سیدنا علیؓ کی محبت میں وضع کردہ روایات
مولانا ثناء اللہ شجاع آبادیسیدنا علیؓ کی محبت میں وضع کردہ روایات
محبت کے پیمانے بیشتر چھلکتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ جب تک عقیدت پر بصیرت غالب نہ ہو محبت کا رشتہ سنبھلتا نہیں ہے "حبک الشئ یعمی ویعصم" تیرا کسی چیز کو محبت کرنا تجھے اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے۔
جن لوگوں نے بغیر بصیرت کے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے محبت کی ان کے جوش محبت کو کہیں تسکین نہیں ہوتی تھی جب تک کہ وہ نئی سے نئی بات گھڑ کر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں مبالغہ نہ کریں شاعر اپنے محبوب کے ذکر میں مبالغے کی ہر منزل کس دلیری سے پھاندتا ہے یہ اہل ادب پر مخفی نہیں ہے۔ تاہم سچ ایسی حقیقت ہے کہ اس کی کرن کہیں نہ کہیں سے پھوٹ ہی پڑتی ہے اور جھوٹ برسرِ چوراہے پھوٹتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت تو سب نے کی اور یہ کیوں نہ ہو کہ مومن کا نشان ہے لیکن عربوں اور عجمیوں کی محبت کی جہت ہمیشہ سے مختلف رہی ہے۔ عربی ذہن والوں نے کمالات کی جھلک آپ کی صفات میں دیکھی اور عجمیوں نے اسے آپ کی ذات میں گمان کیا۔ صفات کمالات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور تربیت سے ابھرتے ہیں اور ذاتی وہ جو کسی مربی کے فیض کا نتیجہ نہیں ہوتے مثلاً یہ کہ آپ کس مٹی سے پیدا کیے گئے یا یہ کہ آپ پیدا ہی اسلام پر ہوئے، آپ کا اسلام لانا خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان نہ تھا، آپ کا علم لدنی تھا۔ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی تعلیم نہ کی تھی وغیر ذالک۔
آج ہم چند ایسی باتوں کی نشاندہی کریں گے جو حضرت علی رضی اللہ کی عقیدت میں جوش محبت سے شیعی (روافض) زورِ خطابت سے کہی جاتی ہیں اور ان کے پیچھے کوئی روایتی ثقایت نہیں ہوتی۔
شیعہ کتب احادیث عام کتب حدیث سے مختلف ہیں۔ عام مسلمانوں میں صحاحِ ستہ اور ان سے ملحق چند اور کتابیں ہیں جو شارحین حدیث کے ہاں اپنی جگہ سند سمجھی جاتی ہیں جیسے المصنف عبد الرزاق (210ھ)، المصنف لابن ابی شیبہ (234ھ)، موطا امام مالک (179ھ)، موطا امام محمد (189ھ)، مسند امام دارمی (255ھ)، مسند امام احمد (241ھ)، مسند ابی داود طیاسی (224ھ)، مسند ابی یعلی (307ھ)، مسند ابی عوانہ (316ھ)، شرح مشکل الآثار اور شرح معنی الاثار للطحاوی (321ھ)، سنن کبریٰ امام بیہقی (458ھ)، معجم طبرانی، مستدرک امام حاکم وغیرہا۔ جمہور اہل اسلام جو اسلام کا دوسرا علمی ماخذ سنت کو سمجھتے ہیں وہ سنت انہیں کتب حدیث سے کشید کرتے ہیں اور حدیث میں صحیح و ضعیف، ناسخ و منسوخ، خاص و عام کے تمام فاصلے قائم رکھتے ہیں۔ موضوع وہ روایات ہیں جہاں ثبوت کے سارے پیمانے ٹوٹ جاتے ہیں اور جھوٹ افتراء کی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔
ان کے برعکس شیعہ کی کتب حدیث ان کے اصول اربعہ ہیں۔ ان کتابوں کے جمہور اہل اسلام کسی طرح ذمہ دار نہیں نہ وہ انہیں کسی درجہ میں مستند سمجھتے ہیں۔ ان کی کتاب مدتوں معرض خفا میں رہیں، یہ اپنے مصنفین تک متواتر نہیں پہنچتی لیکن اہل سنت کی کتابیں مصنفین سے لے کر اب تک پوری شہرت سے مروی ہوتی آرہی ہیں، گو ان میں بھی ہر درجہ کی احادیث روایات ہوئی لیکن ان کے وسیع علم رجال نے اس باب میں امت کی بہت رہنمائی کی ہے۔
اہلسنت اپنی ابتدائی تاریخ میں بہت روادار رہے ان کا ذہن کسی طور پر فرقہ وارانہ نہ تھا شیعہ ابتدا سے ہی اپنے آپ کو عام مسلمانوں سے کٹا یا ہٹا سمجھتے تھے اور ان میں سے بعض اپنے آپ کو اہل سنت میں ملا کر رکھتے تھے اور ایسا بھی بہت ہوا کہ بعض اہلسنت رواۃ ان کی روایات کردہ حدیثوں کو ان کے نام سے آگے بھی روایت کر دیتے تھے۔ ان کی ایسی روایات ہمارے ہاں بھی نچلے درجے کی کتب حدیث میں یا کتب تاریخ میں ملتی ہیں جنہیں یہ مؤلفین از راه تساہل یا بناء تغافل ذکر کر گئے۔ موضوع حدیث کو جانتے ہوئے آگے بیان کرنا شرعا حرام ہے اور ایسے شخص کے ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے جو جان بوجھ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء باندھے۔ ہاں اس کے موضوع ہونے کے اظہار سے اسے کوئی روایت کرے تو یہ بے شک پیغمبر پر افترا نہ ہوگا صرف ایک غیر دانشمندانہ تساہل ہوگا۔ جن حضرات سے یہ غیر دانستہ غلطی ہوئی ہم ان کے لئے اللہ رب العزت کے حضور معافی کی درخواست کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں۔
اہل سنت کی بلند پایہ کتب حدیث میں جس طرح حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل و مناقب کے ابواب باندھے ہیں حضرت عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے فضائل بھی اسی طرح ان میں مروی ہیں۔ ان میں فضائل صحابہؓ اور فضائل اہلبیتؓ دونوں کے ابواب موجود ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت مذکور ہے تو حضرت سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کی منقبت بھی ان میں مروی ہے۔
صحیح الاعتقاد وہی لوگ ہیں جو ان ہر دو میں مودت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان میں سے کسی کی علیحدگی کا دم نہیں بھرتے۔
لیجیئے اب ہم چند موضوع روایات آپ کے سامنے رکھتے ہیں جو حضرت علیؓ کے بارے میں وضع کی گئیں:
1. خلقت انا وعلی من نور وکنا علی یمین العرش ان یخلق آدم بالفی عام میں اور علی ایک نور سے پیدا کیے گیے اور ہم آدم ؑ کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے عرش کے دائیں جانب ہم نشین تھے
رافضی عقیدہ:
اس حدیث سے شیعہ رافضیوں نے یہ عقیدہ بنایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نور ہونے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کا کوئی دخل نہیں ہے، حضرت علیؓ پہلے سے نوری ہیں۔ آپ نے تعلم وتزکیہ رسول اللہ ؐ سے نہیں پایا بلکہ پہلے سے برابر کے نور چلے آ رہے ہیں۔
دنیا علم میں یہ آفت ایک روای جعفر بن احمد بن علی المعروف بابن علی العلاء سے آئی ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں گھڑتا تھا۔
کنا نتھمہ بوضعھا بل نتیقن ذلک کان رافضیا وذکرہ ابن یونس فقال کان رافضیا یضع الحدیث
ترجمہ: ہم اس پر وضع حدیث کا الزام رکھتے ہیں بلکہ ہمیں اس کا پورا یقین تھا کہ وہ شیعہ تھا اور ابنِ یونس نے بھی اس کو رافضی کہا ہے اور حدیث گھڑنے والا۔
دیکھا! اس نے ایک ہی حدیث ایسی گھڑی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضور ؐ کا مرید اور شاگرد ثابت کرنے کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل برابر کا ایک دوسرا منبع نور قرار دیا۔ استغفراللہ العظیم
ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعامة احادیثہ موضوعة و کان قلیل الحیاء فی دعاویہ علی قوم لم یلحقھم و فی وضع مثل ھذا الاحادیث الرکیکہ وفیہ مالا یشبہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و عندہ عن یحیی بن بکیر احادیث مستقیمة ولکن یشوبھا بتلک الاباطیل”
اور اس کی روایات زیادہ تر موضوع ہوتی ہیں، جن لوگوں سے اس کی ملاقات تک نہ تھی ان سے روایت کرنے میں اور اس قسم کی کمزور احادیث وضع کرنے میں اور وہ روایات لانے میں جو کلام نبوت سے ہرگز دکھائی نہ دیتییں، یہ شخص کم حیا کرتا تھا اس کے پاس یحییٰ بن بکیر سے درست احادیث بھی موجود تھیں لیکن ان میں بھی وہ اس طرح کے جھوٹ ملا دیتا تھا"۔ (لسان المیزان ج2 ص 109)
2۔ نور کے بعد ایک مٹی سے پیدا ہونے کی روایت بھی ملاحظہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (معاذ اللہ) فرمایا:
خلقت انا و ہارون و عمران و یحییٰ بن زکریا و علی بن ابی طالب من طینة واحدة
" میں، حضرت ہارون، حضرت عمران، حضرت یحیی بن زکریا اور حضرت علی بن ابی طالب ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں.
رافضی عقیدہ: پنجتن ایک ہی مٹی سے بنے اور مٹی نے نور کا نام پایا
ہمارے لٹریچر میں یہ آفت محمد بن خلف المروزی سے آئی ہے۔
علامہ ذہبی لکھتے ہیں : ہذا موضوع (میزان الاعتدال جلد 6 صفحہ 135) موضوعات ابن الجوزی جلد 1 صفحہ 229، حافظ ابن حجر اسے ان الفاظ میں لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ موضوع ہے۔
خلقت انا و ہارون و یحیی و علی مین طینة واحدة ھذا موضوع۔۔۔ و قال الدار قطنی متروک۔
"میں اور ہارون اور حضرت یحییٰ اور حضرت علی ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے۔ یہاں حضرت عمران کو نکال دیا گیا ہے۔ ایسا کیوں؟؟؟ دروغ گورا حافظ نباشد (جھوٹ بولنے والے کا کوئی حافظہ نہیں ہوتا)
(لسان المیزان جلد 5 صفحہ 157)
3۔ من لم یقل علی خیر الناس فقد کفر۔۔۔
ترجمہ: جو شخص یہ نہ کہے کہ علی رضی اللہ عنہ تمام لوگوں سے اچھے ہیں وہ کفر کر چکا
یہ آفت محمد بن کثیر سے آئی ہے۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں یہ شیعہ تھا۔ (میزان الاعتدال جلد 6 صفحہ 310)۔ قاضی نور اللہ شوستری کہتا ہے شیعی بودن اہل کوفہ حاجت باقامت دلیل ندارد (اہل کوفہ کے شیعہ ہونے کیلئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں)
امام بخاری کہتے ہیں کوفی منکرالحدیث تھا اور امام علی ابن مدینی (333ھ) کہتے ہیں کتبنا عنہ عجائب وخططت علی حدیثہ وکذبہ یحیی بن معین
ترجمہ: ہم نے اس سے عجیب عجیب روایات لکھیں اور اس کی روایات کو نشان زد کرتے رہے اسے یحییٰ بن معین نے جھوٹا ٹھہرایا ہے۔ (لسان المیزان جلد 3 صفحہ 352)
4۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے میں کہا: "میں صدیق اکبر ہوں" (معاذاللہ) کیا آپ ایسی بات کہہ سکتے تھے؟ ہرگز نہیں۔ اپنے آپ کو بڑا کہنا اللہ والوں کی عادت نہیں ہے۔ بہرحال روایت یہ ہے:
انا عبداللہ واخو رسول اللہ وانا الصدیق الاکبر لایقولھا بعدی الا کاذب صلیت قبل الناس سبع سنین
ترجمہ: میں اللہ کا بندہ ہوں، میں رسول اللہ کا بھائی ہوں، میں صدیق اکبر ہوں، میرے بعد جو شخص بھی اپنے آپ کو صدیق اکبر کہے وہ جھوٹا ہوگا، میں دوسرے لوگوں سے سات سال پہلے اسلام لایا
?اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ کے اسلام لانے کے بعد سات سال تک کوئی مسلمان نہ ہوا، سات سال صرف آپ اکیلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت رہے۔
سوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبیست
اس کے دو راوی قابل نظر ہیں:
عباد بن عبداللہ الاسدی الکوفی اور زید بن وہاب الجہنی ابو سلیمان الکوفی
5۔۔ عن زازان عن سلمان قال رائت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرب فخذ علی ابن ابی طالب وصدرہ و سمعتہ یقول محبک محبی و محبی محب اللہ و مبغضک مبغضی و مبغضی مبغض اللہ. (لسان المیزان 109/2)
ترجمہ: حضرت سلمان کہتے ہیں میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ران اور سینے پر ایک ضرب سی لگائی اور میں نے آپ کو انہیں یہ کہتے ہوئے سنا: تیرا محب میرا محب ہے اور میرا محب اللہ کا محب ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے اور مجھ سے بغض رکھنے والا اللہ سے بغض رکھنے والا ہے
- احادیث میں یہ آفت عمرو بن خالد سے آئی ہے۔
- امام احمد کہتے ہیں یہ کذاب ہے۔
- یحیی بن معین بھی کہتے ہیں کہ یہ کذاب ہے۔
- ابو حاتم کہتے ہیں متروک الحدیث اور زاہب الحدیث ہے
- اسحاق بن راھویہ اور ابو ذرعہ کہتے ہیں کان یضع الحدیث ۔۔۔ قال وکیع کان جارنا فطہرنا منہ علی کذب فانتقل۔۔۔ و رماہ ابن العراقی بالکذب
ترجمہ: وہ احادیث وضع کرتا تھا۔۔۔ وکیع کہتے ہیں وہ ہمارے پڑوس میں رہتا تھا پھر ہم اس کے کذب کو پا گئے تو وہاں سے چلا گیا، ابن العراقی نے اس کے کذاب ہونے کی نشاندہی کی ہے۔ (تہذیب: 37/8)
6۔۔۔عن انس مرفوعا ان اخی ووزیری وخلیفتی فی اھلی و خیر من اترک من بعدی علی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضور صلی اللہ وسلم نے فرمایا: میرا بھائی، میرا وزیر، اور میرا میرے گھر میں جانشین اور میرے بعد سب سے بہتر آدمی علیؓ ہے.
اس نے خلیفتی فی اھلی کہہ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صرف حضور صلی اللہ وسلم کے گھروں تک جانشین رکھا اور آپ سے امت کے خلافت کبریٰ کی یکسر نفی کر دی۔
احادیث میں یہ آفت مطر بن میمون اسکاف سے آئی ہے۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے
(میزان الاعتدال جلد 6 صفحہ 446)
امام بخاری ابو حاتم اور امام نسائی کہتے ہیں یہ شخص منکر حدیث تھا۔ ابنِ جوزی نے اس روایت کو موضوعات میں لکھا ہے۔
7۔۔۔عن انس قال رسول اللہ ؐ النظر الی وجہ علی عبادہ
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ: علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے (المستدرک 3/141،142)
راوی حدیث یہاں یہ واضح نہیں کر سکا کہ یہ عبادت کس کی ہو گی؟ اللہ تعالی کی یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی۔
یہ روایت مطر ابن میمون کی خدمات کا نتیجہ فکر ہے
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس حدیث اور سابقہ حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
"(قلت کلاھما موضوعان) میں کہتا ہوں کہ یہ دونوں حدیثیں من گھڑت ہیں۔" (میزان الاعتدال: 6/442)
8۔ مطر بن میمون نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے یہ روایت بھی گھڑی ہے:
قال کنت عنہ النی صلی اللہ علیہ وسلم فرای علیا مقبلا فقال یا انس ھذا حجتی علٰی امتی یوم القیامة
ترجمہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ ؐ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو آتے ہوئے دیکھا اور فرمایا اے انس رضی اللہ عنہ میری امت پر یہ شخص اللہ کی طرف سے قیامت کے دن حجت ہوگا۔
حافظ ذہبی اس کی اس روایت کو بھی باطل ٹھہراتے ہیں۔ (میزان الاعتدال 6/442)
9۔۔۔۔مطر بن میمون کی ایک اور کارروائی بھی دیکھیں:
عن انس قال کنت جالس مع النبیؐ اذا قبل علی فقال من ھذا قلت ھذا علی بن ابی طالب فقال: یا انس انا و ھذا حجة اللہ علی خلقہ (اخرجہ ابن عدی الکامل)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ اس طرف آ نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انس یہ کون ہے میں نے کہا یا رسول اللہ علی بن ابی طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انس میں اور یہ دونوں اللہ کی مخلوق پر اللہ کی حجت ہیں۔
10 ۔ مطر ابن میمون کی ایک اور واردات یہ بھی ہے:
عن انس مرفوعا علی اخی وصاحبی وابن عمی وخیر من اترک بعدی یقضی دینی وینجز موعدی میزان الاعتدال (ج6۔ ص 446)
ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا علی میرا بھائی ہے، میرا صحابی ہے، میرے چچا کا بیٹا ہے اور جو بھی میرے بعد رہیں گے ان میں خیر الناس ہے، میرے قرض یہی اتارے گا اور میرے عہد یہی پورا کرے گا۔
11۔۔۔۔ اوَّلکم ورودًا علی الحوض اوَّلُکم اسلاماً علی ابن ابی طالب (رواہ ابن عدی الکامل)
ترجمہ: "تم میں سے سب سے پہلے حوضِ کوثر پر وہ وارد ہو گا جو تم میں سب سے پہلے اسلام لایا اور وہ علی ابن ابی طالب ہے۔"
اس روایت میں عبدالرحمن ابن قیس الزعفرانی صاحبِ سازش ہے
حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
کذبہ ابن مھدی وابو زرعة و قال البخاری ذھب حدیثہ وقال احمد لم یکن بشئی واخرجہ الحاکم حدیثا منکراً
(میزان الاعتدال ج 4 ص 309)
عبدالرحمان بن مھدی اور ابو زرعہ کہتے ہیں کہ وہ جھوٹا تھا اس کی حدیث قبول کے لائق نہیں۔ اور امام بخاری ؒ نے کہا ہے اس کی حدیث قبول کے لائق نہیں، امام احمد کہتے ہیں وہ کوئی شے نہ تھا، حاکم نے اس سے ایک منکر حدیث مستدرک میں لی ہے"۔
حاکم نے اسے سہل انگاری سے اسے صحیح کہ دیا۔ اس پر امام ذہبی نے اس کا تعاقب کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
لیس بصیحح قال ابو زرعة عبدالرحمان بن قیس کذاب
یہ روایت صحیح نہیں ہے اس کا راوی عبدالرحمان بن قیس کذاب ہے(مستدرک)
12۔ وصیی و موضع سری وخلیفتی فی اھلی خیر من اخلف بعدی علی
میرا وصی، میرا رازدان، میرا خلیفہ مرے اہل میں جن لوگوں کو میں پیچھے چھوڑ رہا ہوں ان میں سب سے بہتر علیؓ ہے۔
قاضی شوکانی اس روایت پر لکھتے ہیں: "ساتھ ہی اس ایک روایت پر بھی نظر کر لیں، یہ موضوع نہیں مگر ضعیف ضرور ہے".
عبدالرحمن عن سعد ابن ابی وقاص قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ (سنن ابن ماجہ: ص 12)
"عبدالرحمن حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتا ہے وہ فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ نے جو مجھے دوست رکھے، علی بھی اس کے دوست ہوں۔"
یہ روایت موسی بن مسلم الحزامی طحان المعروف موسی صغیر نے عبدالرحمان ابن سابط سے رویت کی ہے اور عبدالرحمان ابن سابط اسے سعد ابن ابی وقاص سے روایت کرتا ہے۔ امام یحیی بن معین سے پوچھا گیا عبدالرحمان ابن سابط کا سماع سعد ابن ابی وقاصؓ سے ثابت ہے انہوں نے کہا، نہیں۔
روی عن عمرو بن سعد بن ابی وقاص و العباس بن عبدالمطلب و عباس ابن ابی ربیعہ و معاذ بن جبل و ابی ثعلبہ الخشنی و قیل لم یدرک واحداً منھم (تھذیب التھذیب 180/6)
ترجمہ: 'لاس عبدالرحمان ابن سابط نے حضرت عمرو سے، حضرت سعد سے، حضرت عباس سے حضرت عباس بن ربیعہ سے، حضرت معاز بن جبل ؓ سے، حضرت ابی ثعلبہ سے روایت کی ہے، اور کہا گیا ہے کہ اس نے ان میں سے کسی کو نہیں پایا"۔
امام ترمذی نے اس روایت کو اس سند سے بیان کیا ہے
محمد بن جعفر اخبرنا شعبة عن سلمة بن کھیل قال سمعت ابا الطفیل یحدث عن ابی سریحة او زید بن ارقم (ترمذی: 213/2)
اس سند میں سلمہ بن کہیل (121ھ) ہے، یہ صاحب کون ہے، شعبہ نے اسے میمون بن ابی عبداللہ عن زید بن ارقم سے بھی روایت کیا ہے۔ یہ میمون ابن ابی عبداللہ کون ہے اسے بھی جان لیجیے۔
یہ بصرہ کا رہنے والا بنی کندہ میں سے ہے۔ اس نے حدیث کن کن سے روایت کی سن لیجیے حافظ ابن حجر رح لکھتے ہیں:
روی عن براء ابن عاذب و زید ابن ارقم و ابن عباس و عبداللہ بن بریدة۔
اس کے آگے علاوہ کن لوگوں نے اس سے یہ روایت لی ہے:
وعنہ ابناہ محمد وعبدالرحمان وقتادة وخالد الخداء وعوف الاعرابی و شعبة (تہذیب: 393/10)
اب میمون ابی عبداللہ کا حال سن لیجیے:
کان یحیی لایحدث عنہ قال الاثرم ممن احمد احادیث مناکیر وقال اسحاق بن منصور عن یحیی بن معین لا شئ وقال ابو داود نکلم فیہ (تہذیب: 157/4)
اس قسم کے راویوں سے یہ حدیث کسی پایہ کو نہیں پہنچتی۔
یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں ثبت علٰی تشیعہ (وہ اپنی شیعیت پر پکا رہا) قال ابو داود کا ن سلمة یتشیع۔
اور جتنی بھی سندیں جمع کرتے جائیں یہ حدیث من کنت مولاہ فھذا علی مولا کسی سند سے بھی درجہ صحت کو نہیں پہنچتی گو عقیدت کے جوش میں بعض لوگوں نے اس کے متواتر ہونے کا دعوی کیا ہے، بلکہ اس کی سندیں جتنی بڑھتی جائیں گی اس کا ضعف اور نمایاں ہوتا جائے گا۔
جلیل القدر محدث حافظ جمال الدین زیلعی (762ھ) نے اس قاعدہ قد لا یزید الحدیث کثرة الطرق الاضعفا کی مثال میں اس حدیث (من کنت مولاہ) کو بھی پیش کیا ہے. محدث زیلعی لکھتے ہیں:
و کم من حدیث کثرت رواتہ تعددت طرقہ وھو حدیث ضعیف کحدیث الطیر و حدیث الحاجم والمحجوم وحدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ بل قد لا یزید کثرة الطرق الا ضعفا وانما یرجح بکثرة الرواة اذاکانت الرواة محتجا بھم من الطرفین (نصب الرایہ، طبع جدید: 473/1، طبع قدیم: ص360)
ترجمہ: کتنی ہی حدیثیں ہیں جن کے راوی بہت ہیں اور اس کے کئی کئی طریق ہیں اور پھر بھی ضعیف ہی ہیں درجہ صحت کو نہیں پہنچتی ہیں جیسے حدیث طیر، حدیث الحاجم والمحجوم اور حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ بلکہ ان کے جس قدر طرق بڑھیں گے اتنا ہی ضعف بڑھتا جائے گا ۔ کثرت رواة سے وہاں ترجیح ہوتی ہے جہاں راوی دونوں طرف سے احتجاج کے لائق ٹھہریں۔"
حافظ ابن تیمیہ بھی اسی صدی کے ہیں وہ بھی اس روایت پر مطمئن نہیں ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:
فلایصح من طریق الثقات اصلاً (منہاج السنہ: 86/4 مصر)
"یہ حدیث ثقہ روایوں کی روایت سے کہیں درجہ صحت کو نہیں پہنچتی"
یہ حدیث اس درجہ ضعف میں ہے کہ اس سے کسی عقیدے کے اثبات میں حجت نہیں پکڑی جا سکتی چہ جائیکہ اسے خلافت جیسے اہم مسئلے میں نص قرار دیا جا سکے۔
عقیدہ قائم کرنے کے لیے قطعی دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ظنی دلیل سے اعمال تو ترتیب پا سکتے ہیں لیکن عقائد نہیں بنتے۔ خبر واحد صحیح بھی ہو تو عقیدہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں اور یہاں یہ روایت ایک سند متصل مرفوع سے بھی ثابت نہیں۔
13.....عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال یا ام سلمة ان علیا لحمہ لحمی وھو بمنزلة ھارون بن موسی منی غیر انی لانبی بعدی، اخرجہ عقیلی فی الضعفاء (منہاج السنہ: 47/3)
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہ حضورﷺ سے روایت کی کہ اے ام سلمہ علی رضی اللہ عنہ کا چمڑا میرا چمڑا ہے اور وہ میرے لیے اسی درجے میں ہے جس میں ھارون موسی کی نسبت سے تھے۔ البتہ وہ میرے بعد نبی نہ ہو گا۔ عقیلی نے اسے کتاب الضعفاء میں نقل کیا ہے۔
اس میں آفت داہر بن یحیی الرازی کی طرف سے آئی ہے. حافظ ذہبی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
رافضی بغیض لایتابع علی بلایاہ (میزان الاعتدال 3/3، حرف الدال)
ہاں اس روایت کا دوسرا حصہ ھو بمنزلة ھارون من موسی صحیح ہے اخرجہ البخاری۔
نقطہ: اکثر شیعہ اس سے حضرت علیؓ کی خلافت اول بھی ثابت کرتے ہیں تو ہم پوچھتے ہیں حضرت ہارون علیہ السلام تو حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے پھر حضرت علیؓ حضرت ہارون علیہ السلام کی طرح کیسے ہوئے؟
14: عبداللہ بن داہر شعبی کی سند سے ایک روایت یہ بھی ملتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا:
ھذا اول من آمن بی واول من یصافحنی یوم القیامۃ وھو فاروق ھذہ الامۃ بین الحق و الباطل وھو یعسوب المومنین و المال یعسوب الظلمة وھو الصدیق الاکبر وھو خلیفتی من بعدی.
ترجمہ: یہ پہلا شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور پہلا شخص ہے جو مجھ سے قیامت کے دن مصافحہ کرے گا۔ یہ اس امت کا فاروق ہے جو حق اور باطل میں فیصلہ کرنے والا ہے، یہ مومنین کا سردار ہے، یہی صدیق اکبر ہے جو میرے بعد میرا خلیفہ ہوگا۔
اس پر علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
فھذا باطل لم ار احدا ذکرا داھراً ولا ابن ابی حاتم وانما البلاء من ابنہ عبداللہ فانہ متروک (میزان الاعتدال: 44/3)
یہ روایت باطل ہے اور میں نے نہیں دیکھا کہ کسی کو داہر کا ذکر کیا ہو، نہ ابن ابی حاتم نے، اور جو مصیبت آئی ہے وہ اس کے بیٹے عبداللہ کے طرف سے آئی ہے کیونکہ اس کی روایت ترک کر دی گئی ہے۔
15 روی ابو داود الرھاوی انہ سمع شریکا یقول علی خیر البشر فمن ابی فقد کفر (اخرجہ الخطیب فی التاریخ: 421/7، او ردہ ابن جوزی فی الموضوعات، 378/1)
حافظ زہبی لکھتے ہیں
قلت بعض الکذابین یرویہ مرفوعا (میزان الاعتدال: 374/3)
ترجمہ: میں کہتا ہوں بعض کذاب اس کو مرفوع بھی روایت کرتے ہیں۔