Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ

  نقیہ کاظمی

سیرت سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ

سیدنا امیر معاویہؓ ایک جلیل القدر صحابی رسولﷺ، عظیم المرتبت خلیفہ، کاتب وحی، اللہ کی وحی کے امین، رازدار رسولﷺ، ہادی و مہدی، یزیدؓ بن ابوسفیانؓ اور ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہؓ کے بھائی اور آنحضرتﷺ کے برادر نسبتی تھے۔ سیدنا عمر فاروقؓ، سیدنا عثمان غنیؓ اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معتمد خاص تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ خلافت صدیقی، خلافتِ فاروقی اور خلافتِ عثمانی میں اعلٰی عہدوں پر فائز رہے۔ آپؓ فقیہ صحابی تھے۔ آپؓ کا حلم تمام امت میں مشہور تھا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فتوحات، عسکری نظام، مملکت کا نظم و نسق، معاشی و اقتصادی اصطلاحات، فہم و فراست، ظرافت و خطابت اور عدل و انصاف بے مثال تھا۔ آپؓ کے دورِ خلافت میں دین اسلام ایک طرف قسطنطنیہ یعنی یورپ کے دروازے تک جا پہنچا، تو دوسری طرف براعظم افریقہ کے پار اس ساحل تک جا پہنچا جو بحیرہ روم جیسے بڑے سمندر سے وابستہ ہے۔

نبی کریم ﷺ نے آپؓ کے لیے دعا فرمائی:

اللھم اجعلہ ھادیا ومھدیا واھدبہ

ترجمہ: اے اللہ! معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دیجئے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دیجئے۔

(جامع ترمذی: صفحہ، 247 جلد، 2)

نام و نسب اور خاندان:

نام معاویہ رضی اللہ عنہ اور کنیت ابو عبد الرحمٰن تھی۔ آپؓ کے والد ماجد کا نام صخر اور کنیت ابو سفیانؓ تھی اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ والدہ محترمہ حضرت ہندؓ تھیں۔ یہ دونوں فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے۔

والد ماجد کی جانب سے سلسلہ نسب یوں ہے:

معاویہؓ بن ابوسفیانؓ بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔

اس طرح آپؓ کا شجرہ نسب پانچویں پشت میں سرکار دو عالمﷺ سے جا ملتا ہے۔

والدہ ماجدہ کی جانب سے سلسلۂ نسب یوں ہے:

حضرت ہندؓ بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔

نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن تھی۔

ولادت باسعادت:

سیدنا امیر معاویہؓ بعثت نبویﷺ سے پانچ سال قبل 608 عیسوی میں پیدا ہوئے۔

(ابن حجر الاصابہ: صفحہ، 412 جلد، 3)

علامہ ابنِ کثیرؒ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد سیدنا ابو سفیانؓ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

وکان رئیسًا مطاعاً ذا مال جزیل۔

یعنی آپ اپنی قوم کے سردار تھے، آپ کے حکم کی اطاعت کی جاتی تھی اور آپ کا شمار مالدار لوگوں میں ہوتا تھا۔

(ابن کثیر، البدایہ والنہایہ: صفحہ، 21 جلد، 8 طبع مصر)

ایک دفعہ جب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نو عمر تھے۔ آپؓ کے والد ماجد سیدنا ابو سفیانؓ نے آپ کی طرف دیکھا اور کہنے لگے  میرا بیٹا بڑے سر والا ہے اور اس لائق ہے کہ اپنی قوم کا سردار بنے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت ہندؓ نے یہ سنا، تو کہنے لگیں فقط اپنی قوم کا؟ میں اس کو روؤں اگر یہ پورے عالم عرب کی قیادت نہ کرے۔

(ابن حجر الاصابہ: صفحہ، 412 جلد، 3)

آپؓ کے والدین نے آپؓ کی تربیت خاص طور پر کی۔ مختلف علوم و فنون سے آراستہ کیا۔ آپؓ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو علم و فن سے آراستہ تھے اور لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔

قبول اسلام:

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ظاہری طور پر فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے مگر حقیقت یہ ہے کہ آپؓ اس سے قبل ہی اسلام قبول کر چکے تھے۔ چنانچہ مشہور مؤرخ واقدی کہتے ہیں سیدنا معاویہؓ صلح حدیبیہ کے دن اسلام لائے مگر آپؓ نے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا اور فتح مکہ کے دن ظاہر کیا۔

مؤرخ ابنِ سعد فرماتے ہیں:

حضرت معاویہؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں عمرۃ القضاء کے روز ایمان لایا تھا لیکن اپنے والد کے ڈر سے اپنے ایمان کو فتح مکہ تک چھپائے رکھا۔

(البدایہ والنہایہ: جلد، 8 صفحہ، 118)

شیخ الاسلام علامہ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں ہیں:

معاویہؓ بن ابوسفیانؓ ایک صحابی اور خلیفہ راشد ہیں۔ فتح مکہ سے قبل مشرف بہ اسلام ہوئے اور آپؓ کاتب وحی بھی تھے۔

(تقریب التہذیب: صفحہ، 375)

مذکورہ بالا حوالہ جات اس بات پر شاہد ہیں کہ سیدنا معاویہؓ فتح مکہ سے قبل اسلام لائے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ بدر، احد، خندق اور غزوہ حدیبیہ کے معرکوں میں کفار کی جانب سے شریک نہ ہوئے، حالانکہ آپؓ جوان تھے۔

کتابت وحی کے فرائض:

سیدنا امیر معاویہؓ کو بارگاہ رسالتﷺ سے کتابت وحی کا منصب عطا ہوا۔ جو وحی آپﷺ پر نازل ہوتی، اسے قلمبند فرماتے اور جو خطوط و فرامین حضور اکرمﷺ کے دربار سے جاری ہوتے، انھیں بھی آپؓ تحریر فرماتے۔

چنانچہ علامہ ابنِ حزم اندلسیؒ کہتے ہیں

نبی اکرمﷺ کے کاتبین وحی میں سب سے زیادہ سیدنا زید بن ثابتؓ آپﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر رہے اور اس کے بعد دوسرا درجہ سیدنا معاویہؓ کا تھا۔ یہ دونوں حضرات رات دن آپﷺ کے ساتھ لگے رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے تھے۔

(ابن حزم, جوامع السیرۃ: صفحہ، 27 تاریخ التشریح الاسلامی صفحہ، 12)

عہد صدیقیؓ میں آپؓ کا مقام:

آنحضرتﷺ کے دور میں آپؓ نے مختلف غزوات میں شرکت کی اور کفار سے جہاد کیا۔ آپؓ نے آنحضرتﷺ کے ہمراہ غزوہ حنین میں بھی شرکت فرمائی۔ نبی کریمﷺ کے بعد خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپؓ کی فہم و فراست، دیانت وامانت، ذہانت و ذکاوت اور تدبر پر مکمل اعتماد کیا اور آپؓ کو شام بھیجے جانے والے لشکر کے ہر اول دستے کا علمبردار مقرر فرمایا جب کہ اس لشکر کے امیر اور سپہ سالار آپؓ کے بھائی یزید بن ابوسفیانؓ تھے۔

(دیکھیے محاصرات تاریخ الامم الاسلامیہ: جلد، 4 صفحہ، 471 فتوح البلدان صفحہ، 48)

عہد فاروقیؓ میں آپؓ کا مقام و مرتبہ:

عہد فاروقیؓ میں بھی آپؓ (سیدنا معاویہؓ) اعلٰی عہدوں پر فائز رہے۔ 18 ہجری میں عمواس کے طاعون میں آپؓ کے بھائی یزیدؓ کے انتقال کے بعد سیدنا عمر فاروقؓ نے آپؓ کو دمشق کا گورنر مقرر فرما دیا۔

(البدایہ والنہایہ: جلد، 8 صفحہ، 124 ابنِ خلدون: جلد، 3 صفحہ، 6)

محمد حسین ہیکل نے ایک روایت نقل کی ہے کہ شام سے واپسی پر جابیہ کے مقام پر سیدنا عمر فاروقؓ نے سیدنا شرحبیل بن حسنہؓ کو معزول فرما کر ان کی جگہ سیدنا معاویہؓ کو گورنر مقرر فرما دیا۔ جب امیر المومنینؓ سے سیدنا شرحبیل بن حسنہؓ کی وجہ معزولی دریافت کی گئی، تو آپؓ نے فرمایا: 

میں نے کسی ناراضی کی وجہ سے انہیں معزول نہیں کیا بلکہ اس لیے معزول کیا ہے کہ یہاں ایک مضبوط سیاسی گورنر کی ضرورت تھی۔

(الفاروق: صفحہ، 298)

سیدنا عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں سیدنا معاویہؓ نے چار سال شام کے گورنر کی حیثیت سے گزارے۔ اس دوران آپؓ نے روم کی سرحدوں پر جہاد جاری رکھا اور بہت سارے شہر فتح کیے۔

عہد عثمانیؓ میں آپؓ کا مقام اور فتوحات:

خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدنا عثمان غنیؓ نے اپنے عہد خلافت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حسن انتظام، تدبر اور سیاست سے متاثر ہو کر حمص، قنسرین اور فلسطین کے علاقے بھی آپؓ کے ماتحت کر دیے۔

(تاریخ ابن خلدون)

25 ہجری میں آپؓ نے روم کی جانب جہاد کیا اور عموریہ تک جا پہنچے۔ نبی کریمﷺ نے پہلا بحری جہاد کرنے والے لشکر کے حق میں ان الفاظ میں جنت کی بشارت دی تھی: اوّل جیش من امتی یغزون البحر قد اوجبوا

ترجمہ: یعنی میری امت کے پہلے لشکر نے جو بحری لڑائی لڑے گا اپنے اوپر جنت واجب کر لی ہے۔

(صحیح البخاری: صفحہ، 410 جلد، 1)

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی تاریخ میں پہلی بار بحری بیڑہ تیار کرایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کے ہمراہ 27 ہجری میں قبرص کی جانب روانہ ہوئے۔

(حافظ ذہبی العبر: جلد، 1)

ابنِ خلدون لکھتے ہیں:

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے بحری بیڑہ تیار کرایا اور مسلمانوں کو اس کے ذریعے جہاد کی اجازت دی۔

(مقدمہ ابنِ خلدون: صفحہ، 453)

27 ہجری میں آپؓ قبرص (Cyprus) کی طرف اپنا بحری بیڑہ لے کر روانہ ہوئے اور 27 ہجری میں وہ آپؓ کے ہاتھوں فتح ہو گیا۔

(النجوم الزاہراہ: صفحہ، 85، مطبوعہ مصر) اور آپؓ نے وہاں کے لوگوں پر جزیہ عائد کیا۔

(ابنِ خلدون: صفحہ، 1008 جلد، 2)

تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے پہلا بحری لشکر جس نے 28 ہجری میں سمندر کے سینے کو چیر کر قبرص (Cyprus) پر حملہ کیا اور اس کو فتح کر کے اسلامی پرچم لہرایا اس کی قیادت سیدنا معاویہؓ بن ابوسفیانؓ نے کی۔

علامہ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

خلافتِ عثمانیؓ میں جب یہ حملہ ہوا تو اس لشکر کے امیر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابوسفیانؓ تھے اور ان کے ساتھ ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہ جیسے کئی دوسرے صحابہؓ تھے۔

(اسد الغابہ: جلد، 5 صفحہ، 575)

33 ہجری میں آپؓ نے افرنطینہ، ملطیہ اور روم کے کچھ قلعے فتح کیے۔ 35 ہجری میں غزوہ ذی خشب پیش آیا۔ آپؓ نے اس میں امیرِ لشکر کی حیثیت سے شرکت فرمائی۔

عہدِ خلافت:

36 ہجری میں سیدنا عثمان غنیؓ شہید ہوئے۔ شہادتِ عثمانؓ کے بعد جنگ صفین و جمل کے واقعات پیش آئے۔ آپؓ کے اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے درمیان یہ جنگ چار پانچ سال تک جاری رہی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مؤقف یہ تھا کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قاتلینِ عثمانؓ کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے جبکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا مؤقف یہ تھا کہ حضرت عثمان بن عفانؓ کے قتل میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ میں نے بلوائیوں کو ہر چند سمجھانے کی کوشش کی تھی اور میرے بیٹے قصرِ عثمانؓ کا پہرا دیتے رہے ہیں۔

17 رمضان المبارک 40 ہجری کو ایک خارجی عبد الرحمٰن بن ملجم نے حضرت علی المرتضٰیؓ پر تلوار سے وار کیا جس کے نتیجے میں آپؓ شدید زخمی ہو گئے اور 21 رمضان المبارک 40 ہجری کو جامِ شہادت نوش فرمایا۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سیدنا حسنؓ نے حضرت امیر معاویہؓ سے صلح کر کے خلافت ان کے سپرد کر دی۔ اس سال کو تاریخِ عرب میں عام الجماعۃ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ سال ہے کہ جس میں امت کا شیرازہ پھر مجتمع ہوا اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے ایک خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔

چنانچہ علامہ ابنِ حجر مکیؒ فرماتے ہیں: 

صحیح اور حق بات یہ ہے کہ حضرت حسنؓ کی صلح کے بعد سیدنا معاویہؓ کے خلافت صحیح معنوں میں ثابت ہے اور اس کے بعد وہ خلیفہ حق اور امام صادق ہیں۔ 

(الصواعق المحرقہ: صفحہ، 216)

بلاشبہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کے سب سے بڑے مسلم حکمران تھے۔ آپؓ نے 19 سال تک نصف سے زائد دنیا یعنی 64 لاکھ 65 ہزار مربع میل کے وسیع و عریض رقبہ پر اسلامی حکومت قائم کی۔

فتوحاتِ معاویہؓ پر ایک نظر:

سیدنا امیر معاویہؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ کے زمانہ میں بے شمار علاقے فتح کیے۔ فتوحات کا وہ سلسلہ جو سیدنا عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد رک گیا تھا، سیدنا امیر معاویہؓ نے اپنے دور خلافت میں اس کو دوبارہ جاری کیا۔ اپنے بہترین کمانڈر عقبہ بن نافعؓ کے توسط سے 41 ہجری میں شمالی افریقہ کے ایک وسیع علاقے کو اسلامی سلطنت میں شامل کیا۔ آپؓ کے جرنیل مہلب بن ابی صفرؓ نے 44 ہجری میں سندھ اور ترکستان کے علاقوں پر اسلامی پرچم لہرایا۔ پھر اپنے صاحبزادے یزید بن معاویہ کی زیرِ قیادت قسطنطنیہ پر حملہ کروایا۔

53 ہجری میں بحری لڑائی کے ذریعے آپؓ کے جرنیل جنادہ بن امیہؓ نے روڈس فتح کیا۔

54 ہجری میں قسطنطنیہ کے قریب اروارڈ نامی جزیرے کو اسلامی حکومت میں داخل کیا۔

علامہ خیر الدین زرکلی کہتے ہیں:

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے بحرِ روم کو اپنے جہازوں کی بازی گاہ بنایا۔ آپؓ کے عہد میں یونان کے بے شمار جزیرے اور درہ دانیال وغیرہ علاقے فتح ہوئے۔

(الاعلام: جلد، 8 صفحہ، 173 الفتوحات الاسلامیہ: جلد، 2 صفحہ، 98)

رعایا سے بہترین سلوک:

سیدنا امیر معاویہؓ نے ملک میں رعایا کی خوشحالی اور آرام کے لیے مختلف اصلاحات نافذ کیں۔ چنانچہ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

آپؓ (معاویہؓ) کے زمانہ میں دشمن کے ممالک میں جہاد کا سلسلہ جاری تھا۔ اللہ کا کلمہ بلند تھا۔ غنیمتیں زمین کے سب گوشوں سے سمٹ کر آپؓ کے پاس آتی تھیں اور مسلمان آپؓ کے دورِ خلافت میں عدل و انصاف اور راحت و آرام کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گزارتے تھے۔

(البدایہ و النہایہ: جلد، 8 صفحہ، 188)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنی رعایا سے سلوک بہترین حکمرانوں کا تھا اور آپؓ کی رعایا آپؓ کو دل دل و جان سے چاہتی تھی۔

(منہاج السنہ: جلد، 3 صفحہ، 189)

دار الفناء سے دار البقاء کی طرف:

60 ہجری میں جب سیدنا معاویہؓ کی عمر کا اٹھتّرواں سال تھا۔ اسلامی حکومت کی سرحدیں 64 لاکھ 65 ہزار مربع میل رقبہ تک پھیل چکی تھیں۔ آپؓ کی طبیعت کچھ ناساز ہوئی ۔۔۔ اور طبیعت کی ناسازی مرض وفات میں تبدیل ہو گئی۔ یہاں تک کہ دمشق کے مقام پر 22 رجب المرجب 60 ہجری میں علم، حلم اور تدبر کا یہ آفتاب و ماہتاب آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون  آپؓ کی نمازِ جنازہ مشہور صحابی رسولﷺ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ دمشق میں ہی بابِ صغیر میں آپؓ کی تدفین ہوئی۔