Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ کے الاصول الاربعمائتہ کا تعیین اور مصنفین (قسط 5)

  مولانا سمیع اللہ سعدی

شیعہ کے الاصول الاربعمائتہ کا تعیین اور مصنفین

چار سو اصولوں کے زمانہ تدوین کی طرح ان کے مصنفین بھی پردہ خفا میں ہیں ، شیعہ کی موجود علمی تراث میں تلاش، جستجو، ضعیف و صحیح روایات و عبارات اور ثقہ و ضعیف روات کو ملا کر ایک سو سے کچھ اوپر رواۃ کے بارے میں "لہ اصل" کا لفظ ملتا ہے ، چنانچہ شیخ طہرانی نے اپنی ضخیم کتاب

"الذریعہ الی تصانیف الشیعہ "

میں تلاش و جستجو کے بعد 117 اصولوں کا ذکر کیا ہے۔

(الذریعہ 135-2/168)  

محقق شیخ فاضل جبوری اپنے ضخیم مقالے

"تراجم رواۃ الاصول الاربعمائتہ"

میں اس پر صرف پانچ کا اضافہ کر سکے ، باقی 278 اصولوں کے مصنفین کا ضعف ، ثقاہت ، تعارف و احوال تو کجا نام ہی نامعلوم ہیں ، یعنی دو سواٹھتر اصول ایسے ہیں ، جو صرف عالم خیال میں موجود ہیں ، ان کا زمانہ ، تدوین ، موضوع، مصنفین کے نام و تعارف میں سے کوئی بھی چیز معلوم نہیں ہے ،ان میں سے بھی شیخ طوسی و نجاشی، جنہوں نے لفظ اصل کو رواج دیا، انہوں نے صرف 60 اصولوں کا ذکر کیا ہے ، جبکہ طوسی نے اپنی کتاب الفھرست کے مقدمے میں تصریح کی ہے کہ میں نے اپنے اصحاب کی اکثر تصانیف و اصولوں کا اس میں ذکر کیا ہے ، نیز یہ بات بھی کسی علمی لطیفے سے کم نہ ہو گی کہ طوسی کتب اربعہ میں سے دو کے مصنف ہیں ،اگر کتب اربعہ چار سو اصولوں سے ماخوذ ہیں، تو یقینا شیخ طوسی کو ان کا خصوصی علم ہوگا، لیکن شیخ طوسی کتب شیعہ کی فہارس مرتب کرتے وقت صرف 60 کا ذکر کرتے ہیں ، علمی دنیا میں اس سے بڑا شاید کوئی عجوبہ ہوگا کہ جس نے ، بقول اہل تشیع محققین "چار سو اصولوں" سے کتاب تیار کی ،انہیں تو صرف ساٹھ کا علم ہوا، جبکہ بعد میں آنے والے سب اصولوں کے بارے میں جان گئے۔!!

اگر اس جواب کو مان بھی لیا جائے کہ کتب اربعہ چار سو اصولوں سے اخذ کی گئی ہیں ، تو اس سے کتب اربعہ کا استناد، صحت ، وثوق اور علمی وزن بڑھنے کی بجائے شدید گھٹ جاتا ہے کہ کتب اربعہ میں 278 ایسی کتب بھی ہیں، جو تاریخی اعتبار سے محض فرضی ہیں ، ان کا زمانہ تدوین ، اخذ و نقل ، مصنفین میں سے کوئی بھی چیز معلوم نہیں ہے۔ شیعہ محقق حسین جلالی نے بجاطور پر لکھا ہے :

لو كانت الاصول اربعمائة كما هو المشهور فلما ذا لم يذكرا هماوهما قد ضمنا الاستيفاء ،و لو كانت اقل ،فمن اين جاء التحديد بالاربعمائة كما هو المشهور؟

(دراسة حول الاصول الاربعمائتہ، ص 27)

یعنی اگر اصول واقعی چار سو ہیں ، تو شیخ طوسی و نجاشی نے کیوں ذکر نہیں کئے ، جبکہ ان دونوں نے شیعہ کتب کا احاطہ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اگر چار سو سے کم ہیں ، تو چار سو کی تحدید کیوں اور کس بنا پر کی گئی؟

278 اصولوں کے محض فرضی ہونے (فرضی ہونے سے مراد یہ ہے کہ ان پر کوئی بھی تاریخی دلیل نہیں

ہے ، خواہ مصنف کے نام کی صورت میں ہی ہو ) کے باوجود علمائے شیعہ ان اصول اربعمائتہ کو کس طرح مشہور باور کراتے ہیں ، اس کا نمونہ شیخ علی النمازی کی کتاب

"الاعلام الھادیة الرفیعہ فی اعتبار الکتب الاربعۃ المنیفہ"

میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ، مصنف لکھتے ہیں :

لا نحتاج الى الطريق نحو الاصول الاربعمائه التي صنفها الثقات الاجلاء المعروفه المشهوره الثابته نسبتها الى مصنفيها"

(الاعلام الھادية الرفيعه في اعتبار الكتب الاربعة المنيفہ ، ص 108)

ہم اصول اربعمائہ کی طرف کسی بھی سند کے محتاج نہیں ہیں ، کیونکہ ان اصولوں کو ثقہ ،اجل ، معروف و مشہور رواۃ نے لکھا ہے اور ان رواۃ کی طرف ان کتب کی نسبت بھی مشہور ہے ۔

کیا شیخ نمازی یا کوئی بھی اہل تشیع محقق ان " ثقہ، معروف ،اجل و مشہور" چار سو مصنفین کے صرف نام ہی مکمل کر کے دکھا سکتے ہیں ؟

یہ ساری بحث اس صورت میں ہے جب ہم اہل تشیع محققین کے بیان کردہ جملہ مفروضات کو من و عن قبول کریں، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ طوسی و نجاشی نے جو لہ اصل کا لفظ بولا ہے ، کیا وہ واقعی حدیث کی کتاب کے لیے بولا ہے؟ یہ بات محتاج ثبوت ہے ، اگر اصل کا لفظ حدیث کی کتاب کے لیے ہے ، تو شیخ طوسی و نجاشی نے جو "لہ کتاب “ کا لفظ بولا ہے ، اس کا مصداق کیا ہوگا ؟ اس لیے محض کتاب یا اصل کہنے کو حدیثی مجموعے پر محمول کرنا قیاس و تخمین ہے، کیونکہ شیخ طوسی و نجاشی نے اپنے اسلاف کے جملہ تصنیفی ذخیرے کی فہرست مرتب کی ہے ، جس میں تفسیر ، حدیث ، فقہ ، سوانح اور دیگر اصناف شامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں تفسیر ، حدیث ، فقہ ،تاریخ جملہ قسم کی تصانیف کا ذکر ہے ،اس لیے کتب اربعہ سے پہلے کے حدیثی ذخیرے کو ثابت کرنے کے لیے حدیثی کتب و مجموعات کی تصریح کی ضرورت ہوگی ، محض اصل یا کتاب کا لفظ دیکھ کر اسے حدیثی کتاب قرار دینا تحکم اور دعوی بلا دلیل ہے ، اور تحقیقی میزان میں ظن ، تخمین اور احتمالات کی بنیاد پر کیے گئے دعاوی ثابت شمار نہیں ہوتے۔ نیز کتب اربعہ کے مصنفین نے بھی اپنی کتب کے مقدمات یا کسی اور مقام پر اپنی کتب کو اصول اربعمائمہ سے ماخوذ و منقول قرار نہیں دیا ، بلکہ کتب اربعہ کے مصنفین کی جملہ کتب میں ہمیں اصطلاح (الاصول الاربعمائمتہ) کا نام و نشان نہیں ملتا۔

2  تفصیلی جواب

کتب اربعہ سے پہلے حدیثی ذخیرے کو ثابت کرنے کے لیے معاصر شیعہ مصنفین نے ایک اور طریقہ اختیار کیا ہے ، جسے ہم نے آسانی کے لیے “تفصیلی جواب " کا نام دیا ہے ،اہل تشیع کی تاریخ حدیث لکھنے والے معاصر مصنفین نے ہر امام کے دور میں حدیثی مجموعات کی ایک فہرست مرتب کرنے کی کوشش کی ہے ،ان کتب میں ڈاکٹر محمد مہدوی کی ضخیم کتاب

"تدوين الحديث عند الشيعة الاماميه "

محمد رضا المودب کی کتاب

"تاریخ الحدیث "

سید محمد علی الحلو کی کتاب

"تاریخ الحدیث بین سلطة النص ونص السلطہ"

الحاج حسین الشاکری کی کتاب

"تدوین الحدیث و تدوین الفقہ "

علی شہرستانی کی

"تاریخ الحدیث النبوی"

جبکہ فارسی کتب میں ڈاکٹر مجید معارف کی کتاب

"پژوهشی در تاریخ حدیث شیعہ"

مدیر کاظم کی

"تاریخ حدیث "

سید احمد میر خانی کی

"سیر حدیث در اسلام "

اہم کتب ہیں ، ان مصنفین نے اصول اربعمائتہ پر بحث کے ساتھ شیعہ حدیثی ذخیرے کے مختلف مراحل بیان کئے ہیں ، جن میں عمومی طور پر ہر امام کے دور کو ایک مرحلہ قرار دیا گیا ہے ، ان میں سے ایک دو کتب کو چھوڑ کر باقی سب کتب کا ہم نے تفصیلی جائزہ لیا، تاکہ اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کی قبل از تدوین کی صورتحال سامنے آ جائے ، ان کتب کے تفصیلی مطالعے سے جو نکات ہمارے سامنے آئے، انہیں ترتیب وار پیش کیا جاتا ہے :

1۔ان سب کتب میں ایک مشترک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں صرف حدیثی مجموعوں کا ذکر نہیں ہے ، بلکہ مواد کی کثرت ظاہر کرنے کے لیے دیگر فنون کی کتب کا بھی ساتھ ذکر کیا گیا ہے ، مثلا محمد رضا المودب نے

"الاثار الروائية الاخرى في القرن الاول "

کا عنوان باندھ کر درجہ ذیل کتب کا ذکر کیا ہے :

1۔ السنن والقضايا والاحكام لابی رافع

2۔ کتاب علی بن رافع

3۔ نصاب زکاۃ الانعام الثلاثتہ لر بیعۃ بن سلیمان

4۔ کتاب الاصبغ بن نباتہ الذی روی عہد مالک الاشتر

5- کتاب زید بن وہب المشتمل على خطب على

6۔ کتاب ابی ذر الغفاري حول ما وقع بعد وفاة النبی  ﷺ

7۔ کتاب عبد اللہ بن الحر الحجفی

8۔کتاب نعمان بن سعید

9۔ کتاب عبد اللہ بن بلال المشتمل على روايات عن بلال

10۔ کتاب سلمان الفارسي الذي روی حدیث الجاثلق

11۔ کتاب میثم التمار في تفسير القرآن

12۔ کتاب ابی مقدام من روایات علی بن الحسین

13۔ کتاب بریر بن خضیر الہمدانی

14۔ کتاب الحارث بن اعور الحمداني من روايات الامام علی

15۔ کتاب سلیم بن قیس فی شرح و قائع الاسلام

16۔ کتاب محمد بن قیس البجلی

17۔ کتاب یعلی بن مرۃ الثقفی (تاریخ الحدیث، ص 53)

پہلی صدی ہجری میں مصنف نے تلاش و جستجو کے بعد سترہ کتب کا ذکر کیا ، ان کی درجہ بندی یوں کی جاسکتی ہے :

الف : چار کتب ایسی ہیں ،جو براہ راست حدیثی روایات کی بجائے دیگر موضوعات پر بھی مشتمل ہیں :

1۔ کتاب الاصبغ بن نباتہ الذی روی عہد مالک الاشتر

2۔ کتاب ابی ذر الغفاري حول ما بعد وفات النبی ﷺ

3۔ کتاب میثم التمار فی تفسیر القرآن

4۔ کتاب سلیم بن قیس فی شرح و قائع الاسلام

ب :ائمہ کی روایات پر صراحتا مشتمل صرف تین کتب ہیں :

1۔ کتاب زيد بن وهب المشتمل على خطب على

2۔ کتاب ابی مقدام من روايات من روایات علی بن الحسین

3 ۔ کتاب الحارث بن اعور المدانی من رويات الامام علی

اگر ہم فقہ کی دو کتب

"السنن ولقضايا والاحكام لابی رافع "

اور

"کتاب زکاۃ الانعام الثلاثہ "

کو بھی حدیثی کتب شمار کریں ، تو ان سترہ کتب میں صرف پانچ کتب حدیث کی ہیں۔

ج ۔ بقیہ آٹھ کتب ایسی ہیں ، جن میں مطلقا کتاب کا ذکر ہے ، جس میں اس کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ حدیثی ذخیرہ ہے یا کسی اور فن کی کتاب ہے ؟ ان کو حدیثی ذخیرہ کی فہرست میں شمار کرنا دعوی بلادلیل ہے ۔

یہی روش تاریخ حدیث کی بقیہ کتب میں بھی ہے ، یہاں تک کہ مصاحف کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

(تدوين الحديث عند الشيعة الامامیہ ، ص419 ۔

مصحف علی کا ذکر کیا گیا ہے )،

حدیثی ذخیرے کی فہارس مرتب کرنے والی کتب میں مصاحف کا ذکر کس قدر علمی و تحقیقی وزن رکھتا ہے ، اہل علم پر مخفی نہیں ہے۔

2۔ حدیث و غیر حدیث کے مجموعات کے باوجود تعداد انتہائی کم بنتی ہے ، مثلا محمد مہدوی نے جو ذخیرہ ذکر کیا ہے ، وہ کچھ یوں ہے :

الف : حضرت علی ؓ کے دور میں حدیث و غیر حدیث کو ملا کر تیرہ اشخاص کی تصانیف کا ذکر کیا ہے۔

ب : حضرت حسن  و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے دور میں کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا، صرف ان کے اقوال ذکر کئے ، جو روایات کی کتابت کی ترغیب پر مشتمل ہیں۔

ج : امام زین العابدین کے دور میں حدیث و غیر حدیث کو ملا کر کل گیارہ مجموعات کا ذکر کیا۔

د: امام باقر کے دور میں حدیثی و غیر حدیثی کل سولہ مجموعات کا ذکر کیا۔

ر : امام جعفر صادق کے دور میں کل تیس مجموعات کا ذکر کیا۔

ذ: امام موسی کے دور میں تیرہ مجموعات کا ذکر کیا۔

س : امام رضا کے دور میں بائیس مجموعات کا ذکر کیا۔

ش : امام محمد ہادی کے دور میں کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا ، اور امام علی و امام حسن عسکری کے ادوار کو ملا کر کل پندرہ مجموعات کا ذکر کیا۔

یہ تقریبا کل ملا کر 133 مجموعات ہوگئے ۔ حدیثی و غیر حدیثی مجموعات کو ملا کر یہ تعداد بنتی ہے ، محض حدیثی مجموعات اس سے کہیں کم بنتی ہیں ، یوں امام حسن عسکری (260ھ ) تک ڈھائی سو سال میں اہل تشیع کے مجموعات حدیث سو تک بھی نہیں پہنچتے ، لیکن پھر کتب اربعہ کی صورت میں ایک صدی کے اندر چالیس ہزار سے زائد روایات منظر عام پر آ جاتی ہیں !!

3۔ بعض کتب میں جیسے محمد رضا المودب کی تاریخ الحدیث اور سید احمد میر خانی کی کتب میں ہر مرحلے کے مجموعات کی تعداد سینکڑوں میں بتائی گئی ہے ، مثلا صرف امام رضا کے دور میں دو سو سے اوپر کتب کا ذکر کیا گیا ہے ، لیکن ان میں نام و مصنف کی تفاصیل نہیں دی گئی ، صرف یہ کہا گیا ہے کہ اس دور میں ان کتب سمیت دو سو افراد نے بھی کتب لکھی ہیں ، مثلا رضاالمودب لکھتے ہیں :

وكان لثمانين تلميذا من تلامذته مولفات في الحديث بلغ عددها 207 كتاب

(تاریخ الحدیث ، ص 71)

آپ کے اسی شاگردوں نے حدیث کی کتب لکھی ہیں ، جن کی تعداد 207 تک پہنچتی ہے ۔ اب یہ کتب کن کی تصانیف ہیں؟ کیا واقعی یہ حدیث کی کتب ہیں ، یا دیگر فنون و مطلق کتاب کے عنوان پر مشتمل کتب بھی اس میں شامل ہیں، نیز یہ تعداد کہاں سے ثابت ہے؟ اس طرح کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔

دراصل تفصیلی فہارس مرتب کر نے والے معاصر اہل تشیع مصنفین نے دو مفروضات پر یہ عمارت کھڑی کی ہے :

1۔ ائمہ کا ہر شا گرد شیعی امامی ہے ، حالانکہ ائمہ سے خصوصا امام جعفر صادق سے بہت سے اہل سنت حضرات نے بھی استفادہ کیا۔

2۔ائمہ کے تلامیذ کے ساتھ کتاب کے عنوان کا مطلب یہ ہے کہ وہ کتاب ضر ور ائمہ سے منقول رویات و احادیث پر مشتمل ہوگی۔

کیا کسی کے شاگرد بنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عالم اب جو بھی کتاب ، جس موضوع پر بھی لکھے گا ، وہ اسی استاد کی روایات پر مشتمل متصور ہوگی ؟ امام شافعی نے امام محمد سے استفادہ کیا ، اب کیا امام شافعی کی ہر کتاب کو امام محمد کی روایات کا مجموعہ کہا جائے؟ اور یہ کہا جائے کہ امام محمد کی روایات کو امام شافعی نے الام جیسی ضخیم کتاب میں جمع کیا ؟ اگر یہ نتیجہ غلط ہے اور یقینا غلط ہے تو محض ائمہ کے شاگردوں کے تذکرے میں لفظ " کتاب " دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ کتاب حدیث کی ہی ہے اور اس میں ائمہ کی ہی احادیث جمع ہوئی ہیں ، نتیجہ نکالنا بھی تحقیق کے میزان میں کوئی وزن نہیں رکھتا ۔ جبکہ اس کے برخلاف ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب نے جو مجموعات حدیث کی فہرست دی ہے ، وہ مختلف محدثین کی اپنے اساتذہ سے سنی ہوئی روایات پر مشتمل ہیں ، ان میں اس طرح کے غیر ثابت مفروضوں سے کام نہیں لیا گیا ، چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

1۔ ذکوان ابو صالح السمان کی احادیث کا تذکرہ یوں کیا ہے :

من كانت عنده احاديث مكتوبة :

الاعمش ،قال الاعمش كتبت عند ابی صالح الف حدیث ۔۔۔۔

سہیل بن ابی صالح ،كانت لديه صحيفة عن ابيه (دراسات في الحديث النبوی و تار یخ تدوینہ ، ص 147)

2۔سالم ابن ابی الجعد کا مجموعہ حدیث یوں ذکر کیا :

قال منصور قلت لابراہيم النخعي ،ما لسالم ابن ابي الجعد اتم حديثا منك؟قال لانه كان يكتب (دراسات في الحديث النبوی و تار یخ تدوینہ، ص148)

3۔ شہر بن حوشب الاشعری کا مجموعہ یوں ذکر کیا :

و روی عبد الحميد بن بهرام عن شهر نسخة (دراسات في الحديث النبوی و تار یخ تدوینہ، ص151)

اس طرح سے ڈاکٹر صاحب نے مختلف شیوخ اور ان کے تلامذہ کے مرتب کردہ 456 مجموعات حدیث کی فہرست مرتب کی ہے ، الغرض اہل تشیع کی تفصیلی فہارس اولا تو انتہائی کم تعداد میں ہیں ، ثانیا انہیں بلا دلیل مجموعات حدیث اور ائمہ کی روایات پر مشتمل صحائف باور کرایا گیا ہے ۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اہل تشیع کی کتب اربعہ سے پہلے حدیثی ذخیره خواہ تحریری صورت ہو یا

تقریری یعنی درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کی صورت ہو ، اخفا کے دبیز پردوں میں مستور ہے ، اس کا تاریخی ثبوت دستیاب مواد کی مدد سے از حد مشکل ، بلکہ ناممکن ہے۔

( جاری ہے )