Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ حدیثی ذخیره قبل از تدوین ( تحریری سرمایہ ) قسط 4

  مولانا سمیع اللہ سعدی

شیعہ حدیثی ذخیره قبل از تدوین ( تحریری سرمایہ )

  قبل از تدوین اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کی تحریری شکل و صورت کامسئلہ بھی ( تقریری و تدریسی صورت کی طرح ) خفا کے دبیز پردوں میں لپٹا ہے ، یہ سوال بجاطور پر پیدا ہوتا ہے کہ تین صدیوں تک ان ہزارہا روایات ( صرف کتب اربعہ کی روایات چالیس ہزار سے زائد ہیں ) کا مجموعہ کس طرح اور کس شکل میں محفوظ رہا؟ کتب اربعہ کے مصنفین نے جمع روایات میں کن ماخذ و مصادر پر اعتماد کیا ؟

اہل سنت میں صرف ایک صدی کے اندر ساڑھے چار سو مجموعات حدیث مرتب ہوتے ہیں ، تو اہل تشیع کے ہاں تین صدیوں میں کتنے مجموعے مرتب ہوئے ، جنہوں نے بنیادی مصادر کے لیے خام مال کا کردار ادا کیا ؟ اس سوال کا اہل تشیع محققین نے دو طرح سے جواب دیا ہے ، جنہیں ہم تقریب فہم کے لیے "اجمالی جواب " اور " تفصیلی جواب “ کا نام دیں گے ۔

1۔ اجمالی جواب

علماۓ شیعہ کی ایک بڑی جماعت نے اس سوال کا اجمالی جواب یہ دیا ہے کہ کتب اربعہ سے پہلے حدیث کے چار سو متعمد نسخے رائج تھے ،جو ائمہ کے براہ راست تلامذہ نے بڑی جانفشانی اور محنت سے تیار کیے تھے ،ان چار سو مجموعوں کو

“الاصول الاربعمائتہ” 

کا نام دیا گیا ، انہی چار سو اصولوں کو کتب اربعہ کے مصنفین نے ماخذ و مصدر بنایا اور ان کی مدد سے اپنی کتب میں ائمہ کی روایات کو مدون کیا ، دسویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم زین الدین عاملی المعروف بالشہید الثانی لکھتے ہیں :

كان قد استقر أمر الإمامية على أربعمائة مصنف سموها أصولاً فكان عليها اعتمادهم، وتداعت الحال إلى أن ذهب معظم تلك الأصول ولخصها جماعة في كتب خاصة تقريبا على المتناول، وأحسن ما جمع منها (الكافي) و(التهذيب) و(الاستبصار) و(من لا يحضره الفقيه)

امامیہ کے ہاں روایت کا معاملہ چار سو مصنفین کی لکھی ہوئی چار سو اصولوں پر جا ٹھر تا ہے ، انہی کتب پر امامیہ کا اعتماد تھا، پھر مرور زمانہ سے ان اصولوں کا اکثر حصہ ختم ہو گیا اور ان کی تلخیص شیعہ محدثین کی ایک جماعت نے اپنی کتب میں کیں ، جن میں سے سب سے بہترین کتب الکافی ، تہذیب ، استبصار اور من لایحضرہ الفقیہ یعنی کتب اربعہ ہیں۔

شیعہ کتب کی سب سے وسیع ڈائریکٹری لکھنے والے محقق آغا بزرگ طہرانی اپنی کتاب

"الذریعہ الی تصانیف الشیعہ "

میں لکھتے ہیں :

هذه الأصول كلها موجودة جملة منها بالهيئة التركيبية الأولية التي وجدت موادها بها والبقية باقية بموادها الأصلية بلا زيادة حرف ولا نقيصة حرف ضمن المجاميع القديمة التي جمعت فيها مواد تلك الأصول مرتبة مبوبة منقحة مهذبة

(الذریعہ الی تصانیف الشیعہ 2/134)

یعنی سب کے سب موجود ہیں ، ان میں سے بعض اپنی اصلی ترتیب کے ساتھ بمع مواد کے موجود ہیں ، جبکہ باقی کا مواد بغیر کسی حرف کی زیادتی و کمی کے ان قدیم مجموعات حدیث کے ضمن میں موجود ہیں ، جن میں ان اصولوں کا مواد مرتب ، مبوب، منقح اور مہذب شدہ انداز میں جمع کیا گیا ہے۔

اصول اربعمائیتہ کی تحقیق واستناد اور پس منظر سے متعلق چند باتیں پیش خدمت ہیں :

اصل کا اصطلاحی معنی و مفہوم

اصول اربعمائۃ کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے لفظ اصل کا پس منظر اور معنی و مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے، شیخ طوسی و نجاشی نے کتب شیعہ کی فہارس تیار کی ہیں ،ان فہارس میں تصانیف کا ذکر کرتے ہوئے بعض رجال کے ساتھ

"لہ کتاب "

کا لفظ اور بعض کے ساتھ

"لہ اصل"

کا لفظ لکھا ہے ، چنانچہ ابراہیم بن عبد الحمید کے تذکرے میں لکھتے ہیں :

ابراهيم بن عبد الحميد، ثقة. له اصل، اخبرنا به أبو عبد الله محمد بن محمد بن النعمان المفيد والحسين بن عبيدالله، عن ابي جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه، عن محمد بن الحسن بن الوليد، عن محمد بن الحسن الصفار، عن يعقوب ابن يزيد ومحمد بن الحسين بن ابي الخطاب وابراهيم بن هاشم۔

(الفهرست، ص35)

جبکہ اس ابراہیم بن محمد الاشعری کے تذکرے میں لکھتے ہیں :

ابراهيم بن محمد الاشعري. له كتاب، بينه وبين اخيه الفضل بن محمد، اخبرنا به ابن ابي جيد، عن محمد بن الحسن بن الوليد، عن محمد بن الحسن الصفار، عن محمد بن الحسين، عن الحسن بن علي بن فضال، عنهما.

(الفهرست، ص36)

شیخ طوسی و نجاشی نے اپنی کتب میں اصل و کتاب میں فرق یا مفاہیم بیان نہیں کئے ، اس لیے علمائے شیعہ نے اصل کے مختلف مفاہیم بیان کئے ، چند اقوال درج کئے جاتے ہیں :

محمد مہدی طباطبائی بحر العلوم اصل کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

الاصل في اصطلاح المحدثين من اصحابنا بمعنى الكتاب المعتمد الذي لم ينتزع من كتاب آخر

(الفوائد الرجاليه ، ص 2/367)

یعنی اصل محدثین اہل تشیع کی اصطلاح میں اس کتاب کو کہتے ہیں ، جو معتمد ہو اور دوسری کتاب سے منقول نہ ہو۔

مجمع الرجال کے مصنف لکھتے ہیں :

الاصل :مجمع عبارات الحجة، و الكتاب يشتمل عليه و على الاستدلالات و الاستنباطات

(شرعاً و عقلاً مجمع الرجال ، 1/9)

یعنی کہ اصل امام معصوم کی عبارات کے مجموعے کا نام ہے ، جبکہ کتاب امام معصوم کی عبارات کے ساتھ مصنف کے شرعی و عقلی استدلالات و استنباطات پر مشتمل ہوتی ہے ۔

علامه تستری قاموس الر جال میں لکھتے ہیں :

الظاهر أن الاصل ماكان مجرد رواية أخبار بدون نقض و أبرام و جمع بين المتعارضين و بدون حكم بصحة خبر او شذوذ خبر.

(مقدمہ قاموس الرجال ، ص 7)

یعنی اصل محض روایات و آثار کی روایت کا نام ہے ، ان آثار پر صحت ، ضعف ، یقین کا حکم اور متعارض روایات میں تطبیق دیے بغیر ،

یہ تعریف پچھلی تعاریف کے برعکس ہے ، کیونکہ اس سے اصل کے مفہوم میں متعمد و غیر متعمد دونوں قسم کی کتب آ گئیں۔ اس کے علاوہ بھی اصل کی متعدد تعریفیں کی گئیں ، ان کی تفصیل کے لیے محمد حسین جلالی کی کتاب

"دراستہ حول الاصول الاربعمائتہ"

ص 7 تا 9 ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔

ان سب تعاریف کے بارے میں معروف شیعہ محقق سید محسن الامین اپنی ضخیم کتاب

"اعیان الشیعہ "

میں لکھتے ہیں:

وكل ذلك حدس وتخمين۔

(اعیان الشیعہ ،1/140)

یہ سب تعریفات ظن و اندازوں پر مبنی ہیں۔

اسی طرح محقق جلالی نے بھی ان تعریفات کو ظن و تخمین قرار دینے پر سید محسن الامین کی موافقت کی ہے ،چنانچہ لکھتے ہیں :

"و من هنا نجد ان التعاريف مستندة الى الظن و التخمين بل يحق ان نقول انهم اصطلحوا لمفهوم الاصل اصطلاحا جديدا۔

(دراسة حول الاصول الاربعمائتہ ، ص8)

ان تعاریف سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سب تعاریف ظن پر بنی ہیں ، بلکہ حق بات یہ ہے کہ اصل کا ایک خاص مفہوم بیان کرنا جدید اصطلاح ہے ۔

لہند طوسی و نجاشی نے جو لفظ اصل ذکر کیا ، اس کا واقعی مفہوم کیا ہے؟ وہ کس قسم کی کتاب کو کہتے ہیں ؟ اس کے بارے میں بعد کے علمائے شیعہ نے ظن و تخمین پر مختلف تعریفیں کی ہیں ، جن میں سے بعض ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔

اسی طرح محقق فاضل جبوری اپنے پی ایچ ڈی مقالے “تراجم الاصول الار بعمائتہ" میں اصل کی آٹھ کے قریب تعریفات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

هذه التعاريف لاتخلوا من الاشكالات لأنها لم تحدد ظابطة دقيقة لمعنى الاصل۔

(تراجم رواۃ الاصول الاربعمائة ، ص15)

یہ سب تعریفات اشکالات سے خالی نہیں ہیں ، کیونکہ ان میں اصل کے مفہوم کی باریک و منضبط تحدید نہیں کی گئی ہے۔

اصول اربعمائتہ کی اصطلاح اور زمانہ تدوین

اصول اربعمائتہ کی اصطلاح کا تاریخی جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ اصطلاح چھٹی صدی ہجری یا على الاقل پانچویں صدی ھجری میں (الکافی کی تصنیف کے تقریبا ڈھائی سو سال بعد ) یا اس کے بعد کی پیداوار ہے ، متقدمین اہل تشیع بشمول اصحاب کتب اربعہ و طوسی و نجاشی کے ہاں چار سو اصولوں کی اصطلاح کا کوئی تصور نہیں تھا، چار سو اصولوں کا سب سے پہلے ذکر ابن شہر آشوب مازندرانی (588ھ) نے اپنی کتاب

"معالم العلماء"

میں بیان کیا ہے ، چنانچہ لکھتے ہیں :

"صنفت الإمامية من عهد أمير المؤمنين إلى عصر أبي محمد الحسن العسكري أربعمائة کتاب، تسمى الأصول وهذا معنى قولهم :له أصل۔

(معالم العلماء ، ص 39 ۔)

 (نوٹ: یہ بات مازندرانی نے شیخ مفید سے نقل کی ہے ، لیکن شیخ مفید کی کتب میں چار سو اصولوں کا کوئی ذکر نہیں ہے فافہم )

کہ امامیہ نے حضرت علی رضی اللہ کے زمانے سے لے کر امام عسکری تک چار سو کتب لکھی ہیں ، جنہیں اصول کہا جاتا ہے ،لہ اصل کا یہی مفہوم ہے ۔ لیکن مازندرانی کے بر عکس دیگر علماء نے ان چار سو اصولوں کو خاص امام جعفر صادق کے تلامذہ کی تصنیف قرار دیا ہے ، چنانچہ امام طبرسی اپنی کتاب

اعلام الوراء باعلام الھدی

میں لکھتے ہیں :

روى عن الإمام الصادق من مشهوري أهل العلم أربعة آلاف إنسان و صنف من جواباته في المسائل أربعمائة كتاب تسمى الأصول رواها أصحابه وأصحاب ابنه موسى الكاظم۔

(اعلام الوراء باعلام الھدي ص 166)

یعنی امام جعفر صادق سے چار ہزار معروف اشخاص نے روایات لی ہیں ، انہوں نے آپ کے جوابات کو چار سو کتب میں جمع کیا ہے ، جنہیں اصول کہا جاتا ہے ، یہ کتب آپ کے شاگردوں اور آپ کے صاحبزادے امام موسی کاظم کے شاگردوں نے روایت کی ہیں ۔

یہی بات علامہ حلی اور شہید ثانی نے لکھی ہے ۔

(المعتبر شرح المختصر للحلى ،1/26 ، ذکری الشیعہ فی احکام الشریعہ للعاملی ، ص 6)

یہاں پر بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ چار سو اصول ، جو شیعہ تراث حدیث کا بنیادی ماخذ و مصدر بنے ، ان کے زمانہ تدوین کے بارے میں علمائے شیعہ میں اتنا بڑا اختلاف کیسے اور کیوں پیدا ہوا کہ بعض اسے صرف امام جعفر صادق کے تلامذہ کی تصنیف قرار دیتے ہیں اور بعض حضرت علی کے زمانے سے لے کر امام عسکری کے ائمہ شیعہ کی تصنیف قرار دیتے ہیں ؟ شیعہ محقق حسین جلالی لکھتے ہیں :

تكاد الاراء في عصر التاليف تختلف اشد الاختلاف (دراسة حول الاصول الاربعمائمتہ ص 22)

یعنی ان اصولوں کی تالیف کے زمانے میں آراء کا شدید ترین اختلاف ہے۔

(جاری ہے)