حدیث اصحابی کالنجوم کی تحقیق
مولانا مہرمحمد میانوالیحدیث اصحابی کالنجوم کی تحقیق
اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم
میرے صحابہ ستاروں جیسے ہیں تم جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پالو گے۔ (شیعہ کتاب تحقیقی دستاویز: صفحہ، 116) پھر اس پر ابن تیمیہؒ سے ابو حیان سے ابن حزم سے ابنِ قیمؒ سے محب اللہ بہاری اور جسٹس ملک غلام علی سے تنقید تضعیف اور غیر تصحیح نقل کی ہے۔
الجواب: چند باتوں پر غور فرمائیں۔
- گو اس کے متعدد راویوں، سندوں پر ماہرین نے گرفت کی ہے اور شیخینؓ کی اتباع والی صحیح حدیث اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر و عمر کے مقابل جان کر اس کی تضعیف کی ہے، حالانکہ عام و خاص میں تغایر تضاد اور مخالفت نہیں ہوتی کہ ایک کو مانیں تو دوسری کو رد کرنا پڑے۔
- شیخینؓ کی اتباع خاص ہے کہ میرے بعد بحیثیت خلیفہ و حکمران ان کو مان کر ان کی اتباع کرنی ہوگی، فرمانِ رسولﷺ پر عمل کر کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کی اتباع اور اقتداء میں قیصر و کسریٰ کی بین الاقوامی طاقتیں مٹا دیں اور نصف معلوم دنیا تک کلمۂ اسلام کا جھنڈا لہرایا مگر حدیث بایھم اقتدیتم اھتدیتم عام ہے کہ ان سے دین کی ہر بات پوچھو، سیکھو پھر اتباع کرو، ہدایت تمہارے قدم چومے گی۔ کیونکہ وہ سب عادل، صادق، راست رو اور دیندار ہیں۔
- ان کی اقتداء ایسی ہے جیسے مہاجرین و انصار کے ذکر خیر میں ان کے تابعداروں کو بھی اللہ نے سند رضا و جنت دے دی۔
وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ وَاَعَدَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ تَحۡتَهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ (سورۃ التوبہ: آیت، 100)
ترجمہ: اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے، اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہو گیا ہے، اور وہ اس سے راضی ہیں، اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔
اس آیت سے علامہ ابنِ حزم ظاہری (غیر مقلد) کا قول غلط ہوا کہ ہر صحابی کی اقتداء جائز نہیں، کیا مہاجرین و انصار کے معرف بلام صیغے ہر ایک کو اور ھُمْ مفعول بہ کا صیغہ سب کو شامل نہیں؟
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنۡ يُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُ الۡهُدٰى وَ يَـتَّبِعۡ غَيۡرَ سَبِيۡلِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصۡلِهٖ جَهَـنَّمَ وَسَآءَتۡ مَصِيۡرًا (سورۃ النساء: آیت، 115)
ترجمہ: اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے، اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کر دیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
اس آیت سے اجماع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اجماعِ امت کی حقانیت جیسے واضح ہے عام صحابہؓ مؤمنین کی انفرادی اتباع بھی ثابت ہے، جیسے عرف میں اس پر اعتماد کر کے اس کی نیک کام میں اتباع و تقلید کرنا ہے گناہ یا غلطی میں کوئی کسی کی تقلید نہیں کرتا۔
4. قرآن مجید کے علاوہ حدیث شریف بھی عموماً ظاہر کرتی ہے، حجۃ الوداع کے سوا لاکھ مجمع میں جو آپﷺ فرما رہے ہیں: الا لیبلغ الشاھد الغائب فرب مبلغ اوعی می سامع (الحدیث)
ترجمہ: سنو! جو تم میں موجود ہیں وہ غیر موجود تک یہ میرے احکام پہنچا دیں کیونکہ بسا اوقات وہ غائب اس سننے والے سے ان کو زیادہ یاد رکھے گا (کہ اس کا دماغ اور قوت حافظہ زیادہ ہو سکتا ہے، گو درجہ میں مجھے دیکھنے والا اور براہِ راست سننے والا صحابی زیادہ شان رکھتا ہے)
اس صحیح حدیث سے جب سب سے پہلے اور سب سے آخر میں ایک ہی دفعہ حجۃ الوداع میں مسلم صحابی کو تبلیغِ دین کی یہ سند اور ڈگری مل رہی ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو یہ احکام پہنچائے اور وہ ثقہ عادل معتبر واجب الاطاعت ہے کہ ان سے غیر صحابی سننے والا یہ تو نہیں کہ سکتا "میں تم کو معتبر نہیں مانتا تم جھوٹ بولتے ہو میں تو دین مدینہ جا کر صرف اکابر صحابہ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یا اہل بیتؓ ہی سے سیکھوں گا" کیونکہ اس سے دین کی تبلیغ و اشاعت بہت محدود ہو جائے گی، نہ اھل بیت و اکابر صحابہ کرامؓ ہر شہر و گاؤں پہنچ سکیں گے نہ ہر آدمی ان تک پہنچ سکے گا تو روایت کے علاوہ عقل و درایت سے بھی ہر بڑے چھوٹے خوش قسمت زائر صحابی کا عادل ہونا دین کی معلوم بات دوسرے تک پہنچانا اور عمل کر کے دکھانا ضروری ہے۔
5. تو بالفرض تعدد طرق اسناد کی وجہ سے اس حسن لغیرہ حدیث "جس کی تابعداری کرو گے ہدایت پاؤ گے" کو اگر کوئی صحیح نہ مانے تو اس کی مؤید صحیح احادیث کو مان کر معنوی لحاظ سے تو اس حدیث کو سچا جاننا ضروری ہوا
نجوم ہدایت کی مؤید احادیث:
6. چند مؤید احادیث یہ ہیں، پوری تفصیل کے لیے عدالت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ملاحظہ فرمائیں۔
1. آپﷺ کا ارشاد ہے! ستارے آسمان کے امان کا سبب ہیں، جب ستارے ختم ہو جائیں گے تو وعدہ موعود (قیامت) آسمان کو بھی آ پہنچے گا، میں اپنے اصحاب کے لیے امن و سلامتی کا سبب ہوں جب میں رخصت ہو جاؤں گا تو میرے صحابہ کو بھی وعدہ موعود (اختلافات و فتن) آ پہنچے گا اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امان ہیں، جب یہ رخصت ہو جائیں گے تو میری امت کو ان سے وعدہ موعود آ پہنچے گا۔ (یعنی گمراہی و تفرقہ بازی) (مسلم: جلد، 2 صفحہ، 308 واللفظ لہ، جمع الفوائد: جلد، 2 صفحہ، 492، مجمع الزوائد: جلد، 10 صفحہ، 17 قال الہیثمی رواہ الطبرانی فی الاواسط و اسنادہ جید (بحوالہ عدالت صحابہ کرامؓ: صفحہ، 126)
باعثِ برکت امن و ہدایت ستاروں اور صحابہ کرام کا ذکر آمنے سامنے آپﷺ نے کر دیا۔
2. فرمانِ نبویﷺ ہے! میرا کوئی بھی صحابی کسی زمین میں فوت ہو وہ قیامت کے دن اس سر زمین کے لوگوں کے لیے قائد اور نور بن کر اٹھے گا (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن) اب اگر علاقہ والوں کے لیے وہ صحابی حجت نہیں ان کو اسکی تقلید میں ہدایت پانا ضروری نہیں یا یہ غیر عادل ہے اور ثقہ نہیں ہے تو پھر اس کا ان کا قائد اور نور ہدایت کیسے مانا جائے گا، حدیث نبویﷺ غلط ہوئی معاذ اللہ۔
3. حضرت انس رضی اللہ عنہ مرفوعاً فرماتے ہیں! میری امت میں صحابہ کرام کی مثال کھانے میں نمک جیسی ہے، نمک کے بغیر کھانا درست نہیں ہوتا حسن بصری رحمۃ اللہ کہتے ہیں ہمارا نمک جاتا رہا تو ہم کیسے درست ہوں گے (رواہ ابو یعلیٰ: مشکوٰۃ صفحہ، 554)
4. سب لوگوں سے بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں (صحابہ) پھر جو ان کے بعد ہوں گے (تابعی) پھر جو ان کے بعد ہوں گے (تبع تابعی) پھر ایسے لوگ آئیں گے جن کی قسمیں گواہی سے پہلے ہوں گی(جھوٹی گواہی دیں گے) ان میں موٹاپا (یعنی عیش و عشرت) آ جائے گا۔ (مشکوٰۃ: صفحہ، 55 اور 554)
5. لوگو! میرے صحابہ کی عزت کرنا وہ تم سے بہتر ہیں پھر ان کے بعد کے لوگ پھر ان کے بعد کے لوگ اچھے ہیں یہ سب احادیث بتا رہی ہیں کہ ہم جیسوں کو صحابہ کرامؓ کی عزت کرنا، ان کی اتباع کرنا اور اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے اسی کا دوسرا نام اقتداء اور اھتداء ہے جو ان پر اعتماد پھر ان کی تقلید سے حاصل ہو گی۔
6. قدیم الاسلام فقیہ صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لوگو! جو سنت پر چلنا چاہے تو وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقشِ قدم پر چلے جو فوت ہو گئے، زندہ پر تو آزمائش کا خطرہ رہتا ہے اور وہ اصحابِ محمدﷺ ہیں۔
- وہ اس امت کے سب سے افضل لوگ تھے۔
- ان کے دل بہت پاک اور نیک تھے۔
- علم ان کا بہت گہرا تھا۔
- بناوٹ و تکلف ان میں بہت کم تھا۔
- اللہ نے انکو اپنے نبیﷺ کی صحابیت اور دین قائم کرنے کے لیے چن لیا تھا تو تم ان کی فضیلت پہچانو، ان کے پیچھے چلو حتیٰ الامکان ان کے اخلاق اور ان کی عادات پر جمے رہو کیونکہ وہی سیدھی راہِ ہدایت پر تھے۔ (رواہ رزین مشکوٰة: صفحہ، 32)
صحابہ کرامؓ نجوم ہدایت ہیں:
متعدد سندوں سے یہ حدیث مروی ہے:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ میں نے اپنے صحابہ کے اختلاف کے بارے میں اپنے رب سے پوچھا تو اللہ نے مجھے وحی (خفی) کی کہ تیرے صحابہ میرے ہاں آسمان کے ستاروں جیسے ہیں، روشنی میں اگرچہ کچھ دوسروں سے زیادہ ہیں مگر نورِ ہدایت ہر ایک میں ہے تو ان سے جو بھی دین کی بات حاصل کرے گا وہ میرے ہاں ہدایت پر ہو گا(رواہ رزین بحوالہ مشکٰوة: صفحہ، 554)
اور یہاں مشکوٰة میں یہ لفظ زائد ہیں کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تو تم جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے، خطیب بغدادی نے اپنی سند سے کفایہ صفحہ 46 پر اسے روایت کیا ہے:
محدث سنجری نے ابانہ میں ابن عساکرؒ ،بیہقیؒ اور ابنِ عدی نے ریاض النضرۃ: جلد، 1 صفحہ، 9 میں محبّ طبری نے بھی روایت کیا ہے(حاشیہ جمع الفوائد: جلد، 2 صفحہ، 492، نیز مسامرہ: صفحہ، 314 پر ہے کہ اسے دارمی ابنِ عدی وغیرہ نے روایت کیا ہے)
الحاصل: اس کی متعدد اسناد ہیں جو جامع بیان العلم و فضلہ میں اور مجمع الزوائد وغیرہ میں مذکور ہیں۔ بعض میں اگرچہ کچھ کلام ہے مگر تعدد طرق کی وجہ سے یہ حسن لغیرہ ہے، معنوی لحاظ سے اس کی صحت مسلم ہے، چونکہ شیعوں کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس واسطے کا بغض ہے، کہ وہ حضورﷺ سے دین کی بات کیوں نقل کرتے ہیں تو وہ اپنے بد عقیدہ فاسق و فاجر ذاکروں کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل ماخذ دین مانتے اور مذہب کے نام سے ہر بات میں انکی اتباع کرتے ہیں۔ مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بد اعتمادی چلانے کے لیے راویوں کی بحث چھیڑ دیتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ ماء کثیر دریا، نہر، ڈیم، بڑی بَن، اور تالاب میں جانور پانی پی کر پیشاب بھی کر دے تو وہ ناپاک نہیں ہوتا یہاں اتنا واضح رہے کہ جس مسئلہ میں خلفائے راشدینؓ کا اتفاق ہو یا فقہاء صحابہؓ کا اجماعی مسئلہ ہو تو اس کے خلاف یا کسی صحابی سے غلطی یا گناہ ہو گیا ہو یا اسے کسی بات کا منسوخ ہونا معلوم نہ ہو یا وہ اپنی بات سے رجوع کر لے تو اس میں اس کی اتباع و تقلید نہ ہو گی مگر اس بہانہ سے ان کی عدالت، ثقاہت اور عام اتباع ختم نہ ہو گی۔
اصحابی کالنجوم شیعہ کے ہاں بھی مسلم ہیں:
یہ شیعہ کی کتب معتبرہ میں ہے چنانچہ ابو علی حسن بن احمد حاکم کہتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن یحییٰ صوفی نے ان سے محمد بن موسیٰ نصر رازی نے اور ان سے ان کے والد نے روایت کی ہے فرماتے ہیں:
یسئل الرضا علیہ السلام عن قول النبیﷺ اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم وعن قولہ دعولی اصحابی فقال صحیح عیون اخبار الرضا
ترجمہ: سیدنا رضا سے حضورﷺ کے اس فرمان کے متعلق پوچھا گیا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پا لو گے اور اس فرمان کے بارے میں کہ میرے صحابہ کو میرے لیے (برا کہنا) چھوڑ دو تو فرمایا یہ دو حدیثیں صحیح ہیں۔
اس کی تائید میں ایک اور روایت بھی ہے جسے ملا علی آملی نے جامع الاستفسار میں لکھا ہے:
قال النبیﷺ انا کالشمس وعلی کالقمر واصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم (بحوالہ آیات بینات و عدالت صحابہؓ)
آپﷺ نے فرمایا میں سورج جیسا ہوں علی چاند جیسے ہیں (تو علی کو حضورﷺ کے برابر یا افضل ماننا غلط ہوا) اور میرے صحابہ کرام ستاروں جیسے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے اس تفصیل سے ان سب حوالوں کا جواب ہو گیا جو روایت کو کمزور بتانے کے لیے لکھے ہیں۔
اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر و عمر صحیح حدیث ہے:
یہ ترمذی صفحہ 526 پر تین سندوں سے ہے راویوں کی توثیق یہ ہے
پہلی حدیث:
- حسن بن صباح البزار صدوق واہم ہیں عابد فاضل دسویں طبقہ سے تھے 249 ہجری میں وفات پائی
- سفیان بن عیینہؒ ابو محمد کوفی پھر مکی ثقہ حافظ امام حجہ ہیں (تقریب: صفحہ، 128)
- زائدہ بن قدامه ابو الصلت ثقفی ثقہ اور ثبت ہیں، 160 ہجری یا بعد میں وفات پائی (تقریب: صفحہ، 105)
- عبدالملک بن عمیر بن سوید لخمی ثقہ فقیہ ہیں، آخری عمر میں حفظ میں فرق آیا (تقریب: صفحہ، 105)
- ربعی بن حراش ابو مریم عیسیٰ کوفی ثقہ حافظ عابد مخضرم ہیں 100ہجری میں وفات پائی (تقریب: صفحہ، 105)
- حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ صحابی جلیل سابقین، راز دارِ رسولﷺ ہیں، سیدنا علیؓ کی خلافت کے آغاز 36 ہجری میں فوت ہوئے۔
دوسری حدیث: عبداللہ بن مسعودؓ سے بھی ہے ترمذیؒ کہتے ہیں ہذا حدیث حسن جو مشہور امام حدیث سفیان ثوریؒ نے عبدالملک بن عمیر از مولیٰ ربعی بن حراش از حذیفہ نقل کی ہے راویوں کی توثیق ہو چکی۔
تیسری حدیث: کے راوی یہ ہیں
- سعید بن یحیٰ بن سعید ابو عثمان اموی بغدادی ثقہ ہیں کبھی غلطی کرتے طبقہ عاشرہ میں سے ہیں وفات 249ہجری میں پائی
- وکیع بن جراح بن ملیح رواسی کوفی ثقہ حافظ نویں طبقہ کے کبار محدثین سے ہیں المتوفی 197ہجری(تقریب: صفحہ، 369)
- سالم ابو العلاء المرادی یہ سالم بن عبد الواحد کوفی مقبول چھٹے طبقہ کے ہیں شیعہ تھے مدح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شیعہ راوی کی روایت معتبر حجت ہوتی ہے، والفضل ما شھدت بہ الاعداء
- عمرو بن ہرم ازدی بصری ثقہ چھٹے طبقہ کے ہیں
- ربعی بن حراش عن حذیفہ کی ثقاہت بیان ہو چکی
یہ حدیث میرے بعد سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ کی پیروی کرنا ابنِ ماجہ میں بھی ہے اس کے رواہ کی توثیق یہ ہے۔
- علی بن محمد بن علی ابی المضاء المصیصی قاضی اور ثقہ ہیں، گیارہویں طبقہ سے (تقریب: صفحہ، 248)
- وکیع بن جراح مشہور امام کی توثیق ہو چکی، ابن ماجہ کی دوسری سند میں
- محمد بن بشار ہیں، جو ابنِ عثمان عیدی بصری ابوبکر بندار ہیں ثقہ طبقہ عاشرہ سے ہیں المتوفی 252ھ (تقریب: صفحہ، 291)
- مؤمل بن اسماعیل نزیل مکہ صدوق ہیں۔ بڑی یادداشت تھی، نویں طبقہ کے صغار میں سے ہیں المتوفی 206 (تقریب: صفحہ، 353)
- سفیان بن عیینہ یاثوری
- عبد الملک بن عمیر
- ربعی بن حراش
- حذیفہ بن الیمانؓ کی توثیق ہو چکی۔