تفسیر اِتقان جلد اول ص 60 پر علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ حضرت عُثمانؓ نے اقرار کیا کہ ان کے جمع کردہ قرآن میں غلطیاں ہیں۔ مگر ان کی تصحیح عرب خود ہی کر لیں گے۔ جواب دیجیے۔ اس قول کی موجودگی میں قُرآن کو غلطیوں سے پاک ماننے کا عقیدہ آپ کے مذہب کے مطابق کِس طرح درست ہوا۔؟
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند♦️ رافضی عبد الکریم مشتاق کا سوال نمبر 6:- ♦️
تفسیر اِتقان جلد اول ص 60 پر علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ حضرت عُثمانؓ نے اقرار کیا کہ ان کے جمع کردہ قرآن میں غلطیاں ہیں۔ مگر ان کی تصحیح عرب خود ہی کر لیں گے۔ جواب دیجیے۔ اس قول کی موجودگی میں قُرآن کو غلطیوں سے پاک ماننے کا عقیدہ آپ کے مذہب کے مطابق کِس طرح درست ہوا۔؟
♦️ الجواب اہلسنّت ♦️
1️⃣۔ سائل پر لازم تھا کہ وہ اتقان کی اصل عبارت نقل کرتے۔ یا اس کا ترجمہ کسی سُنّی عالم کے حوالہ سے نقل کرتے تاکہ اس کے بعد اس عبارت پر تبصرہ کیا جاتا۔
2️⃣۔ اتقان میں تو یہ لکھا ہے کہ:-
{الاجماع و النصوص المترادفة على انّ ترتيب الاٰيات فى سُورها بتوقيفه صلى اللّٰه عليه وسلم وامره من غير خلاف فى هٰذا بين المسلمين۔}
(اتقان جلد اوّل ص 62 مطبوعہ مصر) :-
"اجماع اور نصوص متواترہ سے یہ بات ثابت ہے کہ قرآن مجید کی سورتوں میں آیات کی جو ترتیب ہے وہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی وجہ سے توفیقی ہے۔ اور اس میں مسلمانوں میں سے کِسی کا اختلاف نہیں ہے۔"
3️⃣۔ قرآن مجید جو صدیوں سے عالمِ اِسلام میں موجود ہے۔یہ اس قرآن مجید کی نقل ہے جو حضرت عُثمان ذوالنورین رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے مرتب کر کے مملکت اسلامیہ میں پھیلا دیا تھا۔ اگر شیعہ مذہب کے علماء کے نزدیک یہ صحیح ہے تو فبہا ورنہ وہ صحیح قرآن مجید سامنے کریں۔
4️⃣۔ حضرت عُثمان رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے مرتّبہ و مروجہ قرآن پر اعتراض کرنے والے اپنے گھر کی بھی خبر لیں۔ کیونکہ شیعہ مذہب کی احادیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے تو غضب ناک ہو کر اصلی قرآن کو بھی امام غائب کی طرح بالکل ہی غائب کر دیا تھا۔ چنانچہ اصول ص 671 پر یہ حدیث درج ہے کہ:-
عن سالم بن سلمة، قال: " قرأ رجل على أبي عبداللّٰه (عليه السلام) - وأنا أستمع - حروفاً من القرآن ليس على ما يقرأها الناس، فقال أبو عبداللّٰه (عليه السلام): كف عن هٰذه القرآءة، إقرأ كما يقرءُ الناس، حتى يقوم القائم، فإذا قام القائم قرأ كتاب اللّٰه عز و جل علٰی حدّه واخرج المصحف الذي كتبه علي (عليه السلام) إلى الناس حين فرغ منه وكتبه، فقال لهم: هذا كتاب اللّٰه عز و جل كما أنزله اللّٰه علٰى محمد صلى اللّٰه عليه وآله وسلّم جمعته من اللوحين، فقالوا هو ذا عندنا مصحفٌ جامع فيه القرآن، لا حاجة لنا فيه. فقال: أما واللّٰه ما ترونه بعد يومكم هذا أبدًا، إنّما كان عليّ أن أخبركم حين جمعته لتقرءوه"۔
اس روایت کا ترجمہ شیعہ ادیب اعظم سیّد ظفر الحسن امروہوی نے حسب ذیل لکھا ہے:۔
"راوی کہتا ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابو عبداللّٰه (یعنی امام جعفر صادق) علیہ السلام کے سامنے قرآن پڑھا میں کان لگا کر سن رہا تھا اس کی قراءت عام لوگوں کی قراءت کے خلاف تھی۔ حضرت نے فرمایا اس طرح نہ پڑھو بلکہ جیسے سب لوگ پڑھتے ہیں تم بھی پڑھو۔ جب تک ظہور قائم آل محمد نہ ہو۔ جب ظہور ہو گا تو وہ قرآن کو صحیح صورت میں تلاوت کریں گے اور اس قرآن کو نکال لیں گے جو حضرت علی علیہ السلام نے اپنے لیے لکھا تھا اور فرمایا جب حضرت علی جمع قرآن اور اس کی کتابت سے فارغ ہوئے تھے تو آپ نے اس کو حکومت کے سامنے پیش کر کے فرمایا یہ ہے کتاب اللّٰه جس کو میں نے اس ترتیب سے جمع کیا ہے جس طرح حضرت رسول خدا پر نازل ہوئی تھی میں نے اس کو دو لوحوں (لوحِ دل اور لوحِ مکتوب) سے جمع کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہمارے پاس جامع قران موجود ہے۔ ہمیں آپ کے قرآن کی ضرورت نہیں۔ حضرت نے فرمایا۔ بخدا اس کے بعد اب تم کبھی اس کو نہ دیکھو گے۔ میرا فرض ہے کہ میں تم کو اس سے آگاہ کر دوں تاکہ تم اس کو پڑھو۔"
(شافی اصول ترجمہ کافی جلد دوم کتاب فضل القرآن ص 631)
ترجمہ میں شیعہ ادیب اعظم نے جو یہ لکھا ہے کہ:۔
"اس قرآن کو نکال لیں گے جو حضرت علی علیہ السلام نے اپنے لیے لکھا تھا۔" یہ الفاظ کہ "اپنے لیے لکھا تھا" روایت میں نہیں ہیں۔ یہ مطلب ادیب صاحب نے اپنی طرف سے بڑھا لیا ہے تاکہ اہل سنت کو یہ جواب دیا جائے کہ حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے جس قرآن کو غائب کیا تھا وہ انہوں نے صرف اپنے لیے لکھا تھا اس لیے قابل اعتراض نہیں۔ لیکن یہ توجیہ بھی غلط ہے کیونکہ اگر اپنے لیے لکھا تھا تو پھر لوگوں پر پیش کیوں کیا تھا: اور خود روایت کے ان الفاظ سے کہ "لِتَقْرَءوهُ" (تاکہ تم اس کو پڑھو) یہی ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کے پڑھنے کے لیے لکھا اور پیش کیا تھا۔ علاوہ ازیں ادیب اعظم نے ترجمہ میں لکھا ہے:-
"اس کو حکومت کے سامنے پیش کر کے فرمایا۔"
حلانکہ روایت میں حکومت کا لفظ نہیں بلکہ الناس کا لفظ ہے جس سے عام لوگ مراد ہیں۔ شاید مترجم صاحب نے اس لیے حکومت کا لفظ لکھ دیا ہے تاکہ لوگ اس وقت کی حکومت و خلافت سے بدظن ہو جائیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے لکھے ہوئے قرآن کو قبول نہیں کیا تھا۔ بہرحال اصول کافی کی اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اصلی اور صحیح قرآن حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے بالکل ہی غائب کر دیا تھا۔
5️⃣۔ علامہ باقر مجلسی نے یہ روایت لکھی ہے کہ:-
بعد چند روز کلام اللّٰه ناطق یعنی جناب امیر نے قرآن کو جمع فرمایا اور جزودان میں رکھ کر سربمہر کر دیا اور مسجد میں تشریف لا کر مجمع مہاجر و انصار میں ندا فرمائی کہ "اے گروہ مردمان ! جب میں دفن پیغمبر آخر الزمان صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے فارغ ہوا بحکم آنحضرت قرآن جمع کرنے میں مشغول ہوا اور جمیع آیات دسور ہائے قرآنی کو میں نے جمع کیا ہے اور کوئی آیت آسمان سے نازل نہیں ہوا جو حضرت نے مجھے نہ سنایا ہو اور اس کی تاویل مجھے نہ تعلیم کی ہو۔ چونکہ اس قرآن میں چند آیات کفر و نفاق منافقان قوم و نص خلافت جناب امیر پر صریح تھے اس وجہ سے عمر نے اس قرآن کو قبول نہ کیا پس جنابِ امیر خشمناک اپنے حجرۂ طاہرہ کی جانب تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اب قرآن کو تم لوگ تا ظہور قائم آل محمد نہ دیکھو گے۔"
(جلاء العیون مترجم اردو جلد اول ص 150 مطبوعہ لکھنؤ؛ ایضًا جلاء العیون جلد اول مطبع انصاف پریس لاہور ص 202)
یہ بھی ملحوظ رہے کہ لکھنؤ کے ترجمہ میں تو یہ الفاظ ہیں:-
"اس وجہ سے عمر نے اس قرآن کو قبول نہ کیا۔"
اور لاہور کے مطبوعہ ترجمہ میں یہ لکھا ہے کہ:-
"اس وجہ سے خلافت نے اس قرآن سے انکار کر دیا۔"
بہرحال مندرجہ دونوں روایتوں سے بالکل واضح ہے کہ جو قرآن حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے جمع کر کے لوگوں کے سامنے پیش فرمایا تھا اس کو انہوں نے قبول نہ کیا اور دوسری روایت سے حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے جمع کردہ قرآن کی وجہ بھی یہ بیان کر دی ہے کہ اس قرآن میں منافقین قوم کے کفر اور نفاق کے متعلق چند آیات صریح پائی جاتی تھیں اور حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی خلافت کے لیے بھی صریح آیات تھیں۔ اس لیے انہوں نے اس قرآن کو قبول نہ کیا۔ اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو قرآن ان لوگوں کے پاس پہلے سے موجود تھا اس میں نہ ان منافقین کے خلاف تصریح پائی جاتی تھی اور نہ ہی اس میں حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے حق میں ان کی خلافت کے لیے تصریح موجود تھی۔ اور چونکہ آج بھی امت مسلمہ کے پاس وہی قرآن ہے جو حضرت عمر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اور اصحابِ خلافت کے پاس اس وقت موجود تھا اس لیے اس قرآن میں حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی خلافت پر کوئی نص نہیں پائی جاتی۔ تو پھر شیعہ علماء اور مجتہدین موجودہ قُرآن میں سے حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی خلافت و امامت کی نص کیونکر ثابت کر سکتے ہیں؟ اور یہی وجہ ہے کہ مولوی عبد الکریم مشتاق نے اپنے رسالہ "میں شیعہ کیوں ہوا" میں اگرچہ دعویٰ یہی پیش کیا ہے کہ بارہ اماموں کی امامت قرآن سے ثابت ہے لیکن وہ اس قرآن میں سے بطور نص کوئی آیت پیش نہیں کر سکے۔ صرف وہی آیات پیش کی گئی ہیں جن میں اگلی امتوں اور ان کے پیشواؤں کا ذکر ہے۔ اگر اس قرآن میں حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ سمیت بارہ ائمہ کی امامت و خلافت کا کہیں ذکر کسی آیت میں پایا جاتا ہے تو پاکستان کا کوئی شیعہ عالم اور مجتہد ہمارے سامنے پیش کر دے۔
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانكُمْ إنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۔
6️⃣۔ حسبِ حدیث اصول کافی جب حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے اصلی اور صحیح قرآن کو غائب کر دیا تو وہ نہ معصوم ثابت ہو سکتے ہیں نہ خلیفہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم۔ کیونکہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:-
{إِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَ الۡھُدٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الۡکِتٰبِ ۙ أُولٰٓئِكَ یَلۡعَنُھُمُ اللّٰہُ وَ یَلۡعَنُھُمُ اللّٰعِنُوۡنَ۔
إِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ أَصۡلَحُوۡا وَ بَیَّنُوۡا فَأُولٰٓئِکَ أَتُوۡبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَ أَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ۔}
(پارہ 2، سورۃ البقرۃ، آیت 159، 160)
ترجمہ:-
"بےشک جو لوگ ان واضح بیانات اور ہدایت کو چھپاتے ہیں جِن کو ہم نے نازل کیا ہے اس کے بعد کہ ہم نے ان واضح ہدایات کو اپنی کتاب میں لوگوں (کی ہدایت کے لیے) کھلم کھلا بیان کر دیا ہے۔ ایسے لوگوں پر اللّٰه کی لعنت ہوتی ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت کرتے ہیں۔ مگر جو لوگ توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں اور ان ہدایات کو ظاہر کر دیں تو ایسے لوگوں کی توبہ میں قبول کر لیتا ہوں اور میں بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور بہت زیادہ رحم کرنے والا ہوں۔"
اس آیت میں ان لوگوں کے متعلق اللّٰه تعالٰی نے اپنا واضح حکم بیان فرما دیا ہے جو اللّٰه کی کتاب میں نازل شدہ ہدایات کو چھپاتے ہیں اور ان کو لوگوں پر ظاہر نہیں کرتے۔تو فرمائیے کہ اگر حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ انہوں نے غضب ناک ہو کر اللّٰه تعالٰی کا نازل کردہ سارا قرآن ہی غائب کر دیا اور پھر اس کو امامِ غائب صدیوں سے اپنے پاس رکھ کر امتِ مسلمہ سے غائب کئے ہوئے ہیں۔ تو اللّٰه تعالٰی کے حکم کے تحت ان کا کیا حال ہوگا، العیاذ باللّٰہ۔ اہل السنّت والجماعت تو حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے متعلق یہ تصوّر بھی نہیں کرسکتے کہ انہوں نے صحیح اور اصلی قرآن کو غصّہ میں آ کر چھپا دیا تھا لیکن جِن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے اور حضرت امام مہدی کی مصدقہ کتاب اصول کافی میں جِس کا ذکر ہے اور جو شیعہ علماء کے نزدیک سب سے صحیح ترین کتاب ہے ان کے اس عقیدہ کی بنا پر حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے کہ ان کو خلیفۂ بلا فصل ماننا امت مسلمہ پر لازم قرار دیا جائے۔
شاہ صاحب۔ سمجھیں اور غور فرمائیں۔ کہ حضرات اہلِ بیت کی طرف منسوب کردہ اس مذہب کے کیسے کیسے عجیب و غریب عقائد و مسائل ہیں جِس کی طرف امّتِ مسلمہ کو دعوت دی جا رہی ہے۔