Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت امام حسن ؓ کی وفات، جنازہ اور تدفین

  جعفر صادق

حضرت سیّدنا حسن بن علی رضی الله تعالیٰ عنہ کے جنازے میں مہاجرین و انصار نے شرکت کی(عمدہ القاری شرح صحیح بخاری) ۔

بنوامیہ پر دن رات بھونکنے والے کتوں کے لئے لمحہ فکریہ!!!!!

سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ کس شخصیت نے پڑھائی؟؟؟؟

(سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا جنازہ سیدنا سعید بن العاص الاموی رضی اللہ عنہ نے پڑھایا تھا)

[شیعہ کتاب شرح نہج البلاغہ جلد 16 کا صفحہ 220]

امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی تاریخ شہادت

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان اسلام اس بارے میں کہ سیدنا امام حسن مجتبی کا وصال کس سن میں ؛ کس مہینے میں اور کس تاریخ میں ہوا؟

بينوا البرهان توجروا عند الرحمن

سائل: محمد اختر رضا

الجواب وهو الموفق للصواب: 

سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ کے سن وصال میں مؤرخین کا کافی اختلاف ہے، اشہر یہ ہے کہ سن ۴۹ میں انتقال ہوا اور راجح یہ ہے کہ سن ۵۰ میں ہوا ۔ رہا یہ کہ مہینہ کون سا تھا تو  معتمد روایات میں ہے کہ وہ ربیع الاول کا مبارک مہینہ تھا اور بعض روایات میں ۵ ربیع الاول بھی بتائی گئی ہے ۔

چناں چہ امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"كانت وفاته سنة ،49 وقيل في خامس ربيع الأول سنة ۵۰، قيل سنة ۵۱" . (تاریخ الخلفاء: ۱۴۷)

اور امام ابن حجر ہیثی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"كانت وفاته سنة 49 أو 50 أو 51 أقوال، والأكثرون على الثاني كما قاله جماعة وغلط الواقدي ما عدا الأول". (الصواعق المحرقة : ۱۹۸)

اور امام ابن حجر عسقلانی کی الاصابۃ میں ہے:

" اختلف في وقت وفاته، فقيل مات سنة 49، وقيل بل مات في ربيع الأول من سنة حمسين". (الاصابة : (۳۸۹/۱

اور ابن کثیر کی البداية والنهاية میں ہے:

"توفي الحسن وهو ابن ۴۷، وكذا قال غير واحد، هو أصح، والمشهور أنه مات سنة ۴۹ كما ذكرنا، وقال أخرون: مات سنة ۵۰". (البداية والنهاية: ۱۱ / ۲۱۲ )

اور تاریخ دمشق میں ہے:

" مات الحسن في ربيع الأول سنة ۴۹، وهو يومئذ ابن ۴۷ سنة"- (13 / ۳۰۰) 

اس میں ہے:

" مات الحسن بن علي لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول سنة ۵۰ " . (۳۰۲/۱۳)

اور الوافی بالوفیات میں ہے:

"توفي الحسن في شهر ربيع الأول سنة ۴۹ في قول الواقدي، وفي سنة ۵۰ في قول جماعة". (الوافى بالوفیات: ۶۷/۱۲)

اور وفیات الاعیان میں ہے:

"مات في شهر ربيع الأول سنة ۴۹ وله ۴۷ سنة، وقيل: مات سنة ۵۰، وهو أشبه بالصواب". (وفيات الاعیان: ۲۵/۲)

مگر ادھر گجرات ، مہاراسٹر سمیت کئی صوبوں میں عموما لوگوں میں یہ غلط فہمی در آئی ہے کہ ۲۸/ صفر کو سید نا امام حسن رضی اللہ تعالی کا یوم شہادت سمجھے ہیں اور اسی مناسبت سے اس دن نیاز کا اہتمام کرتے ہیں ؛ نعت و منقبت اور تقاریر کی محفلیں سجاتے ہیں، حالاں کہ در حقیقت یہ شیعہ مذہب کی روایت ہے جسے طوسی اور قمی کے استاد ؛ مشہور و معروف شیعی مصنف محمد بن محمد بن نعمان معروف به شیخ مفید نے "مسار الشیعة فی مختصر تواریخ الشریعۃ" ص: ۲۲ پر لکھا ہے اور اس پر ایران کے شیعوں کا عمل ہے۔ تعجب تو یہ ہے کہ خود شیعی علما اس روایت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور ان کے نزدیک حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی مستند روایت ۷ / صفر ہے جیسا کہ مشہور شیعی عالم قاسم بن ابراہیم رسی نے " تنثبیت الامامة " ص: ۲۹ پر اور محمد بن مکی عاملی نے "الدروس الشرعية في فقه الامامية " ج : ۲، ص:۷ پر اور ابراہیم بن علی عاملی کفعمی نے " المصباح" ص: ۵۹۶ پر اور حسین بن عبد الصمد عاملی نے " وصول الاختيار الى اصول الاخبار " ص: ۵۳ پر لکھا ہے اور نجف و عراق کے شیعوں کا اس تاریخ پر عمل ہے۔ مگر ہمارے سنیوں کی زبوں حالی اس حد تک ہو گئی ہے کہ جو شیعی روایت خود شیعوں کے نزدیک قوی نہیں ہے ، اس پر کار بند ہیں اور اس کو صحیح سمجھتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ۲۸ صفر کو ہر گز سید نا امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت نہیں ہوئی ہے نہ ہی ے صفر کو بلکہ یہ شیعوں کے مخترعات میں سے ہے ۔ اہل سنت کو چاہیے کہ ہر بیع الاول کو آپ کا یوم شہادت قرار دیں تا کہ صحیح تاریخ بھی ہو اور ساتھ ہی شیعوں کارد بھی ہو جاۓ۔ 

واللہ تعالی اعلم كتبـہ

محمد مزمل البركاتي المصباحي

خادم الافتاء بدار العلوم الغوث الأعظم، فوربندر، (غجرات)

١٤،ربيع الأول 1441هـ

۱۲، نومبر ۲۰۱۹ م


 


یہ اعتراض بھی پڑھیں۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ نے امام حسنؓ  کو روضہ رسولﷺ میں دفنانے نہ دیا اور ان کی لاش پر تیر پھینکے!(معاذاللہ)