Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شہادت سیدنا علیؓ اور ان کا قاتل ابنِ ملجم شیعہ کتب کی روشنی میں

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

شہادت سیدنا علیؓ اور ان کا قاتل ابنِ ملجم شیعہ کتب کی روشنی میں

ایک تلخ حقیقت ہے کہ اہلِ بیتؓ کے قاتل وہی لوگ تھے جو اہلِ بیتؓ کی محبت کا دم بھرتے تھے انہی لوگوں نے اہلِ بیتؓ سے دھوکہ اور غداری کی، اس دھوکے اور غداری کی پہلی کڑی سیدنا علیؓ کی شہادت ہے۔ عبدالرحمٰن بن ملجم کون تھا کس کے ساتھ تھا؟ سیدنا علیؓ کی شہادت کیوں ہوئی سیدنا علیؓ کا جنازہ اور سیدنا علیؓ کی آخری وصیت سب آپ کے سامنے معتبر شیعہ کتب سے پیشِ خدمت ہے تمام حوالوں کے اسکین پوسٹ کے ساتھ شامل ہیں۔

مشہور شیعہ شیخ صدوق لکھتا ہے کہ سیدنا علیؓ کے پاس ابنِ ملجم آیا اور اس نے بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ آپ کی بیعت کی پھر وہ مڑا تو سیدنا علیؓ نے واپس بلایا اس سے عہد و میثاق لیا اور اسے تاکید کی دھوکہ نہیں دے گا اور بیعت نہیں توڑے گا۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا علیؓ کے پاس ابنِ ملجم سواری مانگنے آیا آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا تو عبدالرحمٰن ابنِ ملجم ہے؟اس نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا اے غزوان اس کو گھوڑے پر سوار کر دو۔

(تذکرہ ائمہ اطہار صفحہ 20،مناقب ابنِ شہر آشوب جلد دوم صفحہ530)

اس حوالے سے معلوم ہوا ابنِ مجلم سیدنا علیؓ کے ساتھیوں اور قریبی لوگوں میں شامل تھا حکمین اور جنگِ نہروان کے بعد اس کا ذہن تبدیل ہوا چنانچہ شیخ صدوق لکھتا ہے جنگِ نہروان کے بعد ابنِ ملجم اور دو لوگوں نے قتل کا منصوبہ بنایا کے گمراہ رہنماؤں کو قتل کر کے امت کو ان سے نجات دلوائیں، ابنِ ملجم نے کہا میں علی کی ذمہ داری لیتا ہوں برک بن عبداللہ تمیمی نے کہا میں معاویہ کے لٸے کافی ہوں عمر بن بکر تمیمی نے کہا عمر بن العاص سے نمٹ لوں گا سب نے ایک دوسرے سے عہد کیا 19 رمضان المبارک کو یہ کام انجام دیں گے۔

(تذکرہ ائمہ اطہار صفحہ 22، مناقب ابنِ شہر جلد دوم صفحہ531 )

اس مہم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تینوں اپنے ہدف کی طرف روانہ ہوئے ابنِ ملجم کوفہ پہنچا اور 19 رمضان المبارک کو نمازِ فجر میں سیدنا علیؓ پر زہر سے بجھی تلوار سے حملہ کیا سیدنا علیؓ زخمی ہوئے ابنِ ملجم کو پکڑ لیا گیا۔

علامہ عباس قمی لکھتا ہے کہ ابنِ ملجم کو سیدنا حسنؓ کے سامنے پیش کیا گیا جب آپ کی نظر پڑی تو فرمایا اے ملعون! تُو نے سیدنا علیؓ کو شہید کیا اس احسان کے بدلے کہ انہوں تجھے پناہ دی اور تجھے دوسروں پر ترجیح دی اور تجھ پر بخششیں کیں،کیا وہ تیرے لیے برے امام تھے ان کے احسانات کا بدلہ یہی تھا جو توُ نے دیا؟

(منتہیٰ الآمال جلد اول صفحہ231 )

پھر سیدنا علیؓ نے ان کی طرف دیکھا اور کمزور آواز میں فرمایا تو نے مجھے یہ بدلا دیا کیا میں نے تجھے موردِ رحمت قرار نہیں دیا تھا اور تجھے دوسروں پر ترجیح نہیں دیتا تھا کیا تجھ سے احسان نہیں کرتا تھا؟اور تجھ پر زیادہ بخشش نہیں کی تھی؟

(منتہیٰ الآمال جلد اول صفحہ231)

ان دو حوالوں کو ایک بار پھر پڑھیں اور غور کریں سیدنا علیؓ اور سیدنا حسنؓ فرما رہے ہیں تجھ پر احسان کیے تجھے دوسروں پر ترجیح دی تجھے بخشش انعامات سے نوزا۔

ان باتوں سے صاف ظاہر ہے ابنِ ملجم شیعانِ علیؓ میں سے تھا قریبی لوگوں میں شامل تھا غداری ان کے خمیر میں بھری ہوئی ہے۔

سیدنا علیؓ کی وصیت:

شیعہ راوی ابو حمزہ ثمالی روایت کرتا ہے کہ سیدنا علیؓ کو زخمی حالت میں دیکھ کر سیدہ اُمِ کلثومؓ گریہ فرمانے لگیں تو سیدنا علیؓ نے سیدہ اُمِ کلثوم سے فرمایا اپنے رونے سے مجھے اذیت نہ دو کیونکہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں تم دیکھ لوگی تو رونا بند کر دوگی

(تفسیر ابو حمزہ ثمالی صفحہ311)

معلوم ہوا سیدنا علیؓ نے گریہ کو نا پسند فرمایا اور کہا کہ مجھے اذیت دینا ہے تو جو لوگ آج کل ماتم کر رہے کیا وہ سیدنا علیؓ کو اذیت نہیں دے رہے؟ یہ کیسے سیدنا علیؓ والے ہیں جو سیدنا علیؓ کو اذیت دے رہے ہیں؟

کلینی لکھتا ہے کہ جب سیدنا علیؓ مسجد میں زخمی ہوئے تو عیادت کرنے والے جمع ہوئے اور کہنے لگے وصیت کیجیے تو آپ نے فرمایا میری وصیت یہ ہے کہ اللّٰہ کی ذات میں کسی کو شریک نہ کرو اور سنتِ محمدﷺ کو ضائع نہ کرو اور دین کے ان دونوں ستونوں کو قائم رکھو۔

(اصولِ کافی کتاب الحجت جلد دوم صفحہ 253)

علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ سیدنا علیؓ نے فرمایا اصحابِ پیغمبرِ خدا سے ڈرو اور ان کی رعایت کرو انہوں نے کوئی بدعت دینِ خدا میں نہیں کی اور صاحبِ بدعت کو راہ نہیں دی رسولِ خدا نے تم کو اپنے اصحاب کے بارے میں وصیت کی۔

(جلإء العیون جلد اول صفحہ 294-295)

ان دو حوالوں سے ثابت ہوا سیدنا علیؓ نے اپنے بعد قرآن وحدیث رسولﷺ کی پیروی کا حکم دیا اور اسے دین کا ستون قرار دیا اور صحابہؓ کے بارے میں فرمایا وہ بدعتی نہ تھے ان کی عزت کرو۔آپ نے یہ نہیں فرمایا میرے بعد سیدنا حسنؓ کی پیروی کرنا اس سے بھی ثابت ہوا عقیدہ امامت بعد میں گھڑا گیا ہے اس بات کی وضاحت ایک اور روایت سے ہوتی ہے جس کو شیخ طوسی نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص کھڑا ہوگیا اور سوال کیا اے سیدنا علیؓ آپ کے بعد کس سے سوال کریں اور کس پر اعتماد کریں؟ آپ نے فرمایا اللّٰہ کی کتاب کھولو اور اس سے طلب کرو کیونکہ وہ بہترین کتاب ہے۔ 

(الامالی طوسی جلد دوم صفحہ 223) 

معاملہ بالکل صاف ہے اگر نبیﷺ کے بعد منصوص من الامام ہوتے تو سیدنا علیؓ ان کی طرف رجوع کرنے کا فرماتے نہج البلاغہ خطبہ 125 میں ہے سیدنا علیؓ نے فرمایا اپنے اختلافات کو قرآن و حدیثِ رسولﷺ کی طرف موڑو۔

سیدنا علیؓ کا جنازہ:

کلینی لکھتا ہے سیدنا باقرؒ نے فرمایاجب سیدنا علیؓ کا انتقال ہوگیا تو سیدنا حسنؓ کوفہ کی مسجد میں آئے اور آپ کی شہادت کا اعلان کیا۔

(اصولِ کافی کتاب الحجت جلد سوم صفحہ37 )

سیدنا جعفرؒ فرماتے ہیں جب سیدنا علیؓ کا انتقال ہوا سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ، دو اور شخص جنازہ لے کر نکلے چلتے ہوئے کوفہ کو داہنی طرف چھوڑا مقامِ غری میں دفن کیا۔

(اصولِ کافی کتاب الحجت جلد سوم صفحہ38)

قارٸینِ کرام! اس پوسٹ کو ایک بار پھر غور سے پڑھیں آپ پر واضح ہو جائیگا سیدنا علیؓ کا قاتل شیعانِ علی میں تھا عقیدہ امامت بعد میں گھڑا گیا ہے۔آخر میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ سیدنا حسنؓ نے کوفہ کی مسجد میں سیدنا علیؓ کی شہادت کا اعلان کیا پھر بھی کوفی شیعہ جنازے میں شریک نہ ہوئے۔