Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ 9 ہجری میں بحیثیت امیر حج

  علی محمد الصلابی

سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ 9 ہجری میں بحیثیت امیر حج

رسول اللہﷺ کے دور میں معاشرہ کی تربیت اور سلطنت کی تعمیر عقائدی، اقتصادی، اجتماعی، سیاسی، عسکری اور تعبدی ہر اعتبار سے جاری تھی اور گذشتہ سالوں میں فریضہ حج ادا نہ کیا جا سکا تھا۔ فتح کے بعد 8 ہجری میں اگرچہ حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو حج کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن مسلمانوں اور مشرکین کے حج میں کوئی امتیاز قائم نہ کیا جا سکا تھا۔

(دراسات فی عہد النبوۃ: عماد الدین خلیل صفحہ، 222)

چنانچہ جب 9 ہجری میں حج کا زمانہ آیا تو رسول اللہﷺ نے حج کا ارادہ فرمایا لیکن آپؓ نے یہ کہہ کر ارادہ ترک کر دیا کہ ننگے مشرکین خانہ کعبہ کا طواف کریں گے، مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس حالت میں حج کروں۔ لہٰذا رسول اللہﷺ نے 9 ہجری میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کر کے روانہ فرمایا۔ آپؓ حجاج کو لے کر مکہ روانہ ہوئے۔ اتنے میں سورۃ براۃ کا نزول ہوا۔ نبی کریمﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور حکم دیا کہ حضرت ابوبکرؓ سے جا ملو۔ حضرت علیؓ رسول اللہﷺ کی اونٹنی عضباء پر سوار ہو کر نکلے اور ذوالحلیفہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جا ملے۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے آپ کو دیکھا تو دریافت کیا امیر بن کر آئے ہو یا مامور؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا مامور بن کر آیا ہوں۔ پھر یہ قافلہ حج روانہ ہوا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حج کرایا اور اس سال حج ذوالحجہ میں ہوا جیسا کہ صحیح روایات اس پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ ذوالقعدہ میں جیسا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے یوم ترویہ (8 ذی الحجہ) سے قبل اور یوم عرفہ (9 ذی الحجہ)، یوم النحر (10 ذی الحجہ)، یوم النفرالاوّل (12 ذی الحجہ) کو خطبہ دیا، لوگوں کے لیے مناسک حج وقوف عرفہ و افاضہ، رمی جمرات اور منیٰ سے کوچ کرنے کے احکام و مسائل بیان کیے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہر موقع پر آپؓ کے پیچھے پیچھے رہتے اور لوگوں کو سورۃ براۃ کی ابتدائی آیات پڑھ کر سناتے اور لوگوں میں ان چار باتوں کا اعلان کرتے

  1. جنت میں صرف مؤمن داخل ہوں گے۔
  2. آئندہ سے کوئی ننگے طواف نہ کرے۔
  3. جس کا رسول اللہﷺ کے ساتھ معاہدہ ہو وہ اپنی مدت تک باقی رہے گا۔
  4. اس سال کے بعد مشرکین کو حج کی اجازت نہ ہو گی۔

(صحیح السیرۃ النبویۃ: صفحہ، 625)

سیدنا ابوبکرؓ نے حضرت ابوہریرہؓ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ اس عظیم مہم میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تعاؤن کے لیے مقرر فرمایا۔

(السیرۃ النبویۃ لابی شہبۃ: جلد، 2 صفحہ، 537)

نبی کریمﷺ نے مشرکین کے سامنے عہد شکنی کے اعلان کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انتخاب اس لیے فرمایا تھا کیونکہ لوگوں کا عام معمول تھا اور ان کے عرف میں یہی تھا کہ عہد و پیمان کو قائم کرنے اور اس کو توڑنے کے لیے یا تو قبیلے کا سردار ہو یا اس کے خاندان کا کوئی فرد ہو، اور یہ عرف چونکہ اسلام کے منافی نہیں تھا اس لیے رسول اللہﷺ نے اس کی رعایت کرتے ہوئے سیدنا علیؓ کو اس کام کے لیے روانہ فرمایا۔ یہ اصل سبب ہے جس کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سورۃ براۃ کی ابتدائی آیات کی تبلیغ کے لیے روانہ فرمایا نہ کہ جو روافض کا زعم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں خلافت کے زیادہ مستحق تھے۔ شیخ محمد ابو شہبہؒ اس پر تعلیق چڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں ’’پتہ نہیں ان لوگوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو کیسے نظر انداز کر دیا تم امیر بن کر آئے ہو یا مامور؟

(صحیح السیرۃ النبویۃ: صفحہ، 524)

پھر مامور امیر سے بڑھ کر خلافت کا مستحق کیسے ہو سکتا ہے؟

(السیرۃ النبویۃ لابی شہبہ: جلد، 2 صفحہ، 540)

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امارت میں یہ حج حجۃ الوداع:

(السیرۃ النبویۃ لابی شہبہ: جلد، 2 صفحہ، 540)

 کا مقدمہ تھا اور اس حج میں یہ اعلان کیا گیا کہ بت پرستی کا دور ختم ہوا اور توحید کے نئے دور کا آغاز ہوا، اب لوگوں پر لازم ہے کہ اللہ کی شریعت کی پابندی کریں۔ قبائل عرب میں اس عام اعلان کے بعد ان قبائل کو یقین ہو گیا کہ اب یہ قطعی فیصلہ ہے اور اصنام پرستی کا خاتمہ ہو چکا، لہٰذا اپنے اسلام میں داخلے اور توحید کا اعلان کرتے ہوئے اپنے وفود کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجنے لگے۔

(قراءۃ سیاسیۃ للسیرۃ النبویۃ، قلعجی: صفحہ، 283)