Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیرت سیدنا یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ

  محقق کبیر مولانا نافع رحمہ اللہ

سیرت سیدنا یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ

نام و نسب:

حضرت ابوسفیانؓ صخر بن حرب کے مشہور فرزند کا پدری نسب یزیدؓ بن ابی سفیانؓ بن حرب بن امیہ بن عبدالشمس بن عبد مناف ہے۔ اور آپ کی والدہ کا نام زینب بنت نوفل بن خلف ہے۔ اور آپ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیانؓ کے سوتیلے بھائی ہیں۔

سیدنا یزید رضی اللہ عنہ بہت جلیل القدر شخصیت تھے اور فضلاء صحابہ میں ان کا شمار کیا جاتا تھا۔ آپ فطرتاً شریف النفس اور سلیم الطبع واقع ہوئے تھے اور اپنے بہترین کارناموں کی بدولت ان کو یزیدُ الخیر کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ اور آپؓ بڑے عقیل، دانش مند اور جری لوگوں میں سے تھے ۔

چنانچہ علامہ الذھبیؒ نے ان کا تذکرہ بالفاظ ذیل تحریر کیا ہے: وکان جلیل القدر شریفا سیدا فاضلا

(تاریخ اسلام للذھبی: صفحہ، 25 جلد، 2 تحت سنہ 18 ہجری)

اور ایک دوسرے مقام میں لکھا ہے: کہ وکان من العقلاء والالباء و الشجعان المذکورین۔

قبول اسلام اور غزوہ حنین میں شرکت:

سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نبی اقدسﷺ کے عہد میں فتح مکہ کے موقع پر اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوئے اور ان کا اسلام نبیﷺ نے قبول فرمایا۔ آپؓ عمر بھر اسلام پر مضبوطی سے قائم رہے اور اعلیٰ اسلامی خدمات سر انجام دینے میں پیش پیش رہے اور بڑے فعال ثابت ہوئے۔ آپؓ اسلام کے مجاہدین میں سے ایک نامور مجاہد تھے۔

سب سے اول آپؓ نے غزوہ حنین میں شرکت کی اور غنائم میں وافر حصہ پایا۔ ان کی دینی خدمات کو محدثین اور مؤرخین نے بڑے عمدہ انداز میں ذکر کیا ہے۔

چنانچہ طبقات ابنِ سعد میں ہے کہ

اسلم یزیدؓ یوم فتح مکہ وشھد مع رسول اللہﷺ حنین واعطاہ رسول اللہﷺ من غنائم حنین مائه من الابـل وأربـعـيـن اوقـيـه ولـم يـزل يـذكـر بـخـيـر۔

  1.  (طبقات ابن سعد: صفحہ، 127 جلد، 7) (القسم الثاني تحت تذکر و یزید بن ابی سفیان)
  2.  (البدایہ لابن کثیر صفحہ، 95 جلد، 7 تحت تذکرہ یزیدؓ بن ابی سفیانؓ)
  3.  (تاریخ ابن عساکر عکسی: صفحہ 307 جلد، 18 تحت یزیدؓ بن ابی سفیانؓ)
  4.  (سیر اعلام النبلاء للذھبی: صفحہ 237،238 جلد، اول تحت یزیدؓ بن ابی سفیانؓ)

یعنی فتح مکہ کے روز سیدنا یزیدؓ بن ابو سفیانؓ اسلام لاۓ اور غزوہ حنین میں پیغمبرﷺ کی معیت میں شامل ہوئے۔

اس غزوہ میں فتح کے بعد مال غنیمت میں سے نبیﷺ نے ان کو ایک سو اونٹ اور چالیس اوقیہ (درہم) عنایت فرمائے۔ اور لوگ ہمیشہ ان کو یزید الخیر کے نام سے ذکر کرتے تھے۔

نسب کتابت:

اہلِ سیرت جہاں نبی اقدسﷺ کے کاتبوں کا ذکر کرتے ہیں، وہاں سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو بھی کاتبِ نبوی شمار کرتے ہیں۔

چنانچہ ابن حزم نے جوامع السیرة میں نبیﷺ کے کاتبوں کے نام جہاں ذکر کیے ہیں، وہاں ان کا نام آٹھویں مقام پر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اسماء سے قبل ذکر کیا ہے۔

(جوامع السيرة لابن حزم اندلسی: صفحہ، 26 تحت کتابہﷺ)

اسی طرح علی بن برہان الدین الحلبیؒ نے اپنی سیرۃ حلیبہ میں متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کاتبین نبویؐ میں شمار کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ: مـعـاويـهؓ بـن ابـی سـفـيـانؓ واخـوه يـزيـدؓ

ترجمہ: یعنی حضرت امیر معاویہؓ اور ان کے بھائی یزیدؓ بن ابی سفیانؓ” (دونوں کاتب نبوی تھے)

دینی اعتماد کے سلسلہ میں کاتب نبوی ہونا اس شخص کے لیے وثاقت کی دلیل اور صداقت کا بہترین نشان ہے اور یہ شرف خاص خاص لوگوں کو ہی حاصل تھا۔

منصب امارت:

سیدنا یزیدؓ بن ابو سفیانؓ اپنی طبعی صلاحیتوں کی بناء پر بڑے مستعد کارکن تھے۔ چنانچہ جس طرح نبیﷺ نے ان کے چھوٹے بھائی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو مختلف امور پر عامل بنا کر روانہ فرمایا تھا اسی طرح ان کو بھی نبیﷺ نے علاقہ تیماء پر امیر بنا کر روانہ فرمایا۔

چنانچہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ

يـزيـد بـن ابـی سـفـيـان امرہ (نبیﷺ) علی تیماء اور ایک اور مقام پر مؤرخین نے لکھا ہے کہ

نبیﷺ نے سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو قبیلہ بنی فراس (جو آپ کے ننہالی رشتہ دار تھے) کے صدقات پر عامل بنا کر روانہ فرمایا: و استعمله النبیﷺ علی صدقات بنی فراس وكـانـوا اخـوالہ۔

دورِ نبوت میں فرمانِ نبویﷺ سے کسی علاقہ کا امیر بنایا جانا یا بعض قبائل کے حصول صدقات پر عامل مقرر کیا جانا خاص دینی اعتماد و اخلاصِ عمل پر ہوتا تھا۔ ہر شخص اس منصب کا اہل نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ فضل و شرف سیدنا یزید رضی اللہ عنہ بن ابی سفیانؓ کو بھی نصیب ہوا اور امیر و عامل بنائے گئے۔

اعتماد نبویﷺ:

علاقہ یمن سے ایک شخص ہانی ابو مالک جو الکندی قبیلہ کے ایک معزز فرد تھے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ نبی کریمﷺ نے ان پر خصوصی شفقت فرمائی اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے برکت کی دعا فرمائی اور انہیں یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کے ہاں ٹھہرایا۔ حضرت ہانی نے یزیدؓ کے ہاں کچھ عرصہ قیام کیا اور پھر جب ادیان ابوبکر صدیقؓ نے یزیدؓ کو ملک شام کی طرف امیر جیش مقرر فرما کر روانہ کیا تو ہانی یزیدؓ کے ساتھ ملک شام چلے گئے اور پھر وہیں مقیم ہو گئے۔

چنانچہ ابنِ سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ

هـانـي انـه قـدم عـلـى رسـول اللهﷺ مـن الـيـمـن فـاسـلـم فـمـسـح رسول اللہﷺ على راسه ودعـالـه بالبركه وانزله على يزيدؓ بن ابي سفيانؓ. حتى خرج معه الى الشام حين وجهه ابوبکرؓ۔

مذکورہ بالا واقعہ سے نبی اقدسﷺ کا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ پر کامل اعتماد واضح ہوتا ہے اور ان کی جانب سے فرمان نبویﷺ کی قدر دانی اور اطاعت ثابت ہوتی ہے۔ یہ چیزیں حضرت یزیدؓ کے حق میں بہترین فضیلت کی ہیں۔

روایت حدیث کا شرف:

نبی اقدسﷺ سے دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح یزیدؓ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے بھی حدیث نقل کی ہے اور یہ شرف ان کو دوسرے رواۃ حضرات کی طرح حاصل ہے اور پھر ان سے دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا روایت نبوی نقل کرنا بھی ثابت ہے۔ فلہٰذا ان کو راوی اور مروی ہونے کے دونوں شرف نصیب ہوئے۔

1: له عن النبي صلى الله عـلـيـه وسـلـم فـي الـوضـوء وعن ابی بکر

2: روى عـنـه ابـو عـبـدالـلـه الاشعرى و جنادہ بن ابی امیہ

امیر جیش اور صدیقی وصایا:

اہلِ تاریخ و التراجم ذکر کرتے ہیں کہ 12 ہجری میں جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حج سے واپس تشریف لائے تو 13 ہجری کی ابتداء میں ملک شام کی طرف اسلامی افواج بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس موقعہ پر حضرت صدیق اکبرؓ نے اسلامی لشکر کے چار حصے تجویز فرمائے اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ، عمرو بن العاصؓ، شرجیل بن حسنہؓ اور یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو ایک ایک حصہ پر امیر جیش مقرر فرما کر روانہ فرمایا۔

البدایہ لابن کثیر میں ہے کہ

ثـم عـقـد لـواء يـزيـد بـن ابـي سـفـيـان و مـعـه جـهـمـور الناس ومعـه سـهـيـل بـن عـمـرو و اشـبـاهـه مـن أهـل مکه و خرج معـه مـاشـيـا يـوصـیه بـمـا اعتمده في حربه ومن معه من المسلمين وجعل له دمشق.

اور الذہبیؒ نے یہاں اس چیز کو بعبارت ذیل ذکر کیا ہے:

عقد له ابوبکرؓ و مشی معه تحت ركابه یسايره و يـودعـه ويـوصـيـه ـ وما ذاك الا لـشـرفـه و کمال دينه و لما فتحت دمشق امره عمر عليها۔

ابنِ کثیرؒ تحریر کرتے ہیں کہ: 

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ نے یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو ایک علم (جھنڈا) عنایت فرمایا۔ سہیل بن عمروؓ اور اہلِ مکہ میں سے ان جیسے حضرات کو ان کے ہمراہ روانہ فرمایا اور خود کچھ دیر تک ان کے ساتھ چل کر وصایا فرماتے ہوئے اس جیش کو رخصت فرمایا اور ان کے لیے دمشق کی ولایت تجویز فرمائی اور علامہ الذہبیؒ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ یزیدؓ کی سواری کے ساتھ بطور مشایعت کے چلے اور ان کو رخصت کیا اور وصایا فرمائیں۔ اور یہ بات یزید رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور کمال دین کے لحاظ سے آنموصوف نے اختیار فرمائی۔

دیگر صدیقیؓ وصایا:

اس موقعہ پر اکابر محدثین اور فقہاء اور اہلِ تراجم نے حضرت صدیق اکبرؓ کی ہدایات و وصایا جو آپ نے اسلامی جیش کے امیر یزید رضی اللہ عنہ کو دمشق کی طرف روانہ کرتے ہوئے فرمائیں، بڑے عمدہ طریقہ سے مفصل ذکر کی ہیں۔ چنانچہ امام مالکؒ نے موطاء میں اس چیز کو بعبارت ذیل درج کیا ہے

وانی موصيك بعشر لا تـقـتـلـن امـراه ولاصـبـيـا ولا كـبـيـرا هـرمـا ولا تـقـطـعـن شـجـرا مثمره ولا تـخـربن عامرا ولا تـعـقـرن شاة ولابـعـيـرا مـمـا يـوكـل الا لاكله و لاتـحـر قـن نـخـلا ولاتـفـرقـنـه ولاتغلل ولا تجبن۔

ان ھدایات صدیقیؓ کا مفہوم حسب ذیل ہے: 

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ملک شام کی طرف افواج اسلامی روانہ فرمائیں، وہ چار حصوں پر منقسم تھیں۔ ان میں سے ایک حصہ پر یزیدؓ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ امیر جیش تھے۔ حضرت صدیق اکبرؓ دور تک پا پیادہ یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو رخصت کرنے کے لیے چلے گئے۔ یزید رضی اللہ عنہ نے امیر المؤمنین صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپؓ سواری پر تشریف لائیں یا مجھے سواری سے اتر جانے کی اجازت بخشیں تو حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ آپ سواری سے نہ اتریں اور میں سوار بھی نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ میں فی سبیل اللہ اپنے قدموں پر چل کر ثواب حاصل کر رہا ہوں۔

پھر صدیق اکبرؓ نے یزید رضی اللہ عنہ کو قتال کے متعلق ہدایات و وصایا ارشاد فرمائیں، جن میں درج ذیل امور پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی

  1. کسی خاتون کو قتل نہ کرنا۔
  2. کسی بچے کو قتل نہ کرنا۔
  3. کسی عمر رسیدہ شخص کو قتل نہ کرنا۔
  4. کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا اور قطع نہ کرنا۔
  5. کسی آبادی کو برباد نہ کرنا۔
  6. کسی بکری یا اونٹ کو نہ کاٹ ڈالنا مگر کھانے کے لیے ذبح کر نا مباح ہے.
  7. کسی کھجور کے درخت کو نہ جلا دینا۔
  8. توڑ پھوڑ نہ کرنا۔
  9. مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا۔
  10. دشمن کے مقابلہ میں بزدلی نہ دکھانا۔

چنانچہ حضرت یزید رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ان زریں نصائح و وصایا کو حاصل کر کے ارض شام کی طرف روانہ ہوئے اور ان پر پورا عمل درآمد کیا اور اس مہم میں کامران و کامیاب ہوئے۔

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کا ایک مکتوب۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ رومیوں کے بادشاہ ہرقل کو جب اسلامی افواج کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ روم میں داخل ہو رہی ہیں تو اس نے اپنی اقامت گاہ چھوڑ کر انطاکیہ شہر کا رخ کیا۔ امیر افواج یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے پیش آمدہ حالات سے مطلع کرنے کے طور پر مرکز میں امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیقؓ کی طرف ایک مراسلہ تحریر کیا جو کتاب فتوح الشام میں منقول ہے۔

مکتوب کا مفہوم اس طرح ہے یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے بسم اللہ کے بعد اس طرح ذکر کیا کہ شاہ روم کو جب ہماری اس کی طرف پیش قدمی معلوم ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں اہلِ اسلام کا رعب ایسا ڈالا کہ وہ اپنے مقام سے چل کر انطاکیہ کے مقام پر نازل ہوا اور مدائن شام پر اپنے لشکر کے امراء کو مقرر کر کے ہمارے ساتھ قتال کا انہیں حکم ديا ... الخ)

ان حالات میں اے امیر المؤمنین! اپنے حکم اور اپنی رائے سے ہمیں جلد مطلع فرمائیں۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ہم اس پر عمل در آمد کریں گے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی نصرت اور فتح طلب کرتے ہیں اور مسلمانوں کی عافیت کے طلب گار ہیں۔ آپ پر سلام اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔

مکتوب ہذا کی اصل عبارت:

كـتـاب يـزيـد بـن ابـی سـفـيـان الی ابی بکرفان ملک الروم ہرقل لما بلغه مســرنـا الـيـه القـى الـلـه الـرعـب فـي قـلـبـه فـتـحـمـل (ای ....) فنزل انطاكيه وخلف امراء من جنده على مدائن الـشـام و امـرهـم بـقـتـالـنـا ... فـمـرنـا بـامـرك وعـجـل عـلـيـنـافـى ذالك بـرایـک نـتـبـعـه ان شاء الله و نسال الله النصر والصبر والفتح وعافيۃالمسلمين والسلام عليك ورحمه الله

(فـتـوح الشام: صفحہ، 25)

امیرالمؤمنین حضرت صدیق اکبرؓ کی طرف سے مکتوب کا جواب:

بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے مرکز کی طرف سے لکھا کہ:

آپ کا مراسلہ (خط) ہمیں پہنچ گیا ہے اس میں درج ہے کہ ملک روم نے انطاکیہ کی جانب کوچ کیا اور مسلمانوں کی اجتماعی قوت سے اس کے قلب میں اللہ تعالیٰ نے خوف ڈالا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں کافی ہے اور اس کے لیے حمد و ثنا ہے۔ ہم نبی کریمﷺ کی معیت میں ہوتے تھے اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرماتا تھا۔ اور اپنے ملائکہ کرام کے ذریعے ہماری خصوصی نصرت فرماتا تھا۔ یہ وہ دین ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے رعب ڈالا ہے اور وہی دین ہے جس کی آج ہم لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مجرموں کی طرح نہیں بنائے گا۔ (بلکہ اہلِ اسلام کو غالب کر دے گا) جب ان کفار کے ساتھ آمنا سامنا ہو تو اپنے معاونین سمیت ان کے خلاف قتال کرو۔ اللہ تعالیٰ آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کئی بار قلیل جماعت کثیر جماعت پر باذن اللہ غالب رہتی ہے۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ ملک شام کی طرف فوج بعد از فوج روانہ فرمانے لگے۔

جوابی مکتوب کی اصل عبارت:

1: رد ابی بکر عـلـى يـزيـد بـن ابـی سـفـيـان فـابوبکر۔

بـسـم الـلـه الـرحـمـن الـرحـيـم امـابـعـد فقد بلغنی کتابك تذكـرفـيـه تـحـمـل ملك الى انطاكيه والقاء الله الرعب في قلبه من جموع المسلمين فان الله ولـه الـحـمـد قـد نصرنا و نحن مع رسول الله ﷺ بالرعب و امدّنا بملائكـه الـكـرام وان ذالك الـديـن الـذي نصرنا الـلـه بـه بـالـرعـب ہو ہذا الدين الذي نـدعـوالـنـاس إليه اليوم فوربك لايجعل الله المسلمين. فاذا الـقـيـتـمـوهـم فـانـهـد الـيـهـم بـمـن مـعـك وقـاتـلـهـم بـان الـلـه لـن يـخـذلك وقد نبانا الله تبارك وتعالى ان الـفئـۃ الـقـلـيـلـۃ تـغـلب الفئة الكثيرة باذن الله .... وجـعـل ابـوبـكـر يـبـعـث بـالامداد الى الـشـام مـددا كالـمـحـرمـيـن ۔۔۔ تـلـومـدد۔

جنگِ جمل میں سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی ہدایات:

جنگ یرموک دشمنان اسلام کے خلاف (علی الاختلاف اقوال) 10 ہجری 15 ہجری میں لڑی گئی اور اسلام میں جنگ نہایت اہم تھی۔ اس جنگ میں سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ اسلامی لشکر کے ایک حصہ یعنی میسرہ پر امیر تھے اور آپ کے والد گرامی سیدنا ابو سفیانؓ بن حرب ضعف و پیری کے باوجود شریک ہوئے اور دوسری آنکھ کی بھی قربانی پیش کر کے نابینا ہو گئے۔ اور بصارتِ چشمی سے معذور ہو گئے۔ اس موقع پر مسلمانوں کو شدید قتال کا سامنا کرنا پڑا، مگر سیدنا یزید رضی اللہ عنہ نے دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح نہایت ثابت قدمی اور جرات کا مظاہرہ کیا۔ اس دوران بعض دفعہ سیدنا ابو سفیانؓ اپنے فرزند سیدنا یزیدؓ کو تاکید فرماتے تھے کہ:

فاتق الله يا بني! ولا يكونن احد من اصحابك بارغب فى الاجر والصبر في الحرب ولا اجراء على عدو الاسلام منك. فقال افعل ان شاء الله فقال يومئذ قتالا شديدا مكان من ناحيۃ القلب رضي الله عنه

(البدایہ والنہایہ لابن کثیر: صفحہ، 14 تحت یرموک)

مطلب یہ ہے کہ:  اے بیٹے! (صرف) اللہ تعالیٰ سے خوف کیجیے۔ آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی فرد جنگی معاملہ کے متعلق اجر و ثواب میں آپ سے زیادہ راغب نہ ہوں اور دشمنانِ اسلام کے خلاف آپ سے زیادہ کوئی جرات مند نہ ہو، تو سیدنا یزیدؓ نے اپنے والد گرامی کے فرمان کے جواب میں عرض کیا ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی نصیحت پر عمل کروں گا۔

چنانچہ سیدنا یزیدؓ نے نہایت شدید قتال کیا (اور فتح مندی سے ہمکنار ہوئے آئے) یہ واقعہ قبل ازیں ہم نے کتابچہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ تحت اپنے بیٹے کو وصایا درج کیا تھا.

اہم معرکہ میں فتح:

ملک شام کے علاقہ میں مختلف مقامات پر اہلِ اسلام کو دشمن کے ساتھ قتال کرنے اور معارضہ کے بہت مواقع پیش آئے۔ چنانچہ طبری نے ان ایام میں ایک جنگی معارضہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ: 

مخالفین کی افواج میں ایک توزرا نامی شخص بڑا جنگجو بہادر تھا۔ اس کے ساتھ سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کا شدید مقابلہ ہوا اس کے بعد عام جنگ شروع ہوئی۔ قتال کے دوران ہی پیچھے سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آپہنچے اور اہلِ اسلام میں مخالفین کے ساتھ سخت قتال کیا اور وہاں سے بھاگ جانے والوں کو بغیر دشمن کے لشکریوں کو قتل کر ڈالا اور ان میں سے کوئی بچ کر نہیں گیا۔ اس موقع پر مسلمانوں کو مال غنیمت (سواریاں لباس اور دیگر مال ومتاع) بے شمار حاصل ہوا- پھر تمام مال غنیمت کو سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے اپنے مجاہدین رفقاء اور سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں حسب دستور تقسیم کر دیا۔

غنائم کی تقسیم کے بعد سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ دمشق کی طرف اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنے امیر جیش سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ کی طرف روانہ ہو گئے۔

وقد بلغ يزيد ابن ابي سفيان رضي الله تعالى عنه الذين فعل توزرا. فستقبله فاقتتلوا ولحق بهم خالد فهم يقتلون فاخذهم من خلفهم فقتلوا من ايديهم ومن خلفهم فاناموهم فلم يفلت منهم الا الشريد فاصاب المسلمون ماشاء و امن ظهرواداة و ثياب وقسم ذالك يزيد بن ابي سفيان على اصحابه و اصحاب خالد.ثم انصرف يزيد الى دمشق وانصرف خالد الى أبي عبيدة

(تاریخ طبری: صفحہ نمبر، 598،599 جلد ثالث تحت 15 ہجری طبع جدید مصر)

فتح مدینہ و دمشق:

شہر دمشق محاصرہ پر مؤرخین نے لکھا ہے صورت ذیل میں اکابر حضرات محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ مدینہ دمشق کے بعد الشرق پر سیدنا خالد بن ولیدؓ ،باب توما پر سیدنا عمرو بن العاصؓ، باب الفرادیس پر سیدنا شرحبیل بن حسنہؓ، باب الجابیہ پر سیدنا ابو عبیدہ ابن الجراحؓ اور باب الصغیر جسے کسیان کہتے تھے اس پر سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ محاصرہ کیے ہوئے تھے۔

(فتوح البلدان للبلازری: صفحہ، 127 تحت فتح مدینہ دمشق۔)

پھر ابو عبیدہ القاسم بن سلام نے اپنی تصنیف کتاب الاموال میں اس طرح تحریر کیا ہے کہ:

دخلها يزيد ابن ابي سفيان من الباب الصغير كسرا ودخلها خالد بن الوليد من الباب الشرقي صلحا.

(كتاب الانبال لابي العبيد بن القاسم بن سلام: صفحہ، 177 روايت، 478 تحت أمر دمشق و فتحها)

اور سیدنا یزید رضی اللہ عنہ بن ابی سفیانؓ نے فلسطین اور اردن کے علاقہ جات میں بہت فتوحات حاصل کیں اور بصری وغیرہ کو صلح کے ساتھ فتح کیا۔ 

(فتوح البلدان للبلازری: صفحہ، 133 تحت فتح مدینہ و دمشق)

فتوحات سواحل دمشق:

نیز دمشق کے علاقہ کی فتوحات کے سلسلہ میں مؤرخ ابنِ اثیر نے الکامل میں لکھا ہے کہ جب فتح مدینہ دمشق تمام ہو گئی تو اسلامی عساکر کے امیر سیدنا ابو عبیدہؓ بن الجراح نے سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو امیر دمشق مقرر فرمایا اور خود مقام فحل کی جانب روانہ ہوئے۔

سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے سواحل دمشق مقامات کی طرف اپنا لشکر سمیت عازم سفر ہوئے۔ صیدہ، عرقہ جیل اور بیروت وغیرہ یہ دمشق کے سواحل پر شمار ہوتے تھے سیدنا یزیدؓ موصوف کے لشکر کے مقدمہ الجیش پر ان کے برادر خورد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیانؓ امیر نگران مقرر تھے۔ مذکورہ کئ مقامات کے لوگوں کو وقتی مصالحت کے تحت وہاں سے نکال کر جلا وطن کیا اور سواحل کے دیگر مواضع کو فتح کرکے اسلام کے زیر نگیں کردیا اور خصوصاً عرقہ وغیرہ کو سیدنا معاویہؓ نے سیدنا یزیدؓ موصوف کی نگرانی و تولیت کے تحت خود فتح کیا

لما استخلف ابو عبيده يزيد بن ابي سفيان رضي الله تعالى عنهما على دمشق وسار الى فحل سار يزيد الى مدينه صيدا وعرقه و جبيل و بيروت وهي سواحل دمشق على مقدمته اخوه معاوية رضي الله تعالى عنه ففتحها يسيرا. وجلاء كثيرا من اهلها وتولى فتح عرقه معاوية بنفسه في ولاية يزيد

(الكامل لابن الاثير الجزري ص 296جلد 2 تحت ذكر فتح بلادي ساحل دمشق)

تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طلب کیا جانا:

ملک شام میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا کہ حضرت صدیق اکبرؓ 13 ہجری میں انتقال فرما گئے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ان کے بعد خلیفہ منتخب ہوئے اس دور میں کثرت فتوحات کی بناء پر دینی مسائل کی تعلیم کی ضرورت بڑھ گئی تو اس وقت سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں مکتوب(خط) ارسال کیا کہ

فلما استخلف عمر كـتـب يـزيـد بـن ابـی سـفـيـان اليه ان اهل الشام كثير وقد احـتـاجـوا الـى مـن يـعـلـمـهـم الـقـرآن ويـفـقـهـهـم فـقـال عـيـنـونـي بثلاثه فخرج معاذ وابو درداء وعباده (بن الصامت)

یعنی سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے سیدنا فاروق اعظمؓ کو لکھا کہ ارضِ شام میں کثرت سے اسلام پھیلا ہے اب یہاں ان کو قرآنی تعلیم اور دینی مسائل سمجھانے کی ضرورت درپیش ہے اس مقصد کے لیے کم از کم تین حضرات روانہ فرما کر ہماری اعانت کیجئے، تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی جانب سے اس کام کے لیے تین انصاری صحابہ سیدنا معاذ بن جبلؓ سیدنا ابودرداءؓ اور سیدنا عبادة بن صامتؓ کو شام بھیجا گیا تھا۔ ان حضرات نے علاقہ شام میں پہنچ کر دینی تعلیمات بڑے احسن طریقہ سے سر انجام دیں اور ملک کے مختلف جوانب و اطراف میں ملی خدمات کا فریضہ ادا کیا اور تعلیم عام کر کے اسلام کے فروغ کا باعث ہوئے۔

یہ تمام پروگرام سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کی نگرانی میں ہوا۔

ایک مراسلہ فاروقیؓ:

سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ جس دور میں شام کے علاقے میں فتوحات کے سلسلہ میں مقیم تھے اس زمانے میں مرکز اسلام مدینہ طیبہ سے حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی جانب سے مختلف احکامات اور ہدایات جاری ہوتے تھے، اس ضمن میں صاحب کنز العمال علی متقی الہندی نے ایک فاروقیؓ مکتوب کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو ایک مراسلہ ارسال کیا اور ہدایت فرمائی کہ:

حسبِ دستور ایک اسلامی لشکر روانہ کیجئے اور ربیعہ کے قبیلہ سے ایک شخص کو اس کا امیر جیش بنا کر اس کو پرچم دیجئے کیونکہ میں نے ایک بار نبی کریمﷺ سے سنا کہ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ جیش شکست نہیں کھائے گا جس کا جھنڈا ربیعہ قبیلہ کے شخص کے ہاتھ میں ہو گا۔

عن خالد بن معدان ان عمر بن الخطاب كـتـب الـى یـزيـد بن ابی سفیان) ان ابعث حـيـثـا وادفع لواء هـم الـي رجـل مـن ربـيـعـه فـانی سمعت رسول الله صلى الله عـلـيـه وسـلـم يـقـول لا يهزم جـيـش لـواء هـم مـع رجـل مـن ربـيـعـة۔

چنانچہ سیدنا فاروق اعظمؓ کی ہدایات کی روشنی میں سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے عمل در آمد کیا اور مجاہدانہ کارنامے سرانجام دیئے اور فروغ اسلام کی خاطر مساعی کیں۔

شرب خمر کا واقعہ:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ ملک شام میں اپنی فتوحات کے سلسلہ میں علاقہ دمشق کے والی اور حاکم تھے۔ ان کی امارت کے ایام میں اہلِ شام کے بعض لوگ شراب خوری کے مرتکب ہوئے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کرنے لگے کہ یہ فعل ہمارے لیے حلال ہے، اور قرآن مجید کی آیت

لَـيۡسَ عَلَى الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوا ۔۔۔ الخ (سورۃ المائدہ: آیت نمبر، 93) سے اپنے اس فعل کا غلط جواز پیدا کرنے کے لیے اس میں تاویل کرنے لگے۔ اس صورت حال سے سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کو بذریعہ مکتوب مطلع کیا۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے جواباً حکم نامہ ارسال فرمایا کہ اس سے قبل کہ یہ لوگ کسی فساد کا باعث بنیں انہیں ہماری طرف بھیج دیں۔

چنانچہ جب یہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں پیش کیے گئے تو اس مسئلہ کے متعلق آپ نے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ طلب فرمایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اے امیر المؤمنینؓ! ہماری رائے میں ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کی غلط تاویل کرتے ہوئے تکذیب کی ہے اور دین میں ایسی چیز کو مشروع قرار دیا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں فرمایا۔

پس ان کی گردن اڑا دینی چاہیے۔ اس موقعہ پر حضرت علی المرتضٰیؓ بھی موجود تھے مگر خاموشی اختیار کیے ہوۓ تھے۔ سیدنا عمرفاروقؓ نے سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے ابوالحسنؓ! آپ کی اس مسئلہ میں کیا رائے ہے؟ تو حضرت علی المرتضٰیؓ نے جواب میں فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ انہیں پہلے اس فعل سے رجوع اور توبہ کرنے کا موقعہ فراہم کیا جائے اگر یہ لوگ اپنے اس فعل سے توبہ کر لیں تو ان کو شراب خوری کی بناء پر اسی (80) درے لگوائے جائیں اور اگر یہ اپنے مؤقف سے توبہ ہی نہ کریں تو ان کی گردن اڑ دی جائے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کی ہے۔ اور اپنے دین میں انہوں نے ایسی چیز کو مشروع کیا ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں فرمایا۔

چنانچہ ان لوگوں سے توبہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے مؤقف سے رجوع کر کے توبہ کر لی اور پھر انہیں شراب خوری کی سزا کے طور پر اسی درے لگوائے گئے۔ اکابر محدثین نے اس واقعہ کو بعبارت ذیل نقل کیا ہے۔ (7458)

شـرب قـوم مـن اهـل الـشـام الـخـمـر و عليـهـم يـزيـد بـن ابـي سـفـيـان وقـالـوا هـي لـنـاحـلال و تائولوا هذه الايه - "ليس على الذين آمنوا وعـمـلـوا الـصـلـحت جناح فيما طـعـمـوا" قال: و كـتـب فـيـهـم الـى عـمـر فـكـتـب ان ابـعـث بـهـم الـى قـبـل ان يـفـسـدوا مـن قـبـلـك فـلـمـاقـد مـوا عـلـى عـمـر استشـار فـيـهـم الـنـاس فـقـالوا: يا امـيـر الـمـومـنـيـن! تـرى انـهـم قـد كـذبـوا عـلـى الـلـه وشـرعـوا فـي ديـنـهـم مالم یاذن۔ 

مقام سرغ میں ملاقات:

ملک شام کی فتوحات کی طرف سیدنا عمر فاروقؓ کی خاص توجہ تھی۔ وہاں اسلامی جیوش کے امراء بڑی محنت کے ساتھ کام پر لگے ہوئے تھے اور فتوحات کا سلسلہ شروع تھا۔ پھر ان حالات میں حضرت عمر فاروقؓ کا وہاں خود تشریف لے جانا بعض دفعہ ضروری ہو جاتا تھا۔ اس سلسلہ میں مؤرخین نے تصریح کی ہے کہ کم و بیش چار دفعہ عمر فاروقؓ ملک شام میں تشریف لے گئے۔ دو بار 16 ہجری میں اور دو بار 17 ہجری میں۔ مؤرخ طبری نے اس مسئلہ کو بعبارت ذیل ذکر کیا ہے۔ فاتى عمرؓ الشام اربـع مـرات مـرتـيـن فـي سـنه سـتـه عـشـرومـرتـيـن سنه سبع عشرة .... الخ

چنانچہ 17 ہجری میں ایک دفعہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ شام کی طرف عازم سفر ہوئے متعدد مهاجرین و انصار حضرات شریک سفر اور ہم رکاب تھے۔ سرغ کے مقام پر جاکر فروکش ہوئے۔ علاقہ کے امراء الجیوش کو اطلاع ملی تو ذیل حضرات سیدنا فاروق اعظمؓ کی ملاقات کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ، سیدنا یزید بن ابی سفيان رضی اللہ عنہ اور سیدنا شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ یہ حضرات جیوش کے امراء تھے اور حضرت سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ امیر الامراء تھے۔

حتى نزل بسرع لـقـيـه أمـراء الاجناد ابوعبيده بـن الـجـراح ؓ يـزيـد بن ابی سفیانؓ و شـرحـبـيـل بـن حسنہؓ

ان اکابرین حضراتؓ کے اجتماع ہذا میں علاقہ کے اہم حوائج اور احوال امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں پیش کیے گئے۔

اس ضمن میں ان حضرات نے اطلاع دی کہ:  فاخبروه أن الارض سقيمہ

یعنی جس علاقہ کی طرف حضرت تشریف لے جانا چاہتے ہیں وہاں کی فضا خراب ہے اور بیماری پھیلی ہوئی ہے۔

اس موقعہ پر مختلف مشورے پیش ہوئے اور آگے سفر جاری رکھنے یا یہاں سے واپس ہونے میں بحث تبحیث ہوئی۔ آخر کار بقول مؤرخین حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کے مشورہ اور قول کو ترجیح دی گئی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ واپس مدینہ طیبہ تشریف لائے۔

حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ذیل فرمان نبویﷺ سب حضرات کے سامنے بیان کیا کہ آنجنابﷺ کا ارشاد ہے کہ کسی شہر یا علاقہ میں بیماری کی وبا معلوم کرو تو اس مقام میں مت جاؤ اور جہاں تم مقیم ہو وہاں وبا پھیل جائے وہاں سے بھاگ کر مت نکلو۔

اذا سمعتم بهذا الوباء ببلد فلا تـقـدمـوا عـلـيـه۔ واذاوقع وانـتـم بـه فـلا تـخـرجـوا قـرارا مـنه ...... الخ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث مبارکہ سن کر فرمایا:

فلله الحمد الصرفوا ايها الناس فانصرف بھم۔

مختصر یہ ہے کہ اس مسئلہ پر حضرت عبد الرحمٰنؓ کے قول پر فیصلہ ہو جانے کے بعد حضرت عمر فاروقؓ اور ان کے ہم سفر حضرات مدینہ طیبہ کی طرف واپس تشریف لائے اور لشکروں کے امراء حضرات اپنے اپنے علاقہ جات کی طرف حسب موقع ہدایات لے کر واپس ہوئے۔ واقعہ ہذا کے ذریعہ سے واضح ہوا کہ سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اپنے منصب کے لحاظ سے ایسے اہم مراحل میں شامل ہوتے اور ضروری مجالس میں شرکت کرتے تھے اور ملی خدمات سر انجام دینے میں پیش پیش رہتے اور فروغ اسلام کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔

وفات:

سیدنا یزید رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ملک شام کے بعض علاقوں کا والی مقرر فرمایا تھا۔ جیسا کہ ماقبل میں بیان ہوا۔ اپنے عہدہ ولایت کے دوران دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی معیت اور رفاقت کے ساتھ بہت سے علاقوں کو فتح کیا۔ یرموک، اجنادین، اردن، فلسطین، حمص اور قیساریہ وغیرہ مقامات میں ان کے فاتحانہ کارنامے ایک امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ایام میں دمشق کو فتح کر کے اسے اپنا مرکز قرار دیا ہوا تھا اور وہاں اقامت پذیر تھے۔ اتفاق سے اس علاقے میں طاعون (عمواس) کی وبا پھیل گئی جس میں متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ وغیرھم کا انتقال ہوا اور سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے بھی دمشق میں اس مرض سے 18 ہجری میں وفات پائی اور بعض مؤرخین نے اس طرح بھی لکھا ہے کہ سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال دمشق میں فتح قیساریہ کے بعد 19 ہجری میں ہوا اور ان سے آگے ان کی نسل نہیں جاری ہوئی۔

حافظ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ نے لکھا ہے:

سیدنا یزید بن ابی سفیانؓ کی وفات کی خبر جب امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کو پہنچی تو آپ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیانؓ کو ان کے برادر حضرت یزیدؓ کی جگہ ملک شام کا امیر اور حاکم مقرر کر کے حکمنامہ شام روانہ کیا اور پھر حضرت ابو سفیانؓ کو ان کے فرزند حضرت یزیدؓ کی وفات پر تعزیت کی اور حضرت یزیدؓ کی جگہ ان کے برادر خورد حضرت معاویہؓ کو امیر مقرر کرنے کی خبر دی تو حضرت ابو سفیانؓ نے عرض کیا کہ اے امیرالمؤمنین آپ نے صلہ رحمی کا تقاضا پورا کیا ہے اور قرابت داری کا لحاظ رکھا ہے۔

فـلـمـا مـات يـزيـد بن ابی سـفـيـان سـنـه بـضـع عـشره جاء الـبـريـد عـمـر ؓ بـمـوتـه رد عمر البريد الى الشام بولاية معاويه ؓ مكان اخيه يزيد ؓ ثم عزى اباسفيان في ابنه يزيد فقال يا اميرالمومنين! مـن ولـيـت مـكـانـه؟ قـال الخـوه مـعـاويـه ؓ قـال وصلت رحـمـا يا امير المؤمنين

اور علامہ الذہبی نے مضمون ہذا کو بعبارت ذیل ذکر کیا ہے: 

ثم توفي بزيد فنعاه عمر الی ابی سفیان فقال ومـن امـرت مـكـانـه ـ قـال مـعـاويـه ـ فـقـال وصلتك یا اميرالمومنين رحم، وقال خليفه ثم جمع عـمـر ؓ الـشـام كـلـهـا لـمـعـاويـه ؓ وأقره عثمان۔

یعنی خلیفہ ابنِ خیاط لکھتے ہیں کہ حضرت یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کے انتقال کے بعد حضرت فاروق اعظمؓ نے شام کا تمام علاقہ حضرت معاویہؓ کے زیر تحویل کر دیا پھر حضرت عثمانؓ نے اپنے دور خلافت میں حضرت معاویہؓ کو اس منصب پر بر حال رکھا۔

اور علامہ الذھبی نے اپنی تصنیف سیر اعلام النبلاء کے دوسرے مقام میں اس مسئلہ کو بالفاظ ذیل درج کیا ہے ۔

وتوفى يزيد ؓ في الطاعون سنه ثماني عشره - ولما احتضر استعمل أخاه معاويه ؓ على عمله فاقره عمر ؓ علی ذالک احتراما ليزيد وتنفيذا لتوليتہ۔

یعنی 18 ہجری والے طاعون (عمواس) میں سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا اور جب سیدنا یزید رضی اللہ عنہ کی وفات قریب ہوئی تو انہوں نے اپنے منصب و مقام پر اپنے برادر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو عامل بنایا۔

پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس چیز کا علم ہوا تو انہوں نے یزیدؓ کی تولیت کے نفاذ کے احترام کرتے ہوئے معاویہؓ کو اسی منصب پر فائز رکھا اور تبدیل نہیں کیا۔

مندرجہ بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بہت اہم مقام و احترام تھا اور آپ نے سیدنا یزیدؓ کی صلاحیت اور اسلامی خدمات کی قدر دانی کے پیش نظر یہ صورت اختیار فرمائی۔

حاصل کلام:

حضرت یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کے متعلق مختصر سا اجمالی تذکرہ ناظرین کرام کی خدمت میں گزشتہ سطور میں پیش کیا ہے اس پر انصاف کے ساتھ نظر فرمائی جائے۔

  1. سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نسب کے اعتبار سے بہترین شرف کے حامل ہیں کہ حضرت ام المؤمنین ام حبیبہؓ کے علاتی (سوتیلے) برادر ہیں اور حضرت امیر معاویہؓ کے بھی سوتیلے برادر کلاں ہیں۔
  2. سیدنا یزید رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے بعد بلا تاخیر ملی کارناموں میں مصروف ہو گئے تھے اور اولاً اسلامی غزوات میں شریک ہو کر دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح غنائم سے وافر حصہ حاصل کیا اور ان سے منتفع ہوئے۔ غزوہ حنین کے شرکاء کے لیے قرآن مجید میں ان کے استعجاب کثرت پر تنبیہ کا ذکر ہے لیکن پھر ساتھ ہی اللہ کریم جل مجدہ کی جانب سے اپنے پیغمبر کریمﷺ اور مؤمنین پر نزول سکینہ بیان فرمائی گئی ہے اور غیر مرئی (فوج ملائکہ) کے نزول کا بیان فرمایا گیا ہے۔ اس میں ایمان والوں کے لیے عمدہ فضیلت مذکور ہے۔ اور جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس وقت غزوہ حنین میں شریک ہوئے تھے ان میں حضرت یزیدؓ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اور ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور ان کے برادر خورد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ 3 حضرات شامل و شریک تھے۔ فلہٰذا یہ حضرات بھی اس موقع کی خیر و برکت اور فضیلت کی اشیاء سے کاملاً منتفع ہوئے۔
  3. سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ کو کاتبان نبویﷺ میں شامل ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا اور منصب کتابت سے نوازے گئے۔
  4. اور سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ عہد نبویﷺ میں بعض قبائل کے لیے امیر و عامل بنائے گئے ۔
  5. نیز عہد رسالت میں انؓ پر پورا اعتماد کیا جاتا تھا اور آپ ایک اہم ذمہ دار شخصیت تھے۔ اس بناء پر نبی کریمﷺ کے ملاقاتیوں کو بعض دفعہ ان کے پاس ٹھہرایا جاتا تھا۔ یہ اعزاز بھی یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو حاصل ہوا۔
  6. روایت حدیث نبویﷺ کی فضیلت بھی انؓ کو حاصل ہوئی اور اس شرف سے مشرف ہوئے۔
  7.  علاقہ شام میں افواج اسلامی کے امیر بن کر فتوحات کثیرہ کے باعث ہوئے اور وہاں فروغ اسلام کے لیے بے شمار اہم خدمات سر انجام دیں اور اشاعت دین کا اہتمام کیا۔ ان چیزوں کا ذکر تاریخی کتب میں تفصیلات کے ساتھ موجود ہے اور مختصر سے حالات ہم نے بھی ذکر کر دیے ہیں۔ دورِ صدیقیؓ اور دورِ فاروقیؓ دونوں ایام میں موصوف کے ملی کارنامے قابل ستائیش ہیں۔
  8. دین اور اسلام کے احیاء اور فروغ میں ہی سیدنا یزیدؓ الخیر کی زندگی کا خاتمہ بالخیر ہوا اور طاعون کی بیماری سے شرف شہادت حاصل کیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اول سے آخر تک اپنی تمام عمر انہوں نے دینی خدمات میں اور اپنے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی رضا جوئی کے لیے صرف کر دی۔ یہ بخت اور نصیب انہی حضرات کا حصہ تھا۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنهم اجمعین) لہٰذا یہ حضرات اسلام میں اپنے مرتبہ و مقام کے اعتبار سے مدح و ستائش کے لائق ہیں نہ کہ نفریت و مذمت کے قابل۔ اور ان تمام امور فضیلت اور ملی کارناموں کے باوجود اگر بعض لوگوں کو یہ حضرات اسلام کے دشمن نظر آتے ہیں تو یہ ان کی نظر و فکر کا قصور ہے یہ مجاہدین اسلام کا قصور نہیں۔ خوب غور فرمائیں۔