سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے لکھے قرآنی کتبے
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓسیدنا معاویہؓ کے ہاتھ سے لکھے قرآنی کتبے
دوسرے کتبے میں کندہ الفاظ قرآن خاصے واضح ہیں اور یہ کتبہ بئیر سیدنا امیر معاویہؓ جو کہ طائف کے قریب ہے جہاں سے کہ یہ تختیاں ملی تھی (58 ہجری میں) اور اس کا نام سیدنا امیر معاویہؓ کے نام پر ہی رکھ دیا گیا اور آج بھی یہ وہاں طائف کے قریب صحیح سلامت موجود ہے بعد ازاں اس بیئر کی ملکیت بھی سیدنا امیر معاویہؓ کی طرف منسوب ہوئی جس کی وجہ سے بئیر سیدنا امیرِ معاویہؓ (Dam of Muaviya r.a) نام معروف ہوا۔
یہ تصویر 70ء کی دہائی کی تصویر ہے۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ کے ہاتھ کا لکھا قرآن:
کاتبِ وحی سیدنا امیرِ معاویہؓ بن ابی سفیانؓ کہ جن کے ہاتھ کا لکھا قرآن ہم مسلمان پڑھتے ہیں! اسلامی تاریخ میں اس سے بڑھ کر اور کیا مقام ہوگا کہ جس کو اللہ نے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (سورة الحجر: آیت، نمبر 9) کے مصداق کے طور پر پسند فرما کر چن لیا! الا ان کے کہ جو اس قرآن میں مانے ہی نا۔
زیرِ نظر تصاویر میں سیدنا امیر معاویہؓ کے ہاتھ کے لکھے کچھ کتبے دیکھے جا سکتے ہیں پہلا کتبہ جو کہ تقریباً 40 ہجری کا ہے اور اس پر کندہ الفاظ کو ساتھ لکھ کر واضح کیا گیا ہے۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ کاتبِ وحی تھے جس کا ثبوت اہلِ سنت کی کثیر کتب میں موجود ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صرف کاتب تھے خطوط وغیرہ لکھا کرتے تھے تو اُن سے گزارش ہے کہ ایک لمحے کیلئے اگر آپ کی بات مان لی جائے تو ذرا بتائیے کہ حضورﷺ کی صحبت بابرکت میں خطوط ہی لکھنا کیا باعث سعادت و شرف نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ آپ تو کتابت وحی بھی کرتے تھے۔
اس موضوع پر مواد تلاش کرنے کیلئے کئی کتب دیکھی ہیں اور بہت کچھ ملا بھی ہے پھر ایک دن حضرت علامہ قاری لقمان شاہد قادری صاحب زیدہ مجدہ کی اپنے موضوع پر نہایت عمدہ کتاب "من ھو معاویہؓ" نظر سے گزری تو اس میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کے کاتبِ وحی ہونے پر کثیر حوالہ جات موجود پائے دیکھ کر اطمینانِ قلب ملا اور خوشی ہوئی کہ اللہ رب العزت نے ہمیں ایک سے بڑھ کر ایک محقق علماء عطا فرمائے ہیں سوچا مزید تلاش کی بجائے کیوں نہ یہی پورا مضمون من و عن لکھ دوں اور پھر جو تھوڑا بہت مواد خود اکٹھا کیا ہے اسے بھی (وضاحت) کے ساتھ مِلا دوں تاکہ قاری کو اچھا خاصہ مواد ایک جگہ مل سکے ورنہ نہ ماننے والے کے لئے تو دفتر بھی کم ہیں اور ماننے والے کے لئے ایک سطر ہی کافی ہے۔
محترم علامہ لقمان شاہد صاحب لکھتے ہیں:
سیدنا امیر معاویہؓ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد (ایک روایت کے مطابق) آپ کے والد گرامی نے حضور سید عالمﷺ کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی تھی: یانبیﷺ میرے بیٹے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اپنا کاتب بنا لیجیے تو حضورﷺ نے ان کی عرضی قبول فرمالی۔
(انظر: صحیح مسلم باب من فضائل ابی سفیانؓ: جلد، 4 صفحہ، 1945 رقم، 2501 صحیح ابنِ حبان ذکر ابی سفیانؓ: جلد، 16 صفحہ، 189 رقم، 7209 وغیرہ)
اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اپنا کاتب مقرر فرما دیا اور آپﷺ اس خدمت کے لیے بارگاہِ اقدس میں رہنے لگے۔جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں:
ان معاویةؓ کان یکتب بین یدی النبیﷺ
سیدنا امیرِ معاویہؓ حضورﷺ کی بارگاہ میں کتابت کا فریضہ سر انجام دیتے تھے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی مسند عبداللہ بن عمروؓ: جلد، 13 صفحہ، 554 رقم، 14446)
حافظ نور الدین ہیثمی (متوفی807ھ) کہتے ہیں: اس حدیث کی سند حسن ہے۔
(مجمع الزوائد و منبع الفوائد باب ماجاء فی معاویةؓ:جلد، 9 صفحہ، 357 رقم، 15924)۔
اسی دوران نبی کریمﷺ آپؓ کی تربیت بھی فرمایا کرتے جیسا کہ آپؓ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں لکھ رہا تھا تو حضورﷺ نے فرمایا:
یا معاویةؓ! الق الدواة حرف القلم وانصب الباء و فرق السین ولا تعور المیم وحسن اللہ و مد الرحمٰن وجود الرحیم۔
اے سیدنا امیرِ معاویہؓ! دوات کی سیاہی درست رکھو قلم کو ٹیڑھا کرو (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی) "ب" کھڑی لکھو "س" کے دندانے جدا رکھو "م" کے دائرے کو اندھا نہ کرو (کھلا رکھو) لفظ "اللہ" خوب صورت لکھو لفظ "رحمن" کو دراز کرو اور لفظ "رحیم" عمدگی سے لکھو۔
(فضائل القرآن للمستغفری باب ماجاء فی فضل بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: جلد، 1 صفحہ، 436 رقم، 556 الفردوس بماثور الخطاب باب الیا: جلد، 5 صفحہ، 394 رقم، 853 آداب الاملاء والستملاء البحر والکاغذ: صفحہ، 170نھایة الادب فی فنون الادب ومن معجزاتہ عصمتہ اللہ تعالیٰ لہ من الناس: جلد، 18 صفحہ، 346 المدخل لابن الحاج فصل فی نیة الناسخ و کیفتیھا: جلد، 4 صفحہ، 84 العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ رسالہ خالص الاعتقاد: جلد، 29 صفحہ، 459 وغیرہ)
پھر ایک وقت آیا کہ عام کتابت کے علاوہ نبی مکرمﷺ نے آپ کی کتابت وحی کی بھی ذمہ داری لگادی تو اس طرح دیگر کُتّابِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ آپ بھی یہ فریضہ سر انجام دینے لگے۔
آپ کی اسی ذمہ داری کی بابت سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بن عبدالمطلب رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین فرماتے ہیں:
وکان یکتب الوحی۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ وحی لکھا کرتے تھے۔
سیدنا ابنِ عباسؓ کا یہ فرمان امام بیہقیؒ (متوفی 458ھ) نے نقل کیا ہے اور اس کے بارے میں امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:
قد صح ابنِ عباسؓ (یعنی سیدنا ابنِ عباسؓ نے صحیح کہا اصمعی)۔
(انظر: دلائل النبوۃ و معرفة احوال صاحب الشریعہ باب ماجاء فی دعائهﷺ علی من اکل بشمال جلد 6 صفحہ 243 تاریخ اسلام حرف المیم معاویہؓ بن ابی سفیان جلد 4 صفحہ 309)۔
جلیل المرتبت علماء کہتے ہیں:
1. حافظ ابوبکر محمد بن حسین آجری متوفی 360ھ فرماتے ہیں:
معاویةؓ رحمہ اللہ کاتب رسول اللہﷺ علی وحی اللہ عزوجل وھو القرآن بامر اللہ عزوجل
رسول کریمﷺ کے کاتب سیدنا امیرِ معاویہؓ پر اللہ رحم فرمائے آپ اللہ کے حکم سے وحی اِلہٰی قرآنِ پاک لکھا کرتے تھے۔
(الشریعۃ کتاب فضائل معاویةؓ: جلد، 5)
2. حافظ الکبیر امام ابوبکر احمد بن حسین خراسانی بیہقی متوفی 458ھ فرماتے ہیں:
وکان یکتب الوحی
“سیدنا امیرِ معاویہؓ کاتبِ وحی تھے۔
(دلائل النبوۃ ومعرفة احوال صاحب الشریعۃ باب ماجاء فی دعائهﷺ: جلد، 6 صفحہ، 243)
3. امام شمس الائمہ ابوبکر محمد بن احمد سرخسی حنفی متوفی 483ھ فرماتے ہیں:
وکان یکتب الوحی
(المبسوط کتاب الاکراہ: جلد، 24 صفحہ، 47)
4. امام قاضی ابوالحسین محمد بن محمد حنبلی (ابنِ ابی یعلی) متوفی 526ھ فرماتے ہیں:
(معاویةؓ)کاتب وحی رب العالمین
سیدنا امیرِ معاویہؓ تمام جہانوں کے رب کی وحی کے کاتب تھے۔
(الاعتقاد الاعتقاد فی الصحابةؓ: صفحہ، 43)
5. امام حافظ ابو القاسم اسماعیل بن محمد قرشی طلیحی (قوام السنتہ) (متوفی 535ھ) لکھتے ہیں:
معاویةؓ کاتب الوحی
(الحجة فی بیان المحجة و شرح عقیدة اھل السنة: جلد، 2 صفحہ، 570 رقم، 566)
6. علامہ ابوالحسن علی بن بسام الشنترینی اندلسی۔ (متوفی542)فرماتے ہیں:
معاویةؓ بن ابی سفیان کاتب الوحی۔
(الذخیرة فی محاسن اھل الجزیرة: جلد، 1صفحہ، 110)
7. حافظ ابو عبدالله حسین بن ابراہیم جوزقانی (متوفی543ھ) فرماتے ہیں:
(معاویةؓ) کاتب الوحی۔
(الاباطیل و المناکیر و الصحاح والمشاھیر باب فی فضائل طلحةؓ و الزبیرؓ و معاویةؓ: صفحہ، 116 رقم، 191)
8. علامہ ابوالفتوح محمد بن محمد طائی ہمدانی (ابوالفتوح الطائی) متوفی555ھ لکھتے ہیں:
(معاویةؓ)کاتب وحی رسول رب العالمین و معدن الحلم و الحکم
سیدنا امیرِ معاویہؓ رسول رب العالمینﷺ کے کاتبِ وحی حلم و دانائی کی کان تھے۔
(کتاب الاربعین فی ارشاد السائرین الی منازل المتقین او الاربعین الطائیة الحدیث التاسع و العشرون: صفحہ، 174)
9. امام حافظ ابوالقاسم علی بن حسن بن ہبتہ اللہ شافعی (ابنِ عساکر) (متوفی571) لکھتے ہیں:
(معاویةؓ) خال المؤمنین و کاتب وحی
(تاریخِ دمشق الکبیر ذکر من اسمہ معاویةؓ معاویة بن صخر: جلد، 59 رقم، 7510)
10. امام حافظ جمال الدین ابوالفرج عبدالرحمٰن بن علی الجوزی (متوفی597ھ)
نے "کشف المشکل" میں رسولﷺ کے 12 کاتبوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سیدنا امیرِ معاویہؓ بھی ہیں۔
(انظر: کشف المشکل من حدیث الصحیحن کشف المشکل من مسند زید بن ثابت: جلد، 2 صفحہ، 96)
11. ابوجعفر محمد بن علی بن محمد ابن طباطبا علوی (ابن الطقطقی) (متوفی709ھ) نے لکھا ہے:
و اسلم معاویةؓ و کتب الوحی فی جملة من کتبہ بین یدی الرسولﷺ۔
(الفخری فی الآداب السلطانیہ و الدول الاسلامیہ ذکر شیء سیرة معاویةؓ و وصف طرف من حاله: صفحہ، 109)
12. حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر قرشی الدمشقی شافعی (متوفی772ھ) لکھتے ہیں:
ثم کان ممن یکتب الوحی بین یدی رسول اللہﷺ۔
(جامع المسانید و السنن الھادی لاقوم سنن معاویةؓ بن ابوسفیانؓ: جلد، 8 صفحہ، 31 رقم، 1760)
13. حافظ ابراہیم بن موسیٰ مالکی (شاطبی) (متوفی790ھ)
نے بھی رسول اللہﷺ کے کتابِ وحی میں سیدنا عثمانؓ سیدنا علیؓ سیدنا امیرِ معاویہؓ سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ سیدنا ابی بن کعبؓ سیدنا زید بن ثابتؓ وغیرہم کا ذکر کیا ہے:
(انظر: الاعتصام: صفحہ، 239)
14. اسی طرح حافظ ابوالحسن نور الدین علی بن ابوبکر نن سلیمان ہیثمی (متوفی 807ھ)
نے بھی رسول پاکﷺ کے کُتّابِ وحی کے بارے میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کا تذکرہ کیا ہے۔
(انظر: مجمع الزوائد و منبع الفوائد باب فی کتاب الوحی جلد، 1 صفحہ، 153 رقم، 686)
15. علامہ تقی الدین ابو العباس احمد بن علی حسینی مقریزی (متوفی845)فرماتے ہیں:
وکان یکتب الوحی۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ کاتب وحی تھے۔
(امتاع الاسماع بما لنبی من الاحوال و الاموال و الحفدة والمتاع و اما اجابة اللہ دعوة الرسولﷺ جلد، 12 صفحہ، 113)
16. امام حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی (متوفی852ھ) لکھتے ہیں:
معاویةؓ ابنِ ابی سفیانؓ الخلیفة صحابی اسلم قبل الفتح وکتب الوحی
سیدنا امیرِ معاویہؓ فتح مکہ سے پہلے اِسلام لائے آپ خلیفتہ المسلمین صحابی اور کاتب وحی ہیں۔
(تقریب التہذیب حرف المیم صفحہ، 470 رقم 6758)
17. امام حافظ بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد عینی حنفی (متوفی855) لکھتے ہیں:
معاویةؓ بن ابی سفیان صخر بن حرب الاموی کاتب الوحی۔
(عمدة القاری شرح صحیح البخاری کتاب العلم باب من یرداللہ به خیرا یفقھه فی الدین: جلد، 2 صفحہ، 73، رقم 71)
18. علامہ شہاب الدین ابوالعباس احمد بن محمد قسطلانی مصری شافعی (متوفی 923ھ) لکھتے ہیں:
وھو مشھور بکتابة الوحی
سیدنا امیرِ معاویہؓ مشہور کاتب وحی ہیں
(المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ الفصل السادس فی امرائه و رسله و کتابه: جلد، 1 صفحہ، 533)
علامہ قسطلانی نے "ارشاد الساری" میں بھی لکھا ہے کہ
(معاویةؓ) بن ابی سفیان صخر بن حرب کاتب الوحی لرسول اللہﷺ ذا المناقب الجمعة۔
(انظر: ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری کتاب العلم باب من یرد اللہ به خیرا یفقھه فی الدین: جلد، 1 صفحہ، 170 رقم، 71)
19. امام حافظ شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد (ابنِ حجر) ہیثمی مکی شافعی (متوفی 974ھ) لکھتے ہیں:
معاویة بن ابی سفیانؓ اخی ام حبیبةؓ زوجة رسول اللہﷺ کاتب الوحی
سیدنا امیر معاویہؓ بن ابوسفیان سیدہ ام حبیبہ زوجہ رسول اللہﷺ کے بھائی اور کاتب وحی ہیں۔
(الصواعق المحرقة فی الرد علی اھل البدع و الزندقة خاتمہ فی امور مھمة: صفحہ، 355)
20. علامہ عبدالملک بن حسین بن عبد الملک عصامی مکی (متوفی1111ھ )نے لکھا ہے:
(معاویةؓ و کان یکتب الوحی سمط النجوم العوالی فی انباء الاوائل و التوالی ذکر مناقبه: جلد، 3 صفحہ، 155)
21. علامہ اسماعیل بن مصطفی حقی حنفی (متوفی1127ھ) لکھتے ہیں:
(معاویةؓ) کاتب الوحی
(تفسیر روح البیان، جز، 1 تحت سورة البقرة: آیت، 90 جلد، 1 صفحہ، 180)
22. اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنت مجدد دین وملت شیخ الاسلام حافظ احمد رضا بن مفتی نقی علی خاں ہندی حنفی قدس سرہ (متوفی 1340ھ) فرماتے ہیں:
حضور اقدسﷺ پر قرآنِ عظیم کی عبارتِ کریمہ نازل ہوتی عبارت میں اعراب نہیں لگائے جاتے(تھے) حضورﷺ کے حکم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مثل: امیرالمؤمنین عثمانِ غنیؓ وحضرت زید بن ثابتؓ و امیر معاویہؓ وغیرہم رضی اللہ عنہم اسے لکھتے ان کی تحریر میں بھی اعراب نہ تھے یہ تابعین کے زمانے سے رائج ہوئے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
(العطایة النبویة فی الفتاوی الرضویة: جلد، 26 صفحہ، 492 اور 493)
23. شارح بخاری علامہ سید محمود احمد بن سید ابو البرکات احمد بن سید دیدار علی شاہ محدث الوری حنفی (متوفی1419ھ) فرماتے ہیں:
ایمان لانے کے بعد سیدنا امیرِ معاویہؓ خدمتِ نبویﷺ سے جدا نہ ہوئے ہمہ وقت پاس رہتے اور وحی الہٰی کی کتابت کرتے۔
(شانِ صحابہ امیرِ معاویہؓ کے دل میں رسول اللہﷺ کا احترام: صفحہ، 32)
24. حافظ الحدیث علامہ جلال الدین سیوطی شافعی متوفی 911ھ نے لکھا ہے:
آپ (سیدنا معاویہؓ) رسول اللہﷺ کے کاتبین وحی میں سے ایک ہیں۔
(تاریخ الخلفاء مترجم: صفحہ، 352)
25. صاحبِ مشکوة شریف امام ولی الدین بن عبداللہ محمد بن عبداللہ خطیب البغدادیؒ لکھتے ہیں:
آپؓ حضور انورِﷺ کے کاتبِ وحی تھے۔
(اکمال مترجم: صفحہ،81 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)
26. امام المتکلمین علامہ عبدالعزیز پرہاروی متوفی 1239ھ (مولفِ النبراس) لکھتے ہیں:
سیدنا امیرِ معاویہؓ اور سیدنا زیدؓ کو کتابتِ وحی کے لیے خاص کیا گیا تھا یعنی دوسروں کی نسبت یہ کل وقتی کاتب تھے۔
(الناہیہ عن مطاعن امیرِ معاویہؓ مترجم: صفحہ، 33 مکتبہ غوثیہ کراچی)
27. حضرت تاج الفحول محب رسول مولانا شاہ عبد القادر قادری بدایونیؒ متوفی 1319ھ "شرح مواہب" کے حوالے سے لکھتے ہیں:
سیدنا امیرِ معاویہؓ بن ابی سفیانؓ بن صخر بن حرب بن امیہ الاموی ابو عبدالرحمٰن الخلیفہ صحابی تھے فتح مکہ والے سال مسلمان ہوئے کاتب وحی بھی رہے۔
اختلاف علیؓ و معاویہؓ مترجم: صفحہ، 29 مطبوعہ دار الاِسلام لاہور)
28. حکیم الاُمت مفتی احمد یار خان نعیمیؒ لکھتے ہیں:
سیدنا امیرِ معاویہؓ نبی کریمﷺ کے کاتب وحی بھی اور کاتب خطوط بھی تھے۔
(سیدنا امیرِ معاویہؓ پر ایک نظر: صفحہ، 42 نعیمی کتب خانہ لاہور)
29. مصنف کتب کثیرہ شیخ الحدیث والتفسیر مفتی فیض احمد اویسیؒ لکھتے ہیں:
سیدنا امیرِ معاویہؓ حضورﷺجلدی آؤ کےعظیم القدر صحابی اور رشتہ میں سالے اور قریبی رشتہ دار ہیں بلکہ آپ نبی پاکﷺ کے کاتبِ وحی ہیں۔
(سیدنا امیرِ معاویہؓ پر اعتراضات کے جوابات: صفحہ، 6 ایرانی کتب خانہ بہاولپور)
30. محقق اہلِ سنت مصنف کتبِ درسِ نظامی شیخ الحدیث قاضی عبدالرزاق بھترالوی زیدہ مجدہ لکھتے ہیں:
کوئی کہے کہ وہ(سیدنا امیرِ معاویہؓ) کاتب وحی نہ تھے تو اُس کی بات مانوں یا اکابر کی بات مانوں۔
(پھر آگے آپ نے کاتب وحی ہونے پر اکابر کی کتب سے حوالے بھی دئیے ہیں)
(نجوم التحقیق: صفحہ، 110 مکتبہ امام احمد رضا روالپنڈی)
31. شیخ الحدیث و التفسیر علامہ محمد عبدالرشید جھنگویؒ سے سوال ہوا کہ:
سوال: سیدنا امیرِ معاویہؓ کو امینِ اسرار نبوت کاتب الوحی خال المؤمنین اور رضی اللہ عنہ کہنا جائز ہے یا نہیں؟۔
الجواب: جائز ہے۔
(آگے آپ نے پھر اس کے جواز پر دلائل بھی دئے ہیں بلکہ آپ نے کتب شیعہ سے آپکا کاتب الوحی ہونا بھی ثابت کیا ہے)۔
(انظر: دفاعِ سیدنا امیرِ معاویہؓ: صفحہ، 66)
سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں کیے گئے چند سوالات کے جوابات ،مطبوعہ دارالاِسلام لاہور)۔
قارئین محترم جیسا کہ آپ نے پڑھا کثیر محدثین مورخین جید علماء کی کتب اس بات ہر شاہد ہیں کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کاتبِ وحی تھے اب اگر کوئی کہے کہ کاتبِ وحی ہونا کوئی فضیلت کی بات نہیں فلاں فلاں بعد میں مرتد ہوگیا تھا اُسے وحی کی کتابت کام نہ آئی تو اس سے کہا جائے گا کہ آپ سیدنا امیرِ معاویہؓ کو فلاں فلاں کے ساتھ کیوں ملا رہے ہیں وہ مرتد ہوگئے تھے آپ تو آخری دم تک مسلمان رہے ہیں صحابی رسول کے منصب پر فائز رہے ہیں آپؓ سے کوئی بھی ایسا فعل سر انجام نہیں ہوا جس سے ارتداد ثابت ہوتا ہو لہٰذا بغیر فرق کیے ایسی مثال دینا حماقت اور جہالت ہے۔
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ آپؓ فتح مکہ پر مسلمان ہوئے یا کچھ پہلے تو اتنا عرصہ میں کتنی وحی لکھی ہو گی تو کہا جائے گا کہ چاہے وحی الہٰی کا ایک لفظ بھی کیوں نہ لکھا ہو آپ کے فضیلت کے لیے کافی ہے عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ۔