تعارف لفظ اہلِ بیتؓ
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓتعارف لفظ اہلبیتؓ
سوشل میڈیا پر عوام الناس کی کثیر تعداد لفظ اہلِ بیتؓ سے نا واقف ہے شیعہ حضرات اھل بیت سے مراد صرف سیدنا علیؓ، سیدہ فاطمہؓ، سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ لیتے ہیں اور اہلِ سنّت ازواج و اولاد یعنی خاندانِ رسولﷺ سب کو اھلبیت میں شمار کرتے ہیں آئیے قرآن و حدیث کی روشنی میں لفظ اہل بیت کی تحقیق کرتے ہیں:
لفظ اہلبیت عربی زبان میں ٹھیک انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم گھر والوں کا لفظ بولتے ہیں اور اس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور بچے دونوں شامل ہوتے ہیں۔بیوی کو مستثنیٰ کر کے اہلِ خانہ یا گھر والوں کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔انہی معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے لہٰذا جمہور اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ آپﷺ کی تمام ازواج مطہراتؓ و اولادؓ اہلبیت ہیں۔اس کے برعکس شیعوں کے نزدیک اہلبیت میں صرف پنج تن یعنی حضورﷺ، حضرت علیؓ، سیدہ فاطمہؓ ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ہی شامل ہیں اس میں کوئی چھٹا تن داخل نہیں یہاں تک کہ آپﷺ کے چچا سیدنا عباسؓ اور آپﷺ کی محبوب بیوی سیدہ خدیجہؓ کو بھی اہلبیت میں داخل نہیں کرتے۔
اس کی دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ آیت:
اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيۡرًا
(سورۃ الأحزاب:آیت 33)
میں مذکر صیغوں سے خطاب ہے، اگر اہلبیت سے حضورﷺ کی ازواج مراد ہوتیں تو آیت کے الفاظ عَنۡكُمُ وَيُطَهِّرَكُمۡ کے بجائے عنکن، ویطھرکن ہوتے۔
آیت کی تشریح میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ فرماتے ہیں جو انسان ذرا بھی عربی سے واقفیت رکھتا ہے وہ آیت پڑھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں ازواجِ مطہراتؓ شامل نہیں، بلکہ اگر کسی عام آدمی کو ان آیات کا ترجمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے تو اس کی بھی سمجھ میں آجائے گا کہ یہاں اہلبیت سے مراد ازواجِ مطہراتؓ ہیں کیونکہ نظمِ قرآن میں تدبر کرنے والے کو ایک لمحہ کے لیے اس میں شک وشبہ نہیں ہو سکتا کہ یہاں اہلبیت کے مدلول میں ازواجِ مطہراتؓ یقیناً داخل نہیں کیونکہ آیت ہٰذا سے پہلے اور بعد میں تمام تر خطابات انہی سے ہوئے ہیں۔
ما قبل آیت:
وَقَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ
(سورۃ الاحزاب:آیت 33)
اور اس کے بعد:
وَاذۡکُرۡنَ مَایُتۡلٰی فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ
(سورۃ الاحزاب:آیت 34)
میں انہی کی طرف نسبت کی گئی ہے ان دونوں کے درمیان ہے اس درمیانی جزء کے بارے میں یہ کہنا کہ چونکہ اہلبیت کو صیغہ مذکر سے بیان کیا گیا ہے اس لیے وہ اہلبیت میں شامل نہیں، یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسے عربی زبان و ادب سے کوئی واسطہ نہ ہو (ترجمہ شیخ الہند، تفسیر از مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، سورۃ الاحزاب،آیت:33)۔
قرآن کریم میں یہ لفظ اسی صیغہ میں سورۃ هود میں بھی آیا ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی حضرت سارہ کو خطاب کرتے ہوئے ملائکہ نے کہا:
قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِيۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ رَحۡمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيۡكُمۡ اَهۡلَ الۡبَيۡتِؕ اِنَّهٗ حَمِيۡدٌ مَّجِيۡدٌ
(سورۃ هود:آیت 73)
ترجمہ: فرشتوں نے کہا! کیا آپ اللہ کے حکم پر تعجب کر رہی ہیں؟آپ جیسے مقدس گھرانے پر اللہ کی رحمت اور برکتیں ہی برکتیں ہیں، بیشک وہ ہر تعریف کا مستحق، بڑی شان والا ہے۔
اس جگہ اہلبیت سے مراد زوجہ ابراہیم خلیل اللہ ہی ہیں۔ شیعہ مفسرین طبرسی(مجمع البیان) اور کاشانی (منہاج السالکین) نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ میں اہلبیت سے مراد حضرت سارہ ہیں،جو حضرت ابراہیمؑ کی چچازاد بہن تھیں۔ (اگرچہ انہوں نے اس کی بے بنیاد تاویل کی ہے)۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں بھی قرآن کریم میں ضمیر مذکر کا استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَمَّا قَضٰى مُوۡسَى الۡاَجَلَ وَسَارَ بِاَهۡلِهٖۤ اٰنَسَ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ نَارًاۚ قَالَ لِاَهۡلِهِ امۡكُثُوۡۤا اِنِّىۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّىۡۤ اٰتِيۡكُمۡ مِّنۡهَا بِخَبَرٍ اَوۡ جَذۡوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمۡ تَصۡطَلُوۡنَ
(سورۃ القصص:آیت 29)
ترجمہ: پھر جب موسیٰ نے وہ مدت پوری کرلی، اور اپنی اہلیہ کو لے کر چلے تو انہوں نے کوہِ طور کی طرف سے ایک آگ دیکھی۔انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا ٹھہرو! میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے تمہارے پاس کوئی خبر لے آؤں، یا آگ کا کوئی انگارہ اٹھا لاؤں تاکہ تم گرمائش حاصل کرسکو۔
اس آیت میں دو جگہ اہل کا لفظ آیا ہے اور دونوں ہی جگہ تمام شیعہ بلا کسی تاویل کے متفق ہیں کہ اہل سے مراد حضرت موسیٰؑ کی زوجہ ہیں جو حضرت شعیبؑ کی بیٹی تھیں۔
(دیکھیے:تفسیر مجمع البیان، جلد 7 صفحہ 346، سورۃ الاحزاب:33، للطبرسی (ابوالفضل بن الحسن)،
طبرسی چھٹی صدی ہجری کا فاضل ترین شیعہ علماء میں سے ہے اس کی تفسیر کئی جلدوں میں شائع ہے۔ اس کے علاوہ قمی (ابوالحسن علی بن ابراہیم) بھی تیسری صدی ہجری کا شیعہ علماء میں ممتاز سمجھا جاتا ہے اور ابتدائی شیعہ مفسرین کا امام ہے)۔ ان سب کے نزدیک اس جگہ حضرت موسیٰؑ کی زوجہ مراد ہیں۔ اس جگہ انہوں نے صیغہ مذکر مؤنث کی کوئی بحث نہیں کی۔
جہاں تک ان تمام مذکورہ مقامات میں ازواج کو صیغہ مذکر میں مخاطب کرنے کی بات ہے تو اس کی وجہ یہ ہے (قد اجمع اہل اللسان العربی علی تغلیب الذکور علی الاناث فی الجموع ونحوہا) عرب میں جب ایک سے زیادہ لوگوں کو خطاب کیا جاتا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوں تو وہاں صیغہ مذکر لایا جاتا ہے۔ اس قاعدہ کے تحت حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ اور سردار انبیاءﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ کے لیے ضمیر مذکر لائی گئی ہے۔
الغرض اہلبیت میں حضورﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ کا داخل ہونا یقینی ہے بلکہ آیت کا خطاب ہی ان سے ہے لیکن چونکہ اولاد و داماد بھی اہلبیت (گھر والوں) میں شمار ہوتے ہیں۔ اس لیے روایات، مثلاً آپﷺ کا سیدہ فاطمہؓ، سیدنا علیؓ، سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ کو ایک چادر میں لے کر اللّٰہم ھؤلاء اھل بیتی وغیرہ فرمانا اور سیدہ فاطمہؓ کے مکان کے قریب سے گزرتے ہوئے:الصلاۃ اھل البیت! اور یرید اللّٰہ لیذھب عنکم الرجس الخ سے خطاب کرنا اگر سنداً اور درایۃً درست ہے تو وہ اسی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ یہ حضرات بھی اس لقب کے مستحق اور فضیلت تطہیر کے اہل ہیں۔ وگرنہ 5 یا 6 ھجری کے اوائل میں جس وقت حضورﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدنا علی رضہ اللہ عنہ اور سیدنا حسن و سیدنا حسین رضی اللہ عنھم کو ایک چادر میں لے کر یہ فرمایا تھا کہ یہ میرے اہلبیت ہیں، حضورﷺ اپنی بیمار بیٹی سیدہ زینبؓ جن کا گھر بار سب کچھ اجڑ چکا تھا اپنے بچوں کے ساتھ آپﷺ کے گھر پناہ لیے ہوئے تھی، حضورﷺ ان کو اپنی چادر میں لینا کیسے بھول سکتے تھے،سیدہ فاطمہؓ کے سواء حضورﷺ کی تمام بیٹیوں میں ایک وہی حیات تھیں ، بقیہ دونوں بیٹیوں سیدہ رقیہؓ اور سیدہ اُمِ کلثومؓ کا انتقال ہو چکا تھا۔
دوسرا یہ کہ واقعۂ کساء سے متعلق تمام روایات اکٹھی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ایک بار کا نہیں بلکہ کئی بار کا ہے۔ اور آیت تطہیر ایک بار نہیں، کئی بار نازل ہوئی۔اس لیے کہ یہ واقعہ کہیں ام المؤمنین سیدہ اُمِ سلمہؓ کے گھر کا بتایا جاتا ہے، کہیں سیدہ فاطمہؓ کے گھر کا اور کہیں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر کا، اس لیے کہ یہ واقعہ سیدہ عائشہؓ سے بھی مروی ہے۔ ان روایات میں آپس میں اتنا اضطراب ہے کہ ان سے کسی نتیجہ پر پہنچنا دشوار ہی نہیں۔ بلکہ نا ممکن ہے، مزید یہ کہ ان تمام روایات کے رواۃ یا تو مجروح ہیں یا ان پر کلام ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امام بخاریؒ اس سلسلہ میں بالکل خاموش ہیں باوجود اس کے کہ انہوں نے اپنی صحیح میں اس کے متعلق کئی ابواب قائم کیے ہیں ۔
ان روایات کو اگر قابلِ قبول مان لیا جائے تب بھی ان سے حصر کے معنی نہیں نکلتے بلکہ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:
فذھب الکلبی ومن وافقہ فصیرھا لھم خاصۃً
(تفسیر قرطبی، سورۃ الاحزاب، آیت:33)کلبی(رافضی)
اور سبائی ٹولہ ہی اس بات کا مدعی ہے کہ یہ آیت تطہیر پنج تن کے بارے میں نازل ہوئی)۔
ابنِ عاشور فرماتے ہیں کہ یہ وہم (پنجتن کا) تابعین کے زمانہ کا دین ہے جو قرآن کریم سے متصادم ہے جہاں تک حدیث کساء کی بات ہے کہ اس میں ایسا ایک لفظ بھی نہیں جس سے حصر کے معنی نکلتے ہوں ( کہ آیت تطہیر سے صرف پنجتن مراد ہوں) صیغہ ھؤلاء اھل بیتی کلام الٰہی ان ھؤلاء ضیفی (سورۃ الحجر:68) کے مانند ہے، جس کے معنی یہ نہیں کہ ان کے سواء اس میں کوئی دوسرا شامل نہیں، بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اہلبیت (پنجتن) کے معنی کو حدیث کساء سے غصب کیا ہے اور قرآن کریم کو پیچھے چھوڑ دیا۔ جس میں ازواجِ نبیﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے۔
(تفسیر التحریر والتنویر، تالیف: محمد طاہر بن عاشور، سورۃ الاحزاب،آیت:33)۔
واضح رہے کہ حضورﷺ جس طرح سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ سے محبت کرتے تھے انھیں کندہوں پر بٹھاتے تھے اسی طرح سیدہ زینبؓ کی بیٹی سیدہ امامہؓ اور بیٹے سیدنا علیؓ سے بھی محبت کرتے تھے۔ آپﷺ سیدہ امامہؓ کو گود میں لے کر نماز پڑھتے تھے۔ اسی طرح سیدنا علیؓ بن زینب کو فتح مکہ کے دن اپنی سواری پر اپنے ساتھ بٹھانے کا اعزاز بخشا تھا، مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے نبیﷺ کے سب سے بڑے نواسے اور نواسی کو جانتی تک نہیں۔حتیٰ کہ اکثر علمائے کرام بھی اپنے خطبات میں ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔اہلبیت میں صرف سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ کو شامل ماننا اور حضورﷺ کے دوسرے نواسے اور نواسیوں کو اس سے خارج کرنا ان کے ساتھ غایت درجہ نا انصافی کی بات ہے۔
آل محمدﷺ : عربوں میں کسی شخص کے آل سے مراد وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں جو اس کے ساتھی، مددگار اور متبع ہوں خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ انہی سب معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسے: آل بمعنی قرابت دار
مثال اول:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَكَذٰلِكَ يَجۡتَبِيۡكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنۡ تَاۡوِيۡلِ الۡاَحَادِيۡثِ وَيُتِمُّ نِعۡمَتَهٗ عَلَيۡكَ وَعَلٰٓى اٰلِ يَعۡقُوۡبَ كَمَاۤ اَتَمَّهَا عَلٰٓى اَبَوَيۡكَ مِنۡ قَبۡلُ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاِسۡحٰقَ
(سورۃ يوسف:آیت 6)
ترجمہ: اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں (نبوت کے لیے) منتخب کرے گا،اور تمہیں تمام باتوں کا صحیح مطلب نکالنا سکھائے گا (جس میں خوابوں کی تعبیر کا علم بھی داخل ہے) اور تم پر اور یعقوب کی اولاد پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جیسے اس نے اس سے پہلے تمہارے ماں باپ پر اور ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی۔
اس جگہ آلِ یعقوب سے مراد حضرت یوسفؑ کے بھائی اور ان کی اولاد ہیں جن کی نسل سے اللہ نے سینکڑوں انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے۔
مثال دوم:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰۤى اٰدَمَ وَنُوۡحًا وَّاٰلَ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَۙ
(سورۃ آل عمران:آیت 33)
ترجمہ:اللہ نے آدم، نوح، ابراہیم کے خاندان، اور عمران کے خاندان کو چن کر تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی۔
اللہ رب العزت نے خود اس آیت میں آل سے نسل اور ذریت کو مراد لیا ہے۔
مثال سوم:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ حَاصِبًا اِلَّاۤ اٰلَ لُوۡطٍؕ نَّجَّيۡنٰهُمۡ بِسَحَرٍۙ
(سورۃ القمر:آیت 34)
ترجمہ: ہم نے ان پر پتھروں کا مینہ برسایا، سوائے لوط کے گھر والوں کے جنہیں ہم نے سحری کے وقت بچا لیا تھا۔
یہاں آل سے مراد حضرت لوط علیہ السلام کی اولاد (بیٹیاں) ہے کیونکہ ان کی قوم میں سوائے ان کی دو بیٹیوں کے کوئی ایمان نہیں لایا تھا حتٰی کہ ان کی بیوی بھی نہیں جسے اللہ نے عذاب میں ہلاک کر دیا۔
حدیث میں بھی آل کا لفظ حضورﷺ کے رشتہ داروں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ بچپن میں کھجور کے ڈھیر کے پاس کھیل رہے تھے، کھیلتے کھیلتے ان میں سے کسی نے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی۔ آپ کی نگاہ پڑی تو منہ سے کھجور نکلوادی اور فرمایا
اما علمت ان آل محمد لا یاکلون الصدقۃ (کیا تمہیں پتہ نہیں کہ آل محمد صدقہ کا مال نہیں کھاتے)۔
آل بمعنی اصحاب و متبعین:
قولہ تعالیٰ:
وَ اِذۡ نَجَّیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ (سورۃالبقرہ: آیت 49)
ترجمہ: اور وہ (وقت یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جو تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے۔
یہاں آل سے مراد فرعون کی پولیس اور حفاظتی دستے ہیں، جو اسرائیلیوں کو پکڑ پکڑ کر سزا دیتے تھے جنہیں اللہ نے بعد میں ہلاک کردیا،ارشاد فرمایا:
وَ اِذۡ فَرَقۡنَا بِکُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَیۡنٰکُمۡ وَ اَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ
(سورۃ البقرہ: آیت50)
ترجمہ: اور (یاد کرو) جب ہم نے تمہاری خاطر سمندر کو پھاڑ ڈالا تھا چنانچہ تم سب کو بچا لیا تھا اور فرعون کے لوگوں کو (سمندر میں) غرق کر ڈالا تھا اور تم یہ سارا نظام دیکھ رہے تھے۔
سمندر میں جو لوگ غرق ہوئے تھے، وہ فرعون کا لشکر تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاَتۡبَعَهُمۡ فِرۡعَوۡنُ بِجُنُوۡدِهٖ فَغَشِيَهُمۡ مِّنَ الۡيَمِّ مَا غَشِيَهُمۡؕ
(سورۃ 20 طٰهٰ: آیت 78)
ترجمہ:چنانچہ فرعون نے اپنے لشکروں سمیت ان کا پیچھا کیا تو سمندر کی جس (خوفناک) چیز نے انہیں ڈھانپا، وہ انہیں ڈھانپ کر ہی رہی۔
اسی طرح جب ملک فرعون میں عذاب آیا تو وہ بھی تمام قوم پر آیا جو فرعون کی پرستش کرتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدۡ اَخَذۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ بِالسِّنِيۡنَ
(سورۃ الأعراف:آیت130)
ترجمہ: ہم نے نافرمانیوں کے سبب فرعون کی قوم کو قحط سالی میں پکڑا۔
اس جگہ بھی آل فرعون سے مراد فرعون کی قوم ہے جو اللہ کی طرف سے عذاب کا شکار ہوئی۔
اسی طرح ایک آیت میں فرعونیوں کے لیے سخت عذاب کی پیشین گوئی کی گئی، ارشاد ہوا:
اَلنَّارُ يُعۡرَضُوۡنَ عَلَيۡهَا غُدُوًّا وَّعَشِيًّا ۚ وَيَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَةُ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ
(سورۃ غافر:آیت 46)
ترجمہ: آگ ہے جس کے سامنے انہیں صبح و شام پیش کیا جاتا ہے اور جس دن قیامت آجائے گی (اس دن حکم ہوگا کہ) فرعون کے لوگوں کو سخت ترین عذاب میں داخل کر دو۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آل سے مراد خاندان ہی نہیں بلکہ متبعین بھی ہیں۔ قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر آل فرعون کا لفظ آیا ہے،ان میں کسی جگہ بھی آل سے مراد صرف فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں، بلکہ وہ سب مراد ہیں جو حضرت موسیٰؑ کے مقابلہ میں فرعون کے طرف دار تھے۔
یہ لفظ حدیث میں ازواج مطہراتؓ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، صحیح بخاری میں ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ما امسی عند آل محمد صاع بر ولا صاع حب وان عندہ لتسع نسوۃ
(صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب شراء النبی بالنسیئۃ)
کوئی شام آل محمدﷺ پر ایسی نہیں گزرتی تھی جب ان کے پاس ایک صاع گیہوں یا کوئی دوسرا اناج ہو جبکہ آپﷺ کی نو بیویاں تھیں۔
صحیح مسلم میں روایت ہے کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
انا کنا ال محمد لنمکث شہرا ما نستوقد بنار ان ہو الا التمر والماء
(صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق، باب مابین النفختین)
ہم آل محمدﷺ کے گھروں میں ایک ایک مہینہ گزر جاتا تھا چولہا نہیں جلتا تھا،ہم صرف کھجور اور پانی پر گزارا کرتے تھے۔
معلوم ہوا کہ لفظ آل اقرباء و ازواج رسولﷺ اور اصحاب و متبعین سب کے لیے استعمال ہوتا ہے، صرف رشتہ داروں کے لیے نہیں ۔
لفظ اہل اور آل میں فرق:
کسی شخص کے اہلبیت وہ ہوتے ہیں جو اس کے قریبی اور رشتہ دار ہوں،خواہ وہ اس کے متبع ہوں یا نہ ہوں اور آل وہ کہلاتے ہیں جو کسی کے متبع ہوں خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں۔ دوسری بات یہ کہ آل عام لوگوں کی اولاد کے لیے استعمال نہیں ہوتا، یہ صرف شاہانِ مملکت اور عظیم شخصیات کی اولاد اور ان کی نسل یا ان کے اصحاب و متبعین کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
درودِ ابراہیمی میں آل کے معنی:
نماز میں پڑھے جانے والے درود میں آل محمّدﷺ وآل ابراہیم علیہ السلام کا مطلب اور اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جان لینا مناسب ہے کہ غیر نبی پر درود بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟
درود علیٰ غیر النبی:
صحیح بخاری میں امام بخاریؒ نے ترجمۃ الباب قائم کیا:
ھل یصلی علیٰ غیر النبی (کیا غیرنبی پر درود بھیجا جاسکتا ہے؟)
اور پھر اس کے تحت درج ذیل حدیث لائے ہیں:
عن ابن ابی اوفٰی قال کان اذا اتی رجل النبیﷺ بصدقۃ قال اللّٰہم صل علیہ فاتاہ ابی بصدقۃ فقال اللّٰہم صل علیٰ آل ابی اوفیٰ
(صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب ھل یصلی علیٰ غیر النبی)
سیدنا ابن ابی اوفیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کے پاس جو کوئی صدقہ لے کر آتا تو آپﷺ فرماتے، اے اللہ اس پر صلاۃ (رحمت) نازل فرما اسی دوران میرے والد ابو اوفیٰ بھی صدقہ لے کر حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا اے اللہ آل ابی اوفیٰ پر صلاۃ (رحمت) نازل فرما اسی طرح امام ابو داؤدؒ نے ترجمۃ الباب قائم کیا:
الصلاۃ علیٰ غیر النبی۔
اس باب کے تحت امام ابو داؤدؒ یہ حدیث لائے ہیں:
عن جابر بن عبد اللّٰہ ان امرأۃ قالت للنبی صل علیّ و علی زوجی فقال النبی وعلی زوجک
(ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، (باب تفریع ابواب الوتر) باب الصلاۃ علیٰ غیر النبی)
ایک عورت نے کہا کہ میرے اور میرے شوہر کے لیے دعاء رحمت فرمائیں۔آپﷺ نے فرمایا: اللہ تم پر اور تمہارے خاوند پر رحمت نازل فرمائے۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں حضورﷺ کے سواء دوسروں پر بھی درود بھیجنا جائز ہے؛ لیکن مستقلاً اور علیحدہ طور پر درود علیٰ غیر النبی کے سلسلہ میں اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ یہ درست نہیں۔
یہ رائے امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور احناف سے منقول ہے۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا ابنِ عباسؓ نے فرمایا:
ما اعلم الصلاۃ ینبغی علی احد من احد الا علیٰ النبی (فتح الباری، شرح صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب ھل یصلی علی غیرالنبی)
رسول اللہﷺ کی ذات مبارک کے سواء کسی پر بھی تنہا درود پڑھنا درست نہیں۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ غیر نبی پر درود بھیجنے کو جائز اس لیے نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے زمانہ میں شیعہ صرف اپنے ائمہ کے نام پر ہی درود پڑھنے لگے تھے، ان کے ساتھ وہ حضورﷺ کو بھی شریک نہیں کرتے تھے جو ایک طرح کا غلو تھا۔
(جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل: وھل یصلی علیٰ آلہ منفردین)
انہی وجوہات کے پیشِ نظر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ملکی سطح پر اس فعل کو ممنوع قرار دیا۔ آپؒ نے اپنے عمال کو لکھا اما بعد،
فان ناسا من الناس قد التمسوا الدنیا بعمل الآخرۃ وان من القصاص قد احدثوا فی الصلوۃ علی خلفائہم وامرائہم عدل صلاتہم علی النبی فاذا جائک کتابی فمرہم ان تکون صلاتہم علی النبیین ودعائہم للمسلمین عامۃ
(جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل:وھل یصلی علی آلہ منفردین)
کہ میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ اعمال آخرت کے ذریعہ دنیا حاصل کرتے ہیں،ان میں سے بعض واعظین نے یہ نیا طریقہ ایجاد کیا ہے کہ وہ نبی پر درود بھیجنے کے بجائے اپنے خلفاء اور امراء کے لیے صلاۃ کا لفظ استعمال کرنے لگے ہیں، میرا یہ خط پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اس فعل سے روک دو اور انہیں حکم دو کہ وہ صلاۃ کو انبیاء علیہم السلام کے لیے محفوظ رکھیں اور عام مسلمانوں کے لیے دعا۔
خلاصہ یہ کہ اب چونکہ یہ اہلِ اسلام کا شعار بن چکا ہے کہ وہ صلاۃ و سلام کو انبیاء کے لیے خاص کرتے ہیں، اس لیے جمہور امت کا یہ فیصلہ ہے کہ نبیﷺ کے سواء کسی کے لیے درود بھیجنا جائز نہیں
آل محمدﷺ کے معنیٰ:
آل محمدﷺ سے مراد صرف آپﷺ کے خاندان والے ہی نہیں، بلکہ اس میں وہ سب لوگ آجاتے ہیں جو آپﷺ کے پیرو کار ہوں اور آپﷺ کے طریقے پر چلیں خواہ وہ آپﷺ کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں ۔
امام نوویؒ لکھتے ہیں:
واختلف العلماء فی آل النبی علی اقوال اظہرہا وھو الاختیار الازہری وغیرہ من المحققین انہم جمیع الامۃ والثانی بنوہاشم وبنو المطلب والثالث اہل بیتہ وذریتہ (صحیح مسلم شرح نووی، باب الصلاۃ علی النبی)
علماء نے آل نبیﷺ کے معنوں میں اختلاف کیا ہے۔ اس سلسلہ میں کئی اقوال وارد ہیں،ان میں راجح قول وہ ہے جسے ازہری اور دوسرے محققین نے اختیار کیا ہے کہ آل سے مراد تمام امت ہے۔
اسی قول (راجح) کو امام مالکؒ، حافظ ابن عبدالبرؒ، احناف اور امام ابنِ تیمیہؒ وغیرہ نے بھی اختیار کیا ہے۔
صحابی رسولﷺ سیدنا جابر بن عبداللہؓ ان اولین لوگوں میں سے ہیں جن سے یہ قول منقول ہے۔ چنانچہ امام بیہقیؒ اور سفیان ثوریؒ نے سیدنا جابرؓ سے یہی قول نقل کیا ہے۔
امام شافعیؒ کے بعض اصحاب نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل: وھل یصلی علی آلہ منفردین)۔
اسی طرح عرب اسکالر شیخ ابنِ عثیمینؒ نے فرمایا:
اذا ذکر الآل وحدہ فالمراد جمیع اتباعہ علی دینہ (مجموع فتاویٰ فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ، باب صلاۃ التطوع،156، سعودی عرب، 1999)
جب لفظ آل تنہاء مذکور ہو تو اس سے مراد جملہ متبعین دین ہیں۔
درودِ ابراہیمی میں آل محمدﷺ سے اگر صرف بنو ہاشم و بنو مطلب مراد لیے جائیں جو نسباً آل محمد ﷺ ہیں،تو اس میں نیک و بد اور مؤمن و کافر سب شامل ہو جائیں گے۔ دوسری طرف آل ابراہیم میں مغضوب و ضالین بھی شریک ہو جائیں گے جو نسباً آل ابراہیم ہیں، حالانکہ قرآن میں فرمایا گیا:
اِنَّ اَوۡلَى النَّاسِ بِاِبۡرٰهِيۡمَ لَـلَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُ وَهٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ وَاللّٰهُ وَلِىُّ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ
(سورۃ آل عمران: آیت 68)
ترجمہ: ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی (آخر الزماںﷺ اور وہ لوگ ہیں جو (ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مومنوں کا کار ساز ہے۔
لہٰذا آل ابراہیمؑ وآل محمدﷺ میں صرف وہ لوگ شامل ہیں جو متبعِ شریعت ہیں،نہ کہ وہ جو دین میں غلو کرتے ہیں اور آیات الٰہیہ میں تحریف کرتے ہیں، بلکہ آل میں صرف متبع رسولﷺ شامل ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس پر جسے اللہ نے اتارا اور اپنے گزرے ہوئے بھائیوں کے لیے یہ دعا کرتے ہیں:
رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَـنَا وَلِاِخۡوَانِنَا الَّذِيۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِيۡمَانِ وَلَا تَجۡعَلۡ فِىۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا
(سورۃ الحشر:آیت10)
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار ! ہماری بھی مغفرت فرمایئے، اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی بغض نہ رکھیے۔