Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سورۃ المائدہ آیت 55 سے امامت علی کا غلط استدلال اور اسکا رد

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

سورۃ المائدہ آیت 55 سے امامت علی کا غلط استدلال اور اسکا رد


سورۃ المائدہ آیت 55 سے امامت علی کا غلط استدلال اور اسکا رد

 حالت رکوع میں صدقہ انگوٹھی یا چادر کے افسانے کی حقیقت

اہلِ تشیع کی ایک الجھن کا جواب:

حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی بھی طرح "خلیفہ بلافصل" ثابت نہیں ہوتے شیعہ حضرات سورۃ المائدہ کی اس آیت کا حوالہ دے کر غلط تشریح کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلافصل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 اہلِ تشیع کا استدلال:

سورۃ المائدہ آیت 55 پس اللہ ولی ہے تمھارا اور اس کے پیغمبر اور مومن جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور رکوع والے۔

تفسیر درمنثور جلد 2 صفحہ 293۔

علامہ جلال الدین سیوطیؒ

1۔ تفسیر فتح القدیر جلد 2 صفحہ 53

علامہ شوکانی

1۔ تفسیر قادری سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ سورۃ المائدہ کی یہ آیت سیدنا علیؓ کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب مسجدِ نبویﷺ میں سیدنا علیؓ نے حالتِ رکوع میں سائل کو انگوٹھی خیرات کی۔

اہلِ تشیع استدلال کا رد:

سب سے پہلے چند الفاظ کی وضاحت پڑھیں:

  1. ولی: آیت میں لفظ ولی حاکم یا متصرف کے معنوں میں نہیں اور شیعہ یہیں سے اپنے مفروضہ محل کی تعمیر شروع کرتے۔
  2. المومنون:صیغہ جمع کا ہے اس سے مراد سیدنا علیؓ کی ذات لینا کیونکر درست ٹھہرا؟۔

جب کوئی قرینہ صارفہ موجود نہیں۔

شیعہ اس کا حل یہ بتاتے ہیں کہ جمع کی ضمیر اس لیے لائی گئی ہے کہ اس میں آئندہ گیارہ امام بھی داخل ہیں۔

خوب سوجی مگر علم کی بات کرنے اور تُک بھڑکانے میں فرق ہے علم کہتا ہے کہ یہ مرجع ضمیر غائب کا ذات ہوتی ہے جو موجود ہو گیارہ امام تو اس وقت تصورات کی دنیا میں بھی نہیں تھے۔ 

اگر ولی بمعنیٰ حاکم ہے اور مومنون میں باقی گیارہ ائمہ شامل ہیں تو بات ایک طرف بگڑتی نظر آتی ہے۔

یعنی پہلے سیدنا علیؓ کو تو حکومت ملی گو بقول شیعہ برائے نام ہی سہی اور دوسرے سیدنا حسنؓ کو ملی اور انہوں نے اپنے آزاد ارادے اور پسند سے حکومت سے دستِ بردار ہونے کا اعلان فرما دیا باقی نو کو سرے سے حکومت ملی ہی نہیں اور دسویں کے متعلق کچھ کہا نہیں جا سکتا تو پھر اللہ نے اماموں کو کون سی حکومت دینے کا اعلان فرما دیا۔

 ہم ان شاء اللہ ان تمام روایات کو دلائل غلط ثابت کریں گے۔

ہم ان سے کچھ سوالات ضرور کریں گے تا کہ ان کی غلط توجیہات کو بھی منظر عام پر لاسکیں ثابت کیا جائے کہ ولی کے معنوں میں ایک معنیٰ "بلافصل خلیفہ" بھی ہے عربی لغت سے جواب درکار ہےجب ولایت کے مستحقین کے لئے لفظ مومنین لایا گیا ھے تو اس کی تخصیص صرف سیدنا علیؓ کے ساتھ کیوں کی گئی؟۔

کیا حالتِ رکوع میں زکوٰۃ دینا قرآن و سنت سے جائز ہے یا زکوٰۃ صرف حالتِ رکوع میں دینے کا حکم ہے؟۔

اگر یہ فعل آپﷺ سے منقول نہیں تو کیا یہ بدعت نہیں کہلوائی جائے گی؟۔

کیا شیعہ حضرات حالت رکوع میں زکوٰۃ دینے کے پابند ہیں۔ 

اگر کوئی شخص حالتِ رکوع میں ادائے زکوٰۃ کرے تو کیا وہ بھی خلیفہ بلافصل ہی کہلوایا جائے گا کیونکہ آپ اسے بہت بڑی نیکی اور ولایت کے استحقاق کے لئے ضروری سمجھتے ہیں سائل کون ہے؟۔

اصولِ کافی میں لکھا کہ فرشتہ ہے تو کیا فرشتہ کو صدقہ دینا کس شریعت میں جائز یا واجب کا فرض یا نفل لکھا؟۔ 

کیا سیدنا علیؓ کے پاس اتنا سونا موجود تھا کہ جس پر زکوٰۃ واجب تھی اگر نہیں تھا تو زکوٰہ دینے کا کیا مقصد؟۔

کیا آپؓ بھی اس دور میں سرمایہ دار تھے یا کہ نبیﷺ کی طرح فقیرانہ زندگی ہی گزارتے رہے۔

کیا نماز میں یہ فعل ادا کرنا نماز کو خراب کرنے اور فعل کثیرہ کا باعث تو نہیں۔

"من کنت مولا فعلیؓ مولا" سے خلیفہ بلافصل کیسے ثابت ہوتا ہے کہیں مزکور ہو تو دکھائیں جیسا کے آپ ولی کے معنیٰ سردار کے لیتے ہیں تواگر مولا کے معنیٰ سردار ہی کے لئے جائیں تو سیدنا علیؓ تو تمام انبیاء علیہم السلام کو بھی سردار ثابت ہوئے کیونکہ آپﷺ تمام نبیوں کے سردار ہیں۔

 اور کیا اس سے سیدنا علیؓ کا مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہ ہوگیا اور زمانہ نبوت میں دو افراد ایک ہی عہدہ پر فائز ثابت نہیں نہ ہوں گے اگر مولا کے معنیٰ محبوب اور دوست کے سمجھے جائیں تو کیا حرج ہے۔

تفصیلی جواب اہلِ سنّت:

اس (سورۃ المائدہ کی آیت 55) آیت کے شانِ نزول میں مفسرین کرام نے ہرگز حضرت علیؓ کے حق میں نزول پر اتفاق نہیں کیا بلکہ مفسرین نے اس میں اختلاف کیا ہے اور اس کے شانِ نزول مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ 

1۔ چنانچہ تفسیر ابنِ جریر جلد چہارم صفحہ 186 مطبوعہ بیروت میں فرمایا کہ یہ آیت سیدنا عبادہ بن صامتؓ کے حق میں نازل ہوئی ہے جبکہ بنی خزرج سے سیدنا عبادہ بن صامتؓ نے فرمایا تھا کہ میں تمہاری دوستی کو چھوڑتا ہوں کیوں کہ میں اللہ عزوجل و رسول اللہﷺ اور مومنین کو دوست رکھتا ہوں۔

2۔ تفسیر روح المعانی جلد 6 صفحہ 176 میں اس آیت کے تحت ایک اور روایت بیان کی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن سلامؓ جب ایمان لائے تو ان کی قوم نے ان سے بائیکاٹ کر دیا تو سیدنا عبداللہ بن سلامؓ بہت پریشان ہوئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ الخ۔

3۔ جب کہ سیدنا عبداللہ بن سلامؓ کے متعلق اس آیت کا نازل ہونا شیعہ کی معتبر تفسیر مجمع البیان جلد 2 صفحہ 210 پر بھی موجود ہے جس کی عبارت یہ ہے: 

وقال الکلبی نزلت فی عبداللہ بن سلام اصحابہ لما اسلموا فقطعت الیہود موالاتھم۔

یعنی کلبی نے کہا کہ یہ سوره المائده آیت 55 إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ الخ۔ 

سیدنا عبداللہ بن سلامؓ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی جب وہ مشرف بااسلام ہوئے اور اسلام لانے کے بعد یہودیوں نے ان سے دوستی ختم کر دی تھی۔

اور تفسیر فتح القدیر شوکانی کا حوالہ ہمارے لئے حجت نہیں کیونکہ شوکانی غیر مقلد ہے سرکار دوعالمﷺ نے مردوں پر سونا حرام فرما دیا تھا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سونے کی انگوٹھی پہننا اس روایت کی غیر معتبر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ 

تفسیر فتح القدیر صفحہ 6 پر لکھا ہے شوکانی شاگرد تھا عبدالحق بنارسی کا اور عبدالحق بنارسی کا سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں وہی عقیدہ تھا جو کہ شیعہ کا ہے۔ 

(دیکھو کشف الحجاب عبدالحق بنارسی)۔

دوسری بات مذھبہ و عقیدہ تفقہ علی مذھب الامام زید زیدی شیعہ تھا۔ 

(تفسیر فتح القدیر صفحہ 6)۔

مذکورہ بالا سنی اور شیعہ روایات سے ثابت ہوا کہ:

1۔ اس آیت کے شانِ نزول میں اختلاف ہے۔ 

2۔ ان روایات مذکورہ میں سے پہلی روایت سے ثابت ہے کہ یہ آیت سیدنا عبادہ بن صامتؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

3۔ دوسری روایت یعنی روحُ المعانی شیعہ تفسیر مجمع البیان کی روایت سے ثابت ہے کہ یہ آیت سیدنا عبداللہ بن سلامؓ اور آپؓ کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

4۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سورة المائده آیت 55 اس آیت میں ولی بمعنیٰ دوست استعمال ہوا ہے لہٰذا قطعی طور پر اس کا شانِ نزول سیدنا علیؓ کے بارے میں قرار دینا درست نہیں ہے۔ 

جبکہ تفسیر درمنثور جلد 2 صفحہ 518 مطبوعہ بیروت میں اس آیت کا پہلا شانِ نزول ہی سیدنا عبادہ بن صامتؓ کے برے میں بیان کیا گیا ہے۔

5۔ فتح القدیر اہلِ سنت کی کتاب نہیں۔

دوسری روایت سیدنا علیؓ کے بارے میں اور تیسرا شانِ نزول سیدنا جعفر صادقؒ کے والد گرامی سیدنا محمد باقرؒ سے منقول اصحابِ محمدﷺ ہیں اور سائل نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت نبی پاکﷺ کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور سیدنا علیؓ بھی ان میں سے ہیں۔

واضح ہو گیا کہ شیعہ حضرات کا اس آیت کو سیدنا علیؓ کے بارے میں قطعی طور پر قرار دینا درست نہیں ہے (جب بنیاد ہی قائم نہ ہو سکی تو اس سے مٙن گھڑت خود ساختہ مفہوم کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟)۔ 

کیا سیدنا علیؓ نے سائل کو چادر دی؟۔ 

پہلی بات:

بفرضِ محال ہم تسلیم کر لیں کہ یہ آیتِ پاک سیدنا علیؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض کُتبِ شیعہ میں اس آیتِ مبارکہ کے ماتحت لکھا ہوا ہے کہ سیدنا علیؓ نے سائل کو چادر دی بعض نے لکھا ہے کہ انگوٹھی دی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائل بھی بڑا عجیب تھا اس نے انتظار نہ کیا کہ سیدنا علیؓ نماز سے فارغ ہو جائیں بعد میں سوال کروں۔

دوسری بات:

چلو ہم مان لیں کہ سائل نے نماز کے اندر سوال کر لیا اور سیدنا علیؓ رکوع کی حالت میں انگوٹھی یا چادر سائل کو دے دی بات سمجھنے کی ہے کہ چادر سیدنا علیؓ نے اتار کر سائل کو دی اور یہ فعلِ کثیر ہے اور فعلِ کثیر مفسداتِ نماز ہے کیا باب العلمؓ کو اس بات کا بھی علم نہ تھا؟۔

حالانکہ رکوع سے مراد وہ لوگ جو زکوٰۃ دیتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور رکوع کرتے ہیں یہ حضور سرورِ کائناتﷺ کی امت میں ہے سابقہ امتوں میں نماز تھی رکوع نہ تھا۔

 تیسری بات:

اگر سیدنا علیؓ نے جو سائل کو زکوٰۃ دی تو جو 1000 درہم کی چادر دی اور سیدنا علیؓ کے قول کے مطابق کہ ساری زندگی زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی کیا جواز پر بھی زکوٰۃ ہوتی ہے؟۔

آیت کی غلط تفسیر کا رد:

اس کی سند میں ایک راوی خالد بن یزید العمری کذاب (جھوٹا) اور متروک ہے۔

 اسے حافظ ابنِ حجرؒ نے (الکافی الشافی فی تخریج احادیث الکشاف لابنِ حجر جلد 1 صفحہ 649/ سورة المائدہ آیت 55) متروک۔

یحیٰ بن معین نے (کتاب الجرح و التعدیل جلد 3 صفحہ 360 سندہ صحیح) میں کذاب (جھوٹا)۔

امام ابوحاتم الرازی نے (کتاب الجرح و التعدیل 360 رقم : 1630) میں کذاب کہا ہے اس کے علاوہ حافظ ہیثمی اور حافظ ابنِ حبانؒ نے بھی اس پر شدید جرح کی ہیں۔

جبکہ اس کا دوسرا راوی اسحاق بن عبداللہ بن محمد بن علی بن حسین نامعلوم ہے حافظ ہیثمی نے کہا: اسے طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے اور اس میں ایسے راوی ہیں جنیں میں نہیں جانتا۔ 

(مجمع الزوائد جلد 7 صفحہ 17 سورۃ المائدۃ)۔

حافظ ابنِ کثیرؒ نے اس روایت اور دوسری روایات کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ان (روایات) میں سے سرے سے کوئی چیز بھی صحیح نہیں ہے سندوں کے ضعیف اور راویوں کے مجہول ہونے کی وجہ سے۔

(تفسیر ابنِ کثیر جلد 2 صفحہ 567 آیت المائدہ 55)۔

نوٹ: یہ روایت اور اس مفہوم کی دیگر تمام روایات ضعیف یا باطل و مردود ہیں۔

سیدنا ابوجعفر الباقرؒ سے روایت ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور سیدنا علیؓ ان لوگوں میں سے ہیں جو ایمان لائے ہیں۔ 

(تفسیر ابنِ جریر جلد 4 صفحہ 594 ح 12225)۔

منہاج السنۃ النبویہ میں شیخ السلام ابنِ تیمیہؒ اسی آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ الخ۔

(سورۃ مائدہ آیت 55)۔

ترجمہ: تمہارا ولی اللہ تعالیٰ ہے اسکا رسول اور وہ مومن ہیں جو نماز کی پابندی کرتے زکوٰۃ ادا کرتے اور رکوع کرنے والے ہیں۔

شیعہ کہتے ہیں کہ اس آیت پر اجماع ہے کہ یہ آیت سیدنا علیؓ کی شان میں اتری۔ 

اسکا جواب یہ ہے کہ یہ آیت سیدنا علیؓ کے بارے میں نازل نہیں ہوئی تھی اور اس ضمن میں اجماع کا دعویٰ سراسر بے بنیاد اور کذب صریح ہے بلکہ اجماع اس بات پر ہوا ہے کہ یہ آیت خاص طور پر سیدنا علیؓ کے بارے میں نازل نہیں ہوئی شیعہ کی بیان کردہ روایت صاف جھوٹی ہے ثعلبی کی تفسیر موضوعات کا پلندہ ہے ثعلبی اور اسکا تلمیذ واحدی دونوں "حاطب الیل" (رات کا لکڑ ہارا جو خشک و تر میں تمیز کئے بغیر ہر قسم کی لکڑی جمع کرتا ہے) تھے۔ 

علاوہ ازیں شیعہ مصنف کے ذکر کردہ دلائل سب باطل ہیں اور وہی شخص انکو تسلیم کرسکتا ہے جو گونگا بہرہ صاحبِ ہوس و ضلالت ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو قبولِ حق سے اندھا کردیا ہو۔

یہ وجہ ہے کہ اکثر زنادقہ اسلام میں تشیع کے دروازے سے داخل ہوئے ہیں اور ان اکاذیب کے بل بوتے پر اسلام کو مطعون کرنا شروع کیا جہلاء ان مکذوبات کی بناء پر شبہات کا شکار ہوگئے فرقہ ہائے اسمٰعیلیہ و نصیریہ بھی اسی وجہ سے گمراہ ہوئے انہوں نے تفسیر اور مناقب و مثالب سے متعلق شیعہ کی روایت کردہ اکاذیب پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے آلِ محمدﷺ پر اظہار رحم و کرم کا آغاز کیا پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر نقد وجرح اور گالم گلوچ کا بیڑا اٹھایا بعد ازاں سیدنا علیؓ کو ہدف ملامت بنایا کیونکہ آپ یہ سب باتیں سن کر خاموش رہتے تھے پھر رسول اللہﷺ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں خدا کی تردید و تکذیب پر اتر آئے جیسا کہ صاحب البلاغ الاکبر نے اس ترتیب پر روشنی ڈالی ہے۔

شیعہ مصنف نے اپنی تائید میں ثعلبی کا حوالہ دیا ہے ہم کہتے ہیں کہ ثعلبی نے سیدنا ابنِ عباسؓ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے "یہ آیت سیدنا ابوبکرؓ کی شان میں نازل ہوئی" نیز ثعلبی نے عبدالمالک سے نقل کیا ہے کہ میں نے سیدنا ابوجعفرؒ سے آیت کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے فرمایا "اس سے مراد سب مومن ہیں" میں نے عرض کیا بعض لوگ اس سے سیدنا علیؓ مراد لیتے ہیں یہ سن کر سیدنا باقرؒ نے فرمایا "اہلِ ایمان میں سیدنا علیؓ بھی شامل ہیں" ضحاک سے بھی یہی مراد ہے۔

علی بن ابی طلحہ سیدنا ابنِ عباسؓ سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا "سب مومن و مسلم اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں" ہم شیعہ کے ادعاء اور اجماع کو معاف کرتے اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے دعویٰ کے اثبات میں ایک سند صحیح ہی پیش کریں۔ ثعلبی سے نقل کردہ روایت ضعیف ہے اور اسکے راوی مہتم بالکذب ہیں باقی رہا فقیہ ابنُ المغازل واسطی تو اسکی کتاب اکاذیب کا پلندہ ہے اسکی حقیقت سے ہر وہ شخص آشنا ہے جو علمِ حدیث سے معمولی سی بھی واقفیت رکھتا ہے۔

اگر آیت کا مطلب یہ قرار دیا جائے کہ حالت رکوع میں بھی زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے تو یہ موالات کی شرط ٹھہری گی اور سیدنا علیؓ کے سوا کوئی بھی مسلمان ولی نہیں بن سکے گا بنا بریں حسنؓ و حسینؓ بھی امام نہیں ہوں گے۔ 

علاوہ ازیں اس آیت میں یقیمون الصلوٰۃ جمع کا صیغہ ہے لہٰذا صرف واحد اسکا مصداق نہیں ہوسکتا علاوہ ازیں تعریف کسی اچھے کام پر کی جاتی ہے ظاہر یہ کہ نماز میں یہ کام کرنا فعل محمود نہیں ہے اگر یہ اچھا کام ہوتا تو آنحضرتﷺ بھی ایسا کرتے اور اسکی ترغیب دیتے نیز سیدنا علیؓ بار بار یہ کام سرانجام دے رہے ہوتے۔

ظاہر یہ کہ نماز میں ایک طرح کا انہماک ہوتا ہے لہٰذا یہ فصل نماز کے منافی ہے پھر یہ کہنا کس حد تک درست ہے کہ ولی وہی شخص ہوگا جو حالت رکوع میں سجدہ کرے علاوہ ازیں ویوتون الزکوٰۃ کے الفاظ وجودِ زکوٰۃ پر دلالت کرتے ہیں حالانکہ عہدِ رسالت میں سیدنا علیؓ تنگدست تھے اور زکوٰۃ ان پر فرض نہ تھی چاندی کی زکوٰۃ اس شخص پر فرض ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہو اور اس پر ایک سال گذر جائے مگر سیدنا علیؓ صاحبِ نصاب نہ تھے مزید براں اکثر علماء کے نزدیک زکوٰۃ میں انگوٹھی کا دینا کافی نہیں ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ شیعہ مصنف کی ذکر کردہ آیت مندرجہ ذیل کی مانند ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ۝۔ 

(سورۃ البقرۃ آیت 43)۔

ترجمہ: اور نماز پڑھا کرو اور زکوٰة دیا کرو اور (خدا کے آگے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔

يَا مَرْيَمُ اقْنُتِی لِرَبِّكِ وَاسْجُدِی وَارْكَعِی مَعَ الرَّاكِعِينَ۝۔

(سورۃ آل عمران آیت 43)۔

ترجمہ: حضرت مریم علیہا السلام اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا اور سجدہ کرنا اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنا۔

متنازعہ آیت کی صحیح تفسیر:

مفسرین کے یہاں یہ بات عام طور سے مصروف ہے کہ زیرِ نظرِ آیت مولاتِ کفار سے روکنے اور اہلِ اسلام کے ساتھ دوستانہ مراسم کرنے کے سلسلہ میں نازل ہوئی غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاق و کلام بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ترجمہ: اے ایمان والوں! یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ تم میں سے جو شخص ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے ہوگا بےشک اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ 

(سورة المائدہ آیت 52۔51)۔

اس آیت میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے اسکے بعد فرمایا:

ترجمہ: جن لوگوں کے دلوں میں کھوٹ ہے آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بھاگ بھاگ کر ان یہود و نصاریٰ کی طرف جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ان کے ساتھ دوستی نہ لگانے کی صورت میں کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانے کا اندیشہ ہے اللہ تعالیٰ نے عنقریب ہی کسی فتح یا کسی اور بات کی بشارت بنائے گا جس سے وہ ان باتوں پر نادم ہوں گے جو انہوں نے اپنے جی میں پوشیدہ رکھی تھی۔

اسکے بعد فرمایا:إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ الخ۔

سے معلوم ہوا کہ مومنین کا عام وصف ہے مگر سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا علیؓ اور سابقینِ اولین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان میں بالاولیٰ داخل ہیں۔ 

جو شخص حدیثِ نبویہ میں غور و فکر کرے گا اس پر شیعہ مصنف کی دروغگوئی واضح ہوگئی اور شیعہ کی ذکر کردہ تفسیر صحیح ہوتی تو جن لوگوں نے سیدنا علیؓ کا ساتھ چھوڑا تھا اور انکی مدد کا حق ادا نہیں کیا وہ ذلیل و خوار ہوجاتے حالانکہ ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ مظفر و منصور ہوئے او ر انہوں نے بلاد فارس روم اور قبط کو فتح کیا۔

ماخوذ از "الدین الخالص" مشہور محقق علامہ اللہ یار خانؒ 

"منہاج السنۃ النبویہ" از علامہ ابنِ تیمیہؒ۔ 

تنقیح علامہ ذھبیؒ۔  

تخشیہ علامہ محب الدین خطیبؒ۔

ترجمہ: پروفیسر غلام احمد حریری صفحہ 614۔