شاتمِ صحابہؓ کی گواہی اور اس کا حکم
شاتمِ صحابہؓ کی گواہی اور اس کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک صحابیؓ یا دو صحابہؓ کو باغی، سرکش اور شریر لکھے جیسا کہ وحید الزماں کی کتاب لغات الحدیث میں صفحہ نمبر 36 پر لکھا ہے کہ:
سیدنا امیر معاویہؓ اور سیدنا عمرو بن العاصؓ دونوں باغی، سرکش اور شریر تھے اِن دونوں صحابیوںؓ کے مناقب یا فضائل بیان کرنا ہرگز روا نہیں بلکہ صرف صحابیت کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے ذکر کو سبّ و شتم سے پاک رکھنا ہی کافی ہے۔(معاذ اللّٰہ) قرآن و سنت کی روشنی میں ایسے آدمی کے بارے میں وضاحت فرمائیں۔
جواب: تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا ان میں سے اکثر کو گالی نکالنا اور برا بھلا کہنا کفر ہے، اور کسی ایک صحابیؓ یا دو صحابہؓ کو برا بھلا کہنا فسق ہے۔ ایسے شخص کو سخت سزا دی جائے گی اور اس شخص کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی، جب تک کہ توبہ نہ کرلے۔
واعلم انه قال ارباب التصانیف ان سبّ الصحابة فسق وقال بعضھم ان سب الشیخینؓ کفروا المحقق ان سبّ الشیخینؓ کلھم او اکثرھم کفروا سبّ صحابی واحد او اثنین فسق۔
(فیض الباری:جلد:1:صفحہ:120)
وقال ایضا من شتم احدا من اصحاب النبیﷺ ابابکرؓ او عمرؓ او عثمانؓ او معاویہؓ او عمرو بن العاصؓ فان قال کانوا فی ضلال قتل وان شتمھم بغیر ھٰذا من مشاتمه الناس نکل نکالا شدیدا۔
(رسائل ابن عابدین:جلد:1:صفحہ:358)
ومما یزید ذٰلک وضوحا ما صرحوا به فی کتبھم متونا وشروحا من قولھم ولا تقبل شھادة من یظھر سبّ السلف۔۔ وفسروا السلف بالصالحین منھم کالصحابةؓ والتابعینؒ والائمة المجتھدین۔
(ایضا جلد:1:صفحہ:363)
(ارشاد المفتین:جلد:1:صفحہ:320)