حضرت سکینہ اور گھوڑا
عبد مصطفیحضرت سکینہ اور گھوڑا
(سلسلہ "کربلا سے متعلق کچھ جھوٹے واقعات" سے منسلک)
حضرت زینب کے سر سے چادر اتری ہوئی ہے، بال بکھرے ہوئے ہیں، نظر پتھرائی ہوئی ہے، آنسوؤں کے دو موٹے موٹے قطرے پلکوں پر آ کر ٹھہرے ہوئے ہیں، حضرت سکینہ بے ہوش پڑی ہیں اور اپنے سرتاج کو دیکھ دیکھ کر روتے جا رہی ہیں۔
امام حسین اپنے بیٹے زین العابدین سے گفتگو میں مصروف تھے اور اپنے پیچھے برپا ہونے والی قیامت کو نہ دیکھ سکے، اب جو دیکھا تو دل پر ہاتھ رکھ لیا۔
امام حسین آگے بڑھے اور بہن کی گری ہوئی چادر کو اٹھایا اور سر ڈھانپ دیا۔ حضرت سکینہ کو گود میں لیا، علی اکبر کے خون سے لتھڑے ہوئے سکینہ کے چہرے کو اپنے عمامے سے صاف کیا، بکھرے ہوئے بالوں کو انگلیوں سے درست کیا پھر فرمایا:
سکینہ ہوش میں آؤ، بابا کی آخری زیارت کر لو پھر ساری عمر بابا کا چہرہ دیکھنے کو ترس جاؤ گی۔ بیٹی سکینہ اٹھو جلدی کرو، آخری ملاقات کر لو، آخری بار بابا کے سینے سے لپٹ لو پھر تو ساری زندگی تمھیں بھی صغری کی طرح رو رو کر اور تڑپ تڑپ کر گزارنی ہے۔ تین دن کی پیاسی بچی تین دن کے پیاسے باپ سے گلے مل رہی ہے۔ امام حسین نے کہا کہ اے بچی! تم تھوڑی دیر بعد یتیم ہو جاؤ گی! سکینہ کہنے لگی بابا آپ نہ جائیں، میرے ابا جان نہ جائیں، آپ چلے گئے تو بابا کس کو کہوں گی!
پھر جب امام حسین گھوڑے پر سوار ہوئے اور گھوڑے کو چلانا چاہا تو وہ ہِل نہیں رہا ہے۔ آپ نے نیچے دیکھا تو سکینہ گھوڑے کے پاؤں سے لپٹی ہوئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بیٹی باپ کے دل پر چھریاں نہ چلاؤ، پھر آپ نے گھوڑے سے اتر کر بڑی مشکل سے بچی کو خیمے میں پہنچایا اور میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے۔
یہ قصہ شہید ابن شہید وغیرہ میں موجود ہے اور بیان کرنے والے جیسے چاہتے ہیں نمک مرچ لگا کر بیان کرتے ہیں۔ یہ ایک من گھڑت قصہ ہے جسے صرف رونے رلانے کے لیے گھڑا گیا ہے۔ اس میں حضرت زینب کے متعلق جو مذکور ہے کہ "سر سے چادر اتری ہوئی ہے اور ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں" کیا حضور ﷺ کے گھرانے کی ایک شہزادی کے بارے میں ایسا سوچا بھی جا سکتا ہے؟
حضرت سکینہ جو کہ شادی شدہ تھیں، ان کے بارے میں کہنا کہ امام حسین نے گود میں لیا اور وہ گھوڑے کے پاؤں سے لپٹ گئیں، یہ کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ اہل بیت نے اس طرح سے بے صبری کا مظاہرہ کیا ہو۔ یہ سب باتیں بالکل جھوٹ ہیں اور کسی معتبر کتاب میں موجود نہیں ہے۔
کچھ لوگ بجائے اپنی اصلاح کرنے کے، جو ایسے من گھڑت اور گستاخی بھرے واقعات کی حقیقت بیان کرتا ہے، اسی پر گڑ کھا کر چڑھ جاتے ہیں، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ کچھ مقررین نے تو حد کر دی ہے، کہتے ہیں ہمیں دلیل کی ضرورت نہیں بلکہ ابو جہل کو ہے!
اپنی تقریر میں چار چاند لگانے اور اپنے بازار کو چمکانے کے لیے ایسے قصوں کو خوب رو رو کر بیان کیا جاتا ہے اور لوگوں کی عقیدت اور محبت کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اہل بیت کی طرف ایسے جھوٹے قصوں کو منسوب کرنے سے بچائے اور ان کی شان کے لائق ان کی تعظیم و تکریم کرنے اور ان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔