Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

واقعہ حرا(مدینے پر یزیدی فوج کا حملہ)صحیح روایات

  جعفر صادق

علماء کا کسی بات پر متفق ہوجانا یعنی کسی بات سے اختلاف نہ کرنا ہم پر دلیل ہے۔ واقعہ حرہ، واقعہ کربلا اور حصارِ مکّہ وہ واقعات ہیں جو تاریخ کی ہر ایک کتاب میں موجود ہیں۔ کسی عالم نے ان کا انکار نہیں کیا ہے۔ اور جتنے بھی اس واقعہ کے ناقلین ہیں سب نے اسی بات کو نقل کیا ہے کہ ابن زیاد کے ہاتھوں حضرت حسینؓ کا قتل ہوا۔ پھر حرہ میں یزید فوج کی طرف سے قتل و قتال ہوا اور پھر حرم مکہ میں بھی سنگین کاروائیاں ہوئیں۔

ایسے میں تاریخ کا مطالعہ کرنے والا کوئی بھی طالب علم یہی کہے گا کہ یہ باتیں درست ہیں کیونکہ بغیر اختلاف کے ہم تک پہنچی ہیں۔  تاریخ میں ایسا کوئی عالم  میرے علم میں نہیں جس نے کہا ہو کہ ابن زیاد نے تو حضرت حسینؓ کا قتل کیا ہی نہیں تھا۔ اور حرہ میں شام والوں نے کوئی فوج بھیجی ہی نہیں تھی۔ اور مکّہ میں کبھی حصار کا واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔ یہ بات سب نے قبول کی ہے۔ اختلاف یہ ہے کہ بعض لوگ حرہ والوں اور حضرت حسینؓ کی حمایت کرتے ہیں اور بعض ان کی مخالفت کرکے یزید کی حمایت کرتے ہیں۔

Sahih Bukhari - 4024

 کتاب غزوات کے بیان میں

باب:۔ ۔ ۔

وَقَالَ اللَّيْثُ : عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ : وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ الْأُولَى يَعْنِي مَقْتَلَ عُثْمَانَ فَلَمْ تُبْقِ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ أَحَدًا ، ثُمَّ وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ الثَّانِيَةُ يَعْنِي الْحَرَّةَ ، فَلَمْ تُبْقِ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ أَحَدًا ، ثُمَّ وَقَعَتِ الثَّالِثَةُ فَلَمْ تَرْتَفِعْ وَلِلنَّاسِ طَبَاخٌ .

ترجمہ:

پہلا فساد جب برپا ہوا یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تو اس نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ پھر جب دوسرا فساد برپا ہوا یعنی حرہ کا، تو اس نے اصحاب حدیبیہ میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ پھر تیسرا فساد برپا ہوا تو وہ اس وقت تک نہیں گیا جب تک لوگوں میں کچھ بھی خوبی یا عقل باقی تھی۔

Sahih Bukhari - 2604

کتاب ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان

باب:جو چیز قبضہ میں ہو یا نہ ہو اور جو چیز بٹ گئی ہو اور جو نہ بٹی ہو ، اس کا ہبہ کا بیان

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَارِبٍ ، سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، يَقُولُ : بِعْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعِيرًا فِي سَفَرٍ ، فَلَمَّا أَتَيْنَا الْمَدِينَةَ ، قَالَ : ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ فَوَزَنَ . قَالَ شُعْبَةُ : أُرَاهُ فَوَزَنَ لِي فَأَرْجَحَ ، فَمَا زَالَ مَعِي مِنْهَا شَيْءٌ حَتَّى أَصَابَهَا أَهْلُ الشَّأْمِ يَوْمَ الْحَرَّةِ .

ترجمہ:

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں ایک اونٹ بیچا تھا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وزن کیا۔ شعبہ نے بیان کیا، میرا خیال ہے کہ ( جابر رضی اللہ عنہ نے کہا ) میرے لیے وزن کیا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے بلال رضی اللہ عنہ نے ) اور ( اس پلڑے کو جس میں سکہ تھا ) جھکا دیا۔ ( تاکہ مجھے زیادہ ملے ) اس میں سے کچھ تھوڑا سا میرے پاس جب سے محفوظ تھا۔ لیکن شام والے ( اموی لشکر ) یوم حرہ کے موقع پر مجھ سے چھین کر لے گئے۔

Sahih Bukhari - 4906

کتاب:قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں

باب:آیت ( ( ھم الذین یقولون لاتنفقوا الایۃ ) ) کی تفسیر

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ : حَزِنْتُ عَلَى مَنْ أُصِيبَ بِالْحَرَّةِ ، فَكَتَبَ إِلَيَّ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ وَبَلَغَهُ شِدَّةُ حُزْنِي ، يَذْكُرُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ ، وَلِأَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ ، وَشَكَّ ابْنُ الْفَضْلِ فِي أَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ ، فَسَأَلَ أَنَسًا بَعْضُ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ ، فَقَالَ : هُوَ الَّذِي يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هَذَا الَّذِي أَوْفَى اللَّهُ لَهُ بِأُذُنِهِ .

ترجمہ:

مجھ سے عبداللہ بن فضل نے بیان کیا اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کا بیان نقل کیا کہ مقام حرہ میں جو لوگ شہید کر دیئے گئے تھے ان پر مجھے بڑا رنج ہوا۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کو میرے غم کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے مجھے لکھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ اے اللہ! انصار کی مغفرت فرما اور ان کے بیٹوں کی بھی مغفرت فرما۔ عبداللہ بن فضل کو اس میں شک تھا کہ آپ نے انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کا بھی ذکر کیا تھا یا نہیں۔ انس رضی اللہ عنہ سے ان کی مجلس کے حاضرین میں سے کسی نے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہما ہی وہ ہیں جن کے سننے کی اللہ تعالیٰ نے تصدیق کی تھی۔