سُنی و شیعہ کے نزدیک حدیث و سنت کا مفہوم اور مصداق(قسط1)
مولانا سمیع اللہ سعدیسُنی و شیعہ کے نزدیک حدیث و سنت کا مفہوم اور مصداق
اہل تشیع ( خاص طور پر اثنا عشریہ ) اسلامی تاریخ کا واحد گروہ ہے ، جنہوں نے اہل سنت کے مقابلے میں جداگانہ ، ممتاز اور لاکھوں روایات پر مشتمل اپنا علم حدیث ترتیب دیا ہے ، جو بعض اعتبارات سے اہل سنت کے حدیثی ذخیرے سے بالکل الگ تھلگ ہے ، اہل تشیع نے احادیث ، موضوعات ، کتب کی ابواب بندی ، مضامین ، مفاہیم ، اصطلاحات ،رواۃ ،اصول و قواعد سب اپنے ترتیب دیے۔اس مقالے میں اہل تشیع اور اہل سنت کے حدیثی ذخیرے کا ایک تقابلی جائزہ پیش کیا جائے گا ، اس جائزے کا مقصد فریقین کے حدیثی ذخیرے کے فروق و مشترکات کا تعارف ہے، یہ ایک علمی و تحقیقی سر گرمی ہے ، اس لئے اسے مناظرانہ پس منظر کے بجائے خالص تحقیقی نظر سے دیکھا جائے۔
بحث اول : اصطلاحات و مفاہیم
اہل سنت اور اہل تشیع کے علم حدیث کا بنیادی فرق اصطلاحات و مفاہیم کا الگ الگ تصور ہے ، ان علیحدہ مفاہیم کی وجہ سے فریقین کا علم حدیث ایک دوسرے سے کلی طور پر مختلف ہو جاتا ہے ، ذیل میں چند اہم اساسی امور کے متعلق فریقین کا نظریہ بیان کیا جاتا ہے۔
اہل سنت کے ہاں حدیث و سنت کا مصداق آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا قول ، عمل اور تقریر ہے۔ (یہاں سنت کا لفظ مستقل تشریعی ماخذ کے پس منظر میں بولا جارہا ہے ، ورنہ توسعا اہل سنت کے ہاں حدیث و اثر یا سنت کا اطلاق خلفائے راشدین کے اقوال پر بھی ہو جاتا ہے ۔ لیکن یہ اطلاق محض مجازی اور قول الرسول کے تابع ہے ۔ تشریع کا مستقل اور واجب الاتباع ماخذ سنت بمعنی قول، فعل او تقریر الر سول ہی ہے ، فافہم۔)، جبکہ اہل تشیع کے ہاں حدیث و سنت کا اطلاق آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے اقوال ، افعال و تقریرات سمیت بارہ ائمہ معصومین کے اقوال ، افعال اور تقریرات پر بھی ہوتا ہے اور بارہ ائمہ کے اقوال وفرامین بھی تشریع کا مستقل ماخذ اور حدیث و سنت کا مصداق ہیں ، معروف شیعہ عالم حیدر حب اللہ اپنی کتاب " نظریۃ السنۃ فی الفکر الامامی الشیعی " میں لکھتے ہیں :
و اما في الاصطلاح الخاص بعلوم الدراية و الحديث و المتعارف في العلوم الدينيه عادة، فتعنى بالسنة قول النبي صلى الله عليه وسلم او المعصوم علیه السلام او فعله او تقريره "(نظریة السنة في الفکر الامامی الشیعی ، ص 24)
یعنی علم حدیث و علم درایہ اور علوم دینیہ میں لفظ سنت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا معصوم (علیہ السلام ) کا قول ، فعل اور تقریر ہے ۔
معروف شیعہ عالم شیخ رضا المظفر لکھتے ہیں :
و اما فقہاء الاماميه بالخصوص فلما ثبت لديهم ان المعصوم من ال البيت يجرى قوله مجرى قول النبي من كونه حجة على العباد واجب الاتباع ،فقد توسعوا في اصطلاح السنه الى ما يشمل قول كل واحد من المعصومين او فعله او تقريره (اصول الفقه للمظفر ،2/55)
یعنی شیعہ کے ہاں چونکہ ائمہ معصومین کے اقوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی طرح بندوں پر حجت اور واجب الاتباع ہیں ، اس لئے فقہائے امامیہ نے سنت کی اصطلاح میں توسیع کرتے ہوئے ائمہ معصومین کے اقوال، افعال اور تقریرات کو بھی سنت شمار کیا ہے ۔
سنت و حدیث کی اصطلاح کا یہ فرق بنیادی ترین اختلافی نکتہ ہے ، اس نکتے پر دونوں حدیثی ذخیرے ممتاز اور ایک دوسرے سے سے بالکلیہ جدا ہو جاتے ہیں ، اہل سنت کے ہاں جب حدیث کا محور آپ علیہ السلام کی ذات گرامی ہے ، تو تمام حدیثی سرگرمیاں آپ علیہ السلام کے گرد گھومتی ہیں ، محدثین کی تالیفات کا بنیادی مقصد آپ علیہ السلام کے فرامین کی جمع و تدوین ہے ، فقہاء واصولیین کے حدیثی مستدلات کا منبع آپ علیہ السلام کی ذات اقدس ہے ، جبکہ اہل تشیع کے ہاں حدیثی سر گرمی میں بارہ ائمہ معصومین کے اقوال بھی شامل ہیں اور ائمہ معصومین کے اقوال بوجہ ماخذ تشریع ہونے کے حفاظت و تدوین میں اس اہتمام کی متقاضی ہیں ،جو اہتمام اقوال رسول علیہ السلام
کی حفاظت میں کیا جاتا ہے ۔ اہتمام اور توجہ کی اس دوئی کی وجہ سے سنت کی جمع و تدوین اور اس کی حفاظت و نقل میں بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ، جس کا بیان آگے آئے گا۔