Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

سیرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ:

خلیفہ سوم، داماد نبی، ناشر القرآن، سیدنا عثمان غنیؓ

نام مبارک: عثمان۔

کنیت: ابو عبد اللہ، ابو عمرو۔

لقب: ذوالنورین، غنی۔

والد کا نام: عفان۔

والدہ کا نام: اروی بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی۔

سلسلہ نسب:

عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی قرشی اموی۔

تاریخ پیدائش: آپؓ کی ولادت باسعادت واقعہ فیل کے چھٹے سال (ہجرت سے 27 سال پہلے) قریش کے ایک ممتاز گھرانے میں ہوئی۔

(استیعاب: جلد، 3 صفحہ، 1038)

قبل از اسلام:

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرب کے شریف زادوں کی طرح بڑے ناز و نعم میں پرورش پائی اور مروجہ علوم و فنون کی تحصیل کے بعد اپنے آبائی پیشہ تجارت سے وابستہ ہو گئے اور اپنی دیانت و راست بازی کی وجہ سے بہت جلد ترقی کرکے قریش کے دولت مند لوگوں کی صف میں شامل ہو گئے اور غنی کے لقب سے یاد کئے جانے لگے۔

قبول اسلام:

سیدنا عثمانؓ فطرتاً سلیم الطبع، حلیم و بردباد واقع ہوئے تھے۔ عہد جاہلی کے پُر آشوب معصیت شعار ماحول میں بھی آپ کا دامن بت پرستی، شراب نوشی، جوا بازی، بدکاری جیسے مذموم کاموں کے داغ سے پاک رہا۔ آپؓ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس اٹھتے بیٹھتے تھے۔

ظہور اسلام کے بعد آپ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے کی ترغیب دی اور ان کو رسولِ کریمﷺ کی خدمت میں لے کر گئے۔ اور آپ نے اسلام قبول کر لیا۔

شرف دامادی:

دولت دنیا کے ساتھ دولت ایمان سے بہرہ مند ہونے کے بعد سرکارﷺ نے آپ کو شرف دامادی بخشا اور اپنی منجھلی صاحبزادی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو آپ کے عقد میں دیا۔ جنگ بدر کے موقع پر جب ان کا انتقال ہو گیا تو حضور اکرمﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کر دیا پھر جب ان کا بھی انتقال ہو گیا تو حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میرے پاس تیسری بیٹی بھی ہوتی تو میں اس کا بھی نکاح عثمان سے کر دیتا۔

(اسد الغابہ: جلد، 2 صفحہ، 249)

ہجرت:

قبول اسلام کی وجہ سے آپ کو سخت مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ وہ لوگ جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے پر تلے ہوئے تھے ان میں آپ کے خاندان کے لوگ قائد کا رول نبھا رہے تھے اس لیے یہ بات ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھی کہ ان ہی کے خاندان کا کوئی فرد اسلام قبول کر لے۔ چنانچہ آپ کے خاندان کے لوگوں نے آپ کو برا بھلا کہا اور آپ کے حقیقی چچا حکم بن ابی العاص نے آپ کو باندھ کر مارا، لیکن ان آزمائش کی سخت گھڑیوں میں بھی آپؓ مکمل طور سے ثابت قدم رہے۔

ایک زمانے تک آپ پر اور دوسرے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے۔ پھر جب حق کے علمبرداروں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ بغیر وطن اور عزیز و اقارب کو چھوڑے دین حق کی نشر و اشاعت نہیں ہو سکتی ہے تو آقائے کریمﷺ نے ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ چنانچہ نبوت کے پانچویں سال سب سے پہلی مرتبہ دین حق کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک قافلہ ہجرت کرنے کے لیے تیار ہوا جس میں 11/مرد اور 4/عورتیں تھیں اور یہ قافلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں حبشہ کی طرف روانہ ہوا، اس سفر میں سیدنا عثمانؓ کے ساتھ ان کی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ بنت رسولﷺ بھی تھیں۔

یہ سارے لوگ حبشہ ہی میں اقامت گزیں ہو گئے پھر ایک خبر پا کر مسلمان وہاں سے مکہ آنے لگے تو آپ بھی مکہ واپس آگئے، لیکن خبر جھوٹی ثابت ہوئی تو پھر کچھ لوگ دوبارہ حبشہ چلے گئے مگر آپ مکہ ہی میں رہے۔ مکہ کی فضا اہلِ اسلام کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ تاریک ہو چکی تھیں اور مسلمان ناقابلِ برداشت ظلم و ستم سے دوچار تھے۔ آخر کار ہجرت کی عام اجازت ہوئی تو دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح آپ بھی ہجرت کر کے مدینہ شریف چلے آئے۔

فضائل و مناقب:

خاص آپ کے فضائل و مناقب سے متعلق کثیر روایتیں کتب احادیث میں وارد ہیں، ان میں سے چند حاضر ہیں۔

  1. رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کا ایک ساتھی ہو گا اور جنت میں میرے ساتھی عثمانؓ ہوں گے۔ (ترمذی: حدیث، 3498)
  2.  حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور اکرمﷺ سے پوچھا کہ کیا جنت میں برق (یعنی جگمگاہٹ) ہو گی؟ تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے! بے شک عثمان جب ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف منتقل ہو گا تو جنت ان کے لیے جگمگائے گی۔ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابہ: حدیث، 4540)
  3. حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریمﷺ کے زمانے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو سمجھتے تھے اور ان کے بعد ہم لوگ حضورکے صحابہ میں کسی کو کسی پر فضیلت کی بات نہیں کرتے تھے۔ (صحیح بخاری: حدیث، 3698 ترمذی حدیث، 3706)
  4. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بیعت رضوان کے موقع پر حضورﷺ نے حضرت عثمانؓ کو مکہ بھیجا تھا پھر جب ان کے جانے کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضورﷺ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بیعت کیا تو حضورﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ کے بارے میں فرمایا ک یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور آپ نے اسے اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔

(صحیح بخاری: حدیث، 3698 ترمذی حدیث، 3706)

اعزازات:

حضرت عثمانؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یکے بعد دیگرے حضورﷺ کی دو بیٹیاں آپ کے نکاح میں آئیں۔جب آپؓ کی بیوی سیدہ حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو رسول خداﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری سو بیٹیاں ہوتیں تو میں ایک ایک کر کے عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیتا۔

(مرقاۃ شرح مشکوۃ: جلد، 11 صفحہ، 231 باب مناقب عثمان بن عفان،الفصل الثالث)

نبی کریمﷺ نے فرمایا

لکل نبی رفیق و رفیقی فی الجنۃ عثمان

(جامع الترمذی: جلد، 2 صفحہ، 689 مناقب عثمان بن عفان)

ترجمہ: ہر نبی کا جنت میں ایک رفیق ہو گا اور میرا رفیق عثمانؓ ہو گا۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر حضورﷺ نے آپ کو اپنا نمائندہ بنا کر مکہ مکرمہ بھیجا۔

(جامع ترمذی: جلد، 2 صفحہ، 689 مناقب عثمان بن عفان)

قوت اجتہاد و استنباط:

اپنے دور خلافت میں بہت سے اجتہاد فرمائے جن سے آپ کی شان فقاہت معلوم ہوتی ہے۔ چند ایک کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

جمع قرآن:

جب آپ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر روم و ایران کے دور دراز علاقوں میں پھیل چکا تھا۔ قرآن مجید سات لغتوں پر نازل ہوا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سات لغات پر تلاوت فرماتے تھے۔ قراءتوں کا یہ اختلاف دور دراز کے علاقوں میں بھی پھیل گیا جب تک لوگ اس حقیقت سے واقف تھے کہ قرآن کا نزول سات لغات پر ہوا ہے اس وقت تک اختلاف سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن جب یہ اختلاف ان دور دراز کے ممالک میں پہنچا جن میں یہ بات پوری طرح سے مشہور نہیں ہوئی تھی کہ قرآن سات لغات پر نازل ہوا ہے تو اس وقت جھگڑے پیدا ہونے لگے۔ بعض لوگ اپنی قراءت کو صحیح اور دوسری کو غلط کہنے لگے تو اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے امت کو لغت قریش پر جمع فرمایا۔ یہ آپ کی اجتہادی شان کا عظیم کارنامہ ہے۔

جمعہ کی اذان ثانی:

آنحضرتﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دور میں جمعہ کے لیے ایک اذان دی جاتی تھی۔ جب حضرت عثمانؓ کا دور خلافت آیا اور مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا تو آپ کے حکم سے اذان ثانی شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔ حضرت سائب بن یزیدؓ اس اذان کے متعلق فرماتے ہیں

فثبت الامر علی ذالک

(صحیح بخاری: جلد، 1 صفحہ، 125 کتاب الجمعۃ باب التأذین عندالخطبۃ)

یعنی اذان کا یہ طریقہ مستقل طور پر رائج ہو گیا۔

دیت کی ادائیگی میں مال دینا:

آنحضرتﷺ، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے عہد سے دیت میں اونٹ لینے کا طریقہ چلا آ رہا تھا۔ آپؓ نے دیت میں ان کی قیمت دینی بھی جائز قرار دی کیونکہ یہاں اونٹوں میں سوائے مال کے اور کوئی جہت نہیں پائی جاتی۔ قاضی القضاۃ امام ابو یوسفؒ نے بھی اپنے دور میں یہی فتویٰ دیا۔

امت کے متعلق آپؓ کا نقطہ نظر:

آپؓ کا نظریہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو قرآن و سنت کے نام پر آزاد نہیں رہنا چاہیے بلکہ اپنے اسلاف کی پیروی کرنی چاہیے۔ اسی وجہ سے جب آپ خلیفہ مقرر ہوئے تو حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپؓ سے عہد لیا کہ آپؓ شیخین کریمینؓ کی سیرت پر چلیں گے۔ آپؓ نے اس کو قبول کر لیا۔ آپؓ مجتہد ہونے کے باوجود حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ کی پیروی کرتے تھے مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں پورا مہینہ بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھی، آپ نے انہی کی اتباع میں اسی پر دوام فرمایا۔

عن السائب بن یزید قال کانوا یقومون علی عہد عمر بن الخطاب فی شہر رمضان بعشرین رکعۃ قال وکانوا یقرءون بالمئین وکانوا یتوکئون علی عصیھم فی عہد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ من شدۃ القیام

(سنن الکبری للبیہقی: جلد، 2 صفحہ، 496 باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان)

ترجمہ: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لمبے قیام کی وجہ سے سہارا لے کر کھڑے ہوتے تھے۔

آپؓ کا فرمان یہ تھا کہ مسلمانوں کو جب بھی عروج ملا ہے وہ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے سے ملا ہے آپؓ کا فرمان ہے

إنما بلغتم ما بلغتم بالاقتداء والاتباع فلا تلفتنكم الدنيا عن أمركم

(تاریخ طبری: جلد، 5 صفحہ، 45)

ترجمہ: تم جس مقام پر پہنچے ہو وہ پہلوں کی تقلید سے پہنچے ہو خیال کرنا دنیا کہیں تمہیں حکم الٰہی سے دوسری طرف نہ پھیر دے۔

صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان:

6 ہجری میں رسول پاکﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور کعبۃ اللہ کا طواف کیا اس کے بعد کسی نے سر کے بال منڈوائے اور کسی نے کتروائے۔ آپ نے یہ خواب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنایا سب نہایت خوش ہوئے۔ اس کے بعد آپﷺ نے اسی سال ذی القعدہ کے مہینے میں عمرہ کے ارادہ سے مکہ معظمہ کا سفر شروع کیا، صحیح روایات کی بنیاد پر آپ کے ہمراہ جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد 1400 اور 1500 کے درمیان ہے۔ مقام ذوالحلیفہ پہنچ کر سب نے احرام باندھا، پھر آگے حدیبیہ تک پہنچے، کفار مکہ نے مزاحمت کی کہ ہم مکہ نہیں آنے دیں گے۔ نبی پاکﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورے سے اپنا سفیر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بنا کر بھیجا کہ آپ جا کر مکہ والوں کو سمجھائیں کہ ہم لڑنے کی نیت سے نہیں آئے بلکہ کعبہ کا طواف کر کے واپس چلے جائیں گے۔ سیدنا عثمانؓ مکہ پہنچے اور ان کو یہ بات سمجھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن کفار مکہ نے ضد کی وجہ سے اسے قبول کرنے سے صاف صاف انکار کر دیا ۔جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مکہ جانے لگے تو کسی صحابی نے یہ بات کہہ دی کہ عثمان کی قسمت اچھی ہے وہ مکہ جا کر کعبہ کا طواف کریں گے مگر ہمیں کفار اجازت دیں یا نہ دیں۔ یہ بات رسول اللہﷺ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا عثمانؓ کے متعلق ہمیں یہ وہم بھی نہیں کہ وہ ہمارے بغیر کعبہ کا طواف کر لیں گے۔ ادھر دوسری طرف جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ مکہ پہنچے تو سردار مکہ ابوسفیان نے کہا عثمان اگر تم چاہو تو میں تمہیں طواف کی اجازت دے سکتا ہوں لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ تمہارے نبی کو طواف کی اجازت نہیں دیں گے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوسفیان کو جواب دیا رسول اللہﷺ کے بغیر میں ہرگز طواف نہیں کروں گا۔آپ کے اس جواب پر ابوسفیان نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور آپ کے ہمراہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قید کر دیا۔ کسی نے یہ غلط خبر اڑا دی کہ کفار مکہ نے سیدنا عثمانؓ اور ان کے ہمراہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شہید کر دیا ہے۔ اس خبر سے رسول اللہﷺ کو شدید صدمہ پہنچا، آپ اٹھے اور میدان حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے تشریف لے گئے۔ آپﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بلایا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے موت کی بیعت کی۔ جب آپ بیعت لے رہے تھے تو آپﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا۔ اسی بیعت کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ شہادت عثمان والی خبر سچی نہ تھی۔ آپﷺ نے حکم دیا کہ کفار کے کچھ لوگوں کو قید کر لو، مسلمانوں نے کفار کے چند لوگوں کو قید کر لیا۔ تب کافروں نے مجبور ہو کر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو رہا کیا اور اس کے بدلے اپنے لوگوں کو رہا کروایا۔

مکارمِ اخلاق:

قَسّام اَزل نے آپ کے خمیر میں اخلاقِ عالیہ، صفات حمیدہ، عادات شریفہ اور خصائل کریمہ کوٹ کوٹ کر بھر دیے تھے۔ چنانچہ تاریخ الخلفاء میں بحوالہ ابنِ عساکر سیدنا ابو ہریرہؓ کی روایت موجود ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے عثمانؓ خلق کے اعتبار سے مجھ سے زیادہ مشابہ ہے۔ صحیح بخاری باب ہجرۃ الحبشہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا اپنا فرمان موجود ہے میں حضور اکرمﷺ کی صحبت سے مستفید ہوا، اور آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت بھی ہوا۔ اللہ کی قسم! نہ تو میں نے آپﷺ کی نافرمانی کی نہ ہی خیانت کی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی، اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا خدا کی قسم! نہ تو میں نے ان کی حکم عدولی کی اور نہ ہی ان کی خیانت کی، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا، اللہ کی قسم! نہ میں نے کبھی ان کی نافرمانی کی نہ کسی تعمیل حکم سے جی چُرایا اور نہ ہی ان سے فریب کیا۔ مشکوٰۃ المصابیح میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ باحیاء عثمان ہیں۔ اس کے ساتھ دوسری روایت کو ملایا جائے جس میں ہے کہ حیا ایمان کا شعبہ ہے۔ اس شعبہ ایمانی میں سیدنا عثمانؓ کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ انکساری و تواضع کا یہ عالم ہے کہ تین براعظموں کے فاتح ہیں لیکن جب ایک غلام نے آپ کی دعوت کی تو آپؓ اسے خوشی خوشی قبول فرما لیا چنانچہ صحیح بخاری باب اجابۃ الحاکم الدعوۃ میں روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ کے ایک غلام کی دعوت کو قبول فرمایا زہد و تقویٰ کی بلندی ملاحظہ فرمائیے- تاریخ الخلفاء میں بحوالہ ابن عساکر ابو ثور تمیمی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی گانا نہیں سنا اور نہ ہی کبھی لہو لعب کی تمنا کی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت تاریخ الخلفاء میں بحوالہ ابن عساکر بسند صحیح موجود ہے کہ سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے زمانہ جاہلیت میں بھی شراب نہیں پی۔ صلہ رحمی میں بھی آپ کا مقام بہت بلند ہے الاصابہ میں سیدنا علیؓ اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان موجود ہے کہ سیدنا عثمانؓ سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے تھے۔

عبادت:

سیدنا عثمانؓ کو اہم العبادات نماز سے بہت رغبت تھی کیونکہ اس میں کلام الٰہی کی تلاوت بھی ہوتی ہے اور بندگی کی انتہاء بھی۔ چنانچہ آپ پنجگانہ فرائض کے علاؤہ نوافل بھی کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے اور خصوصاً تہجد کا معمول تھا آپ ایک رکعت میں مکمل قرآن کریم ختم فرما لیا کرتے تھے۔ حلیۃ الاولیاء میں محمد بن سیرینؒ سے روایت ہے کہ شہادت والی رات بھی آپ نے اپنے معمول کے مطابق ایک رکعت میں مکمل قرآن کریم تلاوت کیا۔ الاصابہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی دادی سے روایت ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ روزے بھی بکثرت رکھا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جس دن آپ کو شہید کیا گیا آپ اس دن بھی روزے سے تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کثرت سے صدقہ و خیرات فرمایا کرتے تھے۔ تاریخ طبری میں آپؓ ہی سے روایت ہے کہ جس وقت میں خلیفہ بنایا گیا اس وقت میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا اور آج میرے پاس سوائے ان دو اونٹوں کے کچھ بھی نہیں جو میں نے حج کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔ آپ نے مسلسل دس حج ادا فرمائے، آپ مناسک حج کے بہت بڑے عالم تھے، امہات المؤمنین کو بھی آپ نے حج کرایا، موطا امام مالکؒ میں ہے کہ آپ نے سیدنا حسینؓ کو بھی حج کرایا۔ اس موقع پر آپ لوگوں سے عمال کی شکایات دریافت فرماتے اور ان کا ازالہ فرماتے۔ البدایہ والنہایہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان موجود ہے کہ میں ہر جمعہ ایک غلام آزاد کرتا تھا اگر کسی جمعہ آزاد نہ کر پاتا تو اگلے جمعہ کو دو غلام آزاد کرتا۔

خشیت الہٰی:

جامع الترمذی اور مسند احمد میں روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ جب کسی قبر کے قریب سے گزرتے تو بہت روتے۔ یہاں تک کہ آپکی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر بتر ہو جاتی۔ ان سے پوچھا گیا کہ جنت و دوزخ کا ذکر آئے تو آپ اس قدر نہیں روتے قبر کو دیکھ کر بہت روتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ آپؓ نے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے جو اس میں کامیاب ہو گیا اس کے لیے اگلی منزلیں بھی آسان ہوں گی اور جو اس میں ناکام ہو گیا اس کے لیے اگلی منزلیں بھی مشکل ہوں گی۔

شیخینؓ کے دور خلافت میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اپنے دور خلافت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے امور خلافت میں مشورہ لیتے اور اکثر اوقات آپ کے مشوروں کے مطابق فیصلے فرمایا کرتے تھے۔ اس حوالے سے کتب حدیث و تاریخ میں بکثرت واقعات موجود ہیں۔

پہلا خطبہ:

تاریخ طبری میں ہے کہ سیدنا عثمانؓ جب خلیفہ بنے تو آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا لوگو! مجھ پر خلافت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور میں نے اسے قبول کیا۔ میں پہلے لوگوں کی پیروی میں امور خلافت انجام دوں گا ان سے ہٹ کر نہیں قرآن و سنت پر عمل کرنے کے بعد تم سب کے میرے اوپر تین بنیادی حقوق ہیں۔ اجماعی امور میں پہلے پیشواؤں کی اتباع کرنا۔ غیر اجماعی امور میں اہلِ خیر کے طریقے کو اپنانا اور یہ کہ میں تم میں سے کسی پر کسی طرح کی کوئی زیادتی نہ کروں۔ اور تم خود بھی ایسے کام نہ کرنا جن سے تم سزا کے مستحق بن جاؤ۔ دنیا کی بے ثباتی کو ہر وقت ملحوظ رکھو اور اس کے دھوکے سے بچو۔

خلافتِ عثمانی کے نمایاں کارنامے:

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جن حالات میں عہدہ خلافت اٹھایا اگرچہ وہ مشکل ترین حالات تھے لیکن اس کے باوجود آپ کی فراست، سیاسی شعور اور حکمت عملیوں کی بدولت اسلام کو خوب تقویت ملی۔ اسلام پھیلا، اسلامی تعلیمات سے زمانہ روشن ہوا۔ آپ نے خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلے لوگوں کو نماز عصر پڑھائی۔ آپ نے فوجیوں کے وظائف میں سو سو درہم کے اضافے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ طرابلس، قبرص اور آرمینیہ میں فوجی مراکز قائم کیے۔ چونکہ اس وقت فوجی سواریاں اونٹ اور گھوڑے ہوا کرتے تھے اس لیے فوجی سواریوں کے لیے چراہ گاہیں بنائیں۔ مدینہ کے قریب ربذہ کے مقام پر دس میل لمبی دس میل چوڑی چراگاہ قائم کی، مدینہ سے بیس میل دور مقام نقیع پر، اسی طرح مقام ضربہ پر چھ چھ میل لمبی چوڑی چراہ گاہیں بنوائیں، ہر چراہ گاہ کے قریب چشمے بنوائے اور چراہ گاہ کے منتظمین کے لیے مکانات تعمیر کرائے۔ آپ کے زمانہ خلافت میں اونٹوں اور گھوڑوں کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ضربہ کی چراہ گاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے۔ اسلامی بحری بیڑے کی بنیاد حضرت معاویہؓ کے اصرار پر سیدنا عثمانؓ نے رکھی۔ ملکی نظم و نسق کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کیا، رائے عامہ کا تہہ دل سے احترام فرمایا کرتے تھے، اداروں کو خود مختار بنایا اور محکموں کو الگ الگ تقسیم فرمایا سول، فوجی، عدالتی، مالی اور مذہبی محکمے جدا جدا تھے۔ امام طبری نے تاریخ میں لکھا ہے کہ سیدنا عثمانؓ کی وفات کے وقت شام کے گورنر (Governor) امیر معاویہؓ تھے ،عبداللہ بن قیس انفزاری بحریہ کے انچارج (Admiral) تھے،حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ عدالت عالیہ کے قاضی (Chief Justice) تھے احتسابی عمل کسی بھی کامیاب حکومت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس عمل کے تحت کئی عمال اور سرکاری افسروں کو معزول بھی فرمایا۔ لوگوں کو خود کفیل بنانے کے لیے انتظامات کیے۔ البدایہ والنہایہ میں ابن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ محمد بن ہلال اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ جب میرا بیٹا ہلال پیدا ہوا تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے میرے پاس پچاس درہم اور کپڑے بھیجے اور ساتھ ہی یہ بھی کہلا بھیجا کہ یہ تیرے بیٹے کا وظیفہ اور کپڑا ہے جب یہ ایک سال کا ہو جائے گا تو اس کا وظیفہ بڑھا کر سو درہم کر دیں گے۔ امام ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ میں حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے لوگ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی عیب گوئی کرتے تھے مگر میں نے دیکھا کہ سیدنا عثمانؓ روزانہ لوگوں میں مال تقسیم فرماتے، عطیات عطا فرماتے، کھانے پینے کی اشیاء تقسیم فرماتے، یہاں تک کہ گھی اور شہد بھی تقسیم کیا جاتا۔ اس کے علاؤہ امن و خوشحالی کے عوام سے قرب و ربط، مظلوم کی نصرت و حمایت، فوجی چھاونیوں اور اسلامی مکاتب و تعلیم گاہوں کا جال، تعمیر مساجد اور مسجد نبوی کی توسیع، تعلیم القرآن کو عام کرنا، خون و خرابہ سے دار الخلافت کو بچائے رکھنا وغیرہ۔

ایک خواب: 

شہادت سے قبل آپ کو خواب آیا جس کا تذکرہ آپ نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے بھی کیا اور اپنی اہلیہ محترمہ حضرت نائلہ سے بھی کیا۔ البدایہ والنہایہ میں ہے کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ کو سلام کیا۔ آپ نے فرمایا کہ رات میں نے حضورﷺ کو خواب میں دیکھا آپﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہیں محصور (قید) کر دیا گیا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ آپﷺ نے پوچھا کیا تمہیں ان لوگوں نے پیاسا رکھا ہوا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ آپﷺ نے ایک ڈول لٹکایا جس میں پانی تھا میں نے پیٹ بھر کر وہ پانی پیا۔ اس کی ٹھنڈک اب بھی اپنے سینے میں پاتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر توچاہے تو دشمنوں پر تجھے فتح نصیب ہو اور اگر تو چاہے تو ہمارے ساتھ افطار کر لے۔ میں نے آپﷺ کے ساتھ افطار کرنا پسند کیا۔ عبداللہ بن سلام کہتے ہیں کہ اسی دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا۔

طبقات ابن سعد اور مستدرک علی الصحیحین میں حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن مجھ سے فرمایا میں نے خواب میں نبی کریمﷺ اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا ہے وہ سب کہہ رہے تھے کہ آج شام تم ہمارے ساتھ روزہ افطار کرو۔

سیدنا عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ:

باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور یہ محاصرہ چالیس دن تک رہا ان دنوں میں آپ مسجد بھی نہیں جا سکے۔ اس دوران بہت سارے جانثاروں نے آپ سے اجازت طلب کی۔ تاریخ دمشق میں ہے کہ سیدنا حسن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تلوار لٹکائے آپ سے اجازت مانگنے آئے۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تلوار لٹکائے حاضر ہوئے اور اجازت چاہی۔ آپ نے فرمایا اپنی تلواریں پھینک دو میں تمہارے ہاتھوں کسی کا خون ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔

مسند احمد اور تاریخ دمشق میں ہے کہ سیدنا عثمانؓ کی خدمت میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ حاضر ہوئے اور عرض کی کہ امیر المؤمنین! آپ عوام کے امام ہیں آپ مشکل حالات میں ہیں اس لیے میری رائے یہ ہے کہ آپ تین باتوں میں سے کسی بات کو اختیار فرما لیں۔

  1.  آپ باہر نکلیں مقابلہ کریں آپ حق پر ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
  2. آپ کے لیے پیچھے سے دروازہ کھول دیتے ہیں آپ یہاں سے مکہ مکرمہ تشریف لے جائیں وہاں کوئی شخص آپ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کی ہمت نہیں کر سکے گا۔
  3. آپ ملک شام امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے جائیں وہاں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ نے ان باتوں کے جواب میں فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں رسول اللہﷺ کا خلیفہ ہو کر امت کو خون ریزی میں جھونک دوں، مکہ مکرمہ بھی نہیں جا سکتا کیونکہ میں نے حضورﷺ سے خود سنا ہے کہ جو قریشی حرم مکہ میں خون بہائے یا خون بہانے کا سبب بنے تو اس پر آدھی دنیا کے باشندوں کا عذاب ہو گا، جہاں تک شام جانے کا تعلق ہے تو یہ اس لیے نہیں ہو سکتا کہ میں دار الہجرت اور حضور کا پڑوس نہیں چھوڑ سکتا۔ محاصرے کےدوران آپ کا کھانا وغیرہ بند کر دیا باہر سے کوئی شخص اندر کوئی چیز نہیں بھیج سکتا تھا۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پانی پہنچانے کی کوشش کی لیکن دشمنوں نے مشکیزے میں تیر مارا اور سارا پانی ضائع ہو گیا۔ اسی طرح ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بھی کوشش کی، سِیَر اعلام النبلاء میں ہے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے بھی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔

حسنین کریمینؓ کا حفاظتی دستہ:

تاریخ الخلفاء میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے جناب سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے دو صاحبزادے سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو مامور فرمایا۔ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کے بچے بھی حسنین کریمین کے ساتھ پہرے پر تھے۔ جب آپ کی شہادت ہو گئی تو سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں صاحبزادوں کو خوب ڈانٹا کہ تمہارے ہوتے ہوئے دشمن کیسے کامیاب ہو گیا؟

گھر کا دروازہ جلانا:

تاریخ طبری میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ باغیوں نے آپ کے گھر کا دروازہ بھی جلا دیا حالانکہ یہ وہ گھر تھا جہاں حاجت مند لوگ آتے حضرت عثمانؓ ان کو نوازتے تھے۔

شہادت:

عبداللہ ابنِ سباء یہودی جو شیعہ مذہب کا بانی تھا اس نے آپ کو خلافت سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا اور پھر آپ کے خلاف فتنہ و فساد کی آگ کو بھڑکانا شروع کیا مگر آخر وقت تک آپ حضورﷺ کی نصیحت پر جمے رہے اور صبر کرتے رہے

آخر کار 18 ذیالحج بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا۔

بوقتِ شہادت دعا:

ریاض النضرہ میں حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی۔ اللھم اجمع امۃ محمد

ترجمہ: اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔

تکفین و تدفین:

آپؓ کے شہید ہونے کی اطلاع جب مدینہ طیبہ میں پھیلی، جو جہاں تھا وہیں ٹھہر گیا، کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ظالم باغی اس حد تک جا سکتے ہیں۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔ مسند احمد میں روایت ہے کہ چند باہمت نوجوان آئے اور انہوں نے آپ کا جنازہ پڑھا اور آپ کو شہادت والے خون آلود کپڑوں میں دفن کر دیا گیا۔

جنازہ میں ملائکہ کی حاضری:

معرفۃ الصحابہ میں سہم سے روایت ہے کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا جنازہ لے کر ہم جا رہے تھے تو لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا کہ کہیں باغی لوگ آپ کی لاش مبارک کی بے حرمتی نہ کر دیں، اچانک فرشتوں کی آواز آئی کہ گھبراؤ نہیں ڈٹے رہو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا وصیت نامہ:

البدایہ والنہایہ میں امام ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ علاء بن فضل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ باغیوں نے جب حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا تو ان کے وہاں سے فرار ہونے کے بعد ایک صندوق کو کھولا گیا وہاں پر ایک چھوٹے سے ورق پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی وصیت درج تھی اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، جنت اور دوزخ حق ہیں۔ اور روز قیامت اللہ تعالیٰ لوگوں کو قبروں سے اٹھائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ میں اسی عقیدے پر زندہ رہا، اسی پر مرا اور قیامت کے دن اسی پر اٹھایا جاؤں گا۔

نوٹ:

یہی وہ باغی گروہ تھا جن میں سے کچھ باغی لوگ سیدنا علیؓ کے لشکر میں شامل ہوئے کچھ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہوئے اور ان بد بخت باغی سبائی ٹولے نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شہید کیا۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو بھی اسی باغی ٹولے نے شہید کیا رسولﷺ نے جس باغی گروہ کی طرف اشارہ فرمایا تھا وہ یہی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قاتل ہیں۔

فتوحات عثمانی، فتح افریقہ:

مؤرخ اسلام اکبر شاہ خاں نجیب آبادی لکھتے ہیں عبد اللہ بن سعدؓ نے امیر المؤمنین عثمان غنیؓ سے اجازت طلب کی کہ شمالی افریقہ پر چڑھائی ہونی چاہیے۔ اِس زمانہ میں افریقہ ایک براعظم کا نام ہے مگر اُس زمانہ میں افریقہ نام کی ایک ریاست بھی تھی، جو طرابلس اور طنجہ کے درمیانی علاقہ پر پھیلی ہوئی تھی، لیکن اس زمانہ میں افریقہ ان ملکوں کے مجموعہ پر بھی بولا جاتا تھا جو آج کل براعظم افریقہ کے شمالی حصہ میں واقع ہیں۔ یعنی طرابلس، الجیریا، تیونس، مراکو وغیرہ۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن سعدؓ کو افریقہ پر فوج کشی کی اجازت دے دی۔ انہوں نے 10 ہزار فوج کے ساتھ مصر سے خروج کر کے علاقہ برقہ میں سرحدی رئیسوں کو مغلوب کیا۔ ان سرداروں اور رئیسوں کو اپنے زمانہ حکومت میں سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بھی چڑھائی کر کے جزیہ کی ادائیگی کے لیے مجبور کر چکے تھے اور بعد میں وہ موقع پا کر خود مختار ہو گئے۔ اس لیے اس بار انہوں نے جزیہ ادا کرنے اور اپنے آپ کو محکوم تسلیم کرنے میں زیادہ چوں چرا نہیں کی۔ اس کے بعد جب عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ ملک کے درمیانی حصے اور طرابلس کی طرف بڑھنے لگے تو سیدنا عثمان غنیؓ نے مدینہ منورہ سے ایک فوج مرتب کر کے ان کی مدد کے لیے روانہ کی۔ اس فوج میں عبد اللہ بن عمرؓ، عبد اللہ بن عباسؓ، عبد اللہ بن زبیرؓ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ، حسین بن علیؓ، ابن جعفرؓ، وغیرہم شامل تھے۔ یہ فوج مصر سے ہوتی ہوئی برقہ میں پہنچی تو وہاں عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح نے استقبال کر کے ان سے ملاقات کی اب سب مل کر طرابلس کی طرف بڑھے۔ رومیوں نے طرابلس سے نکل کر مقابلہ کیا مگر شکست کھا کر بھاگے۔ مسلمانوں کا طرابلس پر قبضہ ہو گیا۔ قبضہ مکمل ہونے کے بعد خاص ریاست افریقہ کی طرف لشکر اسلام بڑھا۔ افریقہ کا بادشاہ جرجیر نامی قیصر کا ماتحت اور خراج گزار تھا اس کو جب اسلامی لشکر کے آنے کی اطلاع ملی تو اس نے ایک لاکھ بیس ہزار فوج جمع کر کے ایک شبانہ روز کی مسافت پر آگے بڑھ کر مقابلہ کیا۔ دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل پہنچ گئے تو عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے عیسائی لشکر کو دعوت اسلام دی جرجیر نے اس دعوت کا صاف انکار کر دیا اور جب جزیہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا تو اس کا بھی انکار کر دیا۔ پھر مسلمانوں نے صف آرائی کر کے لڑائی شروع کر دی۔ خوب لڑائی ہوئی اتنے میں مسلمانوں کی نصرت و مدد کے لیے ایک تازہ دم فوج پہنچی اور لشکر اسلام سے نعرہ تکبیر بلند ہوا۔

(تاریخ اسلام جلد اوّل)

غرضیکہ دوری کے باعث لشکر اسلام کے پہنچنے کی اطلاع مدینہ منورہ میں جلدی نہیں پہنچ سکی تھی۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک ابھی کوئی خبر نہیں پہنچ سکی تھی اور دن بھی زیادہ گزر گئے تھے تو انہوں نے عبد الرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بمع فوجی دستہ افریقہ روانہ کیا۔ جب یہ لشکر اپنی منزل کو پہنچا تو مجاہدین اسلام نے دیکھ کر نعرہ تکبیر بلند کیا۔ جرجیر نے یہ نعرہ سن کر پوچھا کہ یہ نعرہ تکبیر کیوں بلند ہوا ہے؟ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی مدد کے لیے فوج کا ایک دستہ پہنچا ہے جس کی وجہ سے یہ نعرہ بلند ہوا۔ یہ سن کر جرجیر بے حد متفکر اور پریشان ہوا۔ پھر اگلے دن جب لڑائی ہوئی تو عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے میدان جہاد میں امیر عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو موجود نہیں پایا۔ اور ان کی عدم موجودگی سے متعلق پوچھا، جس کو علامہ ابن اثیرؒ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں

فَلَمْ يَرَ ابْنَ أَبِي سَرْحٍ مَعَهُمْ، فَسَأَلَ عَنْهُ، فَقِيلَ إِنَّهُ سَمِعَ مُنَادِيَ جُرْجِيرَ يَقُولُ: مَنْ قَتَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَعْدٍ فَلَهُ مِائَةُ أَلْفِ دِينَارٍ وَأُزَوِّجُهُ ابْنَتِي، وَهُوَ يَخَافُ، فَحَضَرَ عِنْدَهُ وَقَالَ لَهُ: تَأْمُرُ مُنَادِيًا يُنَادِي: مَنْ أَتَانِي بِرَأْسِ جُرْجِيرَ نَفَّلْتُهُ مِائَةَ أَلْفٍ وَزَوَّجْتُهُ ابْنَتَهُ وَاسْتَعْمَلْتُهُ عَلَى بِلَادِهِ. فَفَعَلَ ذَلِكَ، فَصَارَ جُرْجِيرُ يَخَافُ أَشَدَّ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ۔(الکامل فی التاریخ لابن اثیر)

ترجمہ: یعنی جب ابن الزبیر کو امیر عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نظر نہ آئے تو دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ جرجیر نے اعلان عام کرایا کہ جو عبد اللہ بن سعدؓ کو قتل کرے گا اسے ایک لاکھ دینار بطور انعام دیا جائے گا اور جرجیر اپنی بیٹی کی شادی بھی اس کے ساتھ کر دے گا۔ اس لیے امیر عبد اللہ نہیں آئے یہ سن کر عبد اللہ بن زبیرؓ امیر عبد اللہ کے پاس ان کے خیمہ میں پہنچے اور ان سے کہا آپ بھی اپنے مجاہدین اسلام میں اعلان کرا دیں کہ جو بھی جرجیر کا سر کاٹ کر لائے گا اسے مال غنیمت سے ایک لاکھ دینار انعام کے طور پر دیا جائے گا۔ اور جرجیر کی بیٹی سے اس مجاہد کا نکاح کر دیا جائے گا اور اسے جرجیر کے ملک کا حاکم بنا دیا جائے گا۔ چنانچہ عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بات پر عمل کرتے ہوئے اعلان عام کرا دیا اور اسی روز سے جرجیر امیر عبد اللہ سے زیادہ خوف زدہ رہنے لگا اور اپنے لیے شدید خطرہ محسوس کرنے لگا۔

عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے اکابرین جماعت اصحاب الرسول سے مشورہ کر کے اپنے تمام لشکر کو تیار رکھا، گھوڑوں اور دیگر سامان حرب کو تیار کیا تاکہ لڑائی کو حتمی شکل دی جائے۔ آخر کار خوب لڑائی ہوئی، ظہر تک گھمسان کی جنگ جاری رہی، جب اذان ظہر ہوئی تو رومیوں نے اپنے خیموں میں واپس ہونا چاہا لیکن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کو موقع نہ دیا۔ شدید لڑائی جاری رکھی حتیٰ کہ وہ تھک گئے، پھر دونوں فریق اپنے اپنے خیموں میں واپس ہوئے اور اپنے ہتھیار اتار کر آرام کرنے لگے، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان تازہ مجاہدین کو جن کو خیموں میں رکھا تھا، ساتھ لیا اور اچانک رومیوں پر ٹوٹ پڑے اور ان کے اندر گھس کر یکدم ہلہ بول دیا۔ ان کو اسلحہ اٹھانے کا موقع تک نہیں مل سکا۔ اس ہلہ میں جرجیر کو مجاہد اسلام عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ رومیوں کو شکست فاش ہوئی اور کثیر تعداد میں لوگ قتل ہوئے اور جرجیر کی بیٹی کو قید کر لیا گیا۔

امیر عبد اللہؓ نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا اور مال و متاع بھی قبضہ میں لے لیا۔ شہسوار کو تین ہزار دینار اور پیادہ کو ایک ہزار دینار غنیمت میں ملے۔ جیسا کہ علامہ ابن الاثیرؒ نے اپنی کتاب الکامل فی التاریخ میں بیان کیا ہے۔

وَلَمَّا فَتَحَ عَبْدُ اللَّهِ مَدِينَةَ سُبَيْطِلَةَ بَثَّ جُيُوشَهُ فِي الْبِلَادِ فَبَلَغَتْ قَفْصَةَ، فَسَبَوْا وَغَنِمُوا، وَسَيَّرَ عَسْكَرًا إِلَى حِصْنِ الْأَجَمِ، وَقَدِ احْتَمَى بِهِ أَهْلُ تِلْكَ الْبِلَادِ، فَحَصَرَهُ وَفَتَحَهُ بِالْأَمَانِ، فَصَالَحَهُ أَهْلُ إِفْرِيقِيَّةَ عَلَى أَلْفَيْ أَلْفٍ وَخَمْسِمِائَةِ أَلْفِ دِينَارٍ، وَنَفَّلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ ابْنَةَ الْمَلِكِ، وَأَرْسَلَهُ إِلَى عُثْمَانَ بِالْبِشَارَةِ بِفَتْحِ إِفْرِيقِيَّةَ۔

جب عبد اللہ بن زبیرؓ نے شہر سبیطلہ کو فتح کر کے اپنی فوجوں کو ملک کے مختلف علاقوں میں بھیج دیا۔ دشمن فوج قبضے میں آ گئی جہاں انہیں قیدی اور مال غنیمت ہاتھ آئے۔ اجمر قلعہ پر آپؓ نے فوج کشی کی، جس کے باعث لوگ قلعہ میں محصور ہو گئے۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کا محاصرہ کر لیا اور اسے احسن انداز اور امان سے فتح کیا۔ افریقہ کے لوگوں نے آپ سے مصالحت کر لی۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو جرجیر کی بیٹی عطیہ میں ملی اور ان کو عبد اللہ بن سعد نے فتح کی بشارت دے کر سیدنا عثمان غنیؓ کے پاس روانہ کیا۔

(الکامل فی التاریخ لابن اثیر)

فتح اسکندریہ:

اسکندریہ مصر کی معروف بندرگاہ کا نام ہے۔ اس علاقہ کو سکندر اعظم نے آباد کیا تھا اور تمام مصر سکندر اعظم کے قبضہ میں تھا جب سکندری حکومت کا نظام کمزور ہوا تو بطالسہ برسرِ اقتدار آ گئے جو ایک طویل عرصہ تک رہے اس خاندان میں 12 بادشاہ ہوئے اور وہ بطلیموس کے لقب سے معروف ہوئے۔ مذکورہ 12 بادشاہوں کے بعد رومی قابض ہو گئے۔ جو ایک طویل عرصہ تک حکومت کرتے رہے پھر ایک وقت آیا کہ اسکندریہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور رومی محکوم ہو گئے جو رومیوں کو سخت ناگوار ہوا ، وہ دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش میں لگے رہے اور اہلِ اسکندریہ کو بھی بغاوت پر خوب اکساتے رہتے، انہیں اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ اگر رومیوں سے اسکندریہ ہاتھ سے بالکل نکل گیا تو ان کے استقرار و وجود کو خطرہ لازم ہو گا۔ رومیوں کا اشتعال دلانا اور ابھارنا اسکندریہ کے رومی لوگوں کی خواہشات نفس کے عین مطابق ثابت ہوا۔ اس طرح انہوں نے ان کی بغاوت کی دعوت قبول کر لی اور قسطنطین بن ہرقل کو خط بھیجا جس میں اہلِ اسلام کی قلت تعداد اور اسکندریہ میں رومیوں کی ذلت و رسوائی کا تذکرہ کیا۔ اس وقت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مصر سے سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو معزول کر کے ان کی جگہ عبد اللہ بن سعد ابی سرح رضی اللہ عنہ کو مقرر کر چکے تھے اسی دوران رومیوں کا کمانڈر انچیف منویل نے اسکندریہ کا رخ کیا تا کہ اس کو مسلمانوں سے واپس لے، اس کے ساتھ بہت بڑا لشکر 300 کشتیوں میں پورے جنگی ساز و سامان کے ساتھ اسکندریہ پہنچا۔ جب اہلِ مصر کو خبر ملی کہ رومی فوج اسکندریہ پہنچ چکی ہے تو انہوں نے امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو لکھا اور ان سے مطالبہ کیا کہ عمرو بن العاصؓ کو واپس ان کی جگہ پر بحال کیا جائے تا کہ رومیوں کا مقابلہ کیا جا سکے، کیونکہ انہیں اس کا طویل تجربہ ہے اور رومیوں کے دلوں میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی ہیبت سمائی ہوئی ہے، اہلِ مصر کے اس مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے سیدنا عثمان غنیؓ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مصر کی امارت پر بحال کر دیا۔

منویل کی فوج نے اسکندریہ میں خوب لوٹ مار مچائی اور اس کو زمین دوز کر کے اس کے ارد گرد بستیوں میں ظلم و ستم برپا کر دیا۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈھیل دے دی تا کہ جس قدر فساد کرنا چاہیں کر لیں، اور مصریوں کے سامنے مسلم حکمرانوں اور رومی حکمرانوں کے درمیان فرق بھی سمجھ آ جائے۔ ان کے دلوں میں رومیوں کے لیے غیض و غضب بھر جائے اور رومیوں کے لیے ذرا بھی محبت و شفقت ان کے دلوں میں باقی نہ رہے۔ منویل اسکندریہ سے اپنے لشکر کے ساتھ نکلا اور زیریں مصر کا رخ کیا۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار کی۔ کوئی نقل و حرکت شروع نہ کی اور نہ کسی نے رومیوں کا مقابلہ کیا۔ سیدنا عمرو بن العاصؓ کے بعض ساتھیوں کو اس صورت حال پر تشویش لاحق ہوئی، لیکن عمرو کی رائے کچھ اور تھی، ان کی رائے تھی کہ رومی خود ان کا رخ کریں، کیونکہ بلا شبہ اس دوران میں رومی مصریوں کا مال لوٹیں گے اور ان کے حق میں حماقتوں کا ارتکاب کریں گے۔ جس کی وجہ سے مصریوں کے دلوں میں رومیوں کے خلاف بغض و عناد اور غیظ و غضب جنم لے گا اور ایسی صورت میں جب مسلمان رومیوں کے مقابلے کے لیے اٹھیں گے تو مصری خود رومیوں کے خلاف ان کا تعاؤن کریں گے، 

چنانچہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی اس سیاست کی تحدید کرتے ہوئے فرمایا! رومیوں کو چھوڑو، ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کرو، یہاں تک کہ وہ خود میرے پاس آئیں اس طرح وہ خود آپس میں ذلت و خواری اٹھائیں۔ عمرو بن العاصؓ کا اندازہ صحیح ثابت ہوا۔ رومیوں نے دل کھول کر لوٹ مار اور فساد مچایا۔ مصری ان کی کارستانیوں سے چیخ اٹھے، اور اس انتظار میں لگ گئے جو انہیں ان مفسدین کے شر سے نجات دلائے۔ منویل نقیوس پہنچا۔

(نقیوس اسکندریہ و فسطاط کے درمیان ایک بستی ہے) سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اس سے مقابلہ کے لیے تیار ہوئے۔ اور اپنی فوج کو ترتیب دیا اور ان کے ساتھ اس سرکش دشمن کے مقابلہ کے لیے نکلے اور نقیوس قلعے کے پاس تیل کے ساحل پر دونوں فوجیں صف آراء ہوئیں، طرفین سے اپنی اپنی بہادری کا مظاہرہ کرایا گیا۔ دونوں فریق نے ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ جس سے جنگ کی شدت اور اشتعال میں اضافہ ہوا۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور اپنے گھوڑے کو ان کے گھوڑوں کے درمیان گھسا دیا، اپنی تلوار ان کی تلواروں کے درمیان لہرائی اور لوگوں کے سروں اور سرماؤں کی گردنوں کو کاٹتے چلے گئے ایک وقت آیا جب آپ کے گھوڑے کو تیر لگا اور وہ ڈھیر ہو گیا، اس وقت آپ زمین پر آ گئے اور پیادہ صفوں میں شامل ہو گئے۔ آپ کو اس حالت میں دیکھ کر مسلمان جنگ کے لیے شیروں کی طرح ٹوٹ پڑے، تلواروں کی جھنکار ان کو خوف زدہ نہ کر سکیں۔

مسلمانوں کے حملوں کے سامنے رومیوں کے عزائم پست ہو گئے اور ان کی قوتوں نے جواب دے دیا، رومیوں کی شکست دیکھ کر مصری نکل کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کے لیے ان راستوں کو درست کرنے لگے جس کو دشمن نے تباہ و برباد کر دیا تھا، ان پلوں کی تعمیر کرنے لگے جس کو انہوں نے توڑا تھا۔ اس دشمن پر مسلمانوں کی فتح دیکھ کر مصریوں نے اپنی خوشی کا اظہار کیا، جس نے ان کی عزتوں کو لوٹا تھا، ان کے مال و جائیداد کو برباد کیا تھا۔ جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اسکندریہ پہنچے تو اس کا محاصرہ کر لیا اور منجنیقیں نصب کر لیں اور گولہ باری بھی جاری رہی یہاں تک کہ اسکندریہ کے لوگوں کی ہمت پست ہو گئی۔ اس لڑائی میں منویل مارا گیا اور مسلمان اسکندریہ میں فاتحانہ طریقے سے داخل ہوتے ہوئے شہر کے وسط میں پہنچ گئے۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اس وقت جنگ سے رک جانے کا حکم دیا جب کہ مقابلے کے لیے ان کے سامنے کوئی باقی نہ رہا۔ غرض یہ کہ اسکندریہ فتح ہو گیا۔ 

(سیدنا عثمان بن عفان: شخصیت و کارنامے، تالیف ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی) 

کتاب مذکور میں یہ بھی مؤلف نے لکھا ہے کہ اسکندریہ سے مشرق و جنوب پر مسلمانوں کا قبضہ تھا جب کہ مغرب کی طرف برقہ، زویلہ اور مغربی طرابلس کو سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فتح کر کے جزیہ پر مصالحت کے عوض اس جہت کو مامون بنا لیا تھا۔ البتہ شمال میں رومی پڑتے تھے، لیکن اولاً وہ اس قدر شکست خوردہ ہو چکے تھے کہ دوبارہ اس طرف رخ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کا کوئی معین و مددگار یہاں باقی نہ رہا تھا اور مسلم فوجیں نہایت مستعدی اور اہتمام کے ساتھ سمندر کی نگرانی پر لگی ہوئی تھیں۔

فتوحاتِ عثمانیؓ:

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد مخالفین اسلام نے یہ سمجھنا شروع کر دیا تھا کہ اب مسلمان کمزور ہو چکے ہیں۔ کیونکہ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ایک حیرت انگیز مدبر و مفکر اور معاملہ فہم تھے۔ مزید یہ کہ ان کے دور میں جمیع مسلمان رشتہ وحدت میں منسلک تھے۔ انہوں نے وحدت عقیدہ، وحدت جنس و قوم اور وحدت زبان و بیان کے ذریعے تمام اہلِ اسلام کو مستحکم و مربوط اور متحد بنا دیا تھا۔ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خلافت و حکومت کے وہ آئین و قانون وضع کیے جو بعد میں ایک مثالی حکومت کی اساس قرار پائے۔ اس لحاظ سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اسلام کے سیاسی نظام کا بانی قرار دیا جا سکتا ہے۔

جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسلمین منتخب ہوئے تو شرپسند عناصر نے آپ کے خلاف سازشیں اور بغاوتیں شروع کر دیں خصوصاً ایران کے اکثر علاقوں میں شدید مخالفت شروع ہوئی، اور خلیفہ ثالث کے بارے میں لوگوں کی عقول و اذہان میں یہ خیال پیدا کیا گیا کہ خلافتِ عثمانی فتنہ و فساد کا دور ثابت ہو گا۔

جو مخالفین کا ایک بڑا مغالطہ تھا۔ خلفاءِ اربعہ میں سب سے زیادہ طویل دورِ خلافت سیدنا عثمان غنیؓ کا دورِ مسعود ہے۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کا عرصہ تقریباً بارہ سال رہا ان کے دورِ خلافت میں کئی فتوحات ہوئیں اور مجاہدینِ اسلام اپنی جرأت و ہمت اور جذبے سے آگے بڑھتے گئے اور فتوحات کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔

امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اگرچہ حلیم الطبع تھے لیکن ملکی معاملات میں سختی و احتساب اور سنجیدگی کو اپنا شعار بنایا۔ اطراف ملک کے حالات لوگوں سے دریافت کرتے اور ان کے حالات غور و فکر سے سماعت فرماتے ، تمام ملک میں اعلانِ عام تھا کہ جس شخص کو کسی عامل و گورنر سے کوئی شکایت ہو تو وہ حج کے موقعہ پر آ کر بیان کرے۔

فتح رَے:

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ خلافت عثمانی کے سالِ اول میں ملک رَے فتح ہوا اور اسی کو امام سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں بیان کیا ہے۔

معجم البلدان کی تلخیص میں لکھتے ہیں رَے طہران کے جنوب مشرق میں ایک اہم شہر ہے، جو امام فخر الدین رازیؒ، ابوبکر الرازیؒ اور دیگر متعدد حکماء و علماء کا مولد تھا۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہ علاقہ دریائے جیحون کے ساحل پر بخارا کے سامنے واقع ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

علامہ بلاذریؒ نے فتح رَے سے متعلق کچھ طویل لکھا ہے جس کا خلاصہ اور مفہوم اس طرح ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ نے سیدنا عمار بن یاسرؓ کو لکھا جو اس وقت کوفہ کے عامل تھے۔ يأمره أن يبعث عروة بن زيد الخيل الطائي إلى الرّيّ ودستبى في ثمانية آلاف، ففعل وسار عروة لذلك فجمعت له الديلم وأمدوا أهل الرّيّ۔

یعنی عروہ بن زید طائی کو آٹھ ہزار سپاہ کے ساتھ رَے کے علاقے بھیجا جائے۔ جب عروہ بمع لشکر وہاں پہنچے تو َیلم ان کے مقابلہ کے لیے جمع ہوئے اور اہلِ رَے نے ان کی مدد کی۔ لیکن اللہ رب العزت نے اہلِ اسلام کو کامیاب کیا۔ اور اس معرکہ سے دَیلم اور اہل رَے کی قوت بالکل نیست و نابود ہو گئی۔

علامہ بلاذریؒ لکھتے ہیں کہ فرحان بن زیبندی نامی سردار کا ایک مضبوط قلعہ تھا وہ بھی اسلامی لشکر سے ٹکرایا لیکن شکست کھا کر صلح کر لی کہ وہ جزیہ اور خراج ادا کرے گا۔ اور اس سردار ابن زیبندی نے اہلِ رَے و قوسس کی طرف سے پانچ لاکھ درہم کی رقم اس غرض سے پیش کی کہ ان میں سے نہ کسی کو قتل کیا جائے اور نہ گرفتار کیا جائے۔ اور نہ ہی ان کا کوئی آتش کدہ منہدم کیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی درخواست بھی قبول کرلی۔ اس کے بعد سیدنا عمرؓ نے عمارؓ کو معزول کر کے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا والی تعینات کر دیا تو مغیرہؓ نے اپنی طرف سے کثیر بن شہاب حارثی کو رَے کا گورنر مقرر کر کے بھیجا۔

جب کثیر بن شہاب رَے کے علاقہ پہنچے تو انہوں نے وہاں کے لوگوں کو باغی پایا جب اہلِ رَے کی حالت بہتر نظر نہ آئی اور اطاعت کے لیے تیار نہ ہوئے تو پھر مجبوراً مقابلہ کرنا پڑا خوب لڑائی ہوئی آخر اہلِ رَے مقہور و مجبور ہو کر اطاعت پر مائل ہوئے اور جزیہ و خراج کا معاہدہ بھی کر لیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ کثیر بن شہاب جو رَے اور قَزوَین کا والی تھا اور پُر عزم سردار تھا۔ (بلاذری)

اہل رَے نے جب 25 ہجری میں بغاوت کا علم دوبارہ بلند کیا اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ دوسری مرتبہ کوفہ کے والی منتخب ہوئے تو اس نے رَے پر لشکر کشی کی اور وہاں کے باغیوں اور سرکشوں کو مقہور کر کے لے گئے المرام اینکہ اہل رَے ہمیشہ باغی لوگ تھے اور ہر دور میں یہ مفتوح و مقہور رہے کیونکہ وہ اپنے غلط حرکات سے باز نہ رہتے۔

امیر المؤمنین سیدنا عمرؓ کی شہادت کے بعد اہلِ رَے نے پھر علم بغاوت بلند کر دیا۔ جو یہ ان کی آخری بغاوت و سرکشی تھی۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے عامل کوفہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حکم جاری کیا کہ وہ قرظہ بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ جو جلیل القدر اصحاب الرسول میں سے تھے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کا انتخاب اس لیے مناسب سمجھا کہ وہ عہد خلافتِ فاروقی میں بھی رَے کی ایک لڑائی میں شرکت فرما چکے تھے۔ 

المختصر یہ کہ سیدنا قرظہ رضی اللہ عنہ نے متعلقہ مقام پر پہنچ کر باغیوں اور سرکشوں کو خوب مارا یہاں تک کہ ان کی بغاوت اور خود سری کا جذبہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ اور مکمل طور پر مطیع و فرماں بردار ہو گئے۔

(فتوح البلدان بلاذری، طبری وغیرہ)

فتح آرمینیہ:

آرمینیہ، جو بحیرہ خَزَر کے مغرب میں ایک ملک ہے جس کے شمال میں بحیرہ اسود، جنوب میں آذر بائیجان اور مغرب میں بلادِ روم ہے۔ (معجم البلدان)

ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی لکھتے ہیں کہ عثمان غنیؓ کے عہدِ خلافت میں پہلی مرتبہ اسلامی فوجوں نے آرمینیہ کا رخ کیا، چنانچہ اسلامی لشکر حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اس کی طرف روانہ ہوا جو آٹھ ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا، اس لشکر نے آرمینیہ کے متعدد مقامات کو فتح کر لیا۔ چنانچہ حبیب بن مسلمہ فہری نے امیر المومنین عثمانؓ سے مدد طلب کی تو سیدنا عثمان غنیؓ نے سلمان بن ربیعہ باہلیؓ کی قیادت میں کوفہ سے تقریباً چھ ہزار مجاہدین کو روانہ کیا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی لشکر کی قیادت سلمان بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہ کو سونپی گئی۔ کیونکہ آرمینیہ کا امیر سیدنا عثمان غنیؓ نے انہی کو مقرر فرمایا تھا۔

(بحوالہ الفتوح/ابن اعثم) 

سلمان بن ربیعہؓ آرمینیہ میں گھس گئے پھر خزر کے علاقے میں دراندازی کی اور ہر جگہ فتح و نصرت نے آپ کے قدم چومے البتہ شاہِ خزر کے ساتھ عظیم معرکہ پیش آ گیا جس میں دشمن کی تعداد تین لاکھ اور اسلامی فوج صرف دس ہزار تھی، اس معرکہ میں سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہ اور آپ کے تمام ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حبیب بن مسلمہ کو لکھاکہ وہ آرمینیہ کی طرف دوبارہ متوجہ ہوں، چنانچہ وہ اپنا لشکر لے کر روانہ ہوئے اور یکے بعد دیگرے مختلف مواقع فتح کرتے ہوئے آگے بڑھے، وہاں مسلمانوں کو ثابت قدمی حاصل ہوئی اور وہاں کے لوگوں سے بعض معاہدے بھی کیے۔

(بحوالہ الولایۃ علی البلدان)

پھر عثمان غنیؓ نے مناسب سمجھا کہ انہیں الجزیرہ کی سرحدوں پر روانہ کریں کیونکہ آپ کو وہاں کا اچھا تجربہ تھا اور آپ کو اس پر قدرت حاصل تھی، اور آپ کی جگہ آرمینیہ پر حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا جو پہلے آذربائیجان کے گورنر تھے۔ اس طرح آرمینیہ بھی خلافتِ عثمانی کے زیر اقتدار آ گیا اور مفتوح ہوا۔

(کتاب سیدنا عثمان غنی بن عفانؓ)

فتح قبرص:

قبرص اس جزیرہ کا پرانا نام ہے جو شام سے تقریباً ساٹھ میل کے فاصلے پر بحیرہ روم کے قریب میں ہے جو اب Cyprus سائپرس کے نام سے معروف ہے۔ یہ یورپ اور روم کی طرف سے مصر اور شام کی فتح کا دروازہ ہے۔ مصر و شام کی حفاظت اس وقت تک ممکن نہ تھی جب تک ناکہ بندی مسلمانوں کے قبضہ میں نہ ہو۔ اس لیے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافتِ فاروقی میں اس پر فوج کشی کی اجازت طلب کی تھی مگر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بحری جنگ کے خلاف تھے۔ اس کے بعد 28 ہجری میں امیر معاویہؓ نے امیر المومنین سیدنا عثمانؓ سے باصرار قبرص پر لشکر کشی کی اجازت طلب کی اور اطمینان دلایا کہ بحری جنگ جس قدر خطرناک سمجھا جاتا ہے اس قدر خوفناک نہیں ہے۔ اس بارے میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ تمہارا بیان درست و صحیح ہے تو حملہ میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اس مہم میں اسی کو شریک کیا جائے جو اس مہم میں خوشی سے شامل و شریک ہونا چاہتے ہوں۔ چنانچہ سیدنا امیر معاویہؓ نے بحری بیڑا تیار کرایا اور عبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت قبرص پر پہلا بحری حملہ کیا گیا۔ قبرص کے باشندے لڑائی میں ماہر و قابل نہ تھے جس کے باعث سات ہزار دینار سالانہ ادا کرنے اور بحری جنگوں میں رومی بیڑوں کی نقل و حرکت کی اطلاع بہم پہنچانے کی شرط پر صلح کر لی۔ امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے قبرص کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔ یہ صلح کئی سال تک قائم رہی لیکن 33 ہجری میں اہلِ قبرص نے رومیوں کو امداد دی اور معاہدہ صلح توڑ دیا تو امیر معاویہؓ نے قبرص پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا اور وہاں با قاعدہ طور پر مسلمان فوج اور بحری بیڑہ متعین کر دیا اور اسی زمانہ میں قیصر روم نے پھر مصر پر حملہ کیا لیکن مسلمان مجاہدین کے بحری بیڑے نے بر وقت امداد کر کے رومیوں کے حملے کو پسپا کر دیا اور اسکندریہ کے علاقے میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہونے دی۔

(تاریخ طبری و الکامل ابن اثیر)

تکمیل فتح ایران:

خلیفہ ثانی امیر المؤمنین عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں ایران کا اکثر حصہ فتح ہو چکا تھا۔ مگر بعض علاقے مکمل طور پر مطیع نہیں ہوئے تھے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کے کچھ دنوں بعد فارس میں بغاوت شروع ہونے لگی تو عبد اللہ بن عامر جو ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی جگہ بصرہ کے گورنر مقرر کیے گئے تھے، وہ فوراً فارس پہنچے اور اس علاقہ کو پوری طرح اپنے کنٹرول میں کر لیا۔ اس عرصہ میں سعد بن العاص حاکم کوفہ نے طبرستان کو دوبارہ فتح کرنے کے بعد نیشا پور کا محاصرہ کر لیا۔ ایک ماہ بعد وہاں کا حاکم اطاعت قبول کرنے پر مجبور ہو گیا۔ ایران کا بد قسمت بادشاہ یزدگرد جس کے دل میں ایران واپس لینے کی تڑپ آخری دم تک رہی وہ 31 ہجری میں ایک چکی والوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور دیگر باغی لوگ دب گئے۔ اس طرح ایران کی فتح مکمل ہوئی۔ 

حاصلِ کلام:

خلافتِ عثمانی میں اسکندریہ، افریقہ، آرمینیہ، قبرص اور ایران و رَے کے علاؤہ اور بھی کئی فتوحات ہوئیں۔ یہ جمیع فتوحات عثمانی اس حقیقت کی آئینہ دار ہیں کہ ان کے دور میں اہلِ اسلام اسی جرأت و بہادری، ایمان و ایقان، اخلاص و وفا، شوقِ شہادت اور ان اوصاف و اخلاق کے حامل رہے جن سے فاروقی خلافت میں متصف ہوئے اور وہ آغازِ اسلام سے ان کا طرہ امتیاز رہا۔ اگرچہ خلافت عثمانی کے اواخر میں امت مسلمہ اندرونی انتشار و خلفشار کا شکار ہو گئی تھی تاہم ان کی قوت ایمانی اور مومنانہ جرأت میں کوئی فرق نہ آیا۔ اور وہ فاروقی دور کی طرح ملکوں پر ملک فتح کرتے چلے گئے۔