Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حجر بن عدی کا معاملہ مکمل اور مستند تحقیق

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

 *حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حجر بن عدی کا معاملہ مکمل اور مستند تحقیق* 

 سیّدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جملہ مطاعن میں سے اس دور کے بعض لوگوں کو قتل کرنے کا طعن اعتراض کرنے والوں کی طرف سے آب و تاب کے ساتھ ذکر کیا جاتا ھے اور اس کی تمہیدی چیزوں میں یہ بیان کیا کرتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جو مسئلہ شرعی ھے اس کی آزادی سلب کر لی گئی تھی اور لوگوں کی زبانیں حق بات کہنے سے روک دی گئی تھی، ان پر قفل چڑھا دیے گئے تھے. جو حق بات کہتا تھا اس کو بدترین سزا دی جاتی تھی. اس سلسلے میں حجر بن عدی کا قتل سرفہرست ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کو حق بات کہنے پر ھ51 میں بلاجواز قتل کردیا گیا.

*جواب*
اس طعن کو صاف کرنے کے لئے ذیل میں چند چیزیں ذکر کی جاتی ہیں ان پر انصاف سے غور کر لینے کے بعد طعن مرتفع ہوسکے گا.
پہلے ھم حجر بن عدی کی شخصیت کے متعلق کچھ وضاحت کرنا چاہتے ہیں، اس کے بعد باقی متعلقہ امور ذکر کیے جائیں گے.

*حجر بن عدی*

حجر بن عدی بن جبل بن عدی کوفہ کے قبیلہ کندہ کے رؤساء میں سے تھے. ان کو حجر الخیر اور حجر بن الادبر بھی کہتے تھے. بعض مؤرخین اور علماء نے حجر بن عدی کو صحابہ کرام میں شمار کیا ہے اور لکھا ھے کہ یہ اپنے بھائی ہانی بن عدی کے ساتھ نبی اقدس (صلہ اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور ساتھ ہی لکھا ہے کہ وہ عابد و زاہد تھے اور جمہور علماء مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ ، ابن ابی حاتم رحمہ اللہ، خلیفہ ابن خیاط رحمہ اللہ اور ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے ان کو تابعین میں شمار کیا ہے.
ابن کثیر (رحمہ اللہ) نے یہ بات ذکر کی ھے کہ

((قال ابو احمد العسکری اکثر المحدثین لا یصححون له صحبة)).

نمبر ١.الاصابہ (ابن حجر) ص٣١٣ ج١تحت حجر بن عدی
نمبر٢ البدایہ (ابن کثیر) ص ٥٠ ج ٨ تحت سنہ ٥١ھ.

"یعنی ابو عسکری (رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ اکثر محدثین حجر بن عدی کے صحابی رسول ﷺ ہونے کو صحیح قرار نہیں دیتے.
آپ جنگ قادسیہ میں شامل ہوئے تھے اور حضرت علی المرتضی (رضی اللہ عنہ) کی حمایت میں صفین کی حروب میں بھی شامل ہوئے. آپ کا شمار حضرت علی المرتضی (رضی اللہ عنہ) کے خاص حامیوں میں ہوتا تھا.
آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نظریاتی طور پر سخت خلاف تھے. کوفہ سبائی پارٹی کا خصوصی مرکز تھا. حکومت کے خلاف ان کی سازشوں اور فتنہ پردازیوں سے متاثر تھے ان میں حجر بن عدی نمایاں حیثیت رکھتے تھے اور فتنہ انگیز پارٹی کے اثرات سے کافی متاثر بلکہ مغلوب تھے. علماء نے لکھا ہے کہ حجر بن عدی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ عذرا کے مقام پر شعبان 51ھ میں قتل کیے گئے۔
*خلیفہ وقت کی مخالفت*
جب حضرت علی المرتضی اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہم کا دور خلافت گزر گیا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور آیا تو حجر بن عدی کے نظریات میں خاصا تصلب واقع ہو چکا تھا. امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے امیر مغیرہ بن شعبہ (رضی اللہ عنہ) جب خطبہ دیتے تو یہ لوگ ان کے خلاف تشدد اور سخت کلامی کے ساتھ پیش آتے لیکن حضرت مغیرہ (رضی اللہ عنہ) اپنی قوت برداشت اور حلم کی بنا پر درگزر فرماتے اور مناسب فہمائش کرتے کہ امیر وقت کے ساتھ معارضہ کرنا درست نہیں مگر حجر بن عدی اپنے تشدد سے باز نہیں آتے تھے۔
*مسئلہ عطا پر نقد*
بعض دفعہ لوگوں کو وظائف کی ادائیگی میں تاخیر ہو جاتی تو حجر بن عدی حضرت مغیرہ (رضی اللہ عنہ) کی مذمت میں اٹھ کھڑے ہوتے. اور جب بعض لوگوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رضی اللہ عنہ) کو حجر بن عدی پر سختی کرنے کے لئے کہا کہ یہ مسلمانوں کے اتفاق کی لٹھ توڑنا چاہتے ہیں اور امیر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو پھر بھی حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے ان کو کوئی سزا نہیں دی اور ان سے درگزر فرمایا۔

*بیت المال کے اموال پر معارضہ*

مؤرخین لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے والِئ کوفہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رضی اللہ عنہ) کو لکھا کہ بیت المال سے کچھ مال یہاں دارالخلافہ بھیج دیا جائے. چنانچہ جب حضرت مغیرہ (رضی اللہ عنہ) یہ مال بھیجنے لگے تو حجر بن عدی معارضہ کرتے ہوئے ان سواریوں کی لگام پکڑ کر مال روکنے پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ یہاں حق والوں کا حق ادا کیا جائے. اس موقع پر بھی حضرت مغیرہ (رضی اللہ عنہ) نے حسب معمول سختی نہیں کی اور عفو و درگزر سے کام لیا۔
نمبر١ مستدرک حاکم ٤٦٩ج ٣
نمبر ٢ البدایہ (ابن کثیر) ص ٥٠ ج ٨ تحت حالات سنہ 51ھ.
بعد میں حضرت مغیرہ بن شعبہ (رضی اللہ عنہ)  50ھ میں وفات پا گئے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو کوفہ اور بصرہ دونوں کا والی مقرر فرمادیا۔ حجر بن عدی اپنی سابقہ رَوِش کے مطابق زیاد بن ابیہ والِئ کوفہ و بصرہ کے خطبات پر بھی تنقید اور معارضہ کرنے لگے اور حکومت کے نظم کے معاملات میں دخیل ھونے لگے. 

*والِئ کوفہ پر کنکر پھینکنا*

ایک روز زیاد بن ابیہ کوفہ میں خطبہ دینے لگا، اس مقام پر حجر بن عدی اپنی جمعیت کے ساتھ موجود تھے اور ہتھیار لگا کر آئے تھے. زیاد نے خطبہ دیا اور حمد و ثنا کے بعد دیگر چیزوں کے علاوہ امیر المومنین کے حقوق کا ذکر کیا. اس مسئلے پر حجر بن عدی کو اختلاف تھا اس نے زیاد پر کنکر پھینکے اور کہا کہ تم جھوٹ بولتے ھو، تم پر اللہ کی لعنت ھے.

((و جعل زياد في خطبة ان من حق امير المؤمنين يعنى كذا و كذا فاخذ حجر كفا حصباء فحصبه و قال كذبت عليك لعنة الله))

*حجر بن عدی اور اس کے رفقاء کا رویہ*

ابن کثیر (رحمة اللہ علیہ) نے البدایہ والنہایہ میں ابن جریر طبری کے حوالے سے اس جمعیت کی شورشوں اور فتنہ پردازیوں کو متعدد بار ذکر کیا ہے اور ایک مقام پر اس چیز کو باالفاظ ذیل نقل کیا ھے.

((انهم كانوا ينالون من عثمان و يطلقون فيه مقا لة الجور و يتقدون على الامراء و يسارعون في الانكار عليهم، و يبالغون في ذالك ويتولون شيعة علي ويتسدون في الدين)).

مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں اعتراض کرتے تھے اور ان کے حق میں جود و ظلم منسوب کرتے تھے. وہ امراء و حکام کی سخت عیب جوئی کرتے تھے اور ان پر انکار کرنے میں جلد بازی کرتے تھے اور اس معاملے میں غلو کرتے تھے، شیعان علی کی دوستی کا دم بھرتے تھے اور دین کے معاملات میں تشدد اختیار کیے ہوئے تھے. گویا اس جماعت کے طریق کار کو بطور نمونہ ذکر کیا ھے ان کے کارناموں کی مزید تشریح آئندہ سطور میں آرہی ھے. اس سلسلے میں معارضہ کے واقعات کو زیاد نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بصورت مکتوب لکھا۔

نمبر ١ البدایہ (ابن کثیر) ص ٥٠ ج ٨ تحت سنہ ٥١ھ.

نمبر ٢ البدایہ (ابن کثیر) ص ٥١ ج ٨ تحت سنہ ٥١ھ.

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواباً لکھا کہ حجر بن عدی اور شورش میں شامل اس کے دیگر ساتھیوں کو گرفتار کرکے یہاں دمشق بھیج دیا جائے.

چنانچہ زیاد نے ان لوگوں کو گرفتار کرنے کے لیے چند آدمی بھیجے تو حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں نے پتھروں اور ڈنڈوں سے ان کا پورا پورا مقابلہ کیا. مگر زیاد کے آدمی انھیں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے اور زیاد نے انہیں دس دن اپنے پاس حراست میں رکھا. پھر اس کے بعد ان کو خلیفہ وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا اور ان کے ساتھ ایک جماعت کو بھیجا جو گواہی دیتے تھے کہ :

1) حجر بن عدی نے خلیفہ وقت پر سب و شتم کیا ھے.

2) امیر وقت کے ساتھ محاربہ قائم کیے ہوئے ہیں.

3) یہ کہتے ہیں کہ امارت اور خلافت آل ابی طالب کے علاوہ کسی کے لئے درست نہیں.

((انه سب الخليفة وانه حارب الامير وانه يقول ان هذا لامرلايصلح الا في آل على بن ابى طالب))

ان واقعات کے لئے جو شہادت زیر تحریر لائی گئی تھی ابن جریر طبری نے اس کو باالفاظ ذیل درج کیا ھے.

((ان حجرا جمع اليه الجموع واظهر شتم الخليفة ودعا الى حرب أمير المؤمنين وذعم ان هذا الامر لا يصلح الا فى آل ابى طالب و وئب المصر وأخرج عامل امير المؤمنين وأظهر عذرا أبى تراب والترجم عليه والبراءة من عدوه واهل حربه وان هؤلاء النفر الذين معه هم رءوس أصحابه و على مثل رأيه وأمره)).

مطلب یہ ہے کہ ان اکابر لوگوں نے شہادت دی کہ حجر بن عدی نے اپنے گرد ایک جمعیت جمع کر رکھی ہے، خلیفہ وقت کو سب وشتم کرتے ہیں، امیر المومنین کے خلاف قتال کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آل آبی طالب کے علاوہ کسی کے لیے امارت و خلافت درست نہیں، اور شورش کھڑی کر کے امیر المومنین کے حاکم و عامل کو شہر سے نکال دیا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معذوری ظاہر کرکے ان کے ساتھی ہیں یہ ان کی جماعت کے سربرآور وہ لوگ ہیں، حجر بن عدی اور ان کی جماعت کی ایک رائے ہے اور ایک ہی نظریہ کے حامل ہیں.

نمبر ١. البدایہ (ابن کثیر) ص٥١ھج٨تحت سنہ ٥١ھ(حالات قتل حجر بن عدی)

نمبر ٢.تاریخ طبری ص ١٥٠ج٦تحت سنہ ٥١ھ حالات واقعہ ہذا.

اور اس شہادت کو ابن خلدون نے باالفاظ ذیل درج کیا ھے.

((افشهدو كلهم ان حجرا اجتمع الجموع واظهر شتم معاويه ودعا الى حربه وزعم ان الامر لا يصلح الا فى الطالبين)).

مختصر یہ ہے کہ حجر بن عدی اور ان کی سبائی پارٹی اس وقت کے نظام حکومت اور انتظامی خلافت کو الٹ کر کوئی دوسرا اقتدار قائم کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے اور لوگوں کو اس تحریک میں شامل ھونے کی دعوت دیتے تھے. گویا اسلام کی متفقہ قوت میں پھر انتشار ڈالنا ضروری سمجھتے تھے.

*ارسال شہادات اور اس کے نتائج*

ان حالات کے تحت زیاد نے اس معاملے کے متعلق ان شہادتوں کو مرتب کرکے مرکزی حکومت کو ارسال کرنا ضروری خیال کیا تھا.

چنانچہ گزشتہ واقعات پر شہادت دینے والے ستر افراد میں درج ذیل شاہدین شامل تھے (جن میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور بعض تابعین کرام رحمہم اللہ عنہم ہیں).

ابوہریرہ بن ابی موسیٰ، وائل بن حجر، عمرو بن سعد بن ابی وقاص، اسحاق و اسمعیل و موسی فرزندان طلحہ بن عبیداللہ منذر بن کثیر بن شہاب اور ثابت بن ربعی وغیرھم.

یہ شہادتیں مرتب کر کے زیاد بن ابیہ والِئ کوفہ و بصرہ نے خلیفہ وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں سمیت ارسال کیں اور ساتھ ہی مذکورہ ستر شاہدین میں سے کچھ افراد کو بھی خلیفہ کے سامنے براہ راست شہادت پیش کرنے کےلئے دمشق بھیجا. ان میں سے وائل بن حجر اور کثیر بن شہاب مشہور ہیں۔

چنانچہ حجر بن عدی اپنے ساتھیوں سمیت مذکورہ شاہدین کے ہمراہ پیش ہوئے اور مرتب شدہ شہادتیں بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کی گئیں. آپ نے مرتب شدہ شہادتیں ملاحظہ کرنے اور شاہدین سے براہ راست شہادت لینے کے بعد جرم ثابت ہونے پر حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں کو عذرا کے مقام (جو دمشق کا ایک قریہ ھے) پر لے جا کر قتل کرنے کا حکم صادر کیا۔

لہٰذا خلیفہ وقت کے احکام کے مطابق حجر بن عدی، شریک بن شداد، صیفی بن فسیل، قبیصہ بن ضبیعہ، محرز بن شہاب منکری اور کدام بن حبان، ان چھ افراد کو عذرا کے مقام پر لے جاکر قتل کردیا گیا۔

حجر بن عدی کے بعض دیگر ساتھیوں کا معاملہ قتل کی سزا تک نہیں پہنچا تھا اور بعض مزید عوارض بھی پیش نظر ہونگے لہٰذا ان کو سزا نہیں دی گئی اور آزاد کردیا گیا.

نمبر ١ تاریخ ابن خلدون ص ٢٦ج٣ق اول (تحت واقعات ہذا) طبع بیروت.

نمبر ٢.البدایہ والنہایہ (ابن کثیر) ص٥٢ج٨تحت واقعہ ہذا سنہ ٥١ھ.

*ازالہ شبہات*

واقعہ ہٰذا میں معترضین نے بہت کچھ شبہات پیدا کردیے ہیں جن میں سے ضروری شبہات کا ازالہ کرنا مناسب خیال کیا گیا ہے. چنانچہ اس کے متعلق ذیل میں چند امور پیش کیے جاتے ہیں. طعن کرنے والے احباب حجر بن عدی وغیرہ کے قتل کو بلا جواز شرعی ظلماً قتل کیا جانا شمار کرتے ہیں اور ان کے قول کے مطابق یہ مقتولین اس وقت حق گوئی کرتے تھے اور والیوں کے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے تھے، اس سے زیادہ کچھ نہیں. بقول معترضین یہ لوگ خلیفہ وقت کے خلاف باغی نہ تھے اور بغاوت کی تعریف ان پر صادق نہیں آتی.

*ازالہ*

حقیقت واقعہ اور ان لوگوں کے مقاصد کی وضاحت معلوم کرنے کے لیے تاریخوں میں مفصل مواد موجود ہے جس میں مؤرخین نے ان کے خلیفہ وقت کے خلاف نظریات کو برملا طور پر ذکر کردیا ہے. گزشتہ حوالہ جات میں ابن جریر، ابن کثیر، ابن خلدون کی عبارات بلفظہٖ نقل کر دی گئی ہیں جو ان لوگوں کے نظریات کی پوری طرح آئینہ دار ہیں.

اسی طریق سے بے شمار مؤرخین نے یہ بات واضح کردی ھے کہ مسلمانوں کا اس وقت ایک خلیفہ اسلام پر اتفاق ھوگیا تھا اور ہاشمی حضرات سمیت اکابرین وقت نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرکے امت کے اختلاف و افتراق کو ختم کردیا تھا. اس طریقہ سے اسلام کی ایک نئی شیرازہ بندی ھوگئی تھی، اسلامی حکومت کا نظام ایک مرکز کے تحت قائم ھو گیا تھا. اب ان حالات میں مسلمانوں کی اس اجتماعی قوت اور مرکزی طاقت کو ختم کرنے کے لیے یہ ایک گونہ سبائی پارٹی کی طرف سے تحریک تھی جو کسی طرح جائز نہیں تھی اور اس میں افتراق پیدا کرنے کا شرعاً کوئی جواز نہ تھا.

اسلام میں اطاعت امیر واجب ھے اور اس کے خلاف کرنا شرعاً منع ھے نبی اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احادیث میں امت میں اتفاق قائم رکھنے اور افتراق سے بچنے کی بڑی تاکید آئی ھے حتّیٰ کہ بعض جگہ افتراق جماعت پر وعیدیں مذکور ہیں. چنانچہ چند ایک ارشادات نبوی ﷺ یہاں نقل کیے جاتے ہیں.

(1) ((عن اسامة بن زيد (رض) قال قال رسول الله (ص) من فرق بين امتى وهم جميع فاضربوا رأسه كائنا من كان)).

یعنی نبی اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :درآں حالے کہ امت مجتمع ھے پھر ان کے درمیان کوئی تفریق کھڑی کرتا ھے تو اس کا سر اڑادو خواہ وہ کوئی بھی ہو.

نمبر ١.مصنف ابن ابی شیبہ ص ١٠١ج١٥کتاب الفتن طبع کراچی.

 

(2) ((عن عرفجة (رض) قال سمعت رسول الله (ص) يقول انه سيكون هنأت هنأت فمن اراد ان يفرق امر هذه الامة وهى جميع فاضربوه بالسيف كائنا ما كان.))

عرفجہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب نبی اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سنا آپ فرماتے تھے کہ عنقریب کئی شر و فساد ھوں گے. پس جو شخص اس امت کے اجتماع میں تفریق ڈالے اسے تہہ و تیغ کر دو خواہ وہ کوئی بھی ہو.

اس نوع کے بہت سے فرامین نبوی ﷺ احادیث میں موجود ہیں. حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بالا فرامین نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی روشنی میں یہ اقدام کرنا ضروری سمجھا.

*شیعہ روافض کی طرف سے اس مسئلے کی تائید*

شیعہ روافض کے قدیم ترین مؤرخ ابو حنیفہ احمد بن داؤد دینوری شیعی (المتوفی ٢٨٢ھ) نے مسئلہ ہٰذا کے متعلق چند تصریحات ذکر کی ہیں جو اس مرحلے کے واقعات کو صاف کرنے میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں. وجہ یہ ہے کہ شیعہ لوگ حجر بن عدی و عمرو بن حمق وغيرہ مقتولین کے حامی ہیں اور ان کو بہتر سمجھنے والے ہیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف ہیں، لہٰذا ان لوگوں کے بیانات ان واقعات میں ضرور قابل توجہ ہیں۔

بنا بریں ھم ناظرین کرام کی خدمت میں ان چیزوں کو ایک ترتیب کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جو منصف طبائع کےلئے حقیقت واقعہ معلوم کرنے میں مفید ھوں گے اور اختلاف کھڑا کرنے والی جماعت کا پس منظر معلوم کرنے میں معاون ھونگی:

(1) ایک تو حضرت علی المرتضی (رضی اللہ عنہ) کے فرمودات۔

(2) دوسرے سیدنا حسن (رضی اللہ عنہ) کے اقوال۔

(3) اور تیسرے نمبر پر سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے ارشادات ہیں۔

اب علی الترتیب ان مندرجات پر بغور نظر فرمائیں :

*(١)حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کے فرمودات*

(١) شیعہ مورخ احمد بن داؤد ابوحنیفہ دینوری شیعی اپنی مشہور تصنیف اخبار الطوال میں ذکر کرتے ہیں کہ حضرت علی المرتضی (رضی اللہ عنہ) کے خاص طرفداروں میں سے حجر بن عدی اور عمرو بن حمق وغیرہ (حضرت) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کو برملا سب و شتم اور لعن طعن کرتے تھے. جب یہ چیز حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کو معلوم ہوئی.

نمبر ١.مشکوة شريف ٣٢٠ باب الامارة بحوالہ مسلم شریف۔

مسلم شریف ص١٢٨ج٢باب و جوب ملازمتہ جماعتہ المسلمین......... الخ۔

تو جناب مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف اپنا فرستادہ بھیج کر یہ فرمان جاری کیا کہ سب وشتم اور لعن طعن سے آپ لوگ باز آجائیں. اس پیغام کے بعد وہ دونوں حضرات حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے امیرالمؤمنین! کیا ھم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ھے؟ جناب مرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ رب کعبہ کی قسم یہ بات بالکل درست ہے. پھر وہ کہنے لگے کہ آنجناب ان کو سب وشتم اور لعن طعن کرنے سے ہمیں کیوں منع کرتے ہیں؟ تو جناب مرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا میں تمہارے سب وشتم اور لعن طعن کرنے کو مکروہ جانتا ھوں لیکن تم لوگوں کو دعا کرتے ہوئے یوں کہنا چاہیے کہ اے اللہ. ھم دونوں فریق کو خون ریزی سے بچالے اور ہمارے اور ان کے درمیان اصلاح فرما دے اور ان کو بھٹک جانے سے ہدایت فرما. حتیٰ کہ جو حق سے ناواقف ہے وہ حق بات کو پہچان لے اور نزاع کھڑا کرنے والا سخت جھگڑے سے باز آجائے.

((و بلغ عليا ان حجر بن عدى و عمرو بن الحمق يظهر ان شتم معاوية ولعن اهل الشام، فارسل اليها ان كفا عما يبلغني عنكما فاتياه فقالا يا أمير المؤمنين ألسنا على الحق، وهم على الباطل؟ قال بلى ورب الكعبة المسندنة قالوا :فلم تمنعنا من شتعهم و لعنهم؟ قال كرهت لكم ان تكونوا شنامين لعانين ولكن قولوا اللهم احقن دماءنا و دماءهم واصلح ذات بيننا و بينهم واهدهم من ضلالتهم حتى يعرف الحق من جهله ويرعوى عن الغى من لجج به)).

اسی طرح شیعوں کا دیگر قدیم مؤرخ جو خالص رافضی ھے اور دینوری سے بھی سابق دور کا آدمی ھے یعنی نصر بن مزاحم منقری المتوفی ٢١٢ھ نے حضرت علی المرتضی (رضی اللہ عنہ) کے مذکورہ فرمان کو اپنی سند کے ساتھ اپنی تصنیف وقعتہ الصفین میں مفصل طور پر درج کرتا ھے. چونکہ ان دونوں دینوری و منقری کی روایات کا مضمون و مفہوم ایک ہی ھے اس لئے منقری کی روایت کی عبارت کو ترک کرکے صرف حوالہ پر اکتفا کیا ھے.

(٣) حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کا یہ فرمان نہج البلاغہ میں بھی مذکور ھے. چند الفاظ کا جزوی فرق پایا جاتا ھے باقی مضمون ایک ہی ہے.

ناظرین کرام پر واضح رہے کہ حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کا یہ فرمان قبل ازیں ہماری کتاب مسئلہ.

نمبر ١.اخبار الطوال (دینوری شیعی) ص ١٦٥ طبع مصر (تحت واقعات صفین)۔

وقعتہ الصفین (نصر بن مزاحم منقری) ص ١١٥ طبع مصر تحت نصحیتہ علی الحجر بن عدی و عمروبن حمق۔

(٢) نہج البلاغہ ج ١ص ٤٢٠ تحت من کلام لہ (ع) فی النہی عن سب اہل الشام.

اقربانوازی ص ١٨٥.١٨٦ میں درج ھو چکا ہے. البتہ منقری کے حوالہ کا یہاں اضافہ کیا گیا ہے. حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کے اس بیان سے جسے قدیم شیعہ مؤرخین دینوری و منقری وغیرہ نے نقل کیا ہے.

یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ

(1) جناب علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کو سب وشتم اور لعن طعن کرنے کے روادار نہیں تھے اور باوجود سیاسی اختلافات کے اس طریق کار کو مکروہ و مبغوض جانتے تھے. حجر بن عدی اور عمرو بن حمق وغیرہ جب ان چیزوں کا ارتکاب کرتے تو حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) أن کو اس طريق کار سے برملا منع فرماتے اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے تھے.

بلکہ ان کو حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کی طرف سے تعلیم و تلقین ہوتی تھی کہ فریق مقابل کے حق میں صلح و مصالحت کے لئے دعائیں مانگیں اور حق بات کے قبول کرنے کے لیے ہدایت کی اللہ جل شانہٗ سے استدعا کریں.

(٢) نیز ان لوگوں کی سرشت میں تشدد اور تفرق کے جذبات یہاں سے ظاہر ہوتے ہیں اور خصوصاً حجر بن عدی اور عمرو بن حمق وغیرہ کے متشددانہ رجحانات کا اندازہ ھوتا ھے کہ یہ لوگ ابتدا ہی سے ان مسائل میں سخت ترین رَوِش اختیار کیے ہوئے تھے جو خود حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کے منشاء و مقصد کے خلاف تھی اور ان کی تعلیم و تلقین کے بر عکس تھی.

*(٢) سیدنا امام حسن (رضی اللہ عنہ) کے ارشادات*

اب ذیل میں ھم سیدنا امام حسن (رضی اللہ عنہ) اور حجر بن عدی کا ایک مکالمہ شیعہ مؤرخین کی زبان سے مختصراً نقل کرتے ہیں :

(١) جب سیدنا حسن (رضی اللہ عنہ) نے حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ مسئلہ خلافت میں مصالحت کرلی اور منصب خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپُرد کردیا اور ان سے اس امر پر بیعت کرلی تو اس وقت حجر بن عدی حضرت امام حسن (رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں پہنچے اور آپ کو اس فعل پر شرم و ندامت دلائی اور ملامت کرنے لگے اور تقاضا کیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس معاملہ میں جنگ و قتال کرنا چاہئے اور مزید کہنے لگے کہ یہ معاملہ آپ نے ایسا کردیا ھے کہ مجھے اس واقعے سے پہلے موت آجاتی تو بہتر ھوتا. اے حسن! آپ نے ہمیں عدل سے نکال کر ظلم کی طرف ڈال دیا ہے اور ہم حق کو چھوڑ کر باطل میں داخل ہوگئے ہیں جس سے ھم بھاگنا چاہتے تھے. آپ کی وجہ سے ھمیں وہ خست اور ناءت نصیب ھے جو ہمارے لائق نہیں تھی.

((وكان أول من لقى الحسن بن على ما صنع و دعاه الى ردا الحرب حجر بن عدى. فقال يابن رسول الله لوددت انى مت قبل ما رأيت اخر جتنا من العدل الى الجور فتركنا الحق الذي كنا عليه و دخلنا في الباطل الذي كنا نهرب منه واعطينا و قبلنا الخسيسة التى لم تلق بنا))

اس مکالمہ کا حاصل یہ ہے کہ حجر بن عدی اس صلح کو کسی قیمت پر قبول نہیں کرتے تھے. اور وہ امام حسن (رضی اللہ عنہ) کو اس فعل پر ملامت کرتے تھے اور ندامت دلاتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ نے بڑا ظلم کیا ھے، حق کو چھوڑ کر باطل کو اختیار کر لیا ھے حجر بن عدی حضرت حسن (رضی اللہ عنہ) کو صلح کے مقابلے میں جنگ و قتال کھڑا کرنے کی دعوت دیتے اور اس پر آمادہ کرتے تھے.

(٢) اس کے بعد یہ شیعہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسن (رضی اللہ عنہ) کو حجر بن عدی کا کلام نہایت شاق گزرا اور سخت ناگوار ھوا. چنانچہ سیدنا حسن (رضی اللہ عنہ) اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کی بڑی خواہش صلح میں دیکھی ھے اور وہ جنگ کو مکروہ جانتے تھے. اس لئے میں نے یہ بات پسند نہیں کی کہ ان کو مکروہ بات پر برانگیختہ کروں. ان حالات میں اپنے ساتھیوں کے قتل و قتال سے بچاؤ کی خاطر میں نے صلح کرلی ھے اور میں نے جنگ وجدال کو ایک وقت تک موقوف کردیا ہے.

((فاشثد على الحسن (رض) كلام حجر، فقال له انى رأيت هوى عظم الناس فى الصلح و كرهوا الحرب، فلم احب ان احملهم على ما يكرهون، فصالحت بقيا على شيغتنا خاصة من القتل، فرأيت دفع هذه الحرب الى يوم ما فان الله كل يوم هو شان)).

یہاں سے معلوم ہوا کہ حضرت امام حسن (رضی اللہ عنہ) کو حجر بن عدی کے متشددانہ و متحاربانہ نظریات ناگوار تھے اور ان کی اپنی رائے اس معاملہ میں دوسری تھی یعنی وہ فساد و انتشار کے بجائے مسلمان قوم میں صلح جوئی اور مصالحت کو پسند فرماتے تھے.

*(٣) *سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے فرمودات*

شیعہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا مکالمہ اور گفتگو کے بعد حجر بن عدی، عبیدہ بن عمرو کے ہمراہ اپنے مخالفانہ نظریات کے مطابق حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں پہنچے اور کہنے لگے کہ تم نے عزت دے کر ذلت خریدلی ہے اور تم نے کثیر کو چھوڑ کر قلیل کو قبول کرلیا ہے. آج آپ اہل زمانہ کی نافرمانی کرکے ہماری بات تسلیم کیجئے اور اپنے بھائی حسن (رضی اللہ عنہ) کو بھی چھوڑیۓ اور جو کچھ انھوں نے صلح کررکھی ہے اسے جانے دیجئے.

نمبر ١) أخبار الطول (دینوری  شیعی) ص ٢٢٠ تحت زیاد بن ابیہ طبع اول مصر.

نمبر ٢) أخبار الطوال (دینوری شیعی) ص ٢٢٠ تحت زیاد بن ابیہ.

میں اہل کوفہ وغیرہ میں سے آپ کے شیعوں اور خیر خواہوں کو جمع کرکے آپ کی خدمت میں لاتا ہوں، مجھے آپ اس معاملہ پر والی بنائیے تاکہ ھم ابن ہند (معاویہ رضی اللہ عنہ) کے ساتھ تلواروں سے جنگ وقتال کریں.

((قال فخرج من عنده ودخل على الحسين (رض) مع عبيدة بن عمرو فقالا ابا عبدالله شريتم الذل بالعز و قبلتم القليل و تركتم الكثير اطعنا اليوم اعصينا الدهر دع الحسين وما رأى من هذا الصلح واجمع اليك شيعتك من اهل الكوفة و غيرها وولني و صاحبى هذه المقدمة فلا يشعر ابن هند الا ونحن نقارعه بالسيوف)).

اس کے جواب میں سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے حجر بن عدی اور عبیدہ بن عمرو کی اس تلخ گفتگو اور قتال پر آمادہ کرنے والے کلام کے جواب میں فرمایا :ھم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کا معاہدہ کرچکے ہیں اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں، اب اس بیعت کے توڑنے کا کوئی راستہ نہیں ھے.

((فقال الحسين انا قد بايعنا و عاهدنا ولا سبيل ااى نقض بيعننا))

حضرت سیدنا حسین (رضی اللہ عنہ) کے فرمان کا حاصل یہ ہے کہ اہل اسلام میں مصالحت ھوچکی ھے، اب اس معاہدہ صلح کی عہد شکنی کرکے پھر قتال بین المسلمین زندہ کرنے کا کوئی جواز نہیں رہا، اب ھم سے معاہدہ کا خلاف نہیں ھوسکتا.

مختصر یہ ھے کہ مسئلہ (ظلماً قتل) پر پہلے مشہور مؤرخین طبری، ابن کثیر اور ابن خلدون وغیرہ کے بیانات ھم نے پیش کیۓ ہیں ان میں اس گروہ کے نظریات اور جارحانہ اقدامات واضح طور پر سامنے آ گئے ہیں. اس جماعت کے سرکردہ لیڈران حجر بن عدی اور عمرو بن حمق تھے. ان لوگوں کی تمام جدوجہد مساعی و افتراقی نوعیت کی تھیں اور حرب وقتال کھڑا کرنے میں پیش پیش تھے.

پھر اس کے بعد ھم نے شیعہ کے اکابر مؤرخین کے بیانات درج کیے ہیں جن سے اصل مسئلے کی تائید مطلوب ہے. اور شیعہ کے مندرجات سے بھی یہ بات عیاں ھوتی ھے کہ جن اکابر علوی حضرات کا یہ خانگی مسئلہ تھا (حضرات حسنین کریمین (رضی اللہ عنہم) ان کے فرمودات و نظریات حجر بن عدی اور عمرو بن حمق وغیرہ کی جارحانہ رائے کے بالکل برعکس پائے جاتے تھے.

ان تمام امور پر نظر کرلینے کے بعد یہ چیز ثابت ھوتی ھے کہ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے جو ان لوگوں کے قتل کا اقدام کیا ھے وہ حسب قواعد شرعی پوری شہادتیں حاصل کرنے اور جرم ثابت ھوجانے کے بعد کیا.

نمبر (١)أخبار الطول (دینوری شیعی) ص ٢٢٠ تحت زیاد بن ابیہ۔

نمبر ٢. اخبار الطول (دینوری شیعی)  ص ٢٠٠ تحت زیاد بن ابیہ طبع اول مصر۔

یہ کام خلاف شرع نہیں کیا اور نہ ظلماً قتل کیا  گیا ھے بلکہ اس کے لئے شرعی جواز کے اسباب و عوامل موجود تھے. یہ لوگ خلیفہ وقت کی نظروں میں فساد فی الارض کی سعی کررہے تھے اور اہل اسلام کے مرکزی وفاق اور اجتماعی قوت کو پارہ پارہ کرنا چاہتے تھے. یہ چیزیں بغاوت کی حدود میں آتی ہیں جن کے فرو کرنے میں خلیفة المسلمین بااختیار ھے۔

*اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ*

مؤرخین نے لکھا ہے کہ مرج عذرا کے مقام پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجر بن عدی اور اس کے چند ساتھیوں کو وجود قتل ثابت ہونے پر قتل کروادیا تھا. حجر بن عدی کے دو بیٹے عبداللہ اور عبدالرحمن تھے جو اپنے آپ کو متشیع کہتے تھے. یہ دونوں بھائی عبداللہ ابن زبیر (رضی اللہ عنہ) کی خلافت کے سخت خلاف تھے اور ان کی اطاعت تسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کے خلاف بغاوت کی شورش برپا کیے ہوئے تھے۔

ابن تشبیہ لکھتے ہیں کہ اس بغاوت کی بنا پر ان دونوں بھائیوں کو عبداللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) کے بھائی مصعب بن زبیر نے قتل کر دیا تھا۔

((حجر بن عدى....... فقتله معاوية بمرج عذراء مع عدة وكان له ابنان متشبعان يعالى لها عبدالرحمن قتلهما مصعب بن زبير صبرا)).

مطلب یہ ہے کہ خلیفہ وقت کے خلافت بغاوت کرنے والوں کو ان کی شورش کی بنا پر قتل کردیا جاتا ہے. حجر بن عدی کا قتل جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوا تھا وہ ان دونوں بھائیوں کے قتل کے مشابہ ھے. اسلامی مملکت کی حفاظت کی خاطر اس نوع کے قتل تاریخ میں پائے جاتے ہیں.

*حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کے تاثرات*

مؤرخین لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب معلوم ہوا کہ حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں کو خلیفہ وقت کے خلاف متشددانہ مساعی کی بنا پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے قتل کی سزا کا حکم صادر کیا گیا ھے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ازراہ شفقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں کی سزا معاف کرنے کے لئے قاصد بھیجا. لیکن جب حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان لے کر قاصد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں پہنچا تو حجر بن عدی اور اس کے کچھ ساتھی پہلے ہی قتل ھوچکے تھے لہٰذا حضرت صدیقہ (رضی اللہ عنہ) کے فرمان کی رعایت نہ کی جاسکی. البدایہ میں ھے کہ

((و جا رسول عايشة بعد ما فرغ من شأنهم))

البدایہ (ابن کثیر) ص٥٤ج٨تحت سنہ ٥١ھ (حالات واقعہ ہذا)

تاریخ ابن خلدون ص ٢٩ج ٣ تحت بحث معاویہ العمال الی الامصارطبع بیروت.

جب یہ واقعہ رونما ہوچکا تو اس کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ایک بار مدینہ منورہ تشریف لائے اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا. دوران گفتگو حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں کے قتل کا ذکر آیا.

اس مقام پر مؤرخین نے متعدد روایات اس گفتگو کے متعلق ذکر کی ہیں :

بعض روایات میں ھے کہ جب حضرت صدیقہ (رضی اللہ عنہا) نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے حجر بن عدی وغیرہ کے قتل کے سلسلے میں بطور شکوہ گفتگو کی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا.

((لست انا قتلهم انما قتلهم من شهد علیھم))

یعنی میں نے ان لوگوں کو قتل نہیں کیا بلکہ جن لوگوں نے ان کے خلاف گواہی دی ھے انھوں نے قتل کیا ھے.

مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے قتل کا باعث اصل میں وہ شہادتیں ہیں جو ان کے خلاف حسب قاعدہ قائم ہوئیں اور ان گواہیوں کی بنا پر یہ نتیجہ مرتب ہوا.

(٢) ایک دوسری روایت میں ہے کہ

((قالت له حجرا فقال وجدت فى قتله صلاح الناس و خفت من فسادهم))

یعنی حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کیا آپ نے حجر بن عدی کو قتل کردیا؟ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ان کے قتل میں لوگوں کی بھلائی اور بہتری تھی، میں نے ان لوگوں کے شرور و فساد سے خوف کھایا (اس وجہ سے یہ اقدام کیا گیا)

اسی طرح ایک دیگر روایت اس طرح ھے کہ

((فلما حج معاوية (رض) قالت له عائشة (رض): ابن غاب عنك حلمك حين قتلك حجرا!؟ فقال حين غاب عنى مثلك من قومى))

نمبر ١. تاريخ ابن جرير طبرى ص ١٥٦ج٦تحت سنه ٥١ھ

سيرت حليه ص ١٩١ج٣تحت سرية الرجيع (حالات خبيب (رضی اللہ عنہ) کے آخر میں)

نمبر ٢ تاریخ اسلام (ذہبی) ص ٢٧٦ج ٢ تحت حجر بن  عدی طبع اول مصر دول الاسلام (ذہبی) ص ٥٥ج٨تحت سنہ ٥١ ھ

البدایہ (ابن کثیر) ص ٥٥ج٨ تحت واقعہ ہذا سنہ ٥١ھ.

نمر٣. البدایہ والنہایہ ( ابن کثیر) ص ٥٤ج ٨ تحت واقعہ ہذا سنہ ٥١ھ

تاریخ ابن خلدون ص٢٩ج ٣ تحت بعث معاویہ العمال الی الامصار.

یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حجر بن عدی کے قتل کے موقع پر اے معاویہ (رضی اللہ عنہ)! آپ کی حلم و بردباری کہاں غائب ھو گئی؟ تو حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے گزارش کی کہ مسلمان قوم میں سے جب آپ جیسی (خیر خواہ) شخصیت میرے پاس موجود نہ تھی اس بنا پر یہ واقعہ رونما ہوا۔

(٤) نیز اس پر یہ چیز بھی اہل روایات ذکر کرتے ہیں کہ جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حجر بن عدی وغیرہ کے قتل سے متعلق گفتگو ہوئی اور حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اظہار افسوس کرتے ہوئے اہل عذراء کے قتل کا ذکر کیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں نے امت کی اصلاح ان لوگوں کے قتل میں دیکھی اور ان کی بقا میں امت کا فساد معلوم کیا، اس بنا پر یہ معاملہ پیش آیا۔

*تنبیہ*

مذکورہ بالا روایت کے بعض مقامات پر مندرجہ ذیل کلمات کا اضافہ پایا جاتا ہے :

((فقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول سيقتل بعذرا ء ناس يغضب الله لهم واهل السماء))

یعنی حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سنا، آپ فرماتے تھے عنقریب عذراء کے مقام پر بعض لوگ قتل کئے جائیں گے. اللہ تعالیٰ اور آسمان والے ان کی وجہ سے غضبناک ھونگے.

ناظرین کرام اس اضافے کے متعلق یاد رکھیں کہ حافظ ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) نے اس کے متعلق تحریر کیا ھے کہ  هٰذا اسناد ضعيف منقطع. یعنی یہ روایت راویوں کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ھے اور سلسلہ سند میں إنقطاع پایا جاتا ہے. یہ اضافہ کئی مقامات پر دستیاب ھوتا ھے. اس کے متعلق ناظرین کرام متنبہ رہیں کہ اصل روایت میں راویوں نے یہ جملہ الحاق کرکے اضافہ کردیا ہے. تاکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں مزید تقبیح پائی جائے اور تنفر قائم رہ سکے.

دیگر گزارش یہ ہے کہ اگر بالفرض مندرجہ بالا روایت کو علٰی سبیل التنزل درست تسلیم کر بھی لیاجائے تو علماء نے یہ تصریح کردی ھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں اپنے فعل پر برملا معذرت کردی تھی اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان کی اس معذرت کو قبول فرمالیا تھا.

((وفى رواية...... فلم يزل يعتذر حتى عذرته وفى رواية فلما اعتذر إليها۔

نمبر ١. المعرفہ التاريخ (یسوی) ص ٣٢٠.٣٢١ ج ٣ تحت سنہ ٥١ھ۔

نمبر ٢ البدایہ ابن کثیر ص٥٥ج٨تحت سنہ ٥١ھ(بحث ہٰذا)۔

یہاں سے واضح ہے کہ اس طریقہ سے ان دونوں حضرات کا باہمی رنج وملال ختم ہوگیا تھا اور یہ باہم کشیدہ خاطر نہیں رہے تھے۔

روایت کے اعتبار سے

کلام مذکور بااعتبار روایت کے ذکر ہوا ہے۔

ذیل میں بااعتبار روایت یہ چیز ذکر کی جاتی ھے کہ اگر اہل عذراء کے قتل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور اہل سماء ناراض ہیں (جیسا کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت بالا میں مذکور ھے) تو پھر صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اہل عذراء کے قاتلین (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے حکام) کے ساتھ روابط اور مراسم کیسے جاری رکھے؟ جب یہ لوگ اللہ کی طرف سے مغضوب تھے اور ظالم تھے اور حق سے تجاوز کرنے والے تھے.

حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلقات کے مستقل عنوان قائم کئے گئے ہیں اس کے تحت وہ مراسم مذکور ہیں. ھم بھی (ان شاء اللہ تعالیٰ) اس عنوان کو اسی تصنیف میں اپنے موقع پر ذکر کریں گے.

مختصر یہ ھے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ان افعال کے بعد ان سے تعلقات منقطع نہیں کیے اور بدستور سابق روابط قائم رکھے. اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ان کے وظائف وغیرہ جاری رہے اور حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا تازیست یہ وظائف وصول فرماتی رہیں. مزید تفصیلات اپنے موقع پر درج ھونگی. ان شاء اللہ تعالیٰ.

حاصل یہ ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی گفتگو سے یہ چیز ثابت ھوتی ھے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بطور شِکوہ کلام فرمایا اور اس واقعہ پر اظہار افسوس کیا اس قتل کو شرعاً ناجائز اور ظلم قرار نہیں دیا. یعنی ان کی خواہش تھی کہ حلم و بردباری کا برتاؤ کرتے ہوئے اہل عذراء کو معاف کردیا جائے. اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مؤقف یہ تھا کہ انہوں نے امت میں ایک بہت بڑے قتال کے کھڑے ھونے سے قوم کو بچانا ضروری سمجھا اور فساد کی بیخ کنی کرنے کو لازم جانا، اس بنا پر درگزر نہیں کیا.

*ایک شبہ کا ازالہ برائے قول حسن بصری تابعی (رحمة اللہ علیہ)*

اس مقام پر طعن کرنے والے احباب کی طرف سے حضرت حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) کا ایک قول نقل کیا جاتا ھے جس میں انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر چند چیزوں کی بنا پر عیب لگایا ھے، ان میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں کو قتل کیا. وقتله حجرا ويلا له من.

نمبر ١.البدايه ابن كثير ص ٥٥ ج ٨ تحت سنہ ٥١ھ(بحث ہذا)۔

*حجر و اصحاب حجر مَرَّتين*

تو اس شبہ کا ازالہ کے متعلق ذیل میں بعض چیزیں ذکر کی جاتی ہیں، ان پر توجہ فرمائیں :

(١) گزارش یہ ہے کہ یہ روایت جو حضرت حسن بصری (رحمہ اللہ علیہ) کی طرف منسوب کی گئی ہے اس کا راوی ابومخنف (لوط بن یحییٰ) ھے اور لوط بن یحییٰ کٹر شیعہ اور رافضی ھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اعلٰی درجے کے مخالفین و معاندین میں سے ھے.

چنانچہ ابو مخنف نے حضرت حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) سے منسوب اس قول کو خود تصنیف کرکے حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے اربع خصائل کے نام سے موسوم کیا ھے. ان خصائل میں سے ایک حجر بن عدی کا قتل ھے. لہٰذا حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) سے منسوب روایت جس میں چار خصائل کا بطور طعن ذکر کیا گیا ھے یہ قابل قبول نہیں.

ابو مخنف لوط بن یحییٰ کے متعلق کتب رجال میزان الاعتدال (امام ذہبی رحمة اللہ علیہ) ولسان المیزان (ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ) وغیرہ میں نقد و جرح موجود ھے ملاحظہ فرمائیں).

(١) دوسری چیز یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین جو قتال و حروب واقع ہوئے ہیں ان کے حق میں خود حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) کی طرف سے امت کو نصائح موجود ہیں کہ ان حضرات کے ساتھ ہماری عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ ھم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں کفّ اللسان کریں اور عیب جوئی و نکتہ چینی سے زبان کو روک کر رکھیں.

حضرت حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) کی یہ نصیحت باالفاظ ذیل مذکور ھے، ملاحظہ فرمائیں :

((و قد سئل الحسن البصرى عن قتالهم فقال :قتال شهده أصحاب محمد (ص) و غبنا، وعلموا وجهلنا واجتمعوا فاتبعنا واختلفوا فوقنا))

یعنی جب حضرت حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین قتال کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ان واقعات میں خود حاضر اور شاہد تھے

جب کہ ھم غائب تھے. انہیں ان واقعات کا براہ راست علم تھا اور ھم اصل حالات سے ناواقف ہیں. جن چیزوں پر ان کا اجماع ھوا ھم نے ان کی أتباع کی، اور جن امور میں ان کا اختلاف ھوا ھم ان میں متوقف ہیں (یعنی کف اللسان کئے ہوئے ہیں).

(٣) نیز اسی طرح ایک دیگر چیز حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) سے مروی ھے جس سے بھی معلوم ھوتا ھے کہ حضرت حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف ذہن نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کی دینی عظمت کے قائل تھے.

نمبر ١) تاریخ ابن جریر طبری ص ١٥٧ ج ٦ طبع قدیم تحت سنہ ٥١ھ

نمبر ٢) تفسیر قرطبی ص ٣٢٢ ج ١٢ تحت آیات سورة الحجرات۔

وہ اس طرح ھے کہ قتادہ (رحمة اللہ علیہ) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) کی خدمت میں عرض کیا کہ بعض لوگ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت دوزخ میں جائے گی. یہ بات سن کر حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) نہایت برافروختہ ھوکر کہنے لگے کہ ایسے لوگوں پر خدا کی لعنت ھو، ان کو کس شخص نے بتلادیا کہ وہ دوزخ میں ھوں گے؟؟؟ یعنی اس چیز کا علم انہیں کیسے ھوگیا اور کس طرح یہ فیصلہ انہوں نے کر لیا؟؟؟

((حدثنا قتادة عن الحسن قالت قلت يا أبا سعيد! ان ناسا يشهدون على معاوية وذويه انهم فى النار فقال لعنهم الله وما يدريهم انهم فى النار))

حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) کے ان بیانات کی روشنی میں یہ بات واضح ھوتی ھے کہ حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف رحجانات نہیں رکھتے تھے اور ان پر طعن و تشنیع کرنے کے روادار نہیں تھے. پس مذکورہ روایت جس میں اربعہ خصائل کا طعن مذکور ھے وہ روایت حضرت حسن بصری (رحمة اللہ علیہ) کے دیگر واقعات اور بیانات کے خلاف پائی جاتی ہے، اس لئے اس کو صحیح نہیں سمجھا جاسکتا، حقیقت میں وہ ان کی طرف منسوب کی گئی ہیں اور ان کا کلام نہیں ھے بلکہ بعض معاندین صحابہ کرام  نے ان کی طرف منسوب کردیی ہیں۔

حاصل یہ ہے کہ اس قول پر روایتاً اور درایتاً کلام کردیاگیا ھے انصاف کے ساتھ اس پر غور فرمائیں اور جو حق بات ھو اس کو قبول کریں. اللہ ہمیں حق بات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطاء فرماۓ۔ اور ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے خلاف چلنے سے بچنے کی توفیق اور سعادت عطاء فرماۓ۔

آمین یارب العالمین۔