Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

آپ حضرات خود کو سنی یا اہلِ سنت والجماعت کہلواتے ہیں۔ برائے مہربانی کتب صحاح ستہ میں کوئی ایسی روایت دکھائیے جِس میں ابوبکر، عمر، عثمان (رضی اللہ عنھم) میں سے کِسی ایک نے بھی یہ کہا ہو کہ میں سنی ہوں ہو یا میرا مذہب اہلِ سنت والجماعت ہے۔ حوالہ مکمل دیجیے۔۔۔ اور پیش کردہ روایت کی توثیق بھی تحریر فرمائیے۔

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

♦️ رافضی عبد الکریم مشتاق کا سوال نمبر 1:- ♦️

آپ حضرات خود کو سنی یا اہلِ سنّت والجماعت کہلواتے ہیں۔ برائے مہربانی کتب صحاح ستہ میں کوئی ایسی روایت دکھائیے جِس میں ابوبکر، عُمَر، عُثمان (رضی اللّٰهُ تعالٰی عنھم) میں سے کِسی ایک نے بھی یہ کہا ہو کہ میں سنی ہوں ہو یا میرا مذہب اہلِ سنّت والجماعت ہے۔ حوالہ مکمل دیجیے۔۔۔ اور پیش کردہ روایت کی توثیق بھی تحریر فرمائیے۔

♦️ الجواب اہلسنّت ♦️

1️⃣۔ یہاں تو عبد الکریم مشتاق صاحب نے حدیث سے اپنے اہلِ سنّت ہونے کا مطالبہ پیش کیا ہے، لیکن انہوں نے اپنے رسالہ "میں شیعہ کیوں ہوا" کے آخر میں مذہبِ اہلِ سنّت والجماعت پر جو نمبردار یکصد سوالات وارد کیے ہیں اس میں پہلا سوال یہ ہے کہ:

"آپ کے مذہب کا نام سنی، اہلِ سنّت یا اہلِ سنّت والجماعت  ہے۔ قرآن کی اس آیت کا نشان دیجیے جہاں آپ کے مذہب کا نام مذکور ہو؟؟"

گویا کہ شیعہ سائل صاحب کا یہ مطلب ہے کہ اگر قرآن مجید میں یا کِسی حدیث میں اہلِ سنّت یا اہلِ سنّت والجماعت کے الفاظ کا ثبوت نہیں ملتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مذہب اہلِ سنّت برحق نہیں ہے۔ اور پھر سائل موصوف نے نمبر شمار بڑھانے کے لیے اسی ایک سوال کو مختلف اجزاء میں پھیلا کر اس کے دس عدد سوالات بنا دیے ہیں۔ حالانکہ ان کی یہ روش صِرف سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے ہے، جِس کا تحقیق حق یا تبلیغ حق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر اس قسم کے سوالات کی بنا پر کسی مذہب کے حق اور باطل ہونے کا فیصلہ کیا جائے تو پھر شیعہ مذہب کی حیثیت تو بالکل ختم ہو جائے گی۔

♦️1۔) مثلًا شیعہ مذہب میں حضور خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ سے لے کر امام غائب حضرت مہدی تک بارہ امام اللّٰه تعالٰی کی طرف سے مثل انبیائے کرام کے نامزد ہیں۔ اور وہ انبیائے سابقین حضرت ابراہیم خلیل اللّٰه، حضرت موسٰی کلیم اللّٰه اور حضرت عیسٰی روح اللّٰه علیھم السلام سے بھی افضل ہیں۔

  ✳️ شیعوں کے نزدیک اصول دین پانچ ہیں۔ ✳️

پہلا، "توحید" 

دوسرا "عدل"

تیسرا "نبوت"

چوتھا "امامت"

پانچواں "قیامت"، ملاحظہ ہو۔

تحفۃ العوام حصہ اول ص 3 مطبوعہ لکھنئو 1931ء اور مولوی عبد الکریم صاحب مشتاق نے بھی اپنے رسالہ "میں شیعہ کیوں ہوا" صفحہ 4 پر لکھا ہے:-

"مذہبِ شیعہ کے مطابق اِسلام کی اساس مندرجہ ذیل پانچ اصولوں پر ہے۔

1: توحید،

2: عدل،

3: نبوت و رسالت،

4: امامت،

5: قیامت۔ "

لیکن موجودہ قُرآن میں جہاں توحید و رسالت اور قیامت کا جابجا ذکر ملتا ہے وہاں امامت کا مثل نبوت و رسالت کے کہیں ثبوت نہیں ملتا۔

حضرت محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد ایمانیات میں امامت اور اماموں پر ایمان لانے کا کسی آیت میں بھی کوئی حکم نہیں پایا جاتا۔ مثلًا فرمایا:-

{اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ إِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّهٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ ۟}

(سورہ البقرہ، آیت 285)

ترجمہ: 

"رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) اس (وحی) پر ایمان رکھتے ہیں، جو آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس نازل کی گئی ہے، اور مومنین بھی (اس پر ایمان رکھتے ہیں) سب کے سب ایمان رکھتے ہیں اللّٰه کے ساتھ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ اور اس کی کتابوں کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ۔"

یہاں ملائکہ اور رسل پر ایمان لانے کا تو ذکر واضح ہے لیکن امامت اور ائمہ پر ایمان لانے کا کوئی ادنٰی سے ادنٰی نشان بھی موجود نہیں ہے۔

♦️2۔) {لَیۡسَ الۡبِرَّ أَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡھَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَةِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ}

۔(سورہ البقرہ، آیت 177)

ترجمہ: 

"یہ پوری نیکی نہیں ہے کہ تم اپنے مونہوں کو مشرق یا مغرب کی طرف کر لو، لیکن کامل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللّٰه پر ایمان رکھے اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور نبیوں پر۔"

اس آیت میں بھی انبیاء، ملائکہ وغیرہ پر ایمان رکھنے کا ذکر تو صراحتًا پایا جاتا ہے۔ لیکن اس میں امامت اور ائمہ کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ شیعہ علماء اس قُرآن عظیم میں کوئی ایسی آیت ثابت کر دیں جِس میں مومنین کے لیے مثل انبیاء و رسل کے امامت اور ائمہ پر ایمان لانے کا حکم یا ذکر موجود ہے۔

♦️3۔) تعجب ہے کہ جو انبیائے کرام علیھم السلام پہلی امتوں میں گزر چکے ہیں ان سب پر تو ایمان لانے کا ذکر موجود ہے۔ اور ان میں سے بعض انبیائے کرام علیھم السلام کا نام لے کر ان پر اور ان کی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان لانے کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔۔ مثلًا:

{قُولُوا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلٰى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَآ أُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ أُوْتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَّبِّهِمْ۔}

(سورہ البقره، آیت 136)

ترجمہ:-

"تم کہہ دو کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللّٰہ پر اور اس پر جو ہماری طرف نازل ہوا ہے اور اس پر جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور آپ کی اولاد کی طرف نازل ہوا ہے، اور اس پر جو حضرت موسٰی حضرت عیسٰی کو دیا گیا ہے ، اور اس پر جو دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا ہے۔"

لیکن حسب عقیدہ شیعہ جِن بارہ اماموں پر مثلِ انبیاء و رسل کے ایمان لانا فرض ہے اور جو انبیائے سابقین علیھم السلام سے بھی افضل ہیں ان پر ایمان لانے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ اور نہیں تو کم از کم ان پہلے تین اماموں پر ایمان لانے کا تو ذکر ضروری تھا جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے۔

 یعنی حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، حضرت حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اور حضرت حُسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ اور اگر ان تینوں کا نہیں تو صِرف حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، پر ایمان لانے کا ذکر پایا جاتا۔ جو ابو الائمہ ہیں اور حسبِ عقیدہ شیعہ کلمۂ اسلام میں توحید و رسالت کے بعد ان کی خلافت بلا فصل کا اگر اقرار نہ کیا جائے تو آدمی ایمان سے  محروم رہتا ہے خواہ وہ توحید اور رسالت کا اقرار کر لے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی خلافت و امامت پر ایمان لانا تو کجا۔ علی بن ابی طالب کا تو قرآن میں کہیں نام کے ساتھ کوئی ذکر بھی موجود نہیں ہے۔ تو ان بارہ اماموں میں سے قرآن میں کسی امام کا بھی بہ نشان نام ذکر نہ کرنا اور ان کی امامت کے تذکرہ سے بھی قرآن مجید کا خالی ہونا۔ کیا اس امر کی بیّن دلیل نہیں ہے کہ یہ بارہ امام مثل انبیاء و رسل کے کوئی خدائی عہدہ مثل امامت وغیرہ کے نہیں رکھتے جس کی بنا پر مثل انبیاء کے ان پر ایمان لانا واجب ہو۔

♦️4۔) اہل السنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنه المُرتضٰى سے لے کر حضرت حسن عکسری تک سب اولیاء اللّٰه ہیں جِن میں سے پہلے تین حضرات یعنی حضرت علی حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللّٰهُ تعالٰی عنھم کو شرفِ صحابیت حاصل ہے اور ان میں سے حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ چوتھے برحق خلیفہ ہیں۔ اور امام حسن رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ بھی برحق ہیں لیکن آپ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے چھ ماہ کے بعد اپنی خلافت سے دستبردار ہو کر حضرت معاویہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو خلیفۂ اِسلام تسلیم کر لیا اور مع اپنے بھائی حضرت امام حُسین رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے ان سے سالانہ لاکھوں روپے وظیفہ لیتے رہے۔ اہل سنّت ان حضرات کو ان کے درجات کے مطابق مانتے ہیں۔ اور حضرت مہدی قرب قیامت میں پیدا ہوں گے اور خلافت حقہ کے منصب پر فائز المرام ہوں گے لیکن جِس طرح ان حضرات کو شیعہ فرقہ کے لوگ مانتے ہیں اس کا موجودہ قرآن میں تو کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔

هَاتُوْا بُرْهَانَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن...

بہرحال اگر اس قرآن میں ان بارہ اماموں کا نام نہیں پایا جاتا جن پر حسبِ عقیدہ شیعہ مسلسل انبیاء کے ایمان لانا واجب ہے تو اگر اہل سنّت یا اہل السنّت و الجماعت کے الفاظ قرآن مجید میں نہ موجود ہوں تو یہ کیونکر محل اعتراض بن سکتا ہے۔

♦️5۔) لفظ شیعہ کا گو قرآن مجید میں مذکور ہے لیکن اکثر مذموم معنی میں پایا جاتا ہے مثلًا:

{إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا۔}

(سورۃ القصص، آیت 4)

شیعہ مفسر مولوی مقبول احمد دہلوی نے اس آیت کا ترجمہ یہ لکھا ہے:

"بے شک فرعون اس سر زمین میں غالب تھا اور اس کے باشندوں کو اس نے کئی گروہ بنا دیا تھا۔" 

لفظ شِيَعًا جمع شِیْعَة کی ہے بمعنی گروہ۔ اگر شیعہ کوئی مذہبی اصطلاح ہے جیسا کہ شیعہ علماء دعویٰ کرتے ہیں تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ شیعوں کا بانی فرعون ہے۔

2️⃣۔ {فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيٰطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا۔ ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيْعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا۔}

(سورۃ المریم، آیت 68)

"سو قسم ہے آپ کے رب کی ہم ان کو (اس وقت) جمع کریں گے اور شیاطین کو بھی۔ پھر ان کو دوزخ کے گردا گرد گھٹنوں کے بل گِرا ہوا حاضر کریں گے پھر ضرور ہم ہر گروہ میں سے ان کو الگ کریں گے جو خُدا کے بر خلاف زیادہ ہیکڑی کرنے والے تھے۔"

(ترجمہ مقبول) 

اور اگر شیعہ کوئی مذہبی اصطلاح ہے تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس آیت کے تحت قیامت میں ہر شیعہ کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔؟

ازروئے لغت لفظ شیعہ کا معنی گروہ یا پیروکار کے ہیں۔ اور قرآن مجید میں کہیں بھی کسی مذہب نام کے طور پر لفظ شیعہ کا استعمال موجود نہیں ہے۔ لیکن شیعہ عمومًا یہ  پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام شیعہ تھے اور قرآن مجید میں ان کا شیعہ ہونے کا ذکر حسبِ ذیل آیت میں ہے۔

{وَ إِنَّ مِنْ شیعَتِهٖ لَإِبْرٰھِیْمَ۔}

(سورة الصّٰفّٰت، آيت 83)

ترجمہ:-

"اور یقینًا ابراہیم بھی ان (یعنی حضرت نوح) ہی کے پیروؤں میں سے تھے۔"

(ترجمہ مقبول)

کیا اس ترجمہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آیت میں لفظ شیعہ کسی مذہبی نام کے طور پر استعمال ہوا ہے جس کی بنا پر یہ کہا جائے  کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام شیعہ تھے۔

(ب) اگر بالفرض مذہبی نام کی حیثیت سے حضرات ابراہیم علیہ السلام  شیعہ تھے۔ تو پھر تو آپ کی ملت کی پیروی کی بنا پر حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی شیعہ ماننا چاہیے۔ لیکن کیا شیعہ مجتہد قرآن یا حدیث سے ثابت کر سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہو کہ میں شیعہ ہوں ؟ اور کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ حضرت علی المُرتضی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے یہ فرمایا ہو کہ میں شیعہ ہوں۔ سائل پر لازم تھا کہ وہ پہلے  حضور خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی المُرتضی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے بارے میں قرآن یا حدیث صحیح سے یہ ثابت کرتے کہ انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ ہم شیعہ ہیں اور پھر اہل السنّت و الجماعت سے یہ مطالبہ کرتے کہ:- برائے مہربانی کتب صحاح ستہ میں کوئی ایسی روایت دکھائیے جس میں حضرت ابوبکر، عمر، عُثمان رضی اللّٰهُ تعالٰی عنھم میں سے کسی ایک نے بھی یہ کہا ہو کہ: "میں سُنّی ہوں یا میرا مذہب اہل السنّت و الجماعت ہے؟"

♦️6۔) اور شیعہ علماء اپنے مذہب کے ثبوت کے لیے جو یہ روایت پیش کرتے ہیں اور مولوی عبدالکریم صاحب مشتاق نے بھی یہی روایت پیش کی ہے کہ

قال رسولُ اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یا علی أَنْتَ وَ شِیعتك ھُمُ الفائزون۔ (میں شیعہ کیوں ہوا، ص 37)

(اے علی ! تو اور تیرے شیعہ جنتی ہیں۔)

قطع نظر اس کے کہ یہ روایت عقائد کے ثبوت میں پیش کی جا سکتی ہے یا نہیں، ہم کہتے ہیں کہ کیا کوئی شیعہ عالم و مجتہد علم و دیانت کی بنا پر پر کہہ سکتا ہے کہ اس روایت میں لفظ شیعہ کسی مذہبی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہاں بھی لفظ شیعہ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اے علی آپ اور آپ کی پیروی کرنے والے آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ اور اگر اس طرح کی روایت کو موجودہ شیعہ اپنے لیے جنت کا ٹکٹ سمجھتے ہیں تو پھر حضرت عُثمان رضی اللّٰهُ تعالٰی تعالی عنہ کے پیروکاروں کو جنتی تسلیم کرنا پڑے گا چنانچہ فروع کافی جلد ثالث کتاب الروضہ ص 99 میں ہے:-

"یُنادی مناد أَلَا إِنّ فلان بن فلان و شیعتهٗ ھم الفائزون اول النھار و ینادی آخر النھار أَلَا إِنّ عثمان وَ شیعته ھم الفائزون۔"

ایک پکارنے والا دن کے اوّل حصّہ میں پکارتا ہے کہ فلاں بن فلاں اور اس کے پیروکار کامیاب ہونے والے ہیں (یعنی جنتی ہیں) اور دن کے آخری حصّے میں پکارتا ہے کہ عُثمان اور ان کے پیروکار کامیاب ہونے والے ہیں (یعنی جنتی ہیں۔)

کیا شیعہ فروع کافی کی اس حدیث کی بنا پر حضرت عُثمان رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اور آپ کے گروہ اور پیروکاروں کو جنتی مان لیں گے ؟ 

♦️7۔) مولوی عبدالکریم صاحب مشتاق نے اپنے رسالہ "میں شیعہ کیوں ہوا" ص 18 پر لکھا ہے:- مذہب شیعہ امامیہ ص 21 پر لکھا ہے۔ مذہب شیعہ اثنا عشریہ۔ اور ص 36 پر لکھا ہے:- 

"مذہب شیعہ کے علاوہ کسی مذہب کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ وہ آلِ محمد کا مذہب ہے۔" 

اور ص 10 پر لکھا ہے:-

"سوائے مذہب اہل بیت کے اس عقیدہ کو کسی دوسرے مذہب نے اپنے اصول دین میں جگہ نہیں دی۔" 

تو ہمارا سوال یہ ہے کہ شیعوں کے متعدد فرقے ہیں جن میں سے امامیہ اثنا عشریہ فرقہ بھی ہے اور پاکستان میں عمومًا شیعہ علماء فرقہ امامیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور سائل صاحب بھی فرقہ امامیہ کو برحق مانتے ہیں۔ تو ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا شیعہ علماء، قرآن مجید سے مذہب شیعہ امامیہ مذہب شیعہ اثنا عشریہ مذہب آل محمد اور مذہب اہل بیت کے الفاظ ثابت کر سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ 

کیا حدیث صحیح سے مذہب شیعہ امامیہ اور مذہب اثنا عشریہ وغیرہ کی اصطلاح کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں۔؟

اور کیا قرآن مجید سے آل محمد کے الفاظ کا کہیں ثبوت مِل سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ 

تو پھر آئے دن عوام شیعہ کو مطمئن کرنے اور عوام اہل سنت کو گمراہ کرنے کے لیے یہ کیوں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ قرآن یا حدیث سے سُنّی، اہل سنّت اور اہل السنّت والجماعت کے الفاظ کا ثبوت نہیں ملتا۔

علاوہ ازیں ماتم و سینہ کوبی کرنے والوں اور خاص فنکاری کے تحت زنجیرزنی کرنے والے مجاہدین کو ماتمی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے تو کیا ماتمی کا لفظ اور اس مخصوص اصطلاح کا بھی ثبوت مل سکتا ہے۔

♦️8۔) شیعہ احادیث سے ثابت ہے کہ اہلِ تشیع کا اصلی نام جو اللّٰه تعالٰی نے تجویز فرمایا ہے وہ رافضی ہے۔ چنانچہ شیعہ مذہب کی سب سے زیادہ صحیح ترین کتاب حدیث فروع کافی کتاب الروضہ ص 16 میں ابو بصیر کی روایت میں ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں یہ شکایت پیش کی کہ مخالفین ہم کو رافضی کے نام سے پکارتے ہیں جس سے ہم دل شکستہ ہو گئے ہیں تو امام جعفر صادق نے ان کو تسلی دیتے ہوئے یہ ارشادفرمایا کہ:

"لَا وَاللّٰهِ مَا ھُمْ سَمّوْکُمْ بَلِ اللّٰهُ سَمَّاکُمْ۔"

خُدا کی قسم مخالفین نے نہیں بلکہ خُدا نے تمہارا یہ نام یعنی رافضی رکھا ہے۔ 

تو جب حسبِ ارشاد امام صادق اللّٰه تعالٰی نے ان کا نام رافضی رکھا ہے تو شیعہ علماء پر لازم ہے کہ قرآن سے اپنا نام رافضی ثابت کریں اور پھر ہم سے مطالبہ کریں کہ اہل سنّت کا نام قرآن سے ثابت کریں۔ کوئی ہے روئے زمین پر ایسا شیعہ عالم و مجتہد جو رافضی کا نام قرآن سے ثابت کر سکے؟

✳️ اہل السنّت والجماعت ✳️

اہل السنّت والجماعت سے مراد وہ مسلمان ہے جو سنتِ رسول اور جماعتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا ماننے والا ہے۔ بیشک اللّٰه تعالٰی کے دین کا نام اِسلام ہے جِس کی بنا پر اِسلام پر ایمان لانے والوں کو مسلم، مسلمان اور اہلِ اِسلام کہا جاتا ہے۔ اور شیعہ علماء بھی بوجہ دعوئ اسلام کے اپنے آپ کو مسلم، مسلمان اور اہلِ اِسلام کہتے ہوں گے۔ اور اِسلام پر عقیدہ رکھنے کی بنا پر اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں مسلم ہوں یا میں مسلمان ہوں یا میں اہلِ اِسلام میں سے ہوں تو کیا کوئی صاحبِ عقل و ہوش اِنسان اس پر اعتراض کر سکتا ہے کہ تو قرآن میں مسلمان یا اہلِ اِسلام کے الفاظ کا ثبوت پیش کر دے تو مسلمان ہے اور تیرا دین اسلام برحق ہے ورنہ نہیں۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ جب حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی جماعت کا ثبوت موجود ہے تو اگر کوئی مسلمان سنّت اور جماعت کو ماننے کی وجہ سے اپنے آپ کو سُنّی، اہلِ سنّت اور اہلِ سنّت والجماعت کہہ دے تو بالکل صحیح ہے اور علم و دیانت کی روشنی میں اس کو مطعون نہیں کیا جا سکتا اور یہاں بوجہ اختصار کے بجائے کتب اہل السنّت والجماعت کے شیعوں کی مستند کتاب نہج البلاغۃ سے سنت اور اس کی اتباع کے لازمی ہونے کا ثبوت حضرت علی المُرتضی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے ارشاد سے ثابت کیا جاتا ہے تاکہ شیعہ علماء کے لیے انکار کی گنجائش باقی نہ رہے۔

قرآن مجید میں ہے:

{یٰٓأَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا أَطِيۡـعُوا اللّٰهَ وَأَطِيۡـعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡكُمۡ‌ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ فَرُدُّوۡهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ إِنۡ كُنۡـتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَـوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ ؕ}

۔(پارہ5، سورة النساء، آیت 59)

 شیعہ مفسرمولوی مقبول احمد دہلوی نے اس کا ترجمہ یہ لکھا ہے:-

"اے ایمان والو ! اللّٰہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول اور والیانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں۔ پھر اگر کسی معاملے میں تم میں آپس میں جھگڑا ہو تو اسے اللّٰه اور اس کے رسول کی طرف پھیرو بشرطیکہ تم اللّٰه اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔"

اس آیت کے تحت حضرت علی المُرتضی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ ارشاد فرماتے ہیں:-

{فَرَدُّہٗ إِلَی اللّٰهِ أَن نحکُمَ بِکِتَابِهٖ وَرَدُّہٗ إِلَی الرَّسُوْلِ أَن نَأخُذَ بِسُنَّتِهٖ۔}

(نہج البلاغہ مطبوعہ تہران ص 175)

ترجمہ:-

"پس اس نزاع کو اللّٰه کی طرف پھیرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ا کی کتاب (قرآن) کے مطابق فیصلہ کریں اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اس کو پھیرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم آپ کی سنّت پر عمل کریں۔"

تو جب حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے قرآن کی مندرجہ آیت سے سنّتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے کا حکم ثابت کیا ہے تو جس مسلمان کا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سنّت کی پیروی کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ وہ رضائے خُداوندی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور اطاعتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی اطاعتِ خُداوندی نصیب ہوتی ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے:-

{مَنْ يُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ}

(سورۃ النساء، آیت 80)

یعنی "جس نے رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللّٰه تعالٰی ہی کی اطاعت کی" اور اس نسبت سے اگر وہ اپنے آپ کو اہل سنّت کہے تو اس پر کوئی علمی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ اور سنّتِ جامعہ ہی وہ مستقل واسطہ اور ذریعہ ہے جس سے قرآن ملتا ہے۔ قرب الٰہی کا مقام نصیب ہوتا ہے، جنت کا راستہ کھلتا ہے اور حق تعالٰی کی رضا نصیب ہوتی ہے۔ لہٰذا مسلمان کے لیے اعلٰی اور اصل نسبت اہل سُنّت ہونے کی نسبت ہی ہے۔ سُنّی مسلمانوں نے اس نسبت کے ذریعہ اپنا رابطہ ایمانی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کے ساتھ قائم کر لیا ہے اور یہی ان کے اہلِ حق ہونے کی دلیل ہے۔ 

لیکن شیعہ فرقہ نے اہل سنّت ہونے کا انکار کر کے اپنا ایمانی رابطہ حضور سرورِ کائنات صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے منقطع کر لیا ہے۔ ہم اپنی امتیازی نسبت اہلِ سنّت ہونے کو افضل اور اعلٰی قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے درجہ پر جماعتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنی نسبت کا اقرار کرتے ہیں لیکن شیعہ سنّتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کا اقرار نہیں کرتے بلکہ اس کا انکار کر تے ہیں اور اہلِ سنّت کی نسبت پر اعتراض کرتے ہیں اور بجائے اس کے وہ اپنی نسبت صرف حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں۔ کیونکہ شیعہ سے مراد ہے شیعة علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ یا شیعانِ علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ یعنی حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کا گروہ یا ان کے پیروکار۔ بیشک ہم اہل سنت حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو اپنے درجہ پر برحق خلیفہ مانتے ہیں۔ جنتی مانتے ہیں۔ جامع الکمالات تسلیم کرتے ہیں اور ان کی عظمت شان میں تنقیص و توہین کو ایمان کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللّٰهُ عنہ کےدشمن کے ہم دشمن ہیں۔ ان کی محبت کو ہم جزو ایمان تسلیم کرتے ہیں لیکن نسبتِ علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ سے بہر حال نسبتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور نسبتِ سنّتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اولی اور برتر ہے۔ اگر شیعہ سنّتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کا بھی اپنے امتیازی نام میں اظہار کرتے اور پھر دوسرے درجہ میں حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی نسبت کا اقرار کرتے تو اور بات تھی لیکن اہل سنت ہونے کی نسبت کو اپنے امتیازی اور خصوصی نام میں بالکل ترک کر کے انہوں نے ارشاداتِ خُداوندی

"مَنْ يُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ"

اور

(2) {قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ۔}

(سورۃ آل عمران، آیت 31)  

کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ مولوی احمد مقبول دہلوی نے یہ کیا ہے:-

" (اے رسول) کہہ دو اگر تم اللّٰه کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تا کہ اللّٰه تمہیں دوست رکھے۔ "

(ترجمہ مقبول)

(2) اور سنّتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کے اظہار و اعلان کے بعد ہم بجائے کسی ایک صحابی کے الجماعة کے لفظ سے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام فیض یافتہ اور جنّتی جماعت کے ساتھ اپنی دینی نسبت کا اظہار کرتے ہیں جِس میں حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ سمیت چاروں خلفائے راشدین اور حضرت حسن رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ، حضرت حُسین رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اور دوسرے تمام اصحابِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم شامل ہیں۔ لہٰذا اہل السنت والجماعت وہ جامع نسبت ہے جِس میں صِرف شیعۂ علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی نسبت سے بہر حال فوقیت اور برتری پائی جاتی ہے۔ اور سنّت کے بعد جماعت کے تذکرہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام الانبیاء والمرسلین رحمت اللعالمین خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کےفیضِ صحبت سے نہ صرف یہ کہ حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ یا چند افراد کامل الایمان اور جنتی بنائے گئے ہیں بلکہ ایک عظیم جماعت مومنین کو رضائے الٰہی کی اعلٰی سندیں ملی ہیں اور اللّٰه تعالٰی نے بھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہو جانے والوں کو ایک اُمّت بلکہ خیرِ اُمّت سے خطاب فرمایا ہے۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے:-

{كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ۔}

مولوی مقبول احمد دہلوی شیعہ مفسر نے اس آیت کا یہ ترجمہ لکھا ہے:-
جو امتیں ہدایت مردم کے لیے پیدا کی گئی ہیں ان میں تم سب سے بہتر ہو۔ نیکی کرنے کا حکم دیتے ہو اور بدی سے منع کرتے ہو اور اللّٰه پر ایمان لاتے ہو۔

  (ترجمہ مقبول)

♦️ ازروئے احادیث شیعہ سنت و جماعت کی عظمت ♦️

♦️1۔) شیعوں کے شیخ ابنِ بابویہ قُمی المعروف بہ شیخ صدوق مؤلف

"من لا یحضرہ الفقیه"

اپنی کتاب جامع الاخبار میں لِکھتے ہیں کہ اللّٰه تعالٰی نے جبرائیل علیہ السلام کو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ:

{لَیْسَ عَلٰی مَنْ مَاتَ عَلَی السنّة الجماعة عذابُ القبر ولا شدۃ یوم القیامة۔}

(جو شخص سنت اور جماعت پر مرے گا اس پر عذابِ قبر نہیں ہو گا اور نہ ہی اس پر قیامت کی سختی ہو گی۔)

♦️2۔) اسی کتاب میں ہے کہ رسولِ خُدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:-

"اَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آل محمدٍ مَاتَ عَلَی السنّة والجماعة۔" ص 166

خبردار ، جو شخص حُبِّ آل محمد پر مرے گا وہ سُنّت اور جماعت پر مرے گا۔"

فرمائیے ! شیعہ مذہب کی مستند کتاب کی حدیث میں تو یہ لکھا ہے کہ حب آل محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر جس شخص کی موت آتی ہے وہ گویا سنّت اور جماعت پر ہی مرتا ہے، لیکن اس کے خلاف مولوی عبدالکریم مشتاق وغیرہ شیعہ علماء ایک مستقل مہم چلا رہے ہیں کہ اہل السنت والجماعت ہونا ہی صحیح نہیں اور اہل السنّت والجماعت العیاذ باللّٰہ آلِ محمد سے دُشمنی رکھتے ہیں۔

♦️حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ عنہ اور اہلِ سنّت♦️

شیعہ مذہب کی مستند کتاب احتجاج طبرسی میں ہے کہ حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ ایک دن جب بصرہ میں خطبہ دے رہے تھے تو ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ:-

 یا امیرالمومنین علیہ السلام اخبرنی من اھل الجماعة ومن اھل الفرقة ومن اھل البدعة ومن اھل السنة فقال۔ ویحک امّا اِذا ساءلْتَنِیْ فَافھم عنّی ولا علیك ان تسئل عنھا احدًا بَعْدِی۔ اما اھل الجماعة فانا ومن اتَّبعنی وَ اِنْ قَلّوا و ذلك الحق عَن امر اللّٰه تعالٰی وعن امر رسوله ۔ واھل الفرقة المخالِفُوْن لِیْ وَلِمن اتّبعنی وَاِنْ کثروا واَما اھل السنّة فالمتمسّکون بما سَنَّهُ اللّٰهُ لَھم وَ لِرَسوله وان قلّوا۔ واما اھل البدعة فالمخالِفُون لِامر اللّٰه وَلکتابہ ولرسولہ العاملون بِرأیھم وَ اَھواءھم و ان کثروا۔

(الاحتجاج للطبرسی جلد اول ص 246 مطبوعہ نجف اشرف)

"اے امیر المومنین ! آپ مجھے بتائیں کہ اہل جماعت، اہل فرقہ، اہل بدعت، اور اہل سنّت کون ہیں؟؟ تو آپ نے فرمایا: 

"تعجب ہے تجھ پر، اور جب تُو نے مجھ سے یہ بات پوچھی ہے  تو مجھ سے سمجھ لے اور اس کے بعد تجھ پر لازم نہیں ہے کہ میرے بعد یہ بات تُو کسی اور سے دریافت کرے۔ لیکن اہلِ جماعت تو میں ہوں اور میرے پیروکار اگرچہ وہ کم ہوں۔ اور یہ اللّٰه اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے امر کے تحت حق ہے۔"

"اور اہل فرقہ وہ لوگ ہیں جو میری مخالفت کرنے والے ہیں اور میری اتباع کرنے والوں کے بھی مخالف ہیں، اگرچہ وہ زیادہ ہوں۔"

اور لیکن 

"اہل سنّت وہ لوگ ہیں جو اللّٰه تعالٰی کے طریقے (حکم) اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سنّت (طریقے) کو مضبوطی سے پکڑنے والے ہیں جو ان کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اگرچہ وہ تھوڑے ہوں۔"

اور لیکن،

"اہل بدعت وہ ہیں جو اللّٰه تعالٰی اور اس کی کتاب (قُرآن) اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرنے والے ہیں اور صِرف اپنی رائے اور خواہشات پر عمل کرنے والے ہیں۔ اگرچہ وہ زیادہ ہوں۔"

حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے اس ارشاد سے اہلِ سنّت اور اہلِ جماعت کی مدح اور تعریف ثابت ہوتی ہے

اور اہلِ بدعت اور اہلِ فرقہ کی مذمت واضح ہوتی ہے۔

(ب) اور اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اہلِ سنّت اور اہلِ جماعت ہونا مذہبی اصطلاحیں ہیں جو مطلوب ہیں۔ 

(ج) سائل کے سوال اور حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے جواب سے بالکل اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ اہل سنّت وغیرہ کے نام اُس زمانہ میں معروف و مشہور تھے۔ اور اہلِ حق کے لیے اہلِ سنّت اور اہلِ جماعت کی مذہبی اصطلاحیں استعمال کی جاتی تھیں، اور اس کے برعکس دورِ مرتضوی میں لفظ شیعہ بطور مذہب کے استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔

ورنہ سائل شیعہ کے متعلق بھی سوال کرتا۔ اور اگر اس نے کسی وجہ سے اس کو نظر انداز کر دیا تھا تو پھر حضرت علی المُرتضی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اپنی طرف سے مسلمانوں کے اس مجمع میں اعلان فرما دیتے کہ حق فرقہ شیعہ کا ہے۔

اور میں بھی مذہبًا شیعہ ہوں، اور میرے متبعین بھی۔ لیکن حضرت خلیفہ برحق نے شیعہ مذہب کی طرف کوئی ادنٰی سے ادنٰی اشارہ بھی نہیں فرمایا۔ اور اس کے برعکس اہلِ سنّت اور اہلِ جماعت کی پوری وضاحت سے حقانیت بیان فرما دی۔ لیکن آج کے شیعہ تو اہلِ سنّت و جماعت کے نام سے ہی عناد رکھتے ہیں۔

یہ اس بات کی بیّن دلیل ہے کہ دورِ حاضر کے شیعہ حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے متبع نہیں بلکہ مخالف ہیں۔ اور حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے محبّین و متبعین، اہلِ السنّت والجماعت ہیں جو سُنّتِ رسول صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم اور جماعتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم دینی اور ایمانی نسبتوں کے مبلّغ اور محافظ ہیں۔ اور اہلِ السنّت اور اہل الجماعت ہونے کو ہی حسبِ ارشاد مرتضوی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اپنے لیے جنت اور رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ تسلیم کرتے ہیں۔

♦️ امام حُسین رضی اللّٰهُ عنہ اور اہلِ سُنّت ♦️

جب حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے نزدیک اہلِ سنّت ہونا اہلِ حق ہونے کی نشانی ہے تو پھر آپ کے جگر پارے حضرت حسن رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اور حضرت حُسین رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کیوں نہ اہلِ سنّت ہوں گے۔ چناچہ میدانِ کربلا میں نواسۂ رسول مقبول صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم، جگر گوشہ بتول، حضرت امام حُسین رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے اپنے طویل خطبے میں مخالفین پر اتمامِ حجّت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ:- 

"ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لِیْ ولاَخی اَنتما سَیِّدَ اشبابِ اھل الجنّة وَقُرَّۃُ عَین اھل السنةً۔" 

(تاریخ کامل ابن اثیر جلد چہارم ص 62، مطبع بیروت) 

ترجمہ:- 

"رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اور میرے بھائی (حضرت حسن رضی اللّٰه تعالٰی عنہ) کے حق میں یہ فرمایا تھا کہ تُم دونوں جوانانِ اہلِ جنّت کے سردار ہو اور تُم دونوں اہلِ سنّت کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو۔"

 فرمائیے۔

شیعہ مولوی عبدالکریم مشتاق جیسے شیعہ مصنّفین تو اہلِ سنّت کے نام پر اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہیں لیکن جن حضرات کا نام لے کر اپنی عزت بناتے ہیں ان کو تو خود رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اہلِ سنّت کی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف دورِ حُسینی میں بلکہ دورِ رسالت میں بھی اہلِ سنّت ہونے کی اصطلاح رائج تھی۔ 

 ♦️ اہل السنّت و الجماعت جنّتی ہیں ♦️

♦️ (1) حافظ ابن کثیر محدث رحمہ اللّٰہ سورۃ آل عمران رکوع 11 کی آیت

 {یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْہ۔}

 (یعنی قیامت کے دن کہ بعض کے چہرے سفید (روشن) ہوں گے اور بعض کے چہرے سیاہ ہوں گے، کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی...

"یوم القیامة حین تبیض وجوہ اھل السنة والجماعة و تسود وجوہ اھل البدعة والفرقة قاله ابن عباس رضی اللّٰهُ تعالٰی عنه۔" (تفسیر ابن کثیر)

یعنی حضرت عبداللّٰہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ بن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ:-

"قیامت کے دن جن لوگوں کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے وہ اہل السنّت والجماعت ہوں گے اور جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے وہ اہل فرقہ اور اہل بدعت ہوں گے۔"

ہہاں بھی حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہٗ نے انہی چار قسموں کا انجام ذکر فرمایا ہے جن کے متعلق حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے اپنے خطبہ میں ایک سائل کے جواب میں تشریح فرما دی تھی اور حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہٗ کا یہی ارشاد حضرت قاضی ثناء اللّٰہ صاحب محدث رحمۃ اللّٰہ علیہ پانی پتی نے اپنی تفسیر مظہری میں اور علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی تفسیر در منثور میں نقل کیا ہے۔

♦️ (2) تفسیر در منثور میں یہ بھی مذکور ہے:-  

"عن ابن عمر عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی قولهٖ تعالٰی۔  "یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ قال تَبْیَضُّ وُجوہُ اھل السُنّة و تسودّ وجوه اھل بدعة۔"

حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰه تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت یَوْمَ تَبْیض وجوہٌ وَتَسْوَدُّ وجوہٌ کے متعلق ارشاد فرمایا تھا کہ قیامت میں اہلِ سنّت کے چہرے سفید (نورانی) ہوں گے اور اہل بدعت کے چہرے کالے سیاہ ہوں گے۔

حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ، امام حسن مُجتبی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اور حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ بلکہ حضرت محمد مُصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے جب اہل السنّت والجماعت کا جنّتی ہونا ثابت ہو گیا۔ اور حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے اہلِ سنّت کی تائید اور اہلِ بدعت کی تردید فرما دی اور اپنے دور کی مروجہ اصطلاحات میں سے شیعہ کا مذہبی حیثیت سے اپنے بصرہ کے طویل خطبہ میں کسی قسم کا ذکر ہی نہیں فرمایا تو اب کون اہل دین و عقل یہ کہنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ اصل مذہب شیعہ ہے اور رسولِ خُدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم شیعہ مذہب کے بانی ہیں اور حضرت علی المُرتضٰی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اس کے مبلّغ اور محافظ تھے اور گیارہ اماموں نے شیعیت کی ہی تعلیم دی ہے اور امام مہدی آخری امام شیعہ مذہب ہی کے دفاتر سمیٹ کر کسی غار میں چھپے ہوئے ہیں جب قرب قیامت میں لوگوں کے سامنے جلوہ فرما ہوں گے تو اصلی قرآن اور اصلی شیعت سے امت مسلمہ کو روشناس کروائیں گے۔ ظہور امام غائب سے پہلے پہلے جو چاہے کرو اور جو چاہے کہو۔ امام کی غائبانہ سرپرستی میں سب کُچھ مقبول ہے۔

گر ہمیں مذہب و ہمیں غائب...

کار مومن تمام خواہد شد…