امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی اور کہاں مدفون ہوئے؟
محمد عمران علی قادری رضویامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی اور کہاں مدفون ہوئے؟
*الجواب بعون الملک الوہاب*
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر انور کے مدفن میں اختلاف ہے
مندرجہ ذیل اقوال ہیں۔
(1) مدینہ شریف میں
(2) عسقلان میں
(3) کربلا کے نزدیک کسی گاؤں میں
(4) مصر میں
(5) کربلا معلیٰ میں*
(1) علامہ قرطبی اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ یزید نے اسیران کربلا اور سرانور کو مدینہ طیبہ روانہ کیا *اور مدینہ طیبہ میں سر انور کی تجہیز و تکفین کے بعد حضرت سیدہ فاطمہ یا حضرت امام حسن رضی الله عنہما کے پہلو میں دفن کر دیا گیا*
(2) امامیہ کہتے ہیں کہ *اسیران کربلا نے چالیس روز کے بعد کربلا میں آکرجسد مبارک سے ملا کر دفن کیا*
(3) بعض کہتے ہیں کہ یزید نے حکم دیا کہ حسین کے سر کو شہروں میں پھراؤ
*پھرانے والے جب عسقلان پہونچے تو وہاں کے امیر نے ان سے لے کر دفن کر دیا*
(4) جب عسقلان پر فرنگیوں کا غلبہ ہوا تو طلائع بن زریک جس کو صالح کہتے ہیں *نائب مصر نے تیس ہزار دینار دے کر فرنگیوں سے سر انور لینے کی اجازت حاصل کی اور ننگے پیر وہاں سے مع سپاہ و خدام کے مؤرخہ آٹھ (8) جمادی الآخر 548 ھجری بروز اتوار مصر لایا اس وقت بھی سر انور کا خون تازہ تھا اور اس سے مشک کی سی خوشبو آتی تھی پھر اس نے سبز حریر کی تھیلی میں آبنوس کی کرسی پر رکھ کر اس کے ہم وزن مشک و عنبر اور خوشبو اس کے نیچے اور ارد گرد رکھوا کر اس پر مشہد حسینی بنوایا* چنانچہ قریب خان خلیلی کے مشہد حسینی مشہور ہے شیخ شہاب الدین بن اطلبی حنفی فرماتے ہیں کہ میں نے مشہد میں سر مبارک کی زیارت کی مگر میں اس میں متردد اور متوقف تھا کہ سر مبارک اس مقام پر ہے یا نہیں؟
*اچانک مجھ کو نیند آگئی میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص بصورت نقیب سر مبارک کے پاس سے نکلا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حجرہ نبویہ میں گیا اور جاکر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم احمد بن حلبی اور عبد الوہاب نے آپ کے بیٹے حسین کے سر مبارک کے مدفن کی زیارت کی ہے آپ نے فرمایا
اللھم تقبل منھما واغفرلھما
یعنی اے اللہ ان دونوں کی زیارت کو قبول فرما اور ان دونوں کو بخش دے۔
شیخ شہاب الدین فرماتے ہیں کہ اس دن سے میرا یقین ہو گیا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک یہیں ہے پھر میں نے مرتے دم تک سر مکرم کی زیارت نہیں چھوڑی
(5) شیخ عبد الفتاح بن ابی بکر بن احمد شافعی خلوتی اپنے رسالہ نورالعین میں فرماتے ہیں کہ نجم الدین غبطی نے شیخ الاسلام شمس الدین حقانی سے جو اپنے وقت کے شیخ الشیوخ مالکیہ سے نقل فرمایا کہ *وہ ہمیشہ مشہد مبارک میں سر انور کی زیارت کو حاِضر ہوتے اور فرماتے کہ حضرت امام کا سر انور اسی مقام پر ہے*
(6) حضرت شیخ خلیل ابی الحسن تماری رحمۃ اللہ علیہ *سر انور کی زیارت کو تشریف لایا کرتے تھے جب سر مبارک کے پاس آئے تو کہتے السلام عليكم يا ابن رسول اللہ اور جواب سنتے وعلیک السلام یا ابا الحسن* ایک دن سلام کا جواب نہ پایا حیران ہو ئے اور زیارت کر کے واپس آگئے دوسرے روز پھر حاضر ہو کر سلام کیا تو جواب پایا عرض کی یا سیدی کل جواب سے مشرف نہ ہوا کیا وجہ تھی فرمایا اے ابو الحسن کل اس وقت میں اپنے جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھا اور باتوں میں مشغول تھا
(7) *امام عبد الوہاب شعرانی فرماتے، ہیں کہ اکابر صوفی اہل کشف اسی کے قائل ہیں کہ حضرت امام کا سر انور اسی مقام پر ہے*
(8)خیال رہے کہ حضرت شفیع اکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ *سر انور مصر میں دفن ہے*
اس قول کو چار خواب بیان کر کے اس کو قوت دی پھر تحریر فرماتے ہیں کہ سر انور کے متعلق مختلف روایات ہیں اور مختلف مقامات پر مشاہد بنے ہوئے ہیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان روایات اور مشاہدہ کا تعلق چند سروں سے ہو کیونکہ یزید کے پاس سب شہدائے اہل بیت کے سر بھیجے گئے تھے تو کوئی سر کہیں اور کوئی سر کہیں دفن ہوا ہو اور نسبت حسن عقیدت کی بنا پر یا کسی اور وجہ سے صرف امام حسین کی طرف کردی گئی ہو۔
(بحوالہ شام کربلا مصنف علامہ شفیع اکاڑوی رحمت اللہ علیہ ص 259 و 260 )
(9) حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین رحمت اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سیدالشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر انور کہاں دفن کیا گیا اس میں اختلاف ہے
*مشہور یہ ہے کہ اسیران کربلاکے ساتھ یزید نے آپ کے سر مبارک کو مدینہ منورہ روانہ کیا جو سیدہ حضرت فاطمه زہراء یاحضرت امام حسن مجتبی کے پہلو میں دفن کیا گیا*
(خطبات محرم 440)
(12) مفتی اعظم ہالینڈ و امین شریعت حضرت علامہ مفتی عبد الواجد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ *حضور امام الشہداء نواسہ رسول ابن بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا مزار شریف کربلا معلی میں ہے جو نجف اشرف سے اسی کلو میٹر کی دوری پر ہے امام حسین کے آستانہ مبارک کی چہار دیواری ہے* جس کا غالب رنگ سبز و نیلا ہے اس آستانہ کے اندر سیدنا علی اصغر سیدنا حبیب و مظایر رضی اللہ عنیم کے مزارات مقدسہ بھی ہیں جو نقرئی قفسوں میں مغلف ہیں ایک سرخ پتھر بھی ہے جو گویا امام حسین کے خون سے رنگین ہے حضرت نے اپنی کتاب میں مزار شریف کا نقشہ بھی لیا ہے اور زیادت بھی کی ہے۔
( کتاب کائنات آرزو ص 315 مصنف مفتی عبد الماجد صاحب رحمۃ اللہ علیہ )
(12) سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے شجرہ طیبہ میں ہے کہ *حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ 10 محرم الحرام 61 ھجری میں کربلا میں شہید ہوئے مزار پاک کربلا معلی میں ہے*
نوٹ- چونکہ یہ سلسلۂ قادریہ کے مشائخ کا قول ہے اس لئے یہ سب سے زیادہ صحیح قول ہے
امام حسین کا جنازہ کس نے پڑھایا؟
اس کے متعلق کوئی مستند قول موجود نہیں ہے، ہاں ایک واقعہ سے اس کا جواب لیا جا سکتا ہے
اس کے متعلق علامہ ابن حجر ہتیمی مکی روایت فرماتے ہیں کہ سلیمان بن عبد الملک نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب، میں دیکھا کہ آپ اس کے ساتھ ملاطفت فرمارہے ہیں اور اس کو بشارت دے رہے ہیں صبح اس نے حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ سے اس کی تعبیر پوچھی انہوں، نے فرمایا شاید تو نے حضرت رسول پاک صلی الله عليه وسلم کی آل کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہے۔
*قال نعم وجدت راس الحسین فی خزانۃ ہزید فکسوتہ خمسۃ اثواب وصلیت علیہ مع جماعۃ اصحابی و قبرتہ فقال لہ الحسن ھو ذلک سبب رضاہ صلی الله عليه وسلم*
یعنی اس نے کہا ہاں! *میں نے حسین کے سر مبارک کو خزانہ یزید میں دیکھا تو میں نے ان کو پانچ کپڑوں کا کفن پہنایا اور میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان پر نماز جنازہ پڑھی اور انہیں قبر میں دفن کر دیا تو حسن بصری نے اس سے فرمایا یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجھ سے اظہار رضا مندی فرمایا ہے یعنی یہی تیرا کام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا مندی کا سبب ہوا ہے*
(الصواعق المحرقہ ص، 196)
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ سلیمان عبد الملک نے جنازہ کی نماز اپنے دوستوں کے ساتھ پڑھائی اسی نیک عمل کی وجہ سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے خوش ہوئے اور یہی عمل امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نانا جان کی رضا کا سبب بنا
نوٹ. آج بھی جو بھی اہل بیت سےمحبت رکھے گا اس سے رسول پاک صلی الله عليه وسلم کی رضا حاصل ہوگی امام، حاکم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر اولاد اپنے عصبہ کی طرف منسوب، ہوتی ہے سوائے فاطمہ کے دونوں شہزادوں کے کہ میں ان دونوں کا ولی ہوں اور عصبہ ہوں
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا *میری شفاعت میری امت کے ان افراد کے لئے ہے جو میری اہل بیت سے محبت کرے۔