حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قاتل جنگ صفین کے دوگرہوں میں سے صحابہ کرام ہرگز نہیں بلکہ باغی ٹولا ہے
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندحضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قاتل جنگ صفین کے دوگرہوں میں سے صحابہ کرام ہرگز نہیں بلکہ باغی ٹولا ہے۔
حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قاتل جنگ صفین کے دوگرہوں میں سے صحابہ کرام ہرگز نہیں بلکہ باغی ٹولا ہے کیونکہ نحوی اُصول میں الباغیہ الفئتہ کی صفت ہے یہ صفت موصوف تقتلک کا فاعل ہے۔ فاعل کا وجود فعل سے پہلے ہونا ضروری ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ یہ گروہ پہلے سے ہی باغی ہے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی وجہ سے باغی نہیں ٹھہرا۔۔۔۔پتہ نہیں شیعوں کی عقل کہاں گھاس چرنے گئی ہوئی ہے۔
اور اس گروہ کی پہلی بغاوت امیر برحق حضرت عثمان ذوالنورین کے خلاف ہوئی جو لغت و شرع کے مطابق ہے مصباح اللغات کے صفحہ ٦٧ بغی کے تحت ہے فئتہ باغیہ امام عادل کی اطاعت سے نکلنے والی جماعت اور اس سبائی جماعت نے آپ کو شہید کرکے بغاوت کی پہلی لعنت حاصل کی۔۔۔
اب چند ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہوں۔۔۔
حضرت عثمان کے فضائل!۔
١۔ مرہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے جلدی آنے والے فتنوں کا ذکر کیا ایک صاحب کپڑا اوڑھے گذرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس دن ہدایت اور حق پر ہونگے میں ان کی طرف لپکا تو وہ عثمان رضی اللہ عنہ تھے میں نے منہ کی طرف سے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا؟؟؟۔۔۔ آپ نے فرمایا ہاں اور قاتل بلوائیوں کو گمراہ اور باطل فرمادیا۔۔۔
٢۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بنی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر فرمایا تمہیں جلدی ایک اختلاف اور فتنہ سے واسطہ پڑے گا لوگوں میں سے ایک صاحب نے پوچھا ہمارا رہبر کون ہوگا آپ کس کی پیروی کی حکم دیتے ہیں؟؟؟۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماہا۔۔۔
علیکم بالامیر وھو یشیر الی عثمان بذالک بیھقی دلائل النبوہ (مشکواہ صفحہ ٥٦٣)۔۔۔
عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا فرمایا تم اس امیر کی ضرور اطاعت کرنا۔۔۔
جب امیر عثمان رضی اللہ عنہ کی اطاعت واجب تھی تو نافرمان قاتل بلوائی یقینا باغی ہوئے۔