سنی و شیعہ کے مابین عدالت صحابہ کا مسئلہ اور اس کے نتائج(قسط 2)
مولانا سمیع اللہ سعدیسُنی و شیعہ کے مابین عدالت صحابہ کا مسئلہ اور اس کے نتائج
مفاہیم و تصورات میں دوسرا بنیادی مسئلہ صحابہ کرام کی عدالت اور ان سے مروی روایات کا حکم ہے ، اہل سنت کے ہاں تمام وہ حضرات ، جن کی صحابیت ثابت ہے ، ان کی روایت قابل قبول ہے ،
"الصحابة کلہم عدول"
والا اصول اہل سنت کا متفقہ موقف ہے ، لہذا اہل سنت کے نزدیک صحابہ کے بعد رواۃ کی جانچ پڑتال ہو گی ، خود صحابہ میں اگرچہ درجات میں تقاضل ہے ، لیکن روایت کے اعتبار سے جملہ صحابہ عادل کے مقام پر فائز ہیں ، جبکہ اس کے بر خلاف اہل تشیع صحابہ کے ساتھ بھی بقیہ رواۃ جیسا معاملہ کرتے ہیں اور ان کے ہاں صحابہ میں بھی عادل ، فاسق ، منافق ، بدعتی اور دیگر اقسام موجود ہیں ، اس لئے اہل تشیع صرف عادل صحابہ کی روایات قبول کرتے ہیں اور عادل صحابہ سے مراد وہ صحابہ ہیں ، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے رہے ، چنانچہ معروف شیعہ عالم احمد حسین یعقوب "نظریۃ عدالۃ الصحابہ " میں لکھتے ہیں :
"كل الذين وقفوا مع على و والوه هم صحابة عدول "(نظریۃ عدالۃ الصحابہ ، ص77)
اب سوال یہ ہے وہ کتنے صحابہ ہیں ، جن کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ موالات ثابت ہیں ، تو معروف شیعہ محدث شیخ جعفر سبحانی لکھتے ہیں :
و قد قمنا بتاليف كتاب حول صحابة النبي الذين شايعوا عليا في حياة النبي و بعد رحلته الى ان لفظوا آخر نفس من حياتهم فبلغ عددهم 250 شخصا "(کلیات فی علم الرجال، ص494)
یعنی ہم نے ان صحابہ کے حالات پر ایک کتاب لکھی ہے ، جو زمانہ نبوت اور اس کے بعد آخر وقت تک حضرت علی کے ساتھی رہے ، تو ان کی تعداد 250 تک جا پہنچی۔
ویسے تو صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے زائد کتب تاریخ میں منقول ہے ، لیکن جن صحابہ کے احوال (خواہ قلیل ہو یا کثیر) محفوظ ہیں، ان کی تعداد بارہ ہزار سے اوپر ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب "الاصابہ فی تمییز الصحابہ "جو احوال صحابہ میں مفصل کتاب شمار ہوتی ہے ، اس میں 12446 تراجم مذکور ہیں، (ان میں سے اگر ان صحابہ کو نکال لیا جائے، جن کی صحبت مختلف فیہا ہے ، تو تعداد اس سے کم بنتی ہے۔) اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے کتنے صحابہ کرام سے روایات منقول ہیں ، تو اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ، امام ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں امام حاکم ابو عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ راویان حدیث صحابہ کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے ۔
(البدایہ والنھایہ ، دار هجر للطباعة والنشر ، قاہرہ،8/360 )
لیکن اس پر خود اشکال وارد کر کے کہتے ہیں کہ مسند احمد ، جو موجود دواوین میں حدیث کی سب سے بڑی مسند ہے ، اس میں 987 صحابہ کی مروایات ہیں ، تو بقیہ کتب، جو مسند احمد سے کم حجم کی حامل ہیں ، ان میں اس سے بھی کم صحابہ کی مرویات ہونگی؟ اسی طرح امام ابن حزم نے راویان صحابہ کے اسماء اور ان کی مرویات پر ایک کتاب
"اسماء الصحابہ و ما لكل واحد منهم من العدد"
لکھی ہے جس میں 999 نام جمع کئے ہیں ، لیکن اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب مسند بقے بن مخلد میں مذکور رواۃ صحابہ کے نام پر مشتمل ہے ۔
الغرض رواۃ صحابہ کی تعداد قطعی طور پر تو کسی نے استیعاب کے ساتھ بیان نہیں کی ، لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق جمیع کتب حدیث کے رواۃ صحابہ کی تعداد دو ہزار کے قریب قریب بنتی ہے ، اگر اس میں مزید کمی کریں ، تو پندرہ سو کے لگ بھگ رواۃ صحابہ بنتے ہیں ، ان میں سے اہل تشیع کے ہاں صرف ڈھائی سو کی روایات قابل قبول ہیں ، یوں اہل تشیع رواۃ صحابہ میں سے صرف پندرہ فیصد صحابہ کی روایات لیتے ہیں ، اور پچھتر فیصد رواۃ صحابہ کو غیر عادل قرار دے کر ان کی روایات رد کرتے ہیں ، جن میں مکثرین صحابہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عائشہ جیسی شخصیات بھی شامل ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت صحابہ کے نظریے کو نہ ماننے کی صورت میں کتنی احادیث کو رد کرنا پڑیں گی ، یہی وجہ ہے کہ شیعہ کتب احادیث میں مرفوع روایات انتہائی قلیل ہیں ہم نے کتب اربعہ کی پہلی جلدوں کا باالاستیعاب صفحہ بہ صفحہ جائزہ لیا اور مرفوع روایات کو الگ کیا ، تو تعداد کچھ یوں بنی :
1: ۔الکافی ( دار الحديث للنشر والطباعۃ، قم )
کی پہلی جلد میں 758 روایات ہیں ، جن میں مرفوع ، خواہ قولی ہو یا فعلی ، یا دور نبوت کا کوئی بھی واقعہ ، اس کی تعداد 45 ہیں ، احتیاطا 50 فرض کر لیتے ہیں ، جو اس جلد کی کل روایات کا صرف 7 فیصد ہے ۔
2: ۔ من لا یحضرہ الفقیہ ( موسسہ الا علمی للمطبوعات )
کی پہلی جلد میں 1573 روایات ہیں ، جن میں مرفوع ( قولی و فعلی) 141روایات ہیں ، اسے ہم احتیاط 150 فرض کر لیتے ہیں، یوں یہ پہلی جلد کی روایات کا تقر یبا دس فیصد ہے ۔
3: ۔ تہذیب الاحکام ( دار الکتب الاسلامیہ ، تہران )
کی پہلی جلد میں 1541 روایات ہیں ، جن میں مرفوع ( قولی و فعلی ) 95 روایات ہیں ، ہم احتیاطا 100 شمار کر لیتے ہیں ، جو پہلی جلد کی روایات کا تقریباسات فیصد ہے۔
4: ۔الاستبصار فیما اختلف من الاخبار ( دار الاضواء ، بیروت )
کی پہلی جلد میں کل 1885 روایات ہیں ، جن میں مرفوع روایات ( قولی و فعلی ) 55 ہیں ، احتیاطا 60 شار کر لیتے ہیں ، جو اس جلد کی کل روایات کا صرف 3 فیصد ہے۔
یوں کتب اربعہ کی پہلی چار جلدوں کی کل روایات 5757 ہیں ، جن میں مرفوع روایات ( قولی ، فعلی ) صرف 360 ہیں ،جو 5757 روایات کا تقر یبا ساڑھے چھ فیصد بنتا ہے ،ان میں اگر مکررات کو نکال لیا جائے تو تعداد اس سے کہیں کم بنے گی ۔ (مذکورہ تعداد مقالہ نگار نے خود ان کتب کی پہلی جلدوں کے تمام صفحات کا بالاستیعاب جائزہ لینے کے بعد نکالی ہے ۔)
مرفوع روایات کی قلت کا اشکال عمومی طور پر اہل تشیع محققین یہ جواب دیتے ہیں کہ ائمہ معصومین کے اقوال بھی دراصل آپ علیہ السلام کے فرمودات ہیں کیونکہ کتب شیعہ میں مذکورہ سب روایات ہی مرفوع کے حکم میں ہیں، لیکن یہ جواب اصل سوال کو حل نہیں کرتا ، کیونکہ ائمہ معصومین کے فرمودات اس لئے مرفوع کے حکم میں ہیں کہ وہ خود اہل تشیع کے ہاں عصمت کے مقام پر فائز ہیں، منصوص من اللہ ہیں اور ان کے اقوال خود حجت ہیں ، تو بارہ ائمہ کے اقوال مرفوع کے حکم میں ہونے کے باوجود اقوال ائمہ ہیں ، ناکہ اقوال رسول ، سوال یہ تھا کہ آپ علیہ السلام کے ارشادات ، فرامین اور آپ کی عملی زندگی سے متعلق کتب شیعہ میں مواد اتنا کم کیوں ہے؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ ائمہ کے اقوال بے شک اہل تشیع کے اصولوں کے مطابق حجت اور تشریع کا ماخذ ہیں ، لیکن براہ راست آپ علیہ السلام کے اقوال و افعال کا حجم کتب شیعہ میں اقوال ائمہ کی بنسبت آٹے میں نمک کے برابر کیوں ہے؟ ائمہ کے اقوال سے تو تشریع کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے ، لیکن ائمہ کے اقوال و فرامین سے آپ علیہ السلام کی حیات مبارکہ کی قولی و عملی زندگی کی تصویر سامنے نہیں آتی ، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ائمہ کے اقوال حکم و اطاعت میں اقوال رسول کی طرح ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ یہ بات بدیہی ہے کہ قول امام حکما قول رسول ہے نا کہ حقیقتا قول رسول ، سوال دوسرے نکتے سے متعلق ہے نا کہ پہلے نکتے سے ۔
الغرض اہل سنت واہل تشیع کے علم حدیث کے مفاہیم و تصورات میں دوسرا بڑافرق عدالت صحابہ کا مسئلہ ہے ، اوپر ذکر کردہ تفصیل سے اس مسئلے کے نتائج بخوبی واضح ہوتے ہیں۔