Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

یزید اور حضرت علی رضی الله عنہ کا موازنہ

  محمد حذیفہ راجکوٹی

یزید اور حضرت علی رضی الله عنہ کا موازنہ

 سوال: کیا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یزید قاتلین حسین کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے میں معذور تھا، کیونکہ حضرت علی رضی الله عنہ نے بھی قاتلین عثمان سے قصاص نہیں لیا تھا، جس طرح وہ معذور تھے اسی طرح یزید بھی معذور تھا؟ 

جواب:

یہ خیال بالکل غلط ہے، حضرت علی رضی الله عنہ مجتہد بلکہ مجتہدین کے امام تھے ان کا فیصلہ اجتہادی تھا اس پر کوئی حرف گیری درست نہیں چاہے ہمیں اس کے دلائل معلوم نہ ہوں، پھر وہ صحابی تھے ان سے حسن ظن واجب ہے، یزید مجتہد تھا نہ صحابی، اسے نقد و نظر کی کسوٹی پر رکھنا پڑے گا جیسا کہ محدثین نے صحابہ کے سوا سب کو پرکھا ہے کسی تابعی کی بھی رعایت نہیں کی، یہ فرق مراتب اصولی بات تھی اور سلیم طبائع کیلئے اتنا فرق جان لینا کافی ہے، لیکن اگر حضرت علی رضی الله عنہ اور یزید دونوں کو برابر رکھ کر دیکھا جائے تب بھی صورت مسئلہ میں فرق واضح ہے مثلاَََ:

1) حضرت عثمان رضی الله عنہ کا قتل حضرت علی رضی الله عنہ کے اہلکاروں نے نہیں کیا، حضرت حسین رضی الله عنہ کا قتل یزید کے اہلکاروں نے یعنی یزید کے گورنر کے حکم سے اس کے سپاہیوں نے کیا تھا۔

2) حضرت علی رضی الله عنہ یقیناََ حضرت عثمان رضی الله عنہ کے خون سے بری ہیں، انہوں نے عملاََ بھی حضرت عثمان رضی الله عنہ کو بچانے کی کوشش کی، اپنی اولاد کو پہرے کیلئے بھیجا جو دفاع کرتے ہوئے زخمی ہوئے، پھر قتل عثمان میں شرکت سے برأت کی قسم کھائی اس لئے ان کی برأت یقینی ہے۔
یزید کا قتل حسین سے بری ہونا ایک امکانی بات ہے، حسن ظن کے دائرے کو وسیع کیا جائے تو اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اس نے حسین رضی الله عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا۔

3) حضرت علی رضی الله عنہ جن لوگوں سے رعایت برت رہے تھے وہ سابقہ باغی تھے جو بیعت کرکے شرعا مامون ہوچکے تھے، مثلاََ: اشترنخعی اور محمد بن ابی بکر ان سے قصاص لینا ازروئے شرع بھی درست نہ تھا، حضرت عثمان رضی الله عنہ کے اصل قاتل یا تو موقع واردات پر قتل ہوچکے تھے جیسے سودان بن حمران یا قتیرہ، یا مبہم اور نامعلوم تھے جیسے جبلہ اور الموت الاسود یا فرار ہوکر شام و مصر چلے گئے تھے جیسے کنانہ بن بشر بالفرض اگر کوئی قاتل حضرت علی رضی الله عنہ کے ارد گرد تھا تو اس کے خلاف شرعی گواہی دستیاب نہ تھی ورنہ حضرت علی رضی الله عنہ قصاص چھوڑنے والے نہ تھے۔
جہاں تک قاتلین حسین کا تعلق ہے وہ حکومتی عہدے دار، گورنر، سپہ سالار، نائب سالار اور فوج کے سپاہی تھے اور بالکل متعین تھے ان میں سے کسی نے قتل حسین میں شرکت سے برأت بھی ظاہر نہیں کی ان میں سے کوئی اسے جرم نہیں سمجھتا تھا ابن زیاد خود کہتا تھا:

"حسین مجھے مارنے آرہے تھے، اچھا کیا کہ میں نے انہیں ماردیا"

شمر برملا کہتا تھا:

"اگر ہم حکم کی تعمیل نہ کرتے تو ہمارا حال گدھوں سے بدتر ہوجاتا"

سرِ حسین کاٹنے والا خود فخریہ اشعار پڑھتا ہوا قصر امارت پہنچا تھا

یہ شخص بڑے فخر سے حجاج بن یوسف جیسے سخت مزاج اموی حکام کو حضرت حسین رضی الله عنہ کو قتل کرنے کا واقعہ سناتا تھا مگر کبھی کسی نے اس پر ہاتھ نہیں ڈالا، اسلئے یہاں قاتلوں کی نامزدگی کا کوئی مسئلہ نہ تھا، افراد بالکل واضح تھے یعنی سب سے اوپر عبیدالله بن زیاد جس نے فوج کشی کا حکم دیا پھر عمر بن سعد جو فوج لے کر گیا پھر شمر جس نے حضرت حسین رضی الله عنہ پر حملے کی قیادت کی پھر سنان بن انس اور خولی بن یزید جنہوں نے قتل کیا اور سر اتارا، یزید کو ان سے باز پرس میں کیا مشکل تھی؟ 

4) حضرت علی رضی الله عنہ کا زمانہ افتراق کا تھا کہ خلافت سنبھالتے ہی پہلے جنگ جمل پھر جنگ صفین پھر خوارج وغیرہ سے پالا پڑا اہل شام سے سرحدوں کی حفاظت کا مسئلہ سر پر رہا ان سے آخری سال 40ھ میں جاکر صلح ہوئی اور سرحدیں مامون قرار دی گئیں ایسے میں ان کیلئے اکثر وقت حالات پرآشوب ہی رہے۔
یزید کیلئے پریشانیاں ایسی نہیں تھیں، حضرت معاویہ رضی الله عنہ پورا عالم اسلام اسے ہموار کرکے دے گئے تھے، سانحہ کربلا کے بعد بھی دو سال تک عالم اسلام میں سکوت رہا کوئی ہنگامہ نہ تھا واقعہ حرہ چوتھے سال میں جاکر ہوا اس دوران یزید کیلئے کیا مشکل تھی کہ مجرموں کو اگر وہ مجرم سمجھتا تھا تو محاسبہ کرتا؟ 

(تاریخ امت مسلمہ"،جلد: 2،ص: 975،976)

مؤلف: حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب دامت برکاتہم العالیہ