Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دین الہٰی کے پاسبان

  جعفر صادق

دینِ الہٰی کے پاسبان:

اللہ جل شانہٗ نے نبی اکرم رسول معظم فخر بنی آدم سیدنا محمد رسول اللہﷺ کو تمام عالم کے انس و جن کے لیے مبعوث فرمایا۔ آپﷺ نے تعلیم و تزکیہ کا فریضہ پوری طرح انجام دیا اللہ کی کتاب کے الفاظ کی تعلیم دی۔ اس کے معانی اور احکام بتائے اور عملی طور پر بھی خود کر کے دکھایا اور بہت سے وہ احکام بتائے جو وحی جلی یعنی قرآن میں منصوص نہ تھے۔ آپﷺ کی دعوت اور تعلیم و تبلیغ کا کام انجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو منتخب فرمایا ان حضرات نے بہت ہی تکلیفیں اٹھائیں اور اسلام کے عقائد اور اصول و فروع کے پھیلانے اور پہنچانے میں جانوں کی بازی لگادی، جو دین ان کو ملا تھا اس کو محفوظ رکھا اور آگے بڑھایا اور عالم میں پھیلایا۔ ساری اُمت پر ان حضرات کا احسان ہے کہ اُمت تک پورا دین پہنچا دیا۔ یہ حضرات نبی اکرمﷺ کے صحیح نائب بنے۔ علم بھی سکھایا اور عمل کر کے بھی دکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کی قدر دانی فرمائی ان کی محنتوں کو قبول فرمایا۔ قرآنِ مجید میں ان کی تعریف فرمائی اور ان سے راضی ہو جانے کی خوشخبری دی اور ان کے بلند درجات سے آگاہ فرمایا۔

اہلِ السنت و الجماعت کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ ہے کہ بنی آدم میں انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد فضیلت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کا درجہ ہے۔ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اگرچہ معصوم نہیں ہیں لیکن ان کے گناہ مغفور ہیں۔ ان سے گناہ سرزد ہونے میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں اور ان خطائوں کا صادر ہونا ان کے بلند مرتبہ کے منافی نہیں ہے اور حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر صرف خیر ہی کے ساتھ کرنا درست ہے۔ ان میں سے کسی کو بُرا کہنا کسی طرح جائز نہیں ہے۔ شرح عقائد نسفی میں لکھا ہے جو عقائد اہل السنت و الجماعت کی ترجمان ہے کہ:

ویکف عن ذکر الصحابۃ الاّ بخیر لما ورد من الأحادیث الصحیحۃ فی مناقبہم و وجوبِ الکفّ عن الطعن فِیْہِمْ۔

اور حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر صرف خیر کے ساتھ کرے کیونکہ ان کے مناقب میں اور ان پر طعن نہ کرنے کے واجب ہونے کے بارے میں صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں۔

آج کل جوش تحقیق میں مجتہد اور مجدد ہونے کے دعویدار جو تھوڑی بہت شگفتہ اردو لکھ لیتے ہیں حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کرنے کو اپنی امارت اور تجدید کا قابلِ فخر کارنامہ سمجھتے ہیں۔ اہلِ السنت و الجماعت کے اکابر نے تو یہ ارشاد فرمایا کہ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر صرف خیر ہی کے ساتھ کیا جائے اور ان سے جو کوئی عملی خطا سرزد ہوگئی ہے اس کے بارے میں نہ صرف یہ کہ سکوت کیا جائے بلکہ اس کا اچھا محمل تلاش کرلیں اور اچھی طرح تاویل کر لیں۔ ان سے نہ خود بدگمان ہوں نہ دوسروں کو بدگمان ہونے دیں لیکن ذوقِ تنقید کے خوگر حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مطعون کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔ ہداہم اللہ تعالیٰ۔ دورِ حاضر کے بہت سے محقق تو اہلِ السنت والجماعت کے مسلک سے خارج ہونے کو کوئی بُری بات ہی نہیں سمجھتے اور بعض لوگ اہلِ السنت والجماعت سے اپنی نسبت کاٹنے کو پسند نہیں کرتے لیکن پھر بھی حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف کتابیں لکھتے ہیں۔ ان دونوں قسم کے محققین میں کوئی سیدنا عثمانؓ پر کیچڑ اچھال رہا ہے اور کوئی سیدنا امیرِ معاویہؓ کو ہدفِ ملامت بنا رہا ہے اور بعض لوگ اہلِ تشیع کے جواب میں ایسا انداز اختیار کرتے ہیں جس سے سیدنا علیؓ اور حضراتِ حسنین مطعون ہوتے ہیں۔ یہ لوگ تاریخ کے حوالوں سے حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کچھ لغزشیں اور کوتاہیاں جمع کر کے اور کچھ ان کے آپس کے اختلاف اور جنگ کے واقعات کو سامنے رکھ کر اپنے ذوقِ تنقید کی تسکین کرتے ہیں۔ ہداہم اللہ تعالیٰ۔ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اختلافات اور باہمی جنگوں کے واقعات کو مشاجراتِ صحابہ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان واقعات کے بارے میں حضراتِ سلف نے خاموشی اور کف لسان ہی کو واجب بتایا اور ان کا یہ بتانا اور فرمانا کتاب و سنت کے عین مطابق ہے۔

غور کرنے سے مجھے مشاجراتِ صحابہ کے متعلق اللہ جل شانہ نے بعض ایسے محامل القاء فرما دیے جن کی وجہ سے ان کے بارے میں کوئی اشکال نہیں رہا اور نہ صرف یہ کہ اشکال باقی نہ رہا بلکہ دل میں یہ آیا کہ اُمت کی تعلیم کے لیے ان مشاجرات کا وجود میں آنا ضروری تھا۔ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تو اللہ جل شانہٗ نے بہت بڑی فضیلت بخشی ہے ان کو برائی سے یاد کرنا کیونکر درست ہو سکتا ہے جب کہ عام مسلمانوں کے بارے میں حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: لا تسبّوا الأموات فانّہم قد أفضوا إلی ما قدموا۔

ترجمہ: یعنی مُردوں کو برائی سے یاد نہ کرو کیونکہ وہ اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنی اپنی جگہ کو پہنچ چکے ہیں۔ 

(رواہ البخاری)

علامہ سیوطیؒ نے ایک رسالہ مفتاح الجنّۃ فی الاحتجاج بالسنّہ کے نام سے تحریر فرمایا ہے اس میں انہوں نے علامہ دینوری کی کتاب المجالسہ سے نقل کیا ہے کہ رافضیوں کے مذہب کی ابتداء اس طرح سے ہوئی کہ چند زندیقوں نے اسلام کو لوگوں کی نظروں سے گرانے اور بدنام کرنے کے لیے مشورہ کیا کہ اس بارے میں کیا کرنا چاہیئے۔ ان میں سے بعض نے رائے دی کہ مسلمانوں کے نبی اکرمﷺ کو بُرا بھلا کہیں جب ان کی عظمت اور عقیدت گھٹے گی تو اس کا دین آگے بڑھنے میں بھی رکاوٹ ہوگی۔ اس پر ان کے سردار نے کہا کہ ایسا کریں گے تو ہم سب قتل کردیے جائیں گے کیونکہ مسلمان اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے پھر آپس میں مشورہ ہوا کہ ان کے نبیﷺ کے دوستوں کو بُرا بھلا کہنا چاہیئے اور ان سے علیحدگی اختیار کی جائے اور ان کو کافر کہا جائے۔ جب آپس میں یہ رائے پاس ہوگئی تو انہوں نے کہا کہ سیدنا علیؓ کے علاوہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دوزخ میں ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ سیدنا علیؓ ہی نبی تھے جبرائیل علیہ السلام سے وحی لانے میں خطا ہو گئی۔ 

(مفتاح الجنۃ: صفحہ، 74)

یہ بات اس زمانہ کے زندیقوں نے پھیلائی اوراس کے قبول کرنے والے کچھ لوگ ہوگئے پھر سلسلہ آگے بڑھتے بڑھتے شیعیت اور رافضیت ایک مذہب بن گیا، ان کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے بغض رکھنا اوران کو گالیاں دینا اور ان سے بیزاری کا اعلان کرنا ہی سب سے بڑا دین ہے۔ زندیقوں نے جو یہ بات چلائی تھی درحقیقت اس میں بہت بڑا راز پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کتاب اللہ کے نقل کرنے والے ہیں اور انہوں نے ہی حضور اقدسﷺ کی احادیث نقل کی ہیں، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ ہی سارے دین کی بنیاد ہے ان دونوں چیزوں کے نقل کرنے والوں پر اگر بالفرض اعتماد نہ ہو اور ان کو کافر مان لیا جائے جیسا کہ روافض کہتے ہیں تو ان کی نقل کی ہوئی کتاب اور سنت پر کیا بھروسہ ہوگا۔ جب کتاب وسنت ہی محفوظ نہ رہی تو دین کہاں رہا؟ دینِ حقیقی سے ہٹانے کے لیے اور اسلام کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کے لیے درحقیقت یہ بڑا حربہ ہے جو دشمنوں نے اختیار کیا۔

آج کل کے جو مصنّفین اپنی تحقیق کے جواہر اس میں دکھاتے ہیں کہ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مطعون کریں اور ان کی لغزشوں کو جمع کریں۔ یہ لوگ اگرچہ یوں نہیں کہتے کہ ہم دشمنانِ اسلام ہیں لیکن دشمنوں کے ہاتھ میں تاریخ کی کتابوں سے مواد تلاش کر کے ہتھیار دے رہے ہیں اور دین کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ چونکہ ان لوگوں نے دین اور علم دین اسلامی ذہن رکھنے والے اساتذہ سے حاصل نہیں کیا صرف مطالعہ کا علم رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث کی نصوص سے بے خبر ہیں یا قصداً قرآن و حدیث کی تصریحات کو دیکھنے سے گریز کرتے ہیں تاکہ اس کے محقق اور ناقد ہونے پر اثر نہ پڑے اس لیے آزادی کے ساتھ جو چاہتے ہیں لکھ دیتے ہیں جب ان کو احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ طریقہ درست نہیں ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے تاریخ کی کتابوں میں دیکھ لیا ہے حالانکہ تاریخ کی کتابیں ہر قسم کے رطب یابس سچی جھوٹی باتوں اور روافض و خوارج کی روایتوں سے بھرپور ہیں، ان پر اعتماد کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ پھر جب حضور اقدسﷺ نے منع فرما دیا کہ اس دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کو بُرا مت کہو تو اس ارشاد کی خلاف ورزی کرنا کونسی دینداری اور سمجھداری ہے۔ یہ لوگ تو کتابیں لکھ کر دنیا سے چلے جائیں گے تحقیق اور تصنیف کے نام سے ان کی شہرت بھی ہوجائے گی اور اس طرح سے پیسے بھی بہت کچھ کمالیں گے لیکن دشمنانِ دین ان ہی کی کتابوں کے حوالے دیتے رہیں گے اور بے پڑھے مسلمانوں کو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بدظن کرکے ان کے دلوں میں اسلام کے عقائد اور اعمال اور ارکان و احکام میں تذبذب اور شک پیدا کرتے رہیں گے۔ بے پڑھے لوگ صرف ہل بیل چلانے والے ان پڑھ ہی نہیں پڑھے لکھے لوگ بھی بے پڑھوں میں شامل ہیں جو قرآن و حدیث سے بے بہرہ ہیں مگر ڈگریاں بڑی بڑی لیے پھرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس طرح کا ذوق تنقید رکھنے والے اپنے کو خادمِ اسلام اور اقامت دین کا داعی بھی کہتے ہیں لیکن اپنی تحریرات سے اسلام کو جو نقصان پہنچا رہے ہیں اس سے غافل یا متغافل ہیں۔ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ایک مسلمان مؤرخ ہونے کے وقت بھی مسلمان ہی ہے تاریخ لکھتے وقت اس کو قرآن و حدیث کی نصوص کو سامنے رکھنا لازم ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ جو بات کسی کی شخصیت کے متعلق ہو اس کے راویوں کو جرح وتعدیل کے اصول پر پرکھ لیں۔ مجروح رواۃ کی روایت تورد کی ہی جاتی ہے ثقہ راویوں کی کوئی روایت اگر نصوص قرآن و احادیث مشہورہ اور اجماع امت کے خلاف پڑتی ہو تو اس کو بھی رد کیا جاتا ہے۔ یہ اصولی بات ہے جس سے یہ محققین آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان لوگوں کے ہم نوا یہ بات اٹھائیں کہ پرانے مؤرخین جنہوں نے عربی میں کتابیں لکھیں، انہوں نے ایسی باتیں کیوں جمع کیں جن سے حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کی شخصیت پر حرف آتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جن حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تاریخ کی کتابیں لکھی ہیں انہوں نے ان حضرات کی بہت زیادہ صحیح تعریف لکھ کر ایک آدھ بات ایسی بھی لکھ دی ہے جس سے کوئی نقص کا پہلو نکلتا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ تاریخی روایات معتبر نہیں یعنی جو چیز جرح و تعدیل کے بغیر لکھی گئی ہو وہ لائق اعتبار نہیں۔ پھر ان حضرات نے یہ کتابیں عربی میں لکھی تھیں دورِ حاضر کے محقق اوّل تو حضرت محمد رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی لغزشیں ہی تلاش کرتے ہیں اور انہیں کو چھانٹ کر ایک جگہ جمع کرتے ہیں اور لکھنے کے بعد یہ نہیں لکھتے کہ یہ چیزیں بے سند ہیں یا غیر معتبر راویوں سے مروی ہیں؛ بلکہ حد تو یہ ہے کہ ان کو باور کرانے کے لیے پورا زور قلم خرچ کرتے ہیں جس سے امت میں حضراتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بے اعتقادی بلکہ بد اعتقادی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ (العیاذ باللہ تعالیٰ)