Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

غیر مسلم اور تعمیر مسجد


غیر مسلم اور تعمیر مسجد

مسجد شعائر اللّٰہ اور شعائر اسلام میں سے ہے جو صرف اہلِ اسلام کی عبادت گاہ ہو سکتی ہے۔ قرآن کریم نے یہ اصول وضع کیا کہ کوئی غیر مسلم کافر اس کی تعمیر کا اہل نہیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔   

:مَا كَانَ لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ اَنۡ يَّعۡمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ بِالـكُفۡرِ‌ؕ اُولٰۤئِكَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ ۖۚ وَ فِى النَّارِ هُمۡ خٰلِدُوۡنَ ۞ اِنَّمَا يَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ:

ترجمہ: مشرکوں کا کام نہیں کہ آباد کریں اللہ کی مسجدیں اور تسلیم کر رہے ہوں اپنے اوپر کفر کو وہ لوگ خراب گئے ان کے عمل اور آگ میں رہیں گے وہ ہمیشہ۔ وہی آباد کرتا مسجدیں اللّٰہ کی جو یقین لایا اللّٰہ پر اور آخرت کے دن پر:

پھر دور نبویﷺ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے اس امر کا دو ٹوک فیصلہ ہو گیا کہ اگر کوئی غیر مسلم اسلام کا دعویدار بن کر کوئی جگہ مسجد کے نام سے تعمیر کرے تو اس کا کیا حکم ہو گا؟ اور اسلامی حکومت اس سے کیا معاملہ کرے گی؟ یہ واقعہ اسلامی تاریخ میں مسجد ضرار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

مدینہ کے منافقین نے جو اپنے کفریہ عقائد کے باوجود قسمیں کھا کھا کر اسلام کا دعویٰ کیا کرتے تھے، اسلام کو نقصان پہنچانے اور مسلمانوں کی جماعت کے درمیان تفریق ڈالنے کی غرض سے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالی تھی اور رسول اللّٰہﷺ سے درخواست کی تھی کہ آپ برکت کے لئے وہاں ایک نماز ادا فرما لیں۔ قرآن کریم نے ان کی اس ناپاک سازش کا پردہ چاک کرتے ہوئے اس نام نہاد مسجد پر بلیغ تبصرہ فرمایا وہ یہ ہے

وَالَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسۡجِدًا ضِرَارًا وَّكُفۡرًا وَّتَفۡرِيۡقًۢا بَيۡنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاِرۡصَادًا لِّمَنۡ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ مِنۡ قَبۡلُ‌ؕ وَلَيَحۡلِفُنَّ اِنۡ اَرَدۡنَاۤ اِلَّا الۡحُسۡنٰى‌ؕ وَاللّٰهُ يَشۡهَدُ اِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ ۞ لا تقم فیه ابدا، الایۃ

ترجمہ: اور جنہوں نے بنائی ایک مسجد ضد پر اور کفر پر اور پھوٹ ڈالنے کو مسلمانوں میں اور گھات لگانے کو اس شخص کو جو لڑ رہا ہے اللہ سے اور اس کے رسول سے پہلے سے اور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی ہی چاہی تھی اور اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں، آپ اس میں جا کر کھڑے بھی نہ ہوں۔

یہ آیات نازل ہوئیں تو رسول اللّٰہﷺ نے چند صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کو حکم فرمایا اور اسے نذرِ آتش کرکے پیوندِ زمین کر ڈالا قرآن کریم کی یہ آیات بینات اور آنحضرتﷺ کا یہ طرزِ عمل اس امر کا صاف فیصلہ کر دیتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم ٹولہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسجد کے نام سے کوئی مکان تعمیر کرتا ہے تو اسکا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس مسجدِ ضرار کو کفر و بددینی کا اڈہ بنایا جائے، مسلمانوں میں تفریق ڈالی جائے اور کفر کے سرغنہ کے لئے ایک پناہ گاہ مہیا کر دی جائے۔ اور یہ کہ اسلام اس کھیل کو برداشت نہیں کرتا بلکہ اسلامی حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کفر کے ان اڈوں کو مسمار کر دے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اس واقعہ کے بعد کبھی کسی غیر مسلم منافق کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ اپنی عبادت گاہ کے لئے مسجد کا مقدس نام استعمال کریں۔

یہ حکم مسجد کے علاؤہ دیگر اسلامی شعائر اور اسلامی اصطلاحات کا بھی ہے کہ ان کی حفاظت مسلمانوں پر فرض ہے اور اسلام کبھی اس امر کو برداشت نہیں کرتا کہ اس کی مقدس اصطلاحات و علامات کو منافقین و مرتدین وسبرد کا کھلونا بنا ڈالا جائے فقہائے اسلامؒ نے تصریح کی ہے کہ اسلامی مملکت کے غیر مسلم باشندوں کا لباس وضع قطع اور مکان تک مسلمانوں سے ممیز ہونا چاہئے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی شعائر کے معاملہ میں اسلام کے احساسات کس قدر نازک ہے۔

علماء اسلام نے تصریح کی ہے کہ غیر مسلموں کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر وہ یہ حرکت کریں تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ انہیں اس سے باز رکھیں۔

حضرت مولانا قاضی ثناءاللّٰہؒ پانی پتی لکھتے ہیں کہ: مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کفار کو تعمیرِ مساجد سے باز رکھیں، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کی مسجدیں صرف عبادت الٰہی کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں پس کسی کافر کا یہ کام نہیں کہ انہیں تعمیر کرے۔

امام قرطبیؒ لکھتے ہیں کہ: اندریں صورت مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ خود احکامِ مساجد کے متولی ہوں اور کافروں کو ان میں مداخلت سے باز رکھیں۔

حضرت مولانا علامہ انور شاہ کشمیریؒ لکھتے ہیں کہ: ملحدین اگر کوئی مسجد بنائیں تو وہ مسجد نہیں ہو گی، چنانچہ :تنویر الابصار: کے باب الوصایا وغیرہ میں لکھا ہے کہ اہلِ ھوا کے عقائد اگر کفر کی حد تک پہنچے ہوئے نہ ہوں تو اسکا حکم تعمیرِ مسجد کی وصیت میں مسلمان جیسا ہےاور کفریہ عقائد رکھتا ہو تو وہ بمنزلہ مرتد کے ہے

(فتاویٰ مفتی محمودؒ:جلد:1:صفحہ:602تا605)