سیدنا حسینؓ نے پہلے مدینہ اور پھر مکہ کیوں چھوڑا؟
محمد شعیب الحنفیسیدنا حسینؓ نے پہلے مدینہ اور پھر مکہ کیوں چھوڑا
بســـم الــلـــــہ الـــرحـمـــن الــرحـیـــــم
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاۃ برادران اہل سنت والجماعت
میں نے اپنی گزشتہ پوسٹ میں سوال کیا تھا کہ سیدنا حسینؓ نے پہلے مدینہ اور پھر مکہ کیوں چھوڑا آخر کیا چیز تھی جو انھیں ان دو مقدس شہروں کو چھوڑنا پڑا اس بارے ایک روایت المعجم المعجم الکبیر میں اور کتاب المعرفتہ والتاریخ للفسویؒ وغیرہ میں صحیح السند کے ساتھ موجود ہیں۔
حامیان یزید اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ کو اہل کوفہ نے خطوط لکھ کر بلوایا تھا جس وجہ سے آپ کو مکہ چھوڑ کر جانا پڑا۔
ان حامیان یزید کو کہتا ہوں کہ یہ صرف ایک وجہ نہ تھی بلکہ آپؓ کا مدینہ اور پھر مکہ کو چھوڑنا اس وجہ سے تھا کہ آپؓ یہ بات جانتے تھے کہ آپؓ نے شہید ہونا ہے کیونکہ اس کی پیشگوئی نبی کریمﷺ نے کی تھی اور آپ کیونکہ یزید کے ساتھ رہ چکے تھے اور جانتے تھے کہ یزید اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے مکہ اور مدینہ پہ بھی حملے سے دریخ نہیں کرے گا اس لئے آپؓ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کی وجہ سے مکہ مدینہ کی حرمت پامال ہو۔
یہ سیدنا حسینؓ کی کمال کی فراست تھی جو بعد میں بہ حرف سچی ثابت ہوئی اسی یزید نے پہلے مدینہ منورہ اور پھر مکہ مکرمہ پہ حملہ کروا کر ان مقدس شہروں کی حرمت کوپامال کیا اور نبی کریمﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کی جو کہ یزید کے فسق کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے
ساٹھ ہجری دس ذی الحجہ سیدنا حسین ابن علی حجاز مقدس کو چھوڑ کر عراق کی جانب روانہ ہوئے اس سے قبل آپ کا آپ کے چچا سیدنا ابن عباس سے مکالمہ
#روایت_کی_سند
الامام طبرانیؒ ثقہ ثبت امام
علی بن عبدالعزیز بن المرزبان بن سابور بن شاھان شاہ ثقہ
اسحاق بن ابراہیم کامجرا ثقہ
سفیان بن سعید ثوری ثقہ حجۃ الامام
ابراہیم بن مسیرہ ثبت حافظ
طاوس بن کیسان ثقہ امام فاضل
اس طرح روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
#روایت_کامتن
سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حسینؓ نے مجھ سے مکہ سے روانگی کی اجازت طلب کی تو میں نے کہا اگر یہ میرے اور تیرے لئے تیرے لئے رسوائی کا باعث نہ ہوتا تو میں آپ کے سر کے بالوں کو پکڑ لیتا
تو سیدنا امام حسینؓ نے فرمایا مجھے دور دراز کسی جگہ شہید ہونا زیادہ پسند ہے اس چیز سے کہ میری وجہ سے اللہ اوراس کے رسولﷺ کے حرم کو حلال سمجھا جائے سیدنا ابن عباسؓ نے فرمایا اسی وجہ سے میں نے اپنے آپ کو (سیدنا حسینؓ )سے دور کرلیا۔
۔یہی روایت تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ کتاب المعرفۃ والتاریخ للفسویؒ میں بھی موجود ہے جس کا متن درج ہے
#روایت_کامتن
•طاؤوس بن کیسان رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کو کہتے سنا:
"حسین ابن علی (رضی اللہ عنہ) نے مجھ سے کوفہ روانگی کی اجازت مانگی، تو میں نے کہا: "اگر آپ اور میری شان کے خلاف نہ ہوتا تو میں آپ کو سر کے بالوں سے پکڑ کر روک لیتا(آپ کا چچا ہونے کے حق سے)۔ اس پر حسین نے مجھ سے کہا: "میں فلاں فلاں مقام پر قتل کردیا جاؤں یہ میرے نزدیک اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ میری وجہ سے مکہ کی حرمت پامال ہو۔ ابن عباس کہتے ہیں یہ بات کہہ کر حسین نے مجھے مطمئن کرلیا۔"
راوی (ابن میسرہ) کہتے ہیں پھر طاؤوس نے مجھ سے کہا: میں نے کسی کو ابن عباس سے زیادہ شدت سے حرم کی تعظیم کرتے نہیں دیکھا اس کے باوجود میں چاہوں تو یوں رو کر دکھا سکتا ہوں جیسے ابن عباس روئے تھے۔ (یعنی ابن عباس کو شدید غم تھا)
أخرجه الطبراني في المعجم الكبير (١٩٩/٣) والفسوي في "المعرفة والتاريخ" (١/٥٤١) واسندهما صحيح
ان روایات کو پڑھ کر سیدنا حسینؓ کے موقف کی بخوبی سمجھ آجاتی ہے اور کردار یزید کا مکرو چہرہ بھی سامنے آجاتا ہے
میرا حامیان یزید سے ایک سوال ہے کہ
جس مدینہ شہر کی حرمت کی خاطر خلیفہ راشد سیدنا عثمانؓ اپنی جان دے دیتے ہیں جس شہر کی حرمت کی حفاظت کی خاطر خلیفہ راشد سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اپنی خلافت کا دارلخلافہ کوفہ منتقل کردیتے ہیں اس شہر میں یزید قتل عام کروا کر پھر بھی صالح کیسے ہوسکتا ہے کیا ایسا شخص امام عادل ہوسکتا ہے جس کےہاتھ نواسہ رسولﷺ اور اصحابؓ رسولﷺ اوران کی آل کےخون سے رنگے ہوں جس نے مکہ مدینہ کی حرمت کو پامال کیا ہو ایسا شخص ظالم فاسق و فاجر حکمران تو ہوسکتا ہے امام عادل ہر گز نہیں ہوسکتا
بہرحال میں نےان روایت کو نقل کردیا ہے اب پڑھنے والے قارئین اس کا فیصلہ کرلیں کہ کس کے کردار کو سلام کرنا ہے ۔
والسلام خادم احناف
محمد شعیب الحنفی (دیوبندی)