Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ کو ان کا حق باغ فدک نہیں دیا جو وراثت میں رسول اللہ نے دیا تھا جس وجہ سے حضرت فاطمہ مرتے دم تک حضرت ابوبکر سے ناراض رہیں (بخاری شریف)

  جعفر صادق

شیعہ کہتے ہیں کہ اہلسنت ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ شیعہ صحابہ کرام کو نہیں مانتے ہیں مگر ہم (شیعہ) سب صحابہ کو مانتے ہیں لیکن (حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو نہیں مانتے اس لیے نہیں مانتے کہ

(شیعہ اعتراض۔1)
حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ کو ان کا حق باغ فدک نہیں دیا جو وراثت میں رسول اللہ نے دیا تھا جس وجہ سے حضرت فاطمہ مرتے دم تک حضرت ابوبکر سے ناراض رہیں (بخاری شریف)

جواب.1:
پہلی بات کہ رسول اللہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو باغ فدک دیا ہی نہیں اگر دیا تو پوری دنیا کے شیعہ کو چیلنج ہے ثابت کرو کب دیا؟ دوسری بات سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب پیغام بھیجا باغ فدک کا تو حضرت ابوبکر نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ “ہم انبیاء کرام کی مالی وارثت نہیں ہوتی جو چھوڑ کر جانتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے” پس میں (ابوبکر) وہی عمل کروں گا جو رسول اللہ کا تھا اور یہ جواب سن کر سیدہ فاطمہ خاموش ہو گئی (خاموشی رضامندی کی علامت ہے) یعنی راضی ہو گئی پھر وفات تک اس موضوع فدک پر بات نہیں کی ایسا ہرگز ہرگز نہیں کہ سیدہ فاطمہ سیدنا ابوبکر سے بلکل ہمکلام نہیں ہوی یہ شیعہ جھوٹ ہے، اور جنازہ بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پڑھایا

جواب۔2
مسئلہ فدک میں یہ امر سب سے زیادہ قابل غور ہے کہ فدک کی محرومی کی وجہ سے جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر جنابہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کی کہانی اہل سنت والجماعت کی کسی معتبر کتاب میں جنابہ سیدہ رضی اللہ عنہا کی زبانی ثابت نہیں کی جا سکتی یہ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ سیدہ رضی اللہ عنہا نے خود فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرا حق غصب کر لیا ہے اور مجھ پر ظلم کیا ہے میں ان سے ناراض ہوں ان سے کبھی بات نہیں کروں گی ہمارا دعوٰی ہے کہ قیامت تک کوئی شخص اہل سنت کی معتبر کتابوں سے اس قسم کا ثبوت پیش نہیں کر سکتا ۔ ۔ ۔
مگر اس کے بر عکس شیعہ کی معتبر کتابوں میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زبانی جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ پر اس فدک کی وجہ سے سخت ناراضگی ثابت ہے ۔ جس کا ازالہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں بھی نہ کیا بلکہ فدک کو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق و فاروق و غنی رضی اللہ عنہم اجمعین والے سابقہ طریقہ پر باقی رکھا اور سابقہ خلفائے راشدین کے طرز عمل میں کسی تغیر کو جائز نہ سمجھا ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ جن پر سیدہ فاطمہ کی ناراضگی شیعہ کے نزدیک یقینی ثابت ہے کہ ان کو سیدہ رضی اللہ عنہا نے خود ناراضگی کے سخت الفاظ فرمائے ان کو امام معصوم اور خلیفہ برحق سمجھنا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جن پر سیدہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کا کوئی یقینی ثبوت نہیں ان کا ظالم ، غاصب سمجھنا کس انصاف اور کس دیانت پر مبنی ہے ؟؟؟

شیعہ دھوکہ: اس موضوع ہر شیعہ عام جاہل امت مسلمہ کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر کا جواب سن کر ناراض ہو گئی اور مرتے دم تک بددعا کرتی رہی یہ سب شیعہ بکواس اور جھوٹ ہے یہ کہیں نہیں لکھا، شیعہ کو چیلنج ہے یہ ثابت کریں کہ سیدہ فاطمہ نے خود فرمایا ہو میں ابوبکر سے ناراض ہوں جو حوالہ دیا ہے شیعہ نے وہ شیعہ کتاب ہے

دوسرا شیعہ اعتراض2:

حضرت عمر کو اس لیے نہیں مانتے بلکہ کافر کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے حضرت عُمر سے قلم دوات مانگی اور کہا کہ رسول اللہ بکواس کر رہے ہیں (نعوذباللہ)

تفصیل دوسرا شیعی اعتراض:

شیعہ کہتے ہیں پیغمبرِ علیہ السلام جناب علی (رضی اﷲ عنہ) کی خلافت تحریر فرمانا چاہتے تھے۔ حضرت عمر (رضی اﷲ عنہ) سے کاغذ، قلم ودوات طلب فرمائی تو انہوں نے نہ دی بلکہ یہ کہا کہ رسول اﷲﷺ ہذیان کہتے ہے اور ہمیں ﷲ تعالیٰ کی کتاب کافی ہے۔ یہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے بڑی غلطی کی۔

جواب۔1
جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔ آپ شیعہ کی ابتداء ہی غلط بلکہ کتب اہل اسلام میں الٹا یہ موجود ہے کہ پیغمبر علیہ السلام اپنے مرض الموت میں جناب ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خلافت تحریر فرماگئے تھے جیسا کہ مشکوٰۃ شریف صفحہ 555 پر واضح الفاظ میں موجود ہے۔ نیز اس طعن کرنے سے اتنا پتہ چل گیا کہ خم غدیر کے موقع پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ خلیفہ مقرر نہیں ہوئے تھے اور عید غدیر مناکر شیعہ لوگ خواہ مخواہ بدنام ہو رہے ہیں۔ آپ کا یہ دعویٰ پیغمبر علیہ السلام نے کاغذ، قلم، دوات حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے طلب فرمائی تو یہ بھی جھوٹ ہے بلکہ آپ نے جمیع حاضرین سے کہ جن میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ، حضرت عباس رضی ﷲ عنہ اور گھر کی عورتیں وغیرہ بھی شامل ہیں، کاغذ، قلم، دوات طلب فرمایا جیسا کہ

بخاری شریف کتاب الجزیۃ، باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب جلد 10،ص 426، رقم الحدیث 2932 پر موجود ہے۔

فقال ائتونی بکتف اکتب لکم کتابا

یعنی حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ کتب لاؤ تاکہ میں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ جس کے بعد تم راہ حق کو نہ گم کرو۔

غور فرمایئے حدیث میں ’’ائتونی‘‘ صیغہ جمع مذکر مخاطب بول کر پیغمبر علیہ السلام جمیع حاضرین سے کتف طلب فرمارہے ہیں۔ فقط حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے اور ان سے طلب ہی کیوں فرماتے جبکہ وہ ان کا گھر ہی نہ تھا کہ جس میں قلم دوات طلب کی گئی بلکہ حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا کا حجرہ تھا، جیسا کہ بخاری شریف جلد 1، صفحہ 382 پر ہے اور پھر اگر قریب تھا تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا گھر لہذا اگر خاص طور پر طلب فرماتے تو ان سے کہ جن کا گھر بعید تھا۔ بہرحال نقل و عقل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے پیغمبر علیہ السلام نے قلم دوات طلب نہیں فرمائی۔

(تمام شیعہ متفق ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا گھر مدینہ شریف کے شہر کے آخری کونے پر تھا)

جواب:2
آپ اس کا کیا جواب دیں گے کہ حضور اکرمﷺ تین دن زندہ (دنیوی زندگی) رہے اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ باوجوہ قریب گھر ہونے کے بھی ان کی تعمیل حکم نہ کرسکے اور بقول شیعہ خلافت بھی انہیں کی تحریر ہوئی تھی اور ادھر حکم رسول بھی تھا لہذا اگر باقی سب صحابہ مخالف تھے تو ان پر لازم تھا کہ چھپے یا ظاہر ضرور لکھوا لیتے تاکہ یوم سقیفہ یہی تحریر پیش کرکے خلیفہ بلافصل بن جاتے مگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ یا تو تحریر ہی سرے سے ضروری نہ تھی بلکہ ایک امتحانی پرچہ تھا کہ جس میں حضور اکرمﷺ نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی رائے سے اتفاق فرمایا ورنہ آپ پر کتمان حق اور وحی کا الزام عائد ہوگا حالانکہ جماعت انبیاء اس سے بالاتر ہے۔

جواب3۔
اگر یہ ضروری تحریر تھی یا وحی الٰہی تھی اور کاغذ دوات نہ لانے والا خواہ مخواہ ہی مجرم ہوتا تو اس جرم کے مرتکب حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے بجائے اہل بیت کو ہونا لازم آتا ہے۔ اس لئے کہ وہ ہر وقت گھر میں رہتے تھے۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کہ جن کا گھر باقی صحابہ کی نسبت قریب تھا اور اگر وہ مجرم نہیں تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ بھی مجرم نہیں۔ لہذا شیعوں کا یہ کہنا کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے قلم اور دوات حضورﷺ نے طلب فرمائی، باطل ہوا۔

منہ توڑ جواب کا خلاصہ:

پہلی بات قلم دوات اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہیں تو دی حضرت علی لا دیتے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیوں نہ دی؟؟ دوسری بات جب قلم دوات مانگی اس وقت تو بہت سے اہلبیت موجود تھے نشانہ صرف حضرت عُمر رضی اللہ عنہ کو کیوں شیعہ بناتے ہیں؟ تیسری بات بکواس کے الفاظ شیعہ کے خود بناے ہیں کسی کتاب میں نہیں لکھا یہ، چوتھی بات قلم دوات سے بہت پہلے اَلْيومَ اُکملتُ لکُم دِینُوکُم والی آیتِ نازل ہوی اب رسول اللہ نے کیا لکھنا تھا اگر اللہ کا حکم تھا تو دوبارہ لکھوا سکتے تھے رک نہیں سکتے ہیں جب نہیں لکھوایا تو اس کا مطلب ہے کوئی حکم ربی نہیں تھا، یاد حضرت عُمر رضی اللہ عنہ سے بغض اور نفرت اس وجہ سے ہے کہ حضرت عُمر نے ایران کو فتح کر کے یہود و مجوس کو عبرتناک شکست دی اس وجہ سے اج تک یہ بکتے ہیں

شیعہ اعتراض2. (حصہ دوم)
شیعہ کہتے ہیں حضرت نے حضرت عُمر رضی اللہ عنہ کو اس لیے نہیں مانتے حضرت عُمر نے حضرت فاطمہ کے گھر کے دروازے کو آگ لگائی، اور حضرت عمر نے حضرت فاطمہ کو مارا جس سے ان کا اسقاط حمل ہوا نعوذباللہ

جواب: پہلی بات کہ اہلبیت کے گھروں کے دروازے نہیں ہوتے تھے جو آگ لگائی جاتی، دوسری بات اگر آگ لگائی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بیٹی ام کلثوم بنت علی کا نکاح حضرت عُمر رضی اللہ عنہ سے کیوں کیا؟؟ جب آگ لگائی گئی اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کہا تھے؟؟ کیا نعوذباللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شیعہ بزدل ثابت کرنا چاہتے کہ ان کے ہوتے ان کی بیوی کا گھر کا دروازہ جلا دیا، یہ ایمانی غیرت ہے؟؟ العقد الفرید نامی کتاب میں یہ بکواس ہے یہ شیعہ کی ہے یاد رہے یہ بات شیعہ کتب میں ہے اہلسنت کی کسی کتاب میں نہیں اس لیے سب جھوٹ الزام ہے

شیعہ اعتراض3.
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس لیے نہیں مانتے کہ انہوں نے قرآن پاک گا جلایا (نعوذباللہ)

جواب:
شیعہ حضرات کا اس موجودہ قرآن پر نہ ایمان ہے نہ تھا نہ ہو سکتا ہے (اس کی بہت وجوہات ہیں کسی اور جگی لکھیں گے) یہ اپنے عقیدہ پر پردہ ڈالنے کے لیے حضرت عثمان پر الزام لگا دیا شیعہ کا عقیدہ ہے کہ اصل قرآن بارہواں امام غار میں لے گیا جب تک نہیں آتا ہم اس غلط قرآن کو پڑھیں گے مجبوراً (شیعہ مجتہد مقبول دہلوی ترجمہ مقبول)

یہ ہیں دشمن اسلام اہل تشیع روافض کے داعیان اسلام (سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر و سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین) کے بارے گستاخانہ کفریہ الفاظ جو شیعہ علماء اور زاکرین مجلسوں میں اپنی قوم جو رو رو کر سناتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں ان دشمن اسلام شیعہ کا بس ایک مقصد ہے کسی نا کسی طرح امت مسلمہ کو ان جانشین رسول تین خلفاء سے متنفر کیا جائے تاکہ اسلام کا حُلیہ بگاڑنا آسان ہو سب کو معلوم ہونا چاہیے رسول اللہ کے بعد مسجد نبوی میں دو سال تین ماہ تک سیدنا ابوبکر نے نماز ہڑھائی، حضرت عُمر رضی اللہ عنہ نے اپنی 10 سالہ دورِ خلافت میں 22 لاکھ مربع میل پر اسلام کا ہرچم لہرایا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے 12 سالہ دور خلافت میں 44 لاکھ مربع میل پر اسلام کا پرچم لہرایا، اور قرآن میں ان تین خلفاء ثلاثہ کی خلافت کا اللہ نے ذکر فرمایا یہ شیعہ کیوں نہیں بتاتے آپ کو اور اپ لوگ شیعہ کے جال میں آ رہے ہیں اپنی جہالت کی وجہ سے جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان تینوں خلفاء ثلاثہ کی بیعت کی اور ان کے پیچھے نماز پڑھی، ان کے وزیر رہے، اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو چودہ سو سال میں سب سے زیادہ خطرناک دشمن اسلام گروہ شیعہ سے بچائے آمین