Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

گواہ عیسائی ہونے کی صورت میں نکاح کا حکم


سوال: میں نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف کورٹ میں شادی کی تھی اور رخصتی سے پہلے ہی مجھ پر گھر والوں کی طرف سے بہت دباؤ ڈالا گیا اور مجھے طلاق دینے پر مجبور کر دیا گیا۔ اب جبکہ وکیل کو نکاح نامہ دکھایا گیا تو اس نے واضح کیا کہ چونکہ نکاح ہی نہیں ہوا تو طلاق کی کیا حیثیت؟ نکاح نامے میں گواہ نمبر 2 غیر مسلم عیسائی ہے، اور کوئی وکیل بھی نہیں ہے۔ اس مسئلہ میں آپ کی راہنمائی کی ضرورت ہے کہ نکاح ہوا یا نہیں؟ اگر نکاح نہیں ہوا تو کیا میں دوبارہ سے دو مسلمان گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرسکتا ہوں؟

جواب: طلاق کے وقوع کے لئے نکاح کا ہونا ضروری ہے کہ نکاح شرعاً منعقد ہو چکا ہو، اس کے بعد طلاق واقع ہو سکتی ہے۔ نکاح شرعی کے انعقاد کے لئے دو مسلمان عاقل بالغ گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے، ان کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ مجلس میں موجود ہر مسلمان شخص ازخود ہی گواہ بن جاتا ہے، نکاح نامے پر اس کا نام وغیرہ لکھنا ضروری نہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً ایجاب و قبول کے وقت ان دو گواہوں کے علاؤہ کوئی اور مسلمان وہاں موجود نہیں تھا تو اس میں ایک گواہ چونکہ عیسائی ہے، اس کی شہادت کا مسلمانوں کے نکاح میں اعتبار نہیں، تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔ لہٰذا اس کے بعد دی جانے والی طلاق بھی واقع نہ ہو گی۔

اس صورت میں اب آپ شرعی طریقے کے مطابق دو مسلمان عاقل بالغ گواہوں کی موجودگی میں اس لڑکی سے نکاح کر سکتے ہیں، لیکن اگر وہاں کوئی اور مسلمان موجود تھا اور آپ اس لڑکی کے کفوء (دین مال، نسب، پیشہ وغیرہ کے اعتبار سے) برابر ہوں تو پھر آپ کا نکاح منعقد ہو گیا اور اس کے بعد یکبارگی تین طلاق دینے سے وہ مغلظہ ہو گئی۔ اس صورت میں بغیر حلالہ شرعی کے آپ کے لئے اس کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں۔

(نجم الفتاویٰ: جلد، 4 صفحہ، 209)