روزہ افطار کا صحیح وقت اور شیعہ اعتراض کا جواب
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓروزہ افطار کا صحیح وقت اور شیعہ اعتراض کا جواب
(اہلِ سنت و اہلِ تشیع کی معتبر کتب کی روشنی میں)۔
شیعہ اعتراض:
شیعہ قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں:
روزه رات تک پورا کرو۔ (سورة البقرة آیت نمبر 187)۔
ان کا اعتراض یہ ہے کہ رات مکمل اندھیرا چھانے کے بعد ہوتی ہے تو پھر اہلِ سنت سورج غروب ہوتے ہی روزہ کیوں افطار کر لیتے ہیں؟ بعض شیعہ علماء کا کہنا ہے کہ سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ بھی نمازِ مغرب کے بعد روزہ افطار کرتے تھے۔
اہلِ سنت کا جواب:
بے شک قرآن میں روزہ رات تک پورا کرنے کا حکم ہے لیکن قرآن میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ رات صرف مکمل اندھیرے کے بعد شروع ہوتی ہے۔
اسلام میں دن اور رات کے اوقات سورج کے طلوع اور غروب پر موقوف ہوتے ہیں۔
جب سورج غروب ہو جائے تو دن ختم ہو جاتا ہے اور رات شروع ہو جاتی ہے چاہے مکمل اندھیرا کچھ دیر بعد ہو۔
اسی طرح سحری کا وقت بھی اندھیرے میں ہی ختم ہو جاتا ہے حالانکہ روشنی اس کے بعد آتی ہے۔
احادیث کی روشنی میں:
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
جب مشرق سے رات آ جائے مغرب کی طرف سے دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار کے افطار کا وقت ہو گیا۔ (صحیح بخاری: 1954)
رسول اللہﷺ سورج ڈوبتے ہی سیدنا بلالؓ سے فرماتے:
لاؤ ہمارا شربت سیدنا بلالؓ عرض کرتے یا رسول اللہﷺ ابھی تو دن کی روشنی باقی ہے تو نبی کریمﷺ فرماتے جب مشرق کی طرف سے رات کی تاریکی آنا شروع ہو جائے تو روزہ ختم ہو جاتا ہے نبیﷺ نے فرمایا میری امت خیر پر رہے گی جب تک روزہ جلدی افطار کرے گی۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم)۔
سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اللہ کے بندے تب تک بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ افطار میں جلدی کریں گے۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا: ہمارا دین اس بات پر ہے کہ ہم روزہ جلدی کھولیں اور یہود و نصاریٰ اسے دیر سے افطار کرتے ہیں۔ (مسند احمد، صحیح ابنِ حبان)۔
شیعہ تاخیر افطار کیوں کرتے ہیں؟
شیعہ حضرات "رات" کے مفہوم کو مکمل اندھیرے کے ساتھ جوڑتے ہیں لیکن یہ شریعت کے مطابق درست نہیں۔
قرآن کہتا ہے پھر روزہ کو رات تک پورا کرو۔ (سورة البقرة آیت 187)۔
اس کا مطلب ہے کہ جہاں رات شروع ہوتی ہے وہیں روزے کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
وضاحت:
جیسے وضو میں قرآن کا حکم ہے اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو۔ (سورة المائدة آیت 6)۔
یہاں "کہنی" ہاتھ میں شامل ہے اس لیے اسے دھونا لازم ہے اسی طرح روزہ "رات تک" رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی رات شروع ہو روزہ کھولا جائے نہ کہ مکمل اندھیرا چھا جانے کے بعد۔
عقلی دلیل:
جب فجر کا وقت شروع ہوتا ہے تو کھانے پینے پر پابندی لگ جاتی ہے حالانکہ ابھی مکمل روشنی نہیں ہوتی اسی طرح جب سورج غروب ہوتا ہے تو افطار کا وقت شروع ہو جاتا ہے چاہے مکمل اندھیرا کچھ دیر بعد ہو۔
شیعہ حضرات بھی مکمل اندھیرا ہونے تک افطار نہیں روکتے بلکہ مغرب کی نماز پڑھ کر تقریباً 20۔30 منٹ بعد افطار کرتے ہیں جو کہ قرآن و حدیث کے واضح حکم کے خلاف ہے۔
خلاصہ:
سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرنا سنت ہے۔
نبیﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کر لیتے تھے۔
روزہ تاخیر سے افطار کرنا یہود و نصاریٰ کی عادت تھی جسے اسلام نے ختم کیا۔
شریعت کا اصول واضح ہے: جب رات کا آغاز ہو جائے تو روزہ ختم کر لو اور مغرب کی نماز پڑھو۔
لہٰذا جو لوگ مکمل اندھیرے کا انتظار کرتے ہیں وہ قرآن و حدیث کے خلاف عمل کر رہے ہیں۔
اہلِ سنت کا عمل عین قرآن و حدیث کے مطابق ہے سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرنا افضل اور مستحب ہے تاخیر کرنا درست نہیں۔