیدہ فاطمہؓ، سیدہ اُمِ کلثومؓ، سیدہ رقیہؓ اور سیدہ زینبؓ ہیں، سیدہ فاطمہؓ کا نکاح سیدنا علیؓ سے ہوا، سیدہ زینبؓ کا نکاح سیدنا ابوالعاصؓ سے ہوا، سیدہ اُمِ کلثومؓ کا نکاح سیدنا عثمان بن عفانؓ سے ہوا اور وہ رخصتی سے قبل وفات پا گئیں تو جب نبیﷺ جنگِ بدر کے لئے گئے تو سیدہ رقیہؓ کی شادی بھی سیدنا عثمان بن عفانؓ سے کروا دی، اور نبیﷺ کے بیٹے سیدنا ابراہیمؓ، سیدہ ماریہ قبطیہؓ سے پیدا ہوئے،(پھر علامہ مجلسی)شیخ طوسی اور ابنِ شہر آشوب کا قول نقل کرتا ہے کہ نبیﷺ کی اولاد سیدہ خدیجہؓ کے علاوہ اور کسی سے پیدا نہیں ہوئی سوائے سیدنا ابراہیمؓ کے جو سیدہ ماریہؓ قبطیہ سے پیدا ہوئے، اور مشہور یہ ہے کہ رسولﷺ کے تین بیٹے، اور چار بیٹیاں تھیں۔

(حیات القلوب،جلد 2 حصہ 5،صحفہ 869،870)

یہاں علامہ مجلسی، رسولﷺ کی چار بیٹیاں ہونے کی روایت نقل کر کے آخر پر لکھتا ہے کہ مشہور یہ ہے کہ رسولﷺ کی چار بیٹیاں تھیں۔

زاکر علامہ مجلسی اگلے باب میں رسولﷺ کی ازواج کا تذکرہ کرتے ہوئے سیدہ خدیجہؓ کے بارے میں لکھتا ہے کہ:

ان(سیدہ خدیجہؓ) سے سیدنا عبداللہؓ اور سیدنا قاسمؓ پیدا ہوئے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں، سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ، سیدہ اُمِ کلثومؓ اور سیدہ فاطمہؓ۔

(حیات القلوب،جلد2 حصہ 5،صحفہ 881)

اس کے علاوہ شیعوں کے معتبر اماموں میں سے ایک عبداللہ بن جعفر الحمیری بھی اپنی کتاب قرب الاسناد میں صحیح سند سے سیدنا جعفر صادقؒ سے اور وہ اپنے والد سیدنا محمد باقرؒ سے ایک روایت لے کر آئے ہیں کہ:

رسولﷺ کو سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے سیدنا قاسمؓ، سیدنا طاہرؓ، سیدہ اُمِ کلثومؓ، سیدہ رقیہؓ، سیدہ فاطمہؓ اور سیدہ زینبؓ پیدا ہوئیں، سیدہ فاطمؓہ کا نکاح سیدنا علیؓ سے ہوا، سیدہ زینبؓ کا نکاح سیدنا ابوالعاصؓ سے ہوا، سیدہ اُمِ کلثومؓ کا نکاح سیدنا عثمان بن عفانؓ سے ہوا اور وہ رخصتی سے قبل وفات پا گئیں تو رسولﷺ نے سیدہ رقیہؓ کی شادی بھی سیدنا عثمان بن عفانؓ سے کر دی،اور رسولﷺ کے بیٹے سیدنا ابراہیمؓ، سیدہ ماریہؓ قبطیہ سے پیدا ہوئے

۔(قرب الاسناد،صحفہ نمبر 9)

نہج البلاغہ میں سیدنا علیؓ کے ایک خطبہ سے بھی رسولﷺ کی ایک سے زیادہ بیٹیاں ہونے کا اشارہ ملتا ہے، قصہ کچھ یوں ہے کہ:

جب لوگوں نے سیدنا علیؓ کو سیدنا عثمانؓ سے بات چیت کرنے کے لئے کہا تو سیدنا علیؓ نے سیدنا عثمانؓ سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اور تم ( سیدنا عثمانؓ) تو رسولﷺ سے خاندانی قرابت کی بناء پر اُن دونوں(سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ) سے قریب تر بھی ہو،اور ان (رسولﷺ) کی ایک طرح کی دامادی بھی تمہیں حاصل ہے کہ جو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو حاصل نہ تھی۔

(نہج البلاغہ،خطبہ نمبر 162)

اس خطبہ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ تو رسولﷺ کی بیٹیاں سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں تھیں کیونکہ سیدنا علیؓ نے سیدنا عثمانؓ کو فرمایا کہ آپ کو نبیﷺ کی دامادی بھی حاصل ہے جو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو حاصل نہیں تھی۔

شیعہ زاکر نمعة اللہ الجزائری بھی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ نبیﷺ کی چار بیٹیاں تھیں، لکھتا ہے:

نبیﷺ نے سیدہ خدیجہؓ سے شادی کی تو ان سے سیدنا عبداللہؓ پیدا ہوئے جو کہ طیب و طاہر ہیں اور ان سے سیدنا قاسمؓ پیدا ہوئے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ، سیدہ اُمِ کلثومؓ اور سیدہ فاطمہؓ، سیدہ زینبؓ کا نکاح زمانہ جاہلیت میں سیدنا ابو العاصؓ سے ہوا اور سیدہ رقیہؓ کا نکاح عتبہ بن ابو لہب سے ہوا اور رخصتی سے قبل طلاق ہو گئی تو پھر سیدہ رقیہؓ اور سیدہ اُمِ کلثومؓ کی شادی سیدنا عثمان بن عفانؓ سے ہوئی۔

(انوارالنعمانیہ، جلد1، صحفہ 340)

اس کے ساتھ ساتھ شیعہ زاکر عباس قمی بھی یہی لکھتا ہے کہ:

قرب الاسناد میں سیدنا جعفر صادقؒ سے وارد ہوا ہے(وہ سیدنا باقرؒ سے نقل کرتے ہیں) کہ نبیﷺ کو سیدہ خدیجہؓ سے سیدنا قاسمؓ، سیدنا طاہرؓ، سیدہ فاطمہؓ، سیدہ اُمِ کلثومؓ، سیدہ رقیہؓ اور سیدہ زینبؓ پیدا ہوئیں، سیدہ فاطمہؓ سے سیدنا علیؓ نے نکاح کیا، سیّدنا ابو العاصؓ نے سیدہ زینبؓ سے نکاح کیا اور سیدہ اُمِ کلثومؓ سے سیدنا عثمان بن عفانؓ نے نکاح کیا لیکن وہ رخصتی سے قبل وفات پا گئیں تو رسولﷺ نے سیدہ رقیہؓ کی شادی بھی سیدنا عثمانؓ سے کر دی۔

(منتھیٰ الامال،جلد1،صحفہ151)


شیعہ مٶرخین نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ نبیﷺ کی چار بیٹیاں تھیں۔

شیعہ مٶرخین میں سب سے زیادہ مشہور احمد بن ابو یعقوب ہے وہ اپنی کتاب تاریخی یعقوبی میں نبیﷺ کے سیدہ خدیجہؓ سے نکاح کے باب میں لکھتا ہے کہ:

نبیﷺ نے تیس سال کی عمر میں سیدہ خدیجہؓ سے نکاح کیا، اور بعثت سے قبل ان سے سیدنا قاسمؓ، سیدہ رقیہؓ، سیّدہ زینبؓ اورسیدہ اُمِ کلثومؓ پیدا ہوئیں اور بعثت کے بعد سیدنا عبداللہؓ پیدا ہوئے اور وہی طیب و طاہر ہیں کیونکہ وہ بعد میں پیدا ہوئے اورسیدہ فاطمہؓ پیدا ہوئیں۔

(تاریخ یعقوبی،جلد2،صحفہ نمبر 15)

اس کے ساتھ مشہور شیعہ مٶرخ محمد ہاشم خراسانی نے بھی نبیﷺ کی چار بیٹیاں ہونے کا اعتراف کیا ہے، لکھتا ہے:

(نبیﷺ کی اولاد کے باب میں الکافی کے حوالے سے لکھتا ہے کہ)سیدہ خدیجہؓ سے نبیﷺ کو چار بیٹیاں تھیں، سیدنا قاسمؓ، اور سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ اور سیدہ اُمِ کلثومؓ بعثت سے قبل پیدا ہوئے اور سیدنا طاہرؓ و سیدہ فاطمہؓ بعثت کے بعد پیدا ہوئے، اور مناقب ابنِ اشہر آشوب کے حوالے سے بھی یہی لکھتا ہے کہ نبیﷺ کی چار بیٹیاں تھیں،(پھر لکھتا ہے) سیدنا ابراہیمؓ، سیدہ ماریہؓ قبطیہ سے تھے، اور نبیﷺ کی تمام اولاد سوائے سیدہ فاطمہؓ کے نبیﷺ کی وفات سے قبل فوت ہوگئی۔

(منتخب التواریخ فارسی،جلد1،صحفہ 23)

شیعہ زاکر عبداللہ المامقانی جو کہ علم الرجال میں شیعہ میں بہت بڑا مقام رکھتا ہے وہ اپنی کتاب تنقیح المقال میں نبیﷺ کی اولاد و ازواج کے باب میں لکھتا ہے:

نبیﷺ نے سیدہ خدیجہؓ سے شادی کی اور ان کو سیدہ خدیجہؓ سے بعثت سے قبل سیدنا قاسمؓ، سیدہ رقیہؓ، سیدہ زینبؓ اور سیدہ اُمِ کلثومؓ پیدا ہوئیں ، اور بعثت کے بعد نبیﷺ کی اولاد سیدنا ابراہیمؓ (یہ ماریہؓ قبطیہ سے)، سیدنا طاہرؓ(عبداللہ)اور سیدہ فاطمہؓ پیدا ہوئیں۔

(تنقیح المقال،جلد1،صحفہ 186،187)

شیعہ ایک بے بنیاد اعتراض اور کرتے ہیں کہ اگر نبیﷺ کی کوئی اور بیٹی بھی تھی تو نبیﷺ نے کبھی اس کی فضیلیت کیوں بیان نہیں کی ؟


جبکہ یہ اعتراض بھی باطل اور جھوٹ ہے شیعہ کتب میں ہی اس اعتراض کا جواب موجود ہے۔

شیعہ زاکر شیخ صدوق ہی نقل کرتا ہے کہ!

نبیﷺ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا! اے لوگو کیا میں تم کو ایسے اشخاص کے بارے میں نہ بتاؤں جو لوگوں میں اپنے ماموں اور خالہ کے اعتبار سے سب سے بہترین ہیں؟ تو لوگوں نے کہا بتائیں یا رسول اللہﷺ، تو رسولﷺ نے فرمایا، وہ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ ہیں اور ان کے ماموں سیدنا قاسمؓ بن رسول اللہﷺ اور ان کی خالہ سیدہ زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ ہیں، پھر ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ ہم قیامت کے دن ایسے اکھٹے ہوں گے پھر فرمایا اے اللہ تو جانتا ہے کہ ان کے ماموں اور ان کی خالہ جنت میں ہیں اور تو جانتا ہے جو ان سے محبت کرے وہ جنت میں ہے اور جو ان سے بغض رکھے وہ جہنم میں ہے۔

(الامالی الصدوق،صحفہ 315 تا 318)

یہاں پر نبیﷺ نے لوگوں میں سب سے بہترین ماموں اور سب سے بہترین خالہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ سیدنا قاسمؓ بن رسول اللہﷺ اور سیدہ زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ ہیں، اور جو ان سے محبت کرے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ جہنم میں جائے گا جبکہ شیعہ تو سِرے سے ہی خالہ کے انکاری ہیں تو ان کا کیا حشر ہو گا وہ یہ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبیﷺ کی دیگر بیٹیوں کی فضیلت بھی شیعہ کتب میں موجود ہے اور باقی بیٹیاں بھی نبیﷺ کی ہی اولاد تھیں کیونکہ نبیﷺ نے زینب بنتِ رسول اللہﷺ فرمایا۔

ان تمام دلائل سے روزِ روشن کی طرح یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شیعہ کتب اور شیعہ علماء کے مطابق بھی نبیﷺ کی چار بیٹیاں تھیں نہ کہ ایک اور باقی سب بیٹیاں بھی نبیﷺ سے پیدا ہوئیں تھیں، نہ کہ سیدہ خدیجہؓ کی بہن سے نہ ہی سیدہ خدیجہؓ کے سابقہ شوہر سے۔

شیعوں کو بھی چاہیئے کہ ان تمام دلائل کو مانیں اور اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر نبیﷺ کی چار بیٹیاں ہونے کا اقرار کریں اور اپنی عوام کو بھی جاہلانہ منطقیں سُنا کر گمراہ کرنے کی بجائے حق بات کی تعلیم دیں۔

ان دلائل کے علاوہ بھی بے شمار حوالے موجود ہیں لیکن جس نے حق قبول کرنا ہو گا اس کے لیے یہی کافی ہیں، اور جس نے حق دیکھ اور سُن کر بھی اندھا اور بہرہ رہنا ہے اس کو چاہے ہزار حوالے دے دیے جائیں وہ پھر بھی نہیں مانے گا۔

دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)