Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

سیرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ قبولیت اسلام

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ستائیسواں سال تھا کہ عرب میں آفتاب رسالت طلوع ہوا۔ یعنی رسول اللهﷺ مبعوث ہوئے اور اسلام کی صدا بلند ہوئی حضرت عمرؓ کے گھرانے میں زید کی وجہ سے توحید کی آواز بالکل نامانوس نہیں رہی تھی۔
چنانچہ سب سے پہلے زید کے بیٹے سعید رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ سعید کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہؓ سے ہوا تھا۔ اس تعلق سے فاطمہؓ بھی مسلمان ہو گئیں۔ اسی خاندان میں ایک اور معزز شخص نعیم بن عبد الله رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے۔ ان کے کانوں میں جب یہ صدا پہنچی تو سخت برہم ہوئے۔ یہاں تک کہ قبیلے میں جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن بن گئے۔
لبینہ ان کے خاندان میں ایک کنیز تھی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس کو بے تحاشہ مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے ذرا دم لے لوں تو پھر ماروں گا۔ لبینہ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا تھا زد و کوب سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس کو چڑھ جاتا تھا اترتا نہ تھا۔ ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بد دل نہ کر سکے۔
نبی کریمﷺ نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں (عمر بن خطاب اور ابو جہل) کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اللہ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبرِ اسلامﷺ کی دعا کو شرفِ قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغِ برہنہ لیے جارہے تھے، راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا، جس نے پوچھا کہ عمر! خیریت! کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے محمدﷺ کو قتل کرنے جارہا ہوں، اس نے نئے دین کااعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق کر دی ہے، کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کر دوں۔ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہا کہ عمر! اگر تم نے ایسا کیا تو کیا بنو ہاشم وبنو زہرہ تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہو چکے ہو، انہوں نے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو، تمہاری بہن و بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں۔
جلال میں نکلنے والا عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے، یہاں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ان کے بہنوئی و بہن کو سورہۃ طہٰ پڑھا رہے تھے، باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی، اندر سے پوچھا گیا کون؟ عمر! نام سنتے ہی سیدنا خبابؓ چھپ گئے، عمر نے آتے ہی پوچھا تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے، کہنے لگے میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہو گئے ہو؟ بہنوئی نے کہا کہ عمر! وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے، تو جس دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے، بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر، بہن چھڑانے آئی تو اتنی زور سے اس کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل آیا، بہن کے چہرے پہ خون دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ اچھا! لاؤ، دکھاؤ، تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے کہا کہ تم ابھی اس کلام کے آداب سے ناواقف ہو، اس کلامِ مقدس کے آداب ہیں، پہلے تم وضو کرو، پھر دکھاؤں گی، انہوں نے وضو کیا اور سورۃ طہٰ پڑھنی شروع کی، یہ پڑھتے جارہے تھے اور کلامِ الہٰی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جارہی تھی۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے عمرؓ! کل رات نبی کریمﷺ نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی تھی کہ اللّٰھمّ أعزّ الإسلام بأحد الرجلین إمّا ابن ھشام وإمّا عمر بن الخطاب اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ اللّٰھم أید الإسلام بأبي الحکم بن ھشام وبعمر بن الخطاب۔ اے اللہ! عمر وبن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا، یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی تائید فرما۔ اے عمر! میرے دل نے گواہی دی تھی کہ یہ دعائے پیغمبرﷺ عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہو گئی۔ اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیبؒ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ کان رسول اللہﷺ إذا رأی عمر بن الخطاب أو أبا جھل بن ھشام قال اللّٰھم اشدد دینک بأحبّہما إلیک یعنی جب کبھی رسول اللہﷺ عمر بن خطابؓ یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب العزت کے حضور دستِ دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے اے اللہ! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ (طبقات ابن سعد)
سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اچھا! تو مجھے بتاؤ محمدﷺ کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، انہوں نے بتایا کہ صفا پہاڑی پر واقع ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل پڑے، دَرّے پر مقیم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب دیکھا کہ عمر آرہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے، تو گھبرائے ہوئے آنحضرتﷺ کو بتایا، وہیں اسداللہ ورسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہ فرمانے لگے آنے دو، اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کا کام تمام کر دوں گا۔
جب سیدنا عمرؓ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسلامﷺ پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپﷺ نے عمرؓ سے فرمایا اے عمر! تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو؟ بس یہ سننا تھا کہ فوراً کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اصحابِ رسولﷺ نے حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار و مشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔ پھر نبی رؤوف و رحیمﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینہ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ اخْرُجْ مَافِيْ صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَأَیِّدْ لَہٗ إِیْمَانًا۔یا اللہ! اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کر دے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھر دے۔
(مستدرک للحاکم)
قبولِ اسلام کے وقت بعض مؤرخین کے نزدیک آپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال تھی۔ مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسرِ قرآن جناب علامہ طنطناویؒ نے عجیب جملہ کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا آغاز ہوا۔
مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قال رسول اللہﷺ لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال استبشر أھل السماء بإسلام عمرؓ
 یعنی حضور سرورِکائناتﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا کہ آسمان والے عمر ؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔
(مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)
چند ہی لمحوں بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپﷺ نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمانے لگے کہ پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں؟ چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں، میں قربان جاؤں اپنے آقا و مولاﷺ پر کہ انہوں نے ایسے ہی عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں مانگا تھا، بلکہ دوررس نگاہِ نبوت دیکھ رہی تھی کہ اسلام کو عزت و شوکت عمرؓ کے آنے سے ہی نصیب ہو گی۔
حضور اکرمﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دو صفوں میں تقسیم کیا ایک صف کے آگے اسد اللہ و رسولہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مرادِ رسولؐ، پیغمبرِ اسلامﷺ کے لیے عطائے خداوندی یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل رہے تھے۔ مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے دیکھا، نظر پڑی حمزہ رضی اللہ عنہ پر اور عمر رضی اللہ عنہ پر تو بڑے غمگین ہوئے، لیکن کس میں جرأت تھی کہ کوئی بولتا؟ اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغِ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاکﷺ نے فرمایا تھا کہ ان اللہ جعل الحق علٰی لسان عمرؓ وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللہ بہٖ بین الحق والباطل۔اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمرؓ کے قلب ولسان پر جاری کر دیا اور وہ فاروق ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق و باطل میں فرق کردیا ہے۔
(طبقات ابن سعد)
جناب سیدنا عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ واللہ ما استطعنا أن نصلّي عندالکعبۃ ظاھرین حتٰی أسلم عمرؓ اللہ کی قسم! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوق نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ (مستدرک للحاکم)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ سنہ نبوی کے چھٹے سال میں واقع ہوا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی ہیں اور انہوں نے وہ کام کیے ہیں کہ غیر مسلم آج بھی ان کی تعریف کرتے ہیں. اور جو اصلاحات انہوں نے نافذ کی تھیں آج غیر مسلموں نے وہ اصلاحات اپنے ملکوں میں نافذ کر کے وہ ترقی کی ہے کہ ہم مسلمان آج ان کی بنائی ہوئی ہر چیز استعمال کرتے ہیں. ہم لوگوں میں بس اختلافات رہ گۓ باقی اچھائی والے ترقی والے کام دوسروں نے اپنا لیے ہیں. کیا اچھا ہو کہ ہم اپنے اعمال کو ان بزرگ ہستیوں کے مطابق ڈھال لیں اور کامیابی کی طرف چل پڑیں۔
نام و نسب:
سلسلہ نسب یہ ہے کہ عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن رباح بن عبد اللہ بن قرط بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک۔
اہلِ عرب عموماً عدنان یا قحطان کی اولاد ہیں۔ عدنان کا سلسلہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ عدنان کے نیچے گیارہویں پشت میں فہر بن مالک بڑے صاحبِ اقدار تھے۔ ان ہی کی اولاد ہے جو قریش کے لقب سے مشہور ہے۔ قریش کی نسل میں دس شخصوں نے اپنے زور لیاقت سے بڑا امتیاز حاصل کیا، اور ان کے ِانتساب سے دس جدا نامور قبیلے بن گئے۔ یعنی ہاشم، امیہ، نوفل، عبد الدار، اسد، تیم، مخزوم، عدی، جمح، سمح، سیدنا عمرؓ عدی کی اولاد سے ہیں۔ عدی کے دوسرے بھائی مرۃ تھے۔ جو رسولﷺ اللہ کے اجداد سے ہیں۔
اس لحاظ سے سیدنا عمرؓ کا سلسلہ نسب رسولﷺ سے آٹھویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے۔
قریش چونکہ خانہ کعبہ کے مجاور بھی تھے۔ اس لیے دنیاوی جاہ و جلال کے ساتھ مذہبی عظمت بھی ان پر سایہ فگن تھا۔ تعلقات کی وسعت اور کام کے پھیلاؤ سے ان لوگوں کے کاروبار کے مختلف صیغے پیدا ہو گئے تھے۔ اور ہر صیغے کا اہتمام جدا تھا۔ مثلاً خانہ کعبہ کی نگرانی، حجاج کی خبر گیری، سفارت، شیوخ قبائل کا انتخاب، فصل مقدمات، مجلس شورا وغیرہ وغیرہ، (عدی جو سیدنا عمرؓ کے جد اعلیٰ تھے) ان صیغوں میں سفارت کے صیغے کے افسر تھے۔ یعنی قریش کو کسی قبیلے کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آتا تو یہ سفیر بن کر جایا کرتے۔ (یہ تمام تفصیل عقد الفرید باب فضائل عرب میں ہے )۔ اس کے ساتھ منافرہ کے معرکوں میں ثالث بھی ہوا کرتے تھے۔
عرب میں دستور تھا کہ برابر کے دو رئیسوں میں سے کسی کو افضلیت کا دعویٰ ہوتا تو ایک لائق اور پایہ شناس ثالث مقرر کیا جاتا۔ اور دونوں اس کے سامنے اپنی اپنی ترجیح کے دلائل بیان کرتے۔ کبھی کبھی ان جھگڑوں کو اس قدر طول ہوتا کہ مہینوں معرکے قائم رہتے۔ جو لوگ ان معرکوں میں حکم مقرر کئے جاتے ان میں معاملہ فہمی کے علاوہ فصاحت اور زور تقریر کا جوہر بھی درکار ہوتا، یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسلاً بعد نسل چلے آتے تھے۔
سیدنا عمرؓ کے جد امجد:
سیدنا عمرؓ کے دادا نفیل بن عبد العزیٰ نے اپنے اسلاف کی طرح ان خدمتوں کو نہایت قابلیت سے انجام دیا اور اس وجہ سے بڑے عالی رتبہ لوگوں کے مقدمات ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے آتے تھے۔ رسولﷺ کے جد امجد عبد المطلب اور حرب بن امیہ میں جب ریاست کے دعویٰ پر نزاع ہوا تو دونوں نے نفیل ہی کو حکم مانا۔ نفیل نے عبد المطلب کے حق میں فیصلہ کیا۔
نفیل کے دو بیٹے تھے۔ عَمرو، اور خطاب۔ عَمرو معمولی لیاقت کے آدمی تھے۔ لیکن ان کے بیٹے زید جو نفیل کے پوتے اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے نہایت اعلیٰ درجہ کے شخص تھے۔ وہ ان ممتاز بزرگوں میں تھے جنہوں نے رسولﷺ کے بعثت سے پہلے اپنے اجتہاد سے بت پرستی کو ترک کر دیا تھا۔ اور موحد بن گئے تھے۔ ان میں زید (زید کا مفصل حال اسد الغابہ کتاب الاوائل اور معارف ابن قتیبہ میں ملے گا) کے سوا باقیوں کے یہ نام ہیں۔ قیس بن ساعدہ، ورقہ بن نوفل۔
زید بت پرستی اور رسوم جاہلیت کو علانیہ برا کہتے تھے اور لوگوں کو دین ابراہیمی کی ترغیب دلاتے تھے۔ اس پر تمام لوگ ان کے دشمن ہو گئے جن میں سیدنا عمرؓ کے والد خطاب سب سے زیادہ سرگرم تھے خطاب نے اس قدر ان کو تنگ کیا کہ وہ آخر مجبور ہو کر مکہ معظمہ سے نکل گئے۔ اور حراء میں جا رہے۔ تاہم کبھی کبھی چھپ کر کعبہ کی زیارت کو آتے۔ زید کے اشعار آج بھی موجود ہیں۔ جن سے ان کے اجتہاد اور روشن ضمیری کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ دو شعر یہ ہیں
ترجمہ: ایک خدا کو مانوں یا ہزاروں کو؟ جب کہ امور تقسیم ہو گئے۔ میں نے لات اور عزیٰ (بتوں کے نام تھے ) سب کو خیر باد کہا اور سمجھدار آدمی ایسا ہی کرتا ہے۔
خطاب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے والد قریش کے ممتاز آدمیوں میں سے تھے۔
(کتاب المعارف ابن قتیبہ)
قبیلہ عدی اور بنی عبد الشمس میں مدت سے عداوت چلی آتی تھی۔ عدی کا تمام خاندان مکہ معظمہ میں مقام صفا میں سکونت رکھتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے بنو سہم سے تعلق پیدا کیا تو مکانات بھی انہی کے ہاتھ بیچ ڈالے۔ لیکن خطاب کے متعدد مکانات صفا میں باقی رہے جن میں سے ایک مکان سیدنا عمرؓ کو وراثت میں پہنچا تھا۔ یہ مکان صفا اور مروہ کے بیچ تھا۔ سیدنا عمرؓ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ڈھا کر حاجیوں کے اترنے کے لیے میدان بنا دیا۔ لیکن اس سے متعلق بعض دکانیں مدت تک سیدنا عمرؓ کے خاندان کے قبضے میں رہیں۔
(تاریخ مکہ للارزقی: ذکر رباع بن بنی عدی بن کعب)
خطاب نے متعدد شادیاں اونچے گھرانوں میں کیں۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ماں کا نام خنتمہ تھا، جو ابنِ ہشام بن المغیرہ کی بیٹی تھیں، مغیرہ اس رتبہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی سے لڑنے کے لئے جاتے تھے تو فوج کا اہتمام انہی سے متعلق ہوتا تھا۔ اسی مناسبت سے ان کو صاحب الاعنہ کا لقب حاصل تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ انہی کے پوتے تھے۔ مغیرہ کے بیٹے ہشام بھی جو سیدنا عمرؓ کے نانا تھے۔ ایک ممتاز آدمی تھے۔
ولادت اور جوانی کے حالات:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ مشہور روایات کے مطابق ہجرت نبوی سے 40 برس قبل پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت اور بچپن کے حالات بالکل نامعلوم ہیں۔ حافظ ابنِ عساکر نے تاریخ دمشق میں عمرو بن عاص کی زبانی ایک روایت نقل کی ہے کہ میں چند احباب کے ساتھ ایک جلسہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتاً غُل اٹھا۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ خطاب کے گھر بیٹا ہوا ہے۔
اس سے قیاس ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیدا ہونے پر غیر معمولی خوشی کی گئی تھی۔ ان کے سن رشد کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں اور کیوں کر معلوم ہوتے۔ اس وقت کس کو خیال تھا کہ یہ جوان آگے چل کر فاروقِ اعظم ہونے والا ہے۔ تاہم نہایت تشخیص اور تلاش سے کچھ کچھ حالات بہم پہنچے جن کا نقل کرنا ناموزوں نہ ہو گا۔
سن رشد پہنچ کر ان کے باپ خطاب نے ان کو جو خدمت سپرد کی وہ اونٹوں کو چرانا تھا۔ یہ شغل اگرچہ عرب میں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قومی شعار تھا لیکن خطاب نہایت بے رحمی کے ساتھ ان سے سلوک کرتے۔ تمام دن اونٹ چرانے کا کام لیتے اور جب کبھی تھک کر دم لینا چاہتے تو سزا دیتے۔ جس میدان میں حضرت عمرؓ کو یہ مصیبت انگیز خدمات انجام دینی پڑتی تھی۔ اس کا نام ضجنان تھا۔جو مکہ معظمہ کے قریب قدید سے 10 میل کے فاصلہ پر ہے۔ خلافت کے زمانے میں ایک دفعہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو ان کو نہایت عبرت ہوئی، آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ
الله اکبر ایک وہ زمانہ تھا کہ میں نمدہ کا کرتہ پہنے ہوئے اونٹ چرایا کرتا تھا اور تھک کر بیٹھ جاتا تو باپ کے ہاتھ سے مار کھاتا آج یہ دن ہے کہ الله کے سوا میرے اوپر کوئی حاکم نہیں۔
(طبقات ابن سعد)
شباب کا آغاز ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً معمول تھے، عرب میں اس وقت جن چیزوں کی تعلیم دی جاتی تھی اور جو لازمہ شرافت خیال کی جاتی تھیں، نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور مقرری تھی، نسب دانی کا فن حضرت عمرؓ کے خاندان میں موروثی چلا آتا تھا،
جاحظ نے کتاب البیان والتبیان میں بہ صریح لکھا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ان کے باپ اور دادا نفیل تینوں بڑے نساب تھے۔
(طبقات ابن سعد، مطبوعہ مصر: صفحہ 117/122)
غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان میں جیسا کہ ہم ابھی لکھ آئے ہیں سفارت اور منافرۃ یہ دونوں منصب موروثی چلے آتے تھے اور ان کے انجام دینے کے لیے انساب کا جاننا سب سے مقدم امر تھا. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انساب کا فن اپنے باپ سے سیکھا۔ جاحظ نے تصریح کی ہے کہ
حضرت عمر ؓ جب انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تھے تو ہمیشہ اپنے باپ خطاب کا حوالہ دیتے تھے۔"
پہلوانی اور کُشتی کے فن میں بھی کمال حاصل تھا،یہاں تک کہ عکاظ کے دنگل میں معرکے کی کشتیاں لڑتے تھے۔عکاظ جبل عرفات کے پاس ایک مقام تھا جہاں سال کے سال اس غرض سے میلہ لگتا تھا کہ عرب کے تمام اہل فن جمع ہو کر اپنے کمالات کے جوہر دکھاتے تھے اس لیے وہی لوگ یہاں پیش ہو سکتے تھے جو کسی فن میں کمال رکھتے تھے۔نابغہ، زبیانی، حسان بن ثابت، قیس بن ساعدہ، خنساء جن کو شاعری اور ملکۂ تقریر میں تمام عرب مانتا تھا،اسی تعلیم گاہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ حضرت عمر ؓ کی نسبت علامہ بلاذری نے کتاب الاشراف میں باسند روایت نقل کی ہے کہ
"عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔"
اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس فن میں پورا کمال حاصل کیا تھا۔
شہسواری کی نسبت ان کا کمال عموماً مسلم ہے۔ جاحظ نے لکھا ہے کہ
"وہ گھوڑے پر اچھل کر سوار ہوتے تھے اور اس طرح جم کر بیٹھتے تھے کہ جلد بدن ہو جاتے تھے۔"
قوت تقریر کی نسبت اگرچہ کوئی مصرح شہادت موجود نہیں لیکن یہ امر تمام مؤرخین نے باتفاق لکھا ہے کہ
"اسلام لانے سے پہلے قریش نے ان کو سفارت کا منصب دے دیا تھا۔اور یہ منصب صرف اس شخص کو مل سکتا تھا جو قوت تقریر اور معاملہ فہمی میں کمال رکھتا تھا۔"
حضرت عمر ؓ شاعری کا نہایت عمدہ مذاق رکھتے تھے اور تمام مشہور شعراء کے چیدہ اشعار ان کو یاد تھے۔
اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ یہ مذاق انہوں نے جاہلیت میں ہی عکاظ کی تعلیم گاہ میں حاصل کیا ہو گا۔کیونکہ اسلام لانے کے بعد وہ مذہبی اشغال میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ اس قسم کے چرچے بھی چنداں پسند نہیں کرتے تھے۔اسی زمانے میں انہوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔اور یہ وہ خصوصیت تھی جو اس زمانے میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ علامہ بلاذری نے باسند لکھا کہ جب آنحضرتﷺ مبعوث ہوئے تو قریش کے تمام قبیلے میں 17 آدمی تھے، جو لکھنا جانتے تھے، ان میں ایک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے۔
(فتوح البلدان بلاذری)
ان فنون سے فارغ ہو کر وہ فکر معاش میں مصروف ہوئے، عرب میں معاش کا ذریعہ زیادہ تر تجارت تھا۔ اس لیے انہوں نے بھی یہی شغل اختیار کیا۔ اور یہی شغل ان کی بہت بڑی ترقیوں کا سبب ہوا، وہ تجارت کی غرض سے دور دور ملکوں میں جاتے تھے۔ اور بڑے بڑے لوگوں سے ملتے تھے۔ خود داری، بلند حوصلگی، تجربہ کاری، معاملہ دانی، یہ تمام اوصاف جو ان میں اسلام لانے سے قبل پیدا ہو گئے تھے، سب انہی سفروں کی بدولت تھے، ان سفروں کے حالات اگرچہ نہایت دلچسپ اور نتیجہ خیز ہوں گے لیکن افسوس ہے کہ کسی مؤرخ نے ان پر توجہ نہیں کی۔ علامہ مسعودیؒ نے اپنی مشہور کتاب مروج الذہب میں صرف اس قدر لکھا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جاہلیت کے زمانے میں عراق اور شام کے جو سفر کئے ان سفروں میں جس طرح وہ عرب و عجم کے بادشاہوں سے ملے اس کے متعلق بہت سے واقعات ہیں جن کو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب اخبار الزمان اور کتاب الاوسط میں لکھا ہے۔
علامہ موصوف نے جن کتابوں کا حوالہ دیا اگرچہ وہ فن تاریخ کی جان ہیں۔ لیکن قوم کی بد مذاقی سے مدت ہوئی ناپید ہو چکیں۔
علامہ شبلیؒ لکھتے ہیں کہ میں نے صرف اس غرض سے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ان حالات کا پتہ لگ سکے۔ قسطنطنیہ کے تمام کتب خانے چھان مارے۔ لیکن کچھ کامیابی نہیں ہوئی۔ محدث بن عساکر نے تاریخ دمشق میں جس کی بعض جلدیں میری نگاہ سے گزریں ہیں حضرت عمرؓ کے سفر کے بعض واقعات لکھے ہیں۔ لیکن ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔
مختصر یہ کہ عکاظ کے معرکوں اور تجارت کے تجربوں نے ان کو تمام عرب میں روشناس کرا دیا اور لوگوں پر ان کی قابلیت کے جو ہر روز بروز کھلتے گئے۔یہاں تک کہ قریش نے ان کو سفارت کے منصب پر مامور کر دیا۔جب کوئی پرخطر معاملہ پیش آتا تو انہی کو سفیر بنا کر بھیجتے۔
واقعہ شہادت:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے زمین کے بڑے حصے پر حکومت کی۔ آپؓ کی خلافت کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ ان کے دورِ خلافت میں کہیں، کسی فتنے نے سر نہیں اٹھایا، اس لیے کہ ان کی ذاتِ والا صفات فتنوں کے درمیان بند دروازے کی طرح تھی، جب یہ دروازہ توڑ دیا گیا تو فتنے اُبل پڑے۔
(مسند احمد)
اگر آپؓ کے عدل و انصاف اور ملکی انتظامات اور فتوحات پر نظر ڈالی جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ وہ کام آپؓ کی ذات سے ظاہر ہوئے، جن کا کوئی نمونہ دنیا میں پہلے موجود نہ تھا اور اگر آپؓ کی دینی خدمات اور روحانی کمالات کو دیکھا جائے تو آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور صفحاتِ تاریخ میں اس کی جامعیت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کا ہر ہر رُویاں اپنے مرشدِ برحقﷺ سید الکل فی الکل اور امام الانبیاو الرسل کے سچا ہونے کی شہادت ساری دنیا کے سامنے ادا کر گیا۔
(سیرت خلفائے راشدین)
اس مختصر مضمون میں جو کچھ پیش کیا گیا، اسے صرف ایک نمونہ ہی کہا جا سکتا ہے بلکہ یہ ایک تنبیہ ہے کہ نام نہاد مسلمان اسلام کی ایسی بزرگ ترین ہستیوں کے بارے میں جانیں اور ان کی شخصیت سے سبق حاصل کریں۔
حضرت عمرؓ کی شہادت کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک مجوسی (آتش پرست) غلام رہتا تھا، جس کی کنیت ابو لؤلو تھی۔ اس نے ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آکر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہؓ بن شعبہ نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کیا ہے، آپ کم کروا دیجیے۔ حضرت عمرؓ نے تعداد پوچھی۔ اس نے کہا روزانہ دو درہم۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ تو پیشہ کون سا کرتا ہے؟ بولا کہ نقاشیِ آہن گری (لوہے کے ہتھیار وغیرہ بنانے والا)۔ آپؓ نے فرمایا ان صنعتوں کے مقابلے میں تو یہ رقم زیادہ نہیں ہے۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا آیا۔ دوسرے دن حضرت عمرؓ صبح کی نماز کے لیے نکلے تو فیروز خنجر لے کر مسجد میں آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے کچھ لوگ اس کام پر مقرر تھے کہ جب جماعت کھڑی ہو تو وہ صفیں درست کریں۔ جب صفیں سیدھی ہو گئیں تو حضرت عمرؓ تشریف لائے اور جوں ہی نماز شروع کی، فیروز نے دفعۃً گھات میں سے نکل کر (مسلسل) چھے وار کیے، جس میں سے ایک ناف کے نیچے پڑا۔ حضرت عمرؓ نے فوراً حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر (انھیں) اپنی جگہ کھڑا کر دیا اور خود زخم کے صدمے سے گر پڑے۔ عبد الرحمٰن ابن عوفؓ نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمرؓ سامنے بسمل پڑے تھے۔
فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا، لیکن بالآخر پکڑ لیا گیا اور پھر خود کُشی کر لی۔ حضرت عمرؓ کو لوگ اٹھا کر گھر لائے۔ سب سے پہلے انھوں نے پوچھا کہ میرا قاتل کون ہے؟ لوگوں نے بتلایا فیروز۔ آپؓ نے فرمایا الحمد للہ! میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا، جو اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو۔ لوگوں کا خیال تھا کہ زخم بہت گہرا نہیں ہے، غالباً شفاء ہو جائے، چنانچہ ایک طبیب بلایا گیا اس نے نبیذ اور دودھ پلایا، (مگر) دونوں چیزیں زخم کی راہ سے باہر نکل آئیں۔ حضرت عمرؓ نے اس کے تین دن کے بعد انتقال فرمایا اور محرم کی پہلی تاریخ، ہفتے کے دن مدفون ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
نمازِ جنازہ حضرت صہیبؓ نے پڑھائی۔ حضرت علی، عبد الرحمٰن، عثمان، طلحہ،سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمن ابن عوف رضی اللہ عنہم نے قبر میں اتارا اور اس طرح یہ آفتابِ عالم تاب خاک میں چھپ گیا۔ (الفاروق)
نوٹ: (اسی ابو لؤلؤ فیروز کا مزار شیعہ نے ایران میں بنایا ہوا ہے اور اس کو بابا شجاع کہتے ہیں، اور ہر سال اس کے مزار پر جاتے ہیں اور جو فیروزہ نامی انگوٹھی پہنچتے ہیں وہ بھی اسی ملعون کی منسوب کرتے ہیں)
حضرت عمر ؓ کی ہجرت:
اہلِ قریش ایک مدت تک آنحضرتﷺ کے دعویٰ کو بے پروائی کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ لیکن اسلام کو جس قدر شیوع ہوتا جاتا تھا ان کی بے پروائی غصہ اور ناراضگی سے بدلتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب ایک جماعت کثیر اسلام کے حلقے میں آ گئی تو قریش نے زور اور قوت کے ساتھ اسلام کو مٹانا چاہا۔ جناب ابو طالب کی زندگی تک تو اعلانیہ کچھ نہ کر سکے۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد کفار ہر طرف سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جس جس مسلمان پر قابو ملا اس طرح ستانا شروع کیا کہ اگر اسلام کے جوش اور وارفتگی کا اثر نہ ہوتا تو ایک شخص بھی اسلام پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا تھا۔یہ حالت پانچ چھ برس تک رہی اور یہ زمانہ اس سختی سے گزارا کہ اس کی تفصیل ایک نہایت درد انگیز داستان ہے۔
اسی اثناء میں مدینہ منورہ کے ایک معزز گروہ نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس لیے آنحضرتﷺ نے حکم دیا کہ جن لوگوں کو کفار کے ستم سے نجات نہیں مل سکتی وہ مدینہ کو ہجرت کر جائیں۔ سب سے پہلے ابو سلمہ عبد الله بن اشہل رضی اللہ عنہ پھر حضرت بلالؓ مؤذن اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی۔ ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیس آدمیوں کے ساتھ مدینہ کا قصد کیا۔
صحیح بخاری میں 20 کا عدد مذکور ہے۔ لیکن ناموں کی تفصیل نہیں۔ ابنِ ہشام نے بعضوں کے نام لکھے اور وہ یہ ہیں۔
حضرت عمرؓ کے ساتھ جن لوگوں نے ہجرت کی زید بن خطابؓ، سعید بن زید بن خطابؓ، خنیس بن حذافہ سہمیؓ، عمرو بن سراقہؓ، عبد الله بن سراقہؓ، واقد بن عبد الله تمیمیؓ، خولی بن ابی خولیؓ، مالک بن ابی خولیؓ، لیاس بن بکیرؓ، عاقل بن بکیرؓ، عامر بن بکیرؓ، خالد بن بکیرؓ۔ان میں سے زید رضی اللہ عنہ حضرت عمرؓ کے بھائی، سعیدؓ بھتیجے، خنیسؓ داماد اور باقی دوست احباب تھے۔
مدینہ منورہ کی وسعت چونکہ کم تھی، مہاجرین زیادہ تر قبا میں (جو مدینہ سے دو تین میل ہے) قیام کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی یہیں رفاعہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کے مکان پر ٹھہرے۔
(قباء کو عوالی بھی کہتے ہیں چنانچہ صحیح مسلم میں ان کی فرود گاہ کا نام عوالی ہی لکھا ہے)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بعد اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہجرت کی۔ یہاں تک کہ (662 عیسوی) 13 نبوی میں جناب رسالتﷺ نے مکہ چھوڑا اور آفتاب رسالت مدینہ کے افق سے طلوع ہوا۔
مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے آنحضرتﷺ نے مہاجرین کے رہنے سہنے کا انتظام کیا۔ انصار کو بلا کر ان میں اور مہاجرین میں برادری قائم کی جس کا اثر یہ ہے کہ جو مہاجر جس انصاریٰ کا بھائی بن جاتا انصاریٰ مہاجر کو اپنی جائیداد، اسباب، نقدی تمام چیزوں میں آدھا آدھا بانٹ دیتا تھا۔اس طرح تمام مہاجرین اور انصار بھائی بھائی بن گئے۔ اس رشتہ کے قائم کرنے میں آنحضرتﷺ طرفین کے رتبہ اور حیثیت کا فرق مراتب ملحوظ رکھتے تھے، یعنی جو مہاجر جس درجے کا ہوتا اسی رتبے کے انصاریٰ کو اس کا بھائی بناتے تھے۔