خلافت ثلاثہ کی تائید میں اکثر آپ کی طرف سے قرآن مجید کی آیت استخلاف سے استدلال کیا جاتا ہے۔ کیا صحاح ستہ میں کوئی ایک بھی ایسی روایت ملتی ہے جو مرفوع و متواتر ہو۔ اور اس کے راوی تمام ثقہ ہوں جس میں اصحابِ ثلاثہ میں سے کسی ایک نے دعویٰ کیا ہو کہ آیت استخلاف ہماری خلافت کی دلیل ہے۔ اگر کوئی ایسی روایت ہے تو اس شرط کے ساتھ مکمل نشاندہی کرائیے کہ سلسلہ رواۃ میں سے کوئی ایک صاحب ضرور موجود ہوں۔
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند♦️ رافضی عبد الکریم مشتاق کا سوال نمبر 4:- ♦️
خلافت ثلاثہ کی تائید میں اکثر آپ کی طرف سے قرآن مجید کی آیت استخلاف سے استدلال کیا جاتا ہے۔ کیا صحاح ستہ میں کوئی ایک بھی ایسی روایت ملتی ہے جو مرفوع و متواتر ہو۔ اور اس کے راوی تمام ثقہ ہوں جس میں اصحابِ ثلاثہ میں سے کسی ایک نے دعویٰ کیا ہو کہ آیت استخلاف ہماری خلافت کی دلیل ہے۔ اگر کوئی ایسی روایت ہے تو اس شرط کے ساتھ مکمل نشاندہی کرائیے کہ سلسلہ رواۃ میں سے کوئی ایک صاحب ضرور موجود ہوں۔
♦️ الجواب اہلسنّت ♦️
1️⃣۔ یہ سوال بھی برائے سوال ہے جس سے تحقیق مقصود نہیں۔ کیونکہ ہمارا استدلال آیتِ استخلاف سے یہ ہے کہ اس آیت میں اللّٰه تعالٰی نے ان لوگوں کو خلیفہ بنانے کا وعدہ فرمایا ہے جو نزولِ آیت کے وقت موجود تھے اور ایمان اور عمل صالح سے متصف تھے۔ اور گو اس آیت میں نام کسی خلیفہ کا بھی نہیں ہے لیکن اگر خلفائے ثلاثہ کو اس آیت کا مصداق نہ قرار دیا جائے تو آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلافت نبوت عطا کرنے کا وعدہ صحیح نہیں تسلیم کیا جاسکتا۔ کیونکہ اس حقیقت سے تو کوئی مخالف بھی انکار نہیں کرسکتا کہ حضور خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بالترتیب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اور حضرت عُثمان رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ ذوالنّورین منصبِ خلافت پر متمکن ہوئے ہیں اور ان کے بعد چوتھے نمبر پر حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ بالفعل خلیفہ بنے ہیں۔ اب اگر حسب عقیدہ شیعہ خلفاۓ ثلاثہ کو برحق خلیفہ نہ تسلیم کیا جائے تو یہ لازم آتا ہے کہ اللّٰه تعالٰی اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکا اور بجائے مومنین کاملین کے مستحق حضرات کی جگہ غیر مستحق افراد منصب خلافت پر قابض ہو گئے۔ اور حضرت علی المُرتضٰی کی خلافت سے پہلے تقریبا ۲٤/۲۵ سال کا طویل عرصہ کسی بالفعل خلیفہ سے خالی رہا۔ تو اس صورت میں کون صاحبِ عقل و ہوش مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ آیتِ استخلاف میں اللّٰه تعالٰی نے جو وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہو گیا۔ اور جب اس وقت کی تمام اُمّتِ مسلمہ اس حقیقت کا مشاہدہ کر رہی تھی کہ ان خلفائے ثلاثہ رضوان اللّٰه تعالٰی علیھم اجمعین نے اپنے اپنے دورِ خلافت میں دینِ اِسلام کو استحکام عطا کیا ہے اور غلبۂ اِسلام اس درجہ کا ہوا کہ قیصر و کسریٰ کی صدیوں کی طاغوتی طاقتوں کو ان خلفائے اِسلام رضوان اللّٰه تعالٰی علیھم اجمعین نے نیست و نابود کر دیا۔ تو اب ان حضرات کو اس بات کے اعلان کی کیا ضرورت تھی کہ آیتِ استخلاف کی پیشگوئی ہمارے حق میں ہی تھی۔ مثلًا ایک شخص آگے کھڑا ہے اور ہزاروں مسلمان اس کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ تو اب اس امام کے لیے اس اعلان کی کیا ضرورت ہے کہ لوگو:- میں تمہارا امام ہوں اور میں نے تم کو نماز پڑھائی ہے۔
2️⃣۔ اور اگر حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ ہی یہ فرما دیں کہ آیتِ استخلاف کا مصداق فلاں ہیں تو پھر حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے متعلق خلیفہ بلافصل کا عقیدہ رکھنے والوں کے لیے خلفائے ثلاثہ کی خلافتِ راشدہ کے انکار کے لیے کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ چنانچہ نہج البلاغۃ میں اس امر کی تصریح پائی جاتی ہے کہ فارس کی جنگ کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ خلیفہ ثانی نے جب بنفس خود تشریف لے جانے کے متعلق حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ سے مشورہ کیا تو آپ نے فرمایا:-
انّ ھذا الامر لَمْ یکن نصره ولاخذلانہ بِکثرۃ ولابقلّة وھو دین اللّٰه الذی اَظھرہ و جندہ الذی اعدّہ وَ اَمدّہ حتٰی بلغ ما بلغ و طلع حیث طلع و نحن علی موعود من اللّٰه و اللّٰه منجز وعدہ و ناصر جندہ الخ۔
ترجمہ:-
اس امرِ دین کی کامیابی اور ناکامی (فتح اور شکست) لشکر کی کثرت و قلت پر موقوف نہیں ہے اور وہ اللّٰه کا دین ہے جِس کو اُس نے غالب کیا ہے اور یہ اس کا لشکر ہے جس کو اس نے مہیّا کیا ہے اور بڑھایا ہے حتٰی کہ پہنچا جہاں تک کہ پہنچا اور طلوع ہوا جس حیثیت سے کہ وہ طلوع ہوا (اور دور دور تک پھیل گیا) اور ہم لوگوں سے اللّٰه کا ایک وعدہ ہے اور اللّٰه اپنے وعدے کو پورا کرنے والا ہے اور اپنے لشکر کی مدد کرنے والا ہے الخ۔
یہاں حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے اللّٰه تعالٰی کے جس وعدے اور اس کے پورا کرنے کا ذکر فرمایا ہے یہ وہی ہے جو سورۃ النور کی زیرِ بحث آیتِ استخلاف میں مذکور ہے۔ چنانچہ علامہ میثم بحرانی نے اپنی شرح نہج البلاغہ میں حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے مندرجہ ارشاد کے تحت لکھا ہے کہ:-
ثم وعدنا بموعود وھو النصر والغلبة والاستخلاف فی الارض کما قال "وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ الایۃ۔ وکل وعد من اللّٰه فھو منجز لعدم الخلف فی خبرہ۔"
(نہج البلاغہ جلد ثالث ص 196 مطبوعہ تہران)
ترجمہ :-
پھر اللّٰه نے جو ہم سے وعدہ فرمایا ہے وہ نصرت، غلبے اور ملک میں خلیفہ بنانے کا ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا اس آیت میں:
"وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ (*1) فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ۔"
اور اللّٰه تعالٰی کا ہر وعدہ ضرور پورا ہونے والا ہے کیونکہ اس کی دی ہوئی خبر کے خلاف کوئی بات نہیں ہو سکتی۔"
حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے اس ارشاد سے واضح ہو گیا کہ آپ آیت استخلاف کا مصداق حضرت عمر فاروق رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی خلافت کو قرار دیتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے غزوۂ روم میں بھی حضرت عمر فاروق رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو مشورہ دیا ہے جِس سے حضرت عمر فاروق رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کا حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے نزدیک خلیفہ برحق ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن بخوف طوالت اس عبارت کو
ہم یہاں پیش نہیں کرتے اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ نہج البلاغۃ حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جن کے متعلق شیعہ علماء یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ لفظ بلفظ حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے ہی ارشادات ہیں۔ اگر اپنی مستند کتابوں سے بھی شیعہ علماء حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کا ارشاد تسلیم نہیں کرتے تو پھر ان کا معاملہ اللّٰه تعالٰی ہی کے سپرد ہے۔ واللّٰہ الھادی۔
(*1) مشہور شیعہ مفسر نے اس آیتِ استخلاف کا ترجمہ حسب ذیل کیا ہے :-
"ان سب لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے۔ اللّٰه نے یہ وعدہ کیا ہے کہ ضرور ان کو اس زمین میں جانشین بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو جانشین بنایا تھا اور ضرور ان کے دین کو جو اس نے ان کے لیے پسند کر لیا ہے ان کی خاطر پائیدار کر دے گا اور ضرور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ اس وقت وہ میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد ناشکری کرے گا پس نافرمان وہی ہیں۔"
(ترجمہ مقبول)