معیار حق، ایمان و ہدایت اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
جعفر صادقمعیارِ حق، ایمان و ہدایت اصحاب رسول اللہﷺ:
تاریخ لکھنے والے اکثر مؤرخین تحقیق نہیں کرتے اور جنہوں نے کی ہے ان کی وہ باتیں چھپانے والے مخالفین ہی ہوتے ہیں، جب کہ اس کے خلاف نہ صرف صحیح تاریخی خبریں مخالفین نے عوام سے چھپائی ہیں بلکہ اکثر عوام نے بھی انصاف پسند جج کی طرح دونوں (اہلِ حق اور اہلِ باطل) فریقوں کی باتوں کو اطمینان و تفصیلی دلائل سے جاننے اور جانچنے کیلئے سب سے پہلا (سچا، پکا اور کافی) معیار قرآنِ مجید کو نہیں بنایا، جس کیلئے فرمایا گیا کہ
وَمَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِيۡلًا (سورۃ النساء: آیت، 122)
ترجمہ: اور کون ہوگا اللہ کے مقابلہ میں زیادہ سچا قول میں۔
صحابہؓ کے متعلق قرآنی عقائد:
تمام صحابہ (نبی کے ساتھی) حقیقی مومن، بخشش اور عزت والا (جنتی) رزق پانے والے ہیں۔
(دلیلِ قرآن: سورۃ الانفال: آیت، 74)
وہ معیارِ حق اور تنقید سے بالاتر ہیں، بلکہ ان گستاخ ہی بیوقوف ہیں۔
(سورۃ البقرۃ: آیت، 13 اور 137)
وہ اس قابل ہیں کہ ان پیروی کی جائے اور وہ جنتی ہیں۔
(سورۃ التوبۃ: آیت، 100، سورۃ الحدید: آیت، 10)
دین میں فقہ (سمجھ) بھی ان سے حاصل ہوگی (ان کے بغیر نہیں)
(سورۃ التوبہ: آیت، 122)
پیدا ہونے سے پہلے ہی ان کی خوبیاں پہلی کتابوں تورات و انجیل میں بیان کرتے انہیں محمد رسول اللہﷺ کا ساتھی چنا جاچکا تھا۔
(سورۃ الفتح: آیت، 29)
اللہ ان سے راضی ہوچکا اور وہ اس سے راضی ہوچکے۔
(سورۃ الفتح: آیت، 18)
قیامت کے دن مواخذہ (پکڑ و حساب) سے محفوظ رہیں گے
(سورۃ التحریم: آیت، 8)
ان (جنتیوں) کے سینوں میں جو (باہمی) خفگی/کینہ ہوگا نکال دیا جاںٔے گا۔
(سورۃ الاعراف: آیت، 43 سورۃ الحشر: آیت، 10)
القرآن: کہا (نبی نے انہیں) کہ ان کا علم میرے رب کو ہے جو کتاب میں لکھا ہوا ہے، میرا رب نہ بھولتا ہے نہ چُوکتا ہے۔
(سورۃ طهٰ: آیت، 52)
لہٰذا رب جو پاک ہے بھول چوک سے اور وہی ہر چیز کا خالق ہونے کی وجہ سے مالک بھی ہے اور ہر چیز کا جاننے والا قادر بھی ہے، وہ قیامت تک کے ایمان والوں کو نبی ﷺ کے صحابہؓ (ساتھیوں) کے بارے میں یہ تعلیم کیوں پڑھتے سنواتے رہنا چاہے گا؟
یہ (دلائل) اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو پڑھ کر سناتے ہیں سچائی کے ساتھ تو اب یہ اللہ اور اس کی آیتوں کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے؟
(سورۃ الجاثیۃ: آیت، 6)
رضائے الہٰی پانے کے خاص اعمال:
1. مہاجر وانصار (صحابہ) کے پیچھے چلنا (کیونکہ) اللہ ان سب سے راضی ہوا
(سورۃ التوبہ: آیت، 100)
2. اور راضی ہوتا ہے
پرہیزگار بننے والوں سے
(سورۃ آل عمران: آیت، 15)
3. سچا رہنے والوں سے
(سورۃ المائدۃ: آیت، 119)
4. ایمان لانے والوں سے
(سورۃ التوبہ: آیت، 72)
5. شکر (حق) ماننے والوں سے
(سورۃ الزمر: آیت، 7)
6. نیک اعمال کرتے رہنے والوں سے
(سورۃ الاحقاف: آیت، 15)
7. بیعت (آزمائش) میں پورا اترنے والوں سے
(سورۃ الفتح: آیت، 18)
8. اللہ اور رسول کے مخالفین، اگرچہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا رشتہ دار ہوں، سے محبت نہ رکھنے والوں سے
(سورۃ المجادلہ: آیت، 22)
9. رب سے ڈرنے والوں سے
(سورۃ البینۃ: آیت، 8)
قرآن مجید میں اصحابِ رسولﷺ کا تعارف:
تقدیری خوبیاں:
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِوَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًاسِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰ لِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا
(سورۃ الفتح: آیت، 29)
ترجمہ: محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں، (غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں، یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں، اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشتکار اس سے خوش ہوتے ہیں، تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کرلیا ہے۔
تشریح:
کافروں نے صلح نامہ لکھواتے وقت آنحضرتﷺ کا نام مبارک محمد رسول اللہ لکھوانے سے انکار کیا تھا، اور صرف محمد بن عبداللہ لکھوایا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آپ کو محمد رسول اللہ فرما کر اشارہ دیا ہے کہ کافر لوگ اس حقیقت سے چاہے کتنا انکار کریں، اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت تک قرآن کریم میں ثبت فرما دیا ہے،
اگرچہ تورات میں بہت سی تبدیلیاں ہوچکی ہیں، لیکن بائبل کے جن صحیفوں کو آج کل یہودی اور عیسائی مذہب میں تورات کہا جاتا ہے، ان میں سے ایک یعنی استثناء: 2، 3 میں ایک عبارت ہے جس کے بارے میں یہ احتمال ہے کہ شاید قرآن کریم نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہو، وہ عبارت یہ ہے:
خداوند سینا سے آیا، اور شعیر سے ان پر آشکار ہوا، اور کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا، اور وہ دس ہزار قدسیوں میں سے آیا، اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتشیں شریعت تھی وہ بیشک قوموں سے محبت رکھتا ہے، اس کے سب مقدس لوگ تیرے ہاتھ میں ہیں، اور وہ تیرے قدموں میں بیٹھے ایک ایک تیری باتوں سے مستفیض ہوگا۔ (استثناء: 2، 3)
واضح رہے کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا آخری خطبہ ہے، جس میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی وحی کوہ سینا پر اتری، جس سے مراد تورات ہے، پھر کوہ شعیر پر اترے گی، جس سے مراد انجیل ہے، کیونکہ کوہ شعیر وہ پہاڑ ہے، جسے آج جبل الخلیل کہتے ہیں، اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تبلیغ کا مرکز تھا، پھر فرمایا گیا ہے کہ تیسری وحی کوہ فاران پر اترے گی، جس سے مراد قرآن کریم ہے، کیونکہ فاران اس پہاڑ کا نام ہے جس پر غار حرا واقع ہے، اور اسی میں حضور اقدسﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔
فتح مکہ کے موقع پر آنحضرتﷺ کے صحابہ کی تعداد دس ہزار تھی، لہٰذا دس ہزار قدسیوں میں سے آیا سے ان صحابہ کی طرف اشارہ ہے، (واضح رہے کہ قدیم نسخوں میں دس ہزار کا لفظ ہے، اب بعض نسخوں میں اسے لاکھوں سے تبدیل کردیا گیا ہے)۔
نیز قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ صحابہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں استثناء کی مذکورہ عبارت میں ہے کہ: اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتشیں شریعت تھی۔
قرآن کریم میں ہے کہ: وہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔
اور وہ استثناء کی مذکورہ عبارت میں ہے کہ: وہ بیشک قوموں سے محبت رکھتا ہے۔ اس لیے بات دور از قیاس نہیں ہے کہ قرآن کریم نے اس عبارت کا حوالہ دیا ہو، اور وہ تبدیل ہوتے ہوتے موجودہ استثناء کی عبارت کی شکل میں رہ گئی ہو۔
انجیل مرقس میں بالکل یہی تشبیہ ان الفاظ میں مذکور ہے، خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوئے اور دن کو جاگے، اور وہ بیج اس طرح اگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے پہلے پتی، پھر بالیں، پھر بالوں میں تیار دانے پھر جب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آپہنچا۔
(مرقس: 26 تا 29)
یہی تشبیہ انجیل لوقا: 18، 19 اور انجیل متی: 31 میں بھی موجود ہے۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًاۖسِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰ لِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا۔
(سورت الفتح: آیت، 29)
آیت کریمہ کا مقصد اور خلاصہ: اثبات رسالت اور شان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
(محمد رسول اللہ) کے ساتھ رسول الله صلی الله علیه وسلم کی رسالت کا اثبات ہے، پھر اگلے جملے سے رسالت نبوی صلی اللہ علیه وسلم پر بطور دلیل شان صحابک پیش کیا گیا ہے اور صحابہ کے مندرجہ ذیل صفات بیان کیے گئے ہیں:
(فتویٰ از امام مالک بن انسؒ بحواله تفسیر ابن کثیر)
11. آیت کے اخیر میں اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کا ذکر فرمایا، مطلب یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مؤمن ہے اور کا ایمان کامل ہے۔
12. صحابہ کرامؓ کے اعمال نیک ہے
13. ان کے ساتھ الله کی طرف سے بخشش اور
14. اجر عظیم کا وعدہ ہے۔
احادیثِ رسولﷺ قرآن مجید کے دلائل کے بعد بیان کیے جائیں گے:
کافروں پر شدید سخت ہے
آپس میں رحم دل ہیں
اللہ کو رکوع کرنے والے ہیں
اللہ کو سربسجود ہیں
اللہ کے فضل کی جستجو میں ہیں
اللہ کی رضامندی کی جستجو میں ہیں
سجدوں (قرآن وسنت کی تابعداری) کی نشانیاں ان کے چہروں سے ظاهر ہے۔
تورات و انجیل میں بھی شان صحابہ بیان ہوا تھا
ان کی مثال کھیتی کی ہے، جیسے کھیتی کمزوری کی بعد قوت پاتی ہے ایسے ہی صحابہ ابتداء میں قلیل تھے، پھر زیادہ اور مضبوط ہو گںٔے
ان کی شان کو بیان کرنے اور ان کو قوت دینے پر اللہ کافروں کو چڑاتا ہے، یعنی شان صحابہ پر غصہ ہونے والا کافر ہے۔
"محمد رسول الله":
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔
"والذین معه اشداء علی الکفار رحماء بینهم"
اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں (یعنی آپ کے تمام صحابہ کرامؓ) وہ کافروں پر تو نہایت سخت (مگر) آپس میں رحم دل ہیں۔
اس بات سے قطع نظر که تاریخ "تاریک" ہے، مورخین میں جهوٹوں اور متعصب رافضیوں کی بھر مار ہے، اس بنیادی پوائنٹ سے قطع نظر تاریخ کے ذریعے صحابه کرام رضی اللہ عنہم کا آپس میں بغض ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے حضرات ہمیں صرف یہ بتاۓ کہ کیا تاریخ کو قرآنی آیات کے مقابل پیش کرنے والا شخص مسلمان کہلانے کے لائق ہے؟
یاد رہے صحابہؓ کے مابین لڑی جانے والی جنگیں (مشاجرات صحابہؓ) بھی اس وقت کے خوارج و شیعوں اور اسلام دشمنوں کے ہاتھوں آپس میں غلط فہمیوں کے سبب سے ہوئی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو قرآنی آیت کے عین مطابق سب کے سب آپس میں شیر و شکر تھے، ہم کون ہوتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردوں اور قرآن و سنت کے گواہوں پر جرح و طعن کرنے والے، ان کے مشاجرات پر ہمیں بات کرنے کا حق کس نے دیا ہے کہ ہم مرچ مصالحہ لگا کر تاریخ کے چور دروازے سے ان پر سب و شتم کی بوچھاڑ کریں؟
ہم صحابہؓ کا صرف ذکر خیر ہی کرسکتے ہیں اور بس)
"تراهم رکعا سجدا یبتغون فضلا من الله ورضوانا"
(اے دیکھنے والے) تم جب (بھی) انھیں (ان صحابہ کرام کو) دیکھو گے تو رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے
"سیماهم فی وجوههم من اثر السجود"
(کثرت) سجدوں (یعنی قرآن و سنت کی تابعداری) کی وجہ سے ان کے چہروں پر ان کی نشانیاں ہے/ ہوگی
سجدے کے اثر سے صحابہ و تابعین سے اس نشانی کی تفسیر میں مختلف اقوال مذکور ہیں۔
جن میں سے دو قوی ہے۔
اول: وہ نور کہ روز قیامت ان کے چہروں پر کثرت سجود (تابعداری) سے ہوگا یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنه اور امام حسن بصری و عطیہ و خالد حنفی و مقاتل بن حیان سے ہے۔
دوم: خشوع و خضوع و روشن نیک جس کے آثار صالحین کے چہروں پر دنیا ہی میں بے تصنع یعنی بغیر بناوٹ کے ظاہر ہوتے ہیں، یہ تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنه و امام مجاہد سے ہے۔
ذالک مثلهم فی التوره
(صحابہ کے بارے میں جو یہ بیان ہوا) ان کی یہ صفت تورات میں بیان ہوئی ہے۔
ومثلهم فی الانجیل کزرع اخرج شطاه فازره فاستغلظ فاستوی علی سوقه یعجب الذراع
اور ان کی صفت انجیل میں (یوں) ہے جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی اور اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی (اس وقت وہ) کسانوں کو خوش کرتی ہے۔
"لیغیظ بهم الکفار"
لیغیظ میں لام کا متعلق محذوف ہے، اللہ نے صحابه کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یہ شان بیان فرمائی تاکہ کافروں کو ان کی وجہ سے غصہ دلائے۔
"وعد الله الذین امنوا وعملوا الصالحات منهم مغفره واجرا عظیما"
ان ایمان والوں اور شائستہ اعمال والوں سے اللہ نے مغفرت (بخشش) اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔
امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت شیعوں کی تکفیر کرتی ہے کیونکہ وہ صحابہ سے بغض رکھتے ہیں اور ان کے دل ان سے جلتے ہیں بس جس کا دل صحابہ سے جلے وہ اس آیت کے مطابق کافر ہے۔
(استفادہ منزل الصحابہ فی القرآن: صفحہ، 16-20)
“من" تبعیضیہ نہیں، کہ یہ مغفرت و اجر عظیم کا وعدہ بعض صحابہ کے ساتھ ہے، تمام کے ساته نہیں، جیسا کہ شیعہ اور شیعہ نواز لوگ باور کراتے ھیں. بلکہ "من" بیانیہ ہے، اور اس سے مراد تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہے، یعنی مغفرت اور اجر عظیم کا وعده الٰہی تمام صحابه کرام رضی اللہ عنہم کے ساته ہے، دیکھیے تفسیر بیضاوی: جلد، 2 صفحہ، 406، ابو سعود: جلد، 8 صفحہ، 115 ابن کثیر: جلد، 4 صفحہ، 205 تفسیر ماجدی وغیرہ)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے رافضیوں (جو آج کل شیعہ کے نام سے مشہور ہے) کے کفر پر استدلال کیا ہے، کہ جنہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وجہ سے غیض و غضب کا سامنا ہے، کہا:
اس لئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انہیں غصہ دلاتے ہیں، اور جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غصہ دلائیں وہ اس آیت کی بنا پر کافر ہے، انکے اس استدلال پر کچھ علمائے کرام نے موافقت بھی کی ہے، جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل میں احادیث بہت زیادہ ہیں، اسی طرح ایسی احادیث بھی موجود ہیں کہ جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا برے الفاظ سے تذکرہ کرنا منع کیا گیا ہے، اگرچہ ان کے لیے اللہ کی تعریف ہی کافی ہیں، اور اللہ تعالیٰ ان پر راضی بھی ہے۔
(تفسیر ابن کثیر: جلد، 7 صفحہ، 362)
جبکہ امام ابن جوزی زاد المسیر میں سورہ فتح کی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
قوله تعالیٰ: (والذين معه) يعني أصحابہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم،
ترجمہ: والذین معه وه لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کے ساته ہے سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہے۔
پھر لکھتے ہیں
قوله تعالى: (ليغيظ بهم الكفار) أي: إنما كثرهم وقواهم ليغيظ بهم الكفار۔
یعنی اللہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قوت و کثرت دی، تاکہ اس کے ذریعے کفار کو غصہ دلاںٔے۔
پھر لکھتے ہیں:
وقال مالك بن أنس: من أصبح وفي قلبه غيظ على أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقد أصابته هذه الآية
یعنی امام مالک ابن انسؒ فرماتے ہیں کہ جس کسی کے دل میں صحابه کے لیے بغض ہو یہ آیت اس کے لیے ہے۔
و قال ابن إدريس:يعني الرافضة، لأن الله تعالى يقول: ليغيظ بهم الكفار
اور امام ابن ادریس فرماتے ہیں کہ وہ کفار رافضی (شیعہ) ہے، جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ليغيظ بهم الكفار۔
(تاکہ غصہ کرے صحابہؓ کی شان و شوکت کے ساتھ افروں کو)۔
اللہ ہمیں قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماںٔے۔
صحابہ کافروں کے مقابلہ میں سخت مضبوط اور قوی، جس سے کافروں پر رعب پڑتا اور کفر سے نفرت و بیزاری کا اظہار ہوتا ہے۔ قال تعالیٰ:
وَ لۡیَجِدُوۡا فِیۡکُمۡ غِلۡظَۃً
(سورۃ التوبہ: آیت، 123)
وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ
(سورۃ التوبہ: آیت، 73)
وقال تعالیٰ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ
(سورۃ المائدہ: آیت، 54)
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں جو تندی اور نرمی اپنی خو ہو وہ سب جگہ برابر چلے اور جو ایمان سے سنور کر آئے وہ تندی اپنی جگہ اور نرمی اپنی جگہ علماء نے لکھا ہے کہ کسی کافر کے ساتھ احسان اور سلوک سے پیش آنا اگر مصلحت شرعی ہو کچھ مضائقہ نہیں، مگر دین کے معاملہ میں وہ تم کو ڈھیلا نہ سمجھے۔
آپس میں نرم دل ہیں: اپنے بھائیوں کے ہمدرد و مہربان، اُنکے سامنے نرمی سے جھکنے والے اور تواضع و انکسار سے پیش آنے والے "حدیبیہ" میں صحابہ کی یہ دونوں خوبیاں چمک رہی تھیں۔
اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ
صحابہ کرامؓ کے صفات حَسنہ:
نمازیں کثرت سے پڑھتے ہیں، جب دیکھو رکوع و سجود میں پڑے ہوئے اللہ کے سامنے نہایت اخلاص کے ساتھ وظیفہ عبودیت ادا کر رہے ہیں ریاء و نمود کا شائبہ نہیں، بس اللہ کے فضل اور اسکی خوشنودی کی تلاش ہے نمازوں کی پابندی خصوصاً تہجد کی نماز سے انکے چہروں پر خاص قسم کا نور اور رونق ہے گویا خشیت و خشوع اور حسن نیت و اخلاص کی شعاعیں باطن سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر کو روشن کر رہی ہیں حضرت کے اصحاب اپنے چہروں کے نور اور متقیانہ چال ڈھال سے لوگوں میں الگ پہچانے جاتے تھے۔
صحابہ کرامؓ کا پچھلی کتابوں میں تذکرہ:
پہلی کتابوں میں خاتم الانبیاء ﷺ کے ساتھیوں کی ایسی ہی شان بیان کی گئ تھی چنانچہ بہت سے غیر متعصب اہلِ کتاب انکے چہرے اور طور و طریق دیکھ کر بول اٹھتے تھے کہ واللہ یہ تو مسیحؑ کے حواری معلوم ہوتے ہیں۔
کھیتی کی مثال اور صحابہ کرامؓ:
حضرت شاہ صاحبؒ کھیتی کی مثال کی تقریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں یعنی اول اس دین پر ایک آدمی تھا پھر دو ہوئے پھر آہستہ آہستہ قوت بڑھتی گئی حضرت کے وقت میں پھر خلفاء کے عہد میں بعض علماء کہتے ہیں کہ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ میں عہد صدیقی فَاٰزَرَہٗ میں عہد فاروقی فَاسْتَغْلَظَ میں عہد عثمانی اور فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ میں عہد مرتضوی کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ بعض دوسرے بزرگوں نے وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا کو علی الترتیب خلفائے اربعہ پر تقسیم کر دیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ یہ آیت تمام جماعت صحابہؓ کی بہیات مجموعی مدح و منقبت پر مشتمل ہے، خصوصاً اصحاب بیعت الرضوان کی جن کا ذکر آغاز سورۃ سے برابر چلا آ رہا ہے، واللہ اعلم کھیتی کرنے والے چونکہ اس کام کے مبصر ہوتے ہیں اس لئے ان کا ذکر خصوصیت سے کیا، جب ایک چیز کا مبصر اسکو پسند کرے دوسرے کیوں نہ کریں گے۔
صحابہؓ سے حسد رکھنے والے:
یعنی اسلامی کھیتی کی یہ تازگی اور رونق و بہار دیکھ کر کافروں کے دل غیظ و حسد سے جلتے ہیں، اس آیت سے بعض علماء نے یہ نکالا کہ صحابہ سے جلنے والا کافر ہے مومنین سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ: حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں یہ وعدہ دیا انکو جو ایمان والے ہیں اور بھلے کام کرتے ہیں۔ حضرت کے سب اصحاب ایسے ہی تھے مگر خاتمہ کا اندیشہ رکھا حق تعالیٰ بندوں کو ایسی صاف خوشخبری نہیں دیتا کہ نڈر ہو جائیں اس مالک سے اتنی شاباشی بھی غنیمت ہے۔
تم سورۃ الفتح بفضل اللہ و رحمۃ فللہ الحمد والمنہ:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ تَوۡبَةً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰى رَبُّكُمۡ اَنۡ يُّكَفِّرَ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَيُدۡخِلَـكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ يَوۡمَ لَا يُخۡزِى اللّٰهُ النَّبِىَّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ ۚ نُوۡرُهُمۡ يَسۡعٰى بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَبِاَيۡمَانِهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَ تۡمِمۡ لَـنَا نُوۡرَنَا وَاغۡفِرۡ لَـنَا ۚ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ
(سورۃ التحریم: آیت، 8)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے حضور سچی توبہ کرو، کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہاری برائیاں تم سے جھاڑ دے، اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کر دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اس دن جب اللہ نبی کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو رسوا نہیں کرے گا ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرف دوڑ رہا ہوگا۔ وہ کہہ رہے ہوں گے کہ: اے ہمارے پروردگار ہمارے لیے اس نور کو مکمل کر دیجیے اور ہماری مغفرت فرما دیجیے یقینا آپ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں۔
تشریح:
اس سے مراد غالباً وہ وقت ہے جب تمام لوگ پل صراط سے گذر رہے ہونگے، وہاں ہر انسان کا ایمان اس کے سامنے نور بن کر اسے راستہ دکھائے گا، جیسا کہ سورة حدید: آیت، 12 میں گزر چکا ہے۔
یعنی آخر تک اسے برقرار رکھیے، کیونکہ سورة حدید میں گزر چکا ہے کہ منافق بھی شروع میں اس نور سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن بعد میں ان سے نور سلب کر لیا جائے گا۔