سیرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓسیرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ
نام مبارک: علیؓ
کنیت: ابوالحسن، ابوتراب۔
لقب: حیدر و مرتضیٰ۔
والد کا نام: ابو طالب۔
والدہ کانام: فاطمہ بنت اسد۔
سلسلہ نسب:
علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی ہاشمی۔
تاریخ پیدائش:
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں صحیح قول کے مطابق آپ کی ولادت بعثت نبویﷺ سے دس برس قبل ہوئی۔
(الاصابۃ جلد، 2 صفحہ، 1294)
روافض نے بھی یہی لکھا پیدائش واقعہ فیل کے 30 سال بعد اور ہجرت سے 23 یا 25 سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
(نورالابصار: صفحہ، 85)
قبول اسلام:
آپؓ کے والد جناب ابو طالب اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح خوشحال نہ تھے، مکہ کے مشہور قحط کی وجہ سے ان کی مالی حالت اور زیادہ کمزور ہو گئی تھی جبکہ آپ کثیر العیال تھے۔ حضور رحمت عالمﷺ سے آپ کی تکلیف نہ دیکھی گئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پرورش کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی، اس طرح سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ آغوش رسالت میں پرورش پا کر شعور کی منزل کو پہنچے۔ بعثت کے ابتدائی ایام میں انہوں نے آپﷺ اور ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کو نماز پڑھتے دیکھا تو حیرت سے دریافت کیا کہ آپ دونوں کیا کر رہے ہیں؟ رسول گرامیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ کا دین ہے جس کو اللہ نے اپنے لیے پسند فرمایا ہے اور اسی کے لیے انبیائے کرامؑ کو مبعوث فرمایا ہے۔ میں تمہیں بھی خدائے وحدہ لاشریک کی طرف بلاتا ہوں جو تنہا معبود ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔حضورﷺ کی صحبت اور تربیت کی برکتوں نے آپ کی فطرت سلیم کو پہلے ہی نِکھار دیا تھا چنانچہ ایک رات سوچنے کے بعد آپ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ اسلام لانے سے پہلے آپ کا دامن عرب کی جاہلانہ رسومات اور بت پر ستی سے کبھی بھی داغدار نہ ہوا۔
ہجرت:
جب کفاران مکہ نے خفیہ طریقے سے حضور نبی رحمتﷺ کو قتل کرنے کا مکمل منصوبہ بنا لیا اور یہ معاملہ طے ہو گیا کہ آج رات ہر قبیلہ کا ایک نوجوان ننگی تلوار لے کر کا شانہ نبوت کا محاصرہ کرے گا اور پیغمبر اسلامﷺ پر اچانک حملہ کر کے ان کا کام تمام کر دے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اپنے حبیبﷺ کو کفاروں کے مکر و فریب پر مطلع فرمایا۔حضور اکرمﷺ نے اس وقت سیدنا علیؓ کو بلایا اور ارشاد فرمایا کہ آج رات میرے بستر پر سو جانا اور میرے پاس جو مکہ والوں کی امانتیں ہیں انہیں واپس کر کے تم بھی مدینہ چلے آنا۔چنانچہ حضور اکرمﷺ اس رات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کر گئے۔ اور حضرت علیؓ آپﷺ کے فرمان کے مطابق اُس رات جبکہ گھر کے چاروں طرف دشمنان اسلام ننگی تلواریں لیے پہرہ دے رہے تھے۔ آپ اطمینان کے ساتھ حضورﷺ کے بستر پر سوئے رہے اس کے بعد آپ تین دن تک اہلِ مکہ کی امانتوں کو واپس کرتے رہے پھر آپ بھی ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی:
سن 2 ہجری میں حضور نبی کریمﷺ نے اپنی سب سے چہیتی لخت جگر حضرت فاطمہؓ کا نکاح آپؓ کے ساتھ کر دیا اور بعد نکاح خیر و برکت کی دعا فر مائی۔ اور حافظ ابن حجرؒ نے الاصابہ میں تحریر فرمایا کہ نکاح ماہ رجب سن 1 ہجری میں ہوا اور رخصتی غزوہ بدر کے بعد سن 2 ہجری میں ہوئی۔ اس وقت حضرت سیدہ کی عمر مبارک 18 سال کی تھی۔ واللہ اعلم۔
(خلفائے راشدین: صفحہ، 432,433 معارف صحابہ: جلد اول، صفحہ، 349)
ازواج و اولاد سیدنا علی رضی اللہ عنہ:
1: حضرت فاطمہ بنت رسولﷺ
ان سے حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت زینب الکبریٰؓ اور ام کلثومؓ پیدا ہوئیں۔
فائدہ: سیدہ ام کلثومؓ کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوا۔
نوٹ: بعض روایات میں تیسرے صاحبزادے حضرت محسن رضی اللہ عنہ کا نام بھی ملتا ہے۔
دیگر ازواج اور اولاد:
حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کے علاؤہ مختلف اوقات میں کئی نکاح فرمائے اور ان سے اولادیں بھی ہوئیں۔
- ام البنین بنت حذام، ان سے عباس، جعفر، عبداللہ اور عثمان
- لیلیٰ بنت مسعود، ان سے عبیداللہ اور ابوبکر
- اسماء بنت عمیس، ان سے محمد اصغر اور یحیٰ
- صہباء بنت ربیعہ، ان سے عمر اور رقیہ
- امامہ بنت ابی العاص، ان سے محمد اوسط
- خولہ بنت جعفر، ان سے محمد بن حنفیہ
- سعید بنت عروہ، ان سے ام الحسن، رملۃ الکبریٰ اور ام کلثوم۔
نوٹ: یاد رہے کہ بیک وقت چار سے زائد نکاح نہیں فرمائے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی رضی اللہ عنہا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف کی حقیقت۔
جنگ جمل
جنگ جمل کا واقعہ نصف جمادی الاولیٰ یا عند البعض جمادی الثانی 36 ہجری میں پیش آیا تھا۔
شہادت سیدنا عثمانؓ کے بعد سیدنا علیؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا اور بیعت کی گئی تو اس میں سیدنا طلحہ بن عبیداللہؓ، سیدنا زبیر بن عوامؓ، دیگر اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ مدینہ نے بھی بیعت کی۔
جب بیعت ہو چکی تو اس وقت حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مطالبہ پیش کیا کہ آپ مسند خلافت پر تشریف فرما چکے ہیں اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے متعلق انتطام فرما دیں کیونکہ اگر ہم شہید مظلوم کا انتقام نہ لیں اور فسادیوں کا قلع قمع نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے عتاب و غضب کے مستحق ٹھہریں گے تو اس مطالبہ کے جواب میں سیدنا علیؓ نے یہ عذر پیش کیا کہ
ان ھولاء لہم مدد واعوان انہ لا یمکنہ ذلک یومہ ھذا
(البدایہ لابن کثیر: جلد، 7 صفحہ، 229 تحت ذکر بیعت خلافت علوی)
ان لوگوں کو مدد گار اور حمایتی میسر ہیں اس لیے یہ کام اس وقت نہیں ہوسکتا حالات کے سازگار ہونے کے بعد یہ ہو سکے گا۔
بہرحال اس جواب پر ان حضرات کو تشفی نہ ہوئی کیونکہ قاتلان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر کے پناہ لی تھی۔
جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے تحریر کیا ہے
و قاتلان بجز آنکہ پناہی بحضرت مرتضیٰ بردند با او بیعت کنند علامے نیافشند وکیف ماکان عقد بیعت واقع
تو ان دو حضرات حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما نے عمرہ کی غرض سے مکہ کا سفر شروع کیا، جب مکہ پہنچے تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاؤہ اور امہات المؤمنین بھی عمرہ کی غرض سے مکہ پہنچ چکی تھیں۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات مکہ تشریف لے گئے۔ یوں مکہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، امہات المؤمنین رضی اللہ عنہا اور دیگر حضرات کا اجتماع ہوا، ان تمام کا مقصد ایک ہی تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خون ناحق اور ظلما گرا دیا گیا ہے اس لیے ان کے قصاص کا مسئلہ سب سے پہلے طے ہونا چاہیے اور مجرموں کو جلد سے جلد سزا ملنی چاہیے۔ اس سلسلے میں مختلف آراء سامنے آئیں۔
بالآخر طے ہوا کہ اس سلسلے میں بصرہ پہنچنا چاہیے۔
منشاء یہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک کثیر جماعت اگر مطالبہ پر جمع ہو جائے تو امید ہے کہ فریق ثانی بھی اس کی طرف توجہ کرے گا اور باہمی موافقت کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ اس سفر میں حضرت عائشہؓ کو بھی شامل رہنے کی درخواست کی گئی تا کہ اصلاح کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔
چنانچہ علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں
فسارت معہم بقصد الاصلاح وانتظام الامور۔
(تفسیر روح المعانی: جلد، 22 صفحہ، 10 تحت آیت وقرن فی بیوتکن)
اس کے بعد بہت سارے حضرات ان اکابر (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ) کے ساتھ شریک ہو گئے اور بصرہ کی طرف سفر شروع کیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب اطلاع ملی تو انہوں نے بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بصرہ کی طرف سفر شروع کیا۔ بصرہ کے قریب جب دونوں جماعتیں اپنے اپنے مقام پر پہنچیں تو بعض معتمد حضرات کے ذریعے مصالحت کی گفتگو جاری ہوئی۔ اسی موقعہ پر
حضرت قعقاع بن عمرالتمیمیؓ سیدہ عائشہؓ اور ان کی جماعت کے پاس آئے اور عرض کیا
ای اُمُّہ ما اشخصک وما اقدمک ھذہ البلدۃ قالت: ای بنی! اصلاح بین الناس.
(روح المعانی: جلد، 22 صفحہ، 9/10 وقرن فی بیوتکن)
حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ فرمانے لگے
اے ام المؤمنین!
اس شہر میں آپ کا تشریف لے آنا کسی مقصد کے لیے ہے؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا
اے بیٹے! لوگوں کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کرنے کے لیے۔
اس پر حضرت قعقاعؓ نے فرمایا اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ آپ سیدنا علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کریں تا کہ مسلمانوں میں انتشار کی یہ فضا ختم ہو جائے اور اتفاق پیدا ہو جائے تا کہ سیدنا عثمانؓ کا بدلہ لینا آسان ہو جائے۔
افہام و تفہیم کے اس بیان کے بعد سیدنا طلحہؓ، سیدنا زبیرؓ اور سیدہ عائشہؓ نے ارشاد فرمایا
اصبت واحسنت فارجع الخ
یعنی آپ کی بات درست ہے ہم اس پر آمادہ ہیں۔ آپ جائیں (اور فریق ثانی کو اطلاع دیں)
فرجع الی علی فاخبرہ فاعجبہ ذالک واشرف القوم علی الصلح کرہ ذالک من کرہہ ورضیہ من رضیہ وارسلت عائشۃ الی علی تعلمہ انہا انما جاءت للصلح ففرح ھولاء وھولاء.
(البدایہ لابن کثیر: جلد، 7 صفحہ، 239 روح المعانی جلد، 22 صفحہ، 9/10)
مختصر یہ کہ جب یہ اطلاع حضرت علیؓ کو ملی تو بہت خوش ہوئے اور باقی لوگ بھی صلح پر متوجہ ہوئے۔ البتہ بعض لوگوں کو یہ چیز ناگوار گزری اور بعض کو پسند آئی۔ بہرحال فریقین نے صلح و مصالحت پر اتفاق ظاہر کیا۔
اس موقعہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک تاریخی خطبہ دیا اور اس میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ
الا وانی راحل غدا فارتحلوا الا ولا یرتحلن غدا احد اعان علی عثمان بشئی فی شئی من امور الناس.
(الفتنۃ وقعۃ الجمل لسیف بن عمر الضی: صفحہ، 147 البدایہ لابن کثیر: جلد، 7 صفحہ، 237)
ہم کل یہاں سے روانہ ہوں گے (اور دوسرے فریق کے پاس جائیں گے) اور خبردار جس نے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر اعانت کی ہے وہ ہم سے الگ ہو جائے، ہمارے ساتھ نہ رہے۔
جب یہ اعلان ہوا تو فتنہ انگیز سبائی شیعہ پارٹی کے سربراہ شریح بن اوفیٰ، علباء بن الہیثم، سالم بن ثعلبہ العبسی، عبداللہ بن سبا المعروف با بن السوداء وغیرہ سخت پریشان ہوئے اور انہیں اپنا انجام تاریک نظر آنے لگا۔
قابل غور بات یہ تھی کہ اس پارٹی میں ایک بھی صحابی نہ تھا۔
علامہ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
ولیس فیہم صحابی وللہ الحمد.
(البدایہ لابن کثیر: جلد 7 صفحہ، 238)
اس پارٹی نے ایک خفیہ مشورہ کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن باہم اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام رہا۔
چنانچہ شیخ عبدالوہاب شعرانیؒ لکھتے ہیں:
فان بعضہم کان عزم علی الخروج علی الامام علی رضی اللہ عنہ وعلی قتلہ لما نادیٰ یوم الجمل بان یخرج عن قتلۃ عثمان الخ۔
(کتاب الیواقیت والجواہر: جلد، 2 صفحہ، 77)
بہرحال یہ دشمن تو اپنے اس مذموم عمل میں نا کام رہے، ادھر دونوں جماعتیں دو مقام پر جمع ہوئیں۔
سیدنا طلحہؓ، سیدنا زبیرؓ اور سیدہ عائشہؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ زابوقہ کے مقام پر پہنچے اور سیدنا علیؓ اپنی جماعت کے ساتھ ذاقار کے مقام پر تشریف لائے۔ قعقاع کے میدان میں فریقین کی صلح ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین کو شرعی سزا دینے پر راضی ہو گئے اور دوسری جماعت (حضرت طلحہؓ وغیرہ) بیعت پر راضی ہو گئے اور اس صلح پر کوئی شک نہ رہا۔
وہم لا یشکون فی الصلح
(الفتنۃ وقعۃ الجمل: صفحہ، 155 روح المعانی: جلد، 22 صفحہ، 9/10)
ان حالات میں تمام حضرات نے خیر اور سلامتی سے رات گذاری لیکن مفسدین اور قاتلین عثمان پوری رات فتنہ کھڑا کرنے کی تدابیر میں مصروف رہے آخر کار تاریکی میں دفعۃ لڑائی کرا دینے پر ان کا اتفاق ہو گیا۔
اس واقعہ جمل کو علامہ قرطبیؒ نے اپنی مشہور تفسیر احکام القرآن میں سورۃ الحجرات کی آیات کے تحت اس طرح بیان فرمایا ہے
قلت فهذا قول في سبب الحرب الواقع بينهم. وقال جلة من أهل العلم : إن الوقعة بالبصرة بينهم كانت على غير عزيمة منهم على الحرب بل فجأة ، وعلى سبيل دفع كل واحد من الفريقين عن أنفسهم لظنه أن الفريق الآخر قد غدر به ، لأن الأمر كان قد انتظم بينهم ، وتم الصلح والتفرق على الرضا. فخاف قتلة عثمان رضي الله عنه من التمكين منهم والإحاطة بهم ، فاجتمعوا وتشاوروا واختلفوا ، ثم أتفقت آراؤهم على أن يفترقوا فريقين ، ويبدأوا بالحرب سحرة في العسكرين ، وتختلف السهام بينهم ، ويصيح الفريق الذي في عسكر علي : غدر طلحة والزبير. والفريق الذي في عسكر طلحة والزبير : غدر علي. فتم لهم ذلك على ما دبروه ، ونشبت الحرب ، فكان كل فريق دافعا لمكرته عند نفسه ، ومانعا من الإشاطة بدمه. وهذا صواب من الفريقين وطاعة لله تعالى، إذ وقع القتال والامتناع منهما على هذه السبيل. وهذا هو الصحيح المشهور. والله أعلم.
(تفسیر قرطبی: جلد، 16 صفحہ، 318/319)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ بصرہ میں جنگ جمل کا جو واقعہ پیش آیا تھا وہ قتال کے ارادہ سے وقوع پذیر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ صورتحال اچانک قائم کر دی گئی تھی، ایک فریق یہ گمان کرتے ہوئے کہ دوسرے فریق نے بد عہدی کی ہے اپنے دفاع کے لیے قتال کر رہا تھا کیونکہ ان کے درمیان صلح کی بات تو ہو چکی تھی وہ اپنی اپنی جگہ باہمی اعتماد اور رضا مندی سے ٹھہرے ہوئے تھے لیکن قاتلینِ عثمان کو خوف لاحق ہوا کہ یہ صلح ہو گئی تو ہماری خیر نہیں لہٰذا وہ جمع ہوئے اور مشورہ کرنے لگے، پہلے ان کا کچھ آپس میں اختلاف ہوا لیکن بعد میں اس امر پر متفق ہو گئے کہ
ہم دو جماعتوں میں تقسیم ہو جائیں کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں شامل ہو جائیں اور کچھ دوسرے فریق میں گھس جائیں اور علی الصباح دونوں لشکروں میں لڑائی کی ابتداء کریں، ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق پر تیر اندازی کریں اور جو فریق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں پہنچے وہ فریاد کرے کہ سیدنا طلحہؓ والوں نے عہد شکنی کی ہے اور جو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ والوں کے لشکر میں ہوں وہ فریاد کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ والوں نے عہد شکنی کی ہے۔
مختصر یہ ہے کہ یہ قتال اور دفاع دونوں فریق کی طرف سے مذکورہ نوعیت میں واقع ہوا تھا۔ یہی بات درست اور صحیح ہے۔
اس کو جنگ جمل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آخرکار اس لڑائی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت غالب آگئی اور دوسرے فریق کے اکابر حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ وغیرہم شہید ہو گئے اور یہ فریق مغلوب ہو گیا۔
اس کے بعد امیر المؤمنین کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حفاظتی انتظام کے ساتھ لایا گیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سلام عرض کیے اور خیریت دریافت کی، حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں بخیریت ہوں، اس کے بعد چند ایام بصرہ میں گزارنے کے بعد جب حجاز کی طرف سفر کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ضروریاتِ سفر مہیا کر کے بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ روانہ فرمایا۔
چونکہ یہ واقعہ دشمنوں کی ناپاک حرکتوں کی وجہ سے سرزد ہوا اس لیے اس واقعہ پر دونوں فریقین کی طرف سے اظہارِ افسوس روایات بھی منقول ہیں۔
سیدنا علی رضی عنہ و سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جنگ کی حقیقت اور پس منظر۔
جنگِ صفین:
بلادِ شام کی مشرق جانب میں ایک مقام ہے جس کا نام صفین ہے۔ وہاں فریقین کی جماعتوں کا اجتماع ہوا۔
یہ محرم 37 ہجری کا واقعہ ہے۔
فریقین کا مؤقف:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس مسئلہ میں موقف یہ تھا کہ فریق مقابل کے مطالبہ قصاصِ دمِ عثمان کی صورت یہ ہونی چاہیے کہ پہلے بیعت کریں، اس کے بعد اپنا قصاص عثمانی کا مطالبہ مجلس خلیفہ میں پیش کریں۔ بعد ازاں حکم شریعت کے مطابق اس مطالبہ کا شرعی فیصلہ کیا جائے گا۔
(البدایہ لابن کثیر: جلد، 8 صفحہ، 127 تحت ترجمہ معاویہ)
سیدہ امیر معاویہؓ اور ان کی جماعت میں متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جو ملک شام میں رہتے تھے، ان کی رائے یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ظلماً شہید کئے گئے ہیں اور ان کے قاتلین سیدنا علیؓ میں موجود ہیں، لہٰذا ان سے قصاص لیا جائے اور ہمارا مطالبہ صرف قصاص دم عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے خلافت کے بارے میں ہمارا نزاع نہیں ہے۔
واما الخلافۃ فلسنا مطلبھا.
(الفتنۃ وقعۃ الصفین لنصرین تراجم المنقری الشیعی: صفحہ، 70)
حجۃ معاویۃ ومن معہ ماوقع معہ من قتل عثمان رضی اللہ عنہ مظلوماً ووجود قتلتہ باعیا نھم فی العسکر العراقی
(فتح الباری: جلد، 3 صفحہ، 246 کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ)
ولیس المراد بما شجر بین علی رضی اللہ عنہ ومعاویۃ رضی اللہ عنہ المنازعۃ فی الامارۃ کما تو ھمہ بعضہم وانما المنان عنہ کانت بسبب تسلیم قتلۃ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الیٰ عشیرتہ لیقتصوا منھم.
(کتاب الیواقیت والجواہر: جلد 2 صفحہ، 27 المسامرۃ للکمال بن ابی شریف صفحہ 158/159)
مندرجہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں فریقین کے موقف سامنے آگئے ہیں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مطالبہ پر حضرتؓ طرف سے جو رائے تھی وہ درج ذیل ہے
لان علیا کان رای ان تاخیر تسلیمھم اصوب اذ العبادۃ بالقبض علیہم مع کثرۃ عشائرھم واختلاطہم بالعسکر یودی الیٰ اضطراب امر الامارہ.
(کتاب الیواقیت والجواہر: جلد، 2 صفحہ، 77 الصواعق المحرقۃ مع تطہیر الجنان: صفحہ، 216)
لہٰذا تعجیل کی بجائے تاخیر کرنی چاہیے۔
فریقین کے مؤقف یہی تھے۔ اور دونوں اپنے اپنے نظریات پر شدت کے ساتھ قائم رہے تا آنکہ یہ واقعہ پیش آیا۔
شیعہ کا ایک اشکال:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر عام اشکال یہ ہوتا ہے کہ مطالبہ کا حق وارث کو ہوتا ہے، سیدنا معاویہؓ نے مطالبہ کیوں کیا؟
جواب اس کا خود شیعہ کتب میں موجود ہے
ان معاویۃ یطلب بدم عثمان ومعہ ابان بن عثمان وولد عثمان رضی اللہ عنہ.
(کتاب سلیم بن قیس الکوفی الہلالی العامری الشیعی: صفحہ، 153 مطبوعہ نجف)
یعنی دمِ عثمان کے قصاص کے مطالبہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابان بن عثمان اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دیگر فرزند شامل تھے۔
اختلاف کو ختم کرنے کی کوششیں:
فریقین کے درمیان اس دور کے بعض اکابر حضرات کے ذریعے اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں اور یہ کوشش کوفہ میں سیدنا علیؓ کے قیام گاہ سے سیدنا جریر بن عبداللہ البجلیؓ کی وساطت سے شروع ہوئی اور دیگر حضرات کے ذریعے تخلیہ اور صفین کے مقامات پر قیام کے دوران بھی یہ کوشش جاری رہی۔
(البدایہ: جلد، 7 صفحہ، 253/258 سیر اعلام النبلاء للذھبی: جلد، 3 صفحہ، 93)
لیکن فریقین اپنے موقف سے دستبردار نہ ہوئے آخر قتال کی صورت پیش آئی۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں
فتر اسلوا فلم یتم لھم امر فوقع القتال الیٰ ان قتل من الفریقین۔
(فتح الباری: جلد، 13 صفحہ، 73)
جانبین میں مر اسلت ہوئی لیکن کسی بات پر معاملہ طے نہ ہو سکا تو قتال واقع ہوا اور فریقین سے لوگ مقتول ہوئے۔
ان کی صحیح تعداد اللہ کو معلوم ہے۔
جیسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہؒ فرماتے ہیں:
فقتل فی ھذاالموطن خلق کثیر من الفریقین لا یعلم الا اللہ.
(البدایہ: جلد، 7 صفحہ، 271)
البتہ جن اکابر کی اس قتال میں شہادت ہوئی ہے ان میں حضرت عمار بن یاسرؓ، حضرت خزیمہ بن ثابتؓ، وغیرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں تھے اور حضرت عبیداللہ بن عمر بن الخطابؓ، حضرت ذوالکفلؓ اور حوشبؓ حضرت امیر معاویہؓ کی جماعت میں سے شہید ہوئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
بعض مؤرخین کے قول کے مطابق بدھ، جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کی رات ماہ صفر 37 ہجری کے اوقات اس جنگ میں مشکل ترین تھے اور ان ایام میں گھمسان کی لڑائی ہوئی۔
(البدایہ: جلد، 7 صفحہ، 261)
آخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے صلح کی دعوت ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو قبول کیا اور طے ہوا کہ ہر فریق کی طرف سے ایک ایک حکم اس مسئلے کے فیصلے کے لیے منتخب کیا جائے۔
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فیصل تسلیم کیے گئے اور طے ہوا کہ ہر دو فریق کے یہ دونوں فیصل دومۃ الجندل کے مقام پر جمع ہو کر فیصلہ کریں گے۔
(تاریخ خلیفہ ابن خیاطِ: جلد، 1 صفحہ، 173/174)
(العبر للذھبی: جلد، 1 صفحہ، 43)
شیعہ اعتراض:
مخالفین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کی طرف سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت پر سب وشتم اور لعن طعن کیا جاتا تھا۔
الجواب اہلسنّت:
اس اعتراض کے کئی جوابات ہیں، ان میں سے دو تین درج کیے جاتے ہیں
- جن روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فریق مقابل کو سب و شتم کرنے کا ذکر ہے وہ سب روایات قواعد فن کی رو سے درست نہیں۔ ان کے راوی اور ناقلین مجروح اور مردود الروایۃ ہیں۔ مثال کے طور پر اس قسم کی روایات کے راوی ابو مخنف لوط، یحیی، ابو جناب یحییٰ بن ابی حی کلبی اور ہشام بن سائب کلبی ہیں اور یہ لوگ علماء رجال کے نزدیک کذاب، دجال، جھوٹے، مفتری، شیعہ امامیہ اور رافضی ہیں اور یہ لوگ روایات میں اپنی طرف سے ملاوٹ کرنے والے اور دروغ گوئی کرنے والے ہیں۔ اس لیے ان کی روایات ناقابل اعتبار اور متروک ہیں۔
- بعض اوقات کلام میں الفاظ تو سختی اور تلخ قسم کے پائے جاتے ہیں لیکن ان سے مراد گالی گلوچ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات باہمی درشت کلامی، سخت گوئی اور تلخ نوائی کو راوی سب و شتم سے تعبیر کر دیتے ہیں ایسے مواقع پر صرف فریق مخالف کے عیوب کی نشان دہی کرنا اور دوسرے کی رائے کو غلط اور اپنی رائے کو درست ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے، لعن طعن اور گالی مقصود نہیں ہوتی۔
- اگر بالفرض کسی جگہ روایات میں سب و شتم اور لعن طعن پایا بھی جائے تو اس کے مقابل ان روایات پر بھی نظر ڈالنے کی اشد ضرورت ہے جن روایات میں سب و شتم اور لعن طعن سے منع کیا گیا ہے۔ پھر ان متقابل روایات میں قاعدہ والمحرم مقدم علی المبیح کے مطابق تطبیق دی جائے گی اور سب و شتم اور لعن و طعن سے منع کرنے والی روایات کو اباحت والی روایات پر ترجیح دی جائے گی۔
فضائل و مناقب:
آپؓ کے عظیم فضائل و مناقب سے متعلق کتب احادیث میں متعدد روایتیں موجود ہیں ان میں سے چند یہ ہیں اہلِ تشیع نے بہت سی من گھڑت اور موضوع روایات بھی آپ کے متعلق گھڑ کر پھیلائی ہوئی ہیں جن کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے لیکن سیدنا علیؓ کے فضائل و مناقب کسی من گھڑت روایات کے محتاج نہیں ہمیں صحیح روایات ہی لینی چاہیے۔
اہلسنّت اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حضرت علیؓ سب سے افضل صحابی ہیں، اور وہی خلفائے راشدین میں چوتھے خلیفہ تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ الله اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتے تھے اور الله اور اس کے رسولﷺ کو ان سے محبت تھی۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے خیبر کے دن ارشاد فرمایا تھا
(لااعطین ھذہ الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه یحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله)
ترجمہ: کل میں ایک ایسے شخص کو جھنڈا دونگا جس کے ہاتھوں الله تعالیٰ فتح نصیب کرے گا، وہ الله اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہے اور الله اور اس کے رسولﷺ اس سے محبت کرتے ہیں۔
(البخاری: 4210 مسلم، 2406)
پھر آپﷺ نے اگلے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا سونپ دیا۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہی نبی کریمﷺ نے فرمایا
(انت منی وانا منک)
تم مجھ سے ہو اور میں تجھ سے ہوں۔
(البخاری: 4251)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ایمان اور ان سے بغض منافقت خود سیدنا علیؓ روایت کرتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جو دانے کو پھاڑ دیتا ہے (اور اس سے فصل وغیرہ اگاتا ہے اور انسان کو پیدا کرتا ہے)
نبی امیﷺ نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ صرف مؤمن ہی مجھ سے محبت کرے گا، اور وہ منافق ہی ہو گا جو مجھ سے بغض رکھے گا۔
(مسلم: 78)
حضرت علیؓ کو جنت کی بشارت:
نبی کریمﷺ نے عشرہ مبشرہ والی حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لے کر انہیں جنتی قرار دیا۔
(مسند احمد: 188 باسناد صحیح)
ایک اور بشارت:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ احد پر تھے،
آپﷺ کے ساتھ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ بھی تھے۔ یہ سب حضرات جس چٹان پر کھڑے تھے اس نے حرکت کی، تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا
(اھدا فما عليك الا نبی او صدیق او شهيد)
آرام سے رہو کیونکہ تم پر نبی، صدیق اور شہید کے علاؤہ کوئی نہیں۔
(مسلم: 23)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان بھائی چارگی قائم کی (آپس میں ایک کو دوسرے کا بھائی بنایا) تو حضرت علی رضی ﷲ روتے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ!آپ نے ہر ایک کو دوسرے کا بھائی بنا دیا ہے اور مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا تو رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تو میرا بھائی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
(ترمذی: حدیث، 372)
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حسنؓ اور حسینؓ جنتی جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والدین (یعنی حضرت علیؓ اور فاطمہؓ) اُن دونوں سے بھی بہتر ہیں۔
(ابن ماجہ: حدیث، 118)
خلافت:
آپ پوری زندگی اسلام کی خدمت کرتے رہے ۔سن 35 ہجری میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اصرار پر آپ نے خلافت کو قبول فرمایا اور پانچ سال یعنی 40 ہجری تک سخت دشواریوں اور مصیبتوں کے باوجود منہج نبوت پر کارِ خلافت انجام دینے کا شرف حاصل کیا۔
پس منظر غدیر خم:
اس کا پس منظر یہ تھا کہ حجۃ الوداع سے پہلے رسول اللہﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف والی عامل بنا کر بھیجا تھا، وہاں کے محصولات وغیرہ وصول کرکے ان کی تقسیم اور بیت المال کے حصے کی ادائیگی کے فوراً بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے پاس حج کی ادائیگی کے لیے پہنچے۔ اس موقع پر محصولات کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے بعض حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا، اور یہ اعتراض براہِ راست نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دوہرایا، آپﷺ نے انہیں اسی موقع پر انفرادی طور پر سمجھایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تصویب فرمائی، بلکہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ علی کا اس سے بھی زیادہ حق تھا، نیز آپﷺ نے انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا حکم دیا اور حضرت علیؓ کے بارے میں دل میں کدورت اور میل رکھنے سے منع فرمایا، چناں چہ ان حضرات کے دل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بالکل صاف ہو گئے، وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے اس ارشاد کے بعد ہمارے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ محبوب ہو گئے۔ البتہ اسی حوالے سے کچھ باتیں سفرِ حج سے واپسی تک قافلے میں گردش کرتی رہیں، آپﷺ نے محسوس فرمایا کہ اس حوالے سے آپﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت اور ان کا حق ہونا بیان فرمائیں، چناں چہ سفرِ حج سے واپسی پر مقام غدیرِ خم میں نبی کریمﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بلیغ حکیمانہ اسلوب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق واضح فرمایا، اور جن لوگوں کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکوہ یا شبہ تھا اسے یوں ارشاد فرماکر دور فرما دیا
اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ یعنی اے اللہ! جو مجھے دوست رکھے گا وہ علی کو بھی دوست رکھے گا میں جس کا محبوب ہوں گا علی بھی اس کا محبوب ہو گا، اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اس کا دشمن ہو جا۔ آپﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے تو فرمایا اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو! آپ صبح و شام ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمنہ عورت کے محبوب بن گئے۔ حضراتِ شیخین سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پہلے سے تھی، جن چند لوگوں کے دل میں کچھ شبہات تھے آپﷺ کے اس ارشاد کے بعد ان کے دل بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت سے سر شار ہو گئے۔ اس خطبہ سے آں حضرت محمدﷺ کا مقصود یہ بتلانا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اور مقرب بندے ہیں، ان سے اور میرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنا مقتضائے ایمان ہے، اوران سے بغض وعداوت یا نفرت و کدورت ایمان کے منافی ہے۔
مذکورہ پس منظر سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ آں حضرت محمدﷺ کا غدیر خم میں من کنت مولاه فعلي مولاه ارشاد فرمانا سیدنا علیؓ کی خلافت کے اعلان کے لیے نہیں، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت بیان کرنے اور معترضین کے شکوک دور کرنے کے لیے تھا نیز سیدنا علیؓ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طور پر امت کی ذمہ داری قرار دینے کے لیے تھا۔ اور الحمدللہ! اہلِ سنت والجماعت اتباعِ سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کو اپنے ایمان کا جزء سمجھتے ہیں، اور بلاشبہ حضرت علیؓ سے اہلِ ایمان ہی محبت رکھتے ہیں۔
مذکورہ خطبے اور ارشاد کی حقیقت یہی تھی جو بیان ہو چکی۔ باقی ایک گمراہ (شیعہ) فرقہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت بلافصل ثابت کرتا ہے، اور چوں کہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشاد فرمایا تھا اس لیے ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتا ہے، اور اسے عید غدیر کا نام دیا جاتا ہے اس دن عید کی ابتداء کرنے والا ایک حاکم معزالدولۃ گزرا ہے، اس شخص نے 18 ذوالحجہ 351 ہجری کو بغداد میں عید منانے کا حکم دیا تھا اور اس کا نامعید خم غدیر رکھا۔
اس سے پہلے ہم اس روایت کی تحقیق بیان کریں شیعہ کتابوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے متعلق حیرت انگیز تعجب خیز ایک کہانی پیش کرتے ہیں پڑھیں پھر اس روایت پر تحقیق ہو گی
(شیعہ کتاب احتجاج طبرسی کتاب: صفحہ، 70 اور طبع قدیم صفحہ، 33 پر مرقوم ہے)
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حج کے روز عرفات میں آکر اللہ تعالی کا یہ حکم پہنچایا کہ علی کی خلافت کا اعلان کر دو تو رسولﷺ نے لوگوں کے ڈر سے اللہ کے حکم کو ٹال دیا وہاں سے واپس ہوئے جب مسجد خیف پہنچے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام دوسری بار نازل ہوئے اور پھر یہ حکم دیا کہ علیؓ کی خلافت کا اعلان کر دو پھر بھی ڈر کی وجہ سے رسولﷺ نے اعلان نہ کیا پھر وہاں سے چلتے چلتے کراع غمیم نامی مقام پر پہنچے جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے رسولﷺ نے فرمایا مجھے اپنی قوم سے ڈر ہے اللہ تعالیٰ سے میرے لیے حفاظت کی کوئی آیت لاؤ تب میں یہ حکم لوگوں میں پہنچاؤں گا حضرت جبرائیل علیہ السلام واپس بارگاہِ الہٰی میں سارا ماجرہ عرض کیا اور رسولﷺ چلتے چلتے غدیر خم پر پہنچے تو چوتھی بار جب جبرائیل علیہ السلام آئے اس وقت جبکہ دن کی پانچ گھڑیاں گزر رہی تھی جبرائیل علیہ السلام رسولﷺ کے پاس آئے اور سخت زجر و توبیخ سے کہا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ علیؓ کی خلافت کا اعلان کر دو میں تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھوں گا اگر تم نے اب بھی علیؓ کی خلافت کا اعلان نہ کیا تو تم نے رسالت کا فریضہ ادا نہ کیا تو پھر اس زجر و توبیخ کے بعد رسولﷺ (نے صریح اور صاف اعلان خلافت بلافصل کے بجائے) من کنت مولا فہذا علی مولاہ کے الفاظ سے اعلان فرمایا جو کہ خلافت مطلقہ کا بھی معنیٰ نہیں دے سکتی چہ جائیکہ خلافت بلا فصل پر دلالت کرے۔
(لفظ مولا کے معنیٰ کی وسعت کو دیکھ کر شیعہ مجتہد علامہ نوری طبرسی نے فیصلہ کن بات کہہ دی)
کیا تو نہیں دیکھتا کہ حضورﷺ نے غدیر کے دن اپنے بعد خلافت بلا فصل کی ہرگز وصیت نہیں فرمائی (فصل الخطاب، 182)
شیعوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کے لیے تو یہ کہانی گھڑ لیں لیکن بیچاروں کو یہ نہیں خیال رہا کہ اس کہانی سے رسولﷺ کی رسالت پر کیا ضرب پڑے گی حضورﷺ ساری کائنات کے بہادروں سے زیادہ بہادر تھے اور جو مکہ اور طائف احد واحزاب میں کسی سے خوفزدہ نہ ہوئے ان کے بارے میں یہ کہانی بہتان اور خلافِ قرآن ہے
اۨلَّذِيۡنَ يُبَـلِّـغُوۡنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَيَخۡشَوۡنَهٗ وَلَا يَخۡشَوۡنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ
ترجمہ: وہ لوگ جو پہنچاتے ہیں پیغام اللہ کے اور ڈرتے ہیں اس سے اور نہیں ڈرتے کسی سے سوائے اللہ کے
(سورۃ الاحزاب: آیت نمبر، 39)
اگر رسول اللہﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کا اعلان کر چکے ہوتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کیوں کرتے؟ جیسا کہ شیعہ کتاب احتجاج طبرسی صفحہ، 56 پر لکھا ہے۔
اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کی شہادت کے بعد جب آپ لوگوں نے ان کو خلیفہ بننے کے لیے کہا تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا
مجھے چھوڑو کسی اور کو بنا لو اگر تم مجھ کو چھوڑ دو تو میں باقی مسلمانوں کی طرح رہوں گا اور جس کو تم امیر بناؤ گے میں تم سے زیادہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کروں گا اور میرا وزیر ہونا میرے خلیفہ ہونے سے تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے
(نہج البلاغہ: صفحہ، 182 جلد، 1)
غور کیجئے گا سیدنا علیؓ کی خلافت بلافصل منصوص من اللہ تھی تو وہ کس طرح کہتے کہ کسی اور کو خلیفہ بنا لو میں اس کی فرمانبرداری تم سے زیادہ کرونگا جو چیز توحید و رسالت کی طرح اصول دین میں سے ہے اس کے خلاف حضرت علیؓ جیسے کامل الایمان کیسے کر سکتے تھے؟
نیز سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کے اجتماع اور شوریٰ سے منتخب شدہ امام کو امام برحق اور رضائے الہٰی کے موافق بیان فرمایا
(نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 8)
اگر بالفرض خلافت علی رضی اللہ عنہ منصوص من اللہ یعنی کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب شدہ) ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے خلاف یہ کیسے فرماتے کہ مہاجرین انصار کا منتخب شدہ امام اللہ کا پسندیدہ امام ہو گا بلکہ آپ تو یوں فرماتے نص خلافت کے بعد دوسرے کو امام بنانا کفر ہے۔
مذکورہ امور کے بعد اب اس روایت کے معنیٰ پر غور کرتے ہیں
تحقیق لفظ مولیٰ:
واضح رہے کہ مولیٰ فصیح عربی زبان کا لفظ ہے جس کا استعمال قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور کلام عرب میں موجود ہے علماء عربیت نے اس کے پچاس سے زائد معانی بیان کیے ہیں عام لغات میں بھی اس کے پندرہ سترہ معانی بآسانی دستیاب ہیں۔ اسی لفظ کے ساتھ نا ضمیر بطور مضاف الیہ استعمال کی جاتی ہے۔ جہاں تک اس کے سب سے پہلے استعمال کی بات ہے تو خود اللہ جل شانہ نے قرآن مجید میں رسولﷺ کی طرف نسبت کر کے اپنے، جبرائیل امین اور نیک مسلمانوں کے لیے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوۡلٰٮهُ وَجِبۡرِيۡلُ وَصَالِحُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ
(سورۃ التحریم: آیت نمبر، 4)
ترجمہ: یعنی بے شک اللہ تعالیٰ اور جبرائیل اور نیک اہل ایمان آپ ﷺ کے مولیٰ ہیں۔
یہاں ایک ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بھی، فرشتے کے لیے بھی اور خواص اہلِ ایمان (یعنی نیکو کاروں) کے لیے بھی یہ لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ جبرائیلؑ امین اور تمام نیکو کار اہلِ ایمان رسولﷺ کے مولیٰ ہیں، اور یہ لقب انہیں خود بارگاہ الہٰی سے عطا ہوا ہے۔ اس سے آگے چلیں تو خود رسولﷺ نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو فرمایا یا زید انت مولانا۔ معلوم ہوا کہ حضرت زیدؓ رسولﷺ کے مولیٰ ہیں۔ نیز آپﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایا کہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ
جس طرح شیعہ لفظ مولا سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت کرنا چاہتے ہیں اس طرح کیا حضرت زید بھی رسولﷺ کے خلیفہ بلا فصل تھے؟
شیعہ حضرات جو اپنے مولوی صاحبان کو فلاں مولانا، فلاں مولانا کہا کرتے ہیں تو کیا وہ بھی خلیفہ بلا فصل ہوتے ہیں؟
ان مذکورہ بالا متعدد معانی میں سے اس روایت کے معنیٰ خود اس روایت کے آخری الفاظ أَللّهُمَّ والِ مَنْ والاهُ، وَ عادِ مَنْ عاداهُ متعین کرتے ہیں کیونکہ ان کے معنیٰ ہر شخص کے نزدیک یہی ہیں کہ
یا اللہ تو اس شخص کو دوست رکھ جو علی رضی اللہ عنہ کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس شخص کو جو علی رضی ﷲ عنہ کو دشمن رکھے۔
یہ الفاظ بالکل اسی طرح ہیں اور واضح کرنا ہے کہ اس روایت میں مولیٰ کے معنیٰ دوست اور محب کے ہیں جس کی بناء پر روایت کے معنیٰ میں یہ ہے کہ جس کا میں دوست ہوں اس کا علی دوست ہے اس فرمان نبویؐ میں اس شخص کو تنبیہ مقصود تھی جس کی علی رضی اللہ عنہ سے کچھ رنجش ہو گئی تھی اس رنجش کا رسول اللہﷺ کو اسی جنگل کے غدیر تالاب پر علم ہوا جس کا وہیں یہ فیصلہ فرمایا ورنہ اگر خلافت بلا فصل کا اعلان مقصود ہوتا تو عرفات کے میدان میں جہاں تمام لوگ ہزاروں کی تعداد میں جمع تھے وہاں اعلان فرماتے عقلمند اور دیانتدار باشعور اور منصف مزاج حضرات غور فرمائیں اگر سیدنا علیؓ کی خلافت بلا فصل کا مسئلہ اصول دین میں توحید رسالت کی طرح تھا جیسے شیعہ کہتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ اس کا اعلان و بیان نہ ہی قرآن مجید میں نہ صریح حدیث متواتر میں نہ مکہ میں نہ مدینہ میں نہ بیت اللہ میں نہ مسجد نبویؐ میں نہ عرفات و منیٰ و مزدلفہ میں جہاں تمام مسلمان ہزاروں کی تعداد میں جمع تھے بلکہ ایسا ضروری اور اہم اعلان غدیر خم جنگل کے تالاب پر وہ بھی گول مول الفاظ میں جن کے معنیٰ خلافت بلا فصل قطعاََ نہیں ہو سکتے بلکہ اس روایت میں کوئی ادنیٰ سا اشارہ بھی خلافت علی بلا فصل کا نہیں کیونکہ اس میں تو دوامی حکم ہے کسی خاص وقت کے متعلق حضورﷺ کی زندگی یا آپﷺ کی رحلت کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی تک کا حکم نہیں بلکہ حضورﷺ کی امت کیلئے قیامت تک یہ حکم ہے کہ جس شخص کے لیے رسولﷺ مولا ہیں اس کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی مولا ہیں تو یہ تو دوامی حکم محبت و دوستی کا تو صحیح ہو سکتا ہے لیکن خلافتِ بلا فصل کا صحیح نہیں ہو سکتا ہے البتہ اس میں شک نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلفاء ثلاثہؓ کے بعد چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔
قاتل کے بارے میں وصیت:
سیدنا علیؓ نے سیدنا حسنؓ کو قاتل کے مثلہ سے منع فرمایا اور پھر فرمایا اے بنی عبدالمطلب کہیں تم میری وجہ سے مسلمانوں کے خون نہ بہا دینا اور یہ کہتے پھرو کے امیر المؤمنین قتل کر دیئے گئے ہیں۔ سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرنا۔ اے حسنؓ! اگر میں اس کے وار سے مر جاؤں تو تُو بھی قاتل کو ایک ہی وار سے ختم کرنا کیوں کہ ایک وار کے بدلے ایک وار ہونا چاہیے اور اس شخص کا مثلہ نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ تم لوگ مثلہ سے احتراز کرو خواہ وہ باؤلے کتے کا ہی کیوں نہ ہو۔
(تاریخِ طبری: جلد، 6 صفحہ، 63)
شہادت اور تجہیز و تکفین:
اس کے بعد آپ لا الہ الا اللہ پڑھنے میں مشغول رہے حتیٰ کے طائر روح عالم بالا کو پرواز کر گیا آپ کی شہادت رمضان 40 ہجری میں ہوئی۔ آپ کو آپ کے بیٹوں حسنؓ، حسینؓ اور عبداللہؓ بن جعفر نے غسل دیا۔تین کپڑوں میں آپ کو کفن دیا گیا جس میں قمیص نہ تھی۔ حضرت حسنؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنازہ میں علامہ ابن سعدؒ کی روایت کے مطابق چار تکبیرات کہیں۔
(البدایہ و النہایہ: جلد، 7 صفحہ، 331 المستدرک لحاکم: جلد، 3 صفحہ، 143)
حضرت علیؓ کوفہ کی مسجد جامع کے نزدیک اس میدان کے قریب جو ابواب کندہ کے متصل ہے لوگوں کے نماز فجر سے واپس ہونے سے پہلے دفن کر دیے گئے۔ سیدنا حسن بن علیؓ ان کے دفن سے واپس ہوئے تو لوگوں کو اپنی بیعت کی دعوت دی، لوگوں نے ان سے بیعت کر لی ۔حضرت علیؓ کی خلافت چار سال اور نو مہینے رہی ۔ابو اسحاق سے مروی ہے کہ جس روز حضرت علیؓ کی وفات ہوئی وہ 63 برس کے تھے۔
آپؓ کی قبر مبارک:
سیدنا علیؓ کو غسل حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ حضرت عبداللہ بن جعفرالطیارؓ نے دیا حضرت حسنؓ نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں چار تکبیریں کہیں۔
(المستدرک للحاکم: جلد، 3 صفحہ، 143)
جنازہ سے فراغت کے بعد دفن کا مسئلہ پیش آیا تو آپ کو جامعہ مسجد کوفہ کے قریب رحبہ (جو ابوابِ کندہ کے ساتھ ہے) کے مقام پر نماز فجر سے پہلے رات ہی کو دفن کیا گیا۔ سیدنا علیؓ کو 40 ہجری میں 63 سال کی عمر میں شہید کیا گیا اور دارالامارت میں جامع مسجد کوفہ کے قریب دفن کیا گیا مشہور روایت کے مطابق دار الامارات ہی میں شب کو دفن کئے گئے۔
(فضائل صحابہؓ و اہلبیتؓ: صفحہ، 161)
مورخ اسلام علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ دفن بدار الامارة بالکوفة ھذا ھو المشھور ومن قال انه حمل علی راحلته فقد اخطا وما یعتقدہ کثیرون جھلة الروافض من ان قبرہ بمشھد النجف لا اصل له
(البدایہ و النہایہ: جلد، 7 صفحہ، 369)
کوفہ کے دارالامارت میں ہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دفن کیا گیا، عام قبرستان میں دفن نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ خارجیوں کی طرف سے خطرہ تھا کہ کہیں وہ آپ کی نعش مبارک کی توہین اور بے حرمتی نہ کریں۔ یہی قول مشہور ہے اور جو لوگ آپ کی نعش مبارک کو ایک سواری کے ذریعے نامعلوم جگہ بھیج دینے کے قائل ہیں یا نجف اشرف میں روضہ علیؓ کے قائل ہیں ان کا یہ قول نقلاً درست ہے اور نہ شرعاً درست ہے۔ علامہ ابن کثیرؒ نے جو روایات نقل کی ہیں انکے مطابق 11 مقامات پر حضرت علیؓ کے جسد مبارک کی تدفین کے دعوے کیے گئے ہیں۔
سیدنا علیؓ کے خون سے اشعث بن قیسؓ کی برات
سیدنا علیؓ کے قتل کے ضمن میں شیعہ لوگوں نے اشعت بن قیس رضی اللہ عنہ پر سہولت کاری کی تہمت لگائی ہے۔ چنانچہ شیعہ مؤرخ یعقوبی کا کہنا ہے کہ عبد الرحمٰن بن ملجم اشعث بن قیس کے یہاں مہمان بنا اور ان کے پاس ایک مہینہ قیام کر کے اپنی تلوار تیز کرتا رہا۔
(تاریخِ یعقوبی: جلد، 2 صفحہ، 222)
علامہ ابن سعدؒ لکھتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن ملجم نے جس رات کی صبح سیدنا علیؓ کو قتل کرنے کا عزم کیا تھا وہ رات اس نے اشعث بن قیسؓ کے یہاں گزاری تھی ان کی مسجد میں فجر طلوع ہونے کے قریب تک ان سے سرگوشی کرتا رہا تو اشعث رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا جلدی کر صبح نے تجھے رسوا کیا ۔تب عبد الرحمٰن بن ملجم اور شبیب بن بجرہ اٹھے اور دونوں نے اپنی تلواریں لیں، پھر آ کر اس دروازہ کے برابر بیٹھ گئے جہاں سے سیدنا علیؓ نکلتے تھے۔
(الطبقات: جلد، 3 صفحہ، 36)
یاد رہے کہ یہ سب روایات ضعیف ہیں ان کے ثبوت کی کوئی دلیل نہیں۔ اشعثؓ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخلص اور وفادار ساتھی تھے جنہوں نے جنگ صفین اور معرکہ نہروان میں خوارج سے بھرپور جنگ لڑی ہے اور سیدنا علیؓ اور آپ کے اہلِ بیت سے اپنے تعلقات مضبوط تر بنائے ہیں۔ آپ نے اپنی بیٹی حضرت علیؓ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ کے نکاح میں دے دی اور جب رخصتی ہوئی تو اہلِ کندہ نے اشعث کے دروازہ تک عقیدت کی چادریں بچھا دیں۔
(تہذیب الکمال: جلد، 3 صفحہ، 393/394 الطبقات ابن سعد: جلد، 6 صفحہ، 23)
سیدنا علیؓ کی شہادت کے چالیس دن بعد اشعث بھی وفات پا گئے اور حسین بن علی بن ابی طالبؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
(الکامل فی التاریخ: جلد، 3 صفحہ، 444)
سیدنا علیؓ کے خاندان کے کسی فرد سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے اشعثؓ پر کبھی یہ تہمت لگائی ہو یہ تہمت روافض لعینوں نے ان کے سر تھوپی ہے۔