فاطمہ صغری کا جھوٹا قصہ
عبد مصطفیفاطمہ صغری کا جھوٹا قصہ
(سلسلہ "کربلا سے متعلق کچھ جھوٹے واقعات" سے منسلک)
واقعۂ کربلا کو لکھنے اور بیان کرنے والوں میں سے بیشتر نے بغیر تحقیق کیے محض ناقلانہ رویہ اختیار کیا ہے اور کچھ نے تو گرے پڑے قصے کہانیوں کو بھی نہیں چھوڑا اور واقعۂ کربلا کے ساتھ جوڑ دیا۔ حضرت فاطمہ صغری کی طرف منسوب قصہ بھی انھی میں سے ایک ہے۔
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی حضرت فاطمہ صغری کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ جب امام حسین مدینہ سے روانہ ہوئے تو اپنی بیٹی کو یعنی حضرت فاطمہ صغری کو اکیلا چھوڑ دیا اور مکۂ مکرمہ پھر وہاں سے کربلا تشریف لے گئے۔ اِدھر حضرت فاطمہ صغری مدینے میں اکیلی، بیماری میں مبتلا تھیں اور اپنے بابا کے انتظار میں روتی رہتی تھیں۔ پھر اس قصے کو دردناک بنانے کے لیے کچھ لکھنے والوں نے کافی محنت کی اور اس انداز سے لکھا کہ پڑھنے اور سننے والا اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے۔
خاک کربلا اور شہید ابن شہید نامی کتاب میں یہ واقعہ جس ڈھنگ سے لکھا گیا ہے، اگر اسے جوں کا توں محافل میں بیان کر دیا جائے تو لوگ بنا ماتم کیے نہیں اٹھیں گے اور اگر کسی مقرر نے تھوڑا سا اور نمک مرچ لگا کر بیان کیا تو اندیشہ ہے کہ لوگ اپنے کپڑے چاک کر لیں۔ ان کتابوں میں صرف ایک یہی واقعہ نہیں بلکہ دوسرے واقعات کو بھی اس انداز میں لکھا گیا ہے کہ جسے پڑھ کر لوگ خوب روئیں۔ اس طرح کی کتابوں اور ان کے لکھنے والوں پر ہم دوسرے مضامین میں تفصیل سے کلام کریں گے، اب آئیے دیکھتے ہیں کہ حضرت فاطمہ صغری کے اس قصے کی حقیقت کیا ہے؟
واقعۂ کربلا پر لکھی جانے والی مشہور کتب میں سے ایک "شہادت نواسۂ سید الابرار" ہے۔ صاحب کتاب، حضرت علامہ عبد السلام قادری نے اس میں ایک عنوان لکھا ہے "واقعۂ سیدہ فاطمہ صغری بنت حسین تحقیق کی کسوٹی پر" اور اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ امام حسین کی دو شہزادیوں میں سے ایک حضرت سکینہ اور دوسری حضرت فاطمہ صغری ہیں۔ دوسری شہزادی کے متعلق جو قصہ مشہور کیا گیا ہے وہ عربی کی معتبر کتب تواریخ وغیرہ میں کہیں نہیں ہے اور اردو میں لکھی گئی معتبر کتابوں میں بھی اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اگر اس واقعے کو تحقیق کی کسوٹی پر رکھا جائے تو بالکل بے اصل ہے۔
حضرت فاطمہ صغری کی شادی امام حسن کے بیٹے حضرت حسن مثنی سے ہو چکی تھی اور امام حسین کی روانگی کے وقت آپ اپنے شوہر کے گھر میں مدینۂ طیبہ میں موجود تھیں۔
(ملخصاً و ملتقطاً: شہادت نواسۂ سید الابرار، ص357)
اس میں یہ تو صحیح ہے کہ حضرت فاطمہ صغری کا قصہ جو مشہور ہے وہ جھوٹ اور من گھڑت ہے لیکن یہ بات تحقیق کی کسوٹی پر کھری نہیں اترتی کہ حضرت فاطمہ صغری اپنے شوہر کے ساتھ مدینۂ طیبہ میں موجود تھیں۔ درست تحقیق یہ ہے کہ حضرت فاطمہ صغری میدان کربلا میں موجود تھیں اور اس پر گفتگو کرتے ہوئے شیخ الحدیث، حضرت علامہ محمد علی نقشبندی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حضرت فاطمہ صغری میدان کربلا میں موجود تھیں اور سنی و شیعہ، دونوں کی کتب سے یہ ثابت ہے۔
شیعہ مصنف ہاشم خراسانی نے لکھا ہے کہ امام حسین نے اپنی شہادت کے وقت وصیت نامہ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ صغری کو عطا فرمایا۔
(منتخب التواريخ، باب و فصل پنجم، ص243، مطبوعہ تہران)
ایک اور شیعہ محمد تقی لسان نے لکھا ہے کہ (جب اہل بیت کا قافلہ یزید کے پاس پہنچا تو) ایک شامی اٹھا اور یزید کی طرف منھ کر کے کہنے لگا: اے امیر المومنین! یہ لڑکی مجھے عنایت کر دو؛ وہ فاطمہ بنت حسین کو مانگ رہا تھا۔ جب سیدہ فاطمہ نے یہ سنا تو ان پر کپکپی طاری ہو گئی اور اپنی پھوپی سیدہ زینب کا دامن تھام لیا۔
(ناسخ التواریخ، ج3، ص141، مطبوعہ تہران جدید)
مشہور شیعہ محمد باقر مجلسی نے لکھا ہے کہ یزید کے سامنے حضرت فاطمہ صغری نے کہا کہ اے یزید! کیا رسول اللہ ﷺ کی بیٹیاں قیدی بنائی جائیں گی؟ پس (یہ سن کر) لوگ بھی رو پڑے اور گھر والے بھی رو پڑے۔
(بحار الانوار، ج11، ص250، مطبوعہ ایران قدیم)
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب مستورات اہل بیت یزید کے دربار میں آئیں تو فاطمہ بنت حسین جو سکینہ سے بڑی تھیں، نے کہا اے یزید! رسول اللہ ﷺ کی بیٹیاں قیدی؟ یزید کہنے لگا کہ اے بھتیجی میں بھی اسے پسند نہیں کرتا ہوں۔
(البدایۃ والنھایۃ، ج8، ص196، مطبوعہ بیروت)
علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں کہ پھر امام حسین کے خاندان کی عورتیں اندر آئیں اور امام کا سر ان کے سامنے تھا تو سیدہ فاطمہ اور سکینہ بنت حسین آگے بڑھنے لگیں تاکہ سر کو دیکھ سکیں۔ فاطمہ بنت حسین جو سکینہ سے بڑی تھیں، انھوں نے کہا کہ اے یزید! رسول اللہ ﷺ کی بیٹیاں قیدی؟ کہنے لگا اے بھتیجی میں بھی اسے ناپسند سمجھتا ہوں پھر ایک شامی مرد کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ فاطمہ مجھے دے دو۔
(کامل ابن اثیر، ج4، ص85، 86، مطبوعہ بیروت)
کتب اہل سنت و اہل تشیع سے ثابت ہے کہ امام حسین کی بیٹی حضرت فاطمہ صغری میدان کربلا میں موجود تھیں۔ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ان کی طرف منسوب قصہ بے اصل ہے۔ فاطمہ صغری کے قاصد اور خطوط وغیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ سب جاہل واعظین کے من گھڑت افسانے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لوگوں کو رلانے اور اپنا بازار چمکانے کے لیے ایسے قصے کہانیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔