جب حضرت ابوبکر بقول اہلسنت تمام امت محمدیہ سے افضل ہیں تو بوقت مواخات یعنی جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی چارہ قائم فرمایا تو حضرت ابوبکر کو کیوں نا اپنا بھائی فرمایا؟؟ جب کہ تاریخ شاہد ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ اورمدینہ منورہ میں تشریف لانے پر بوقت مواخات فرمایا علی انت اخی فی الدنیا والاخرة انصاف مطلوب
جعفر صادقشیعہ اعتراض
جب حضرت ابوبکر بقول اہلسنت تمام امت محمدیہ سے افضل ہیں تو بوقت مواخات یعنی جب رسول ﷺ نے بھائی چارہ قائم فرمایا تو حضرت ابوبکر کو کیوں نا اپنا بھائی فرمایا؟؟ جب کہ تاریخ شاہد ہے کہ رسول ﷺ نے دعوت ذوالعشیرہ اورمدینہ منورہ میں تشریف لانے پر بوقت مواخات فرمایا علی انت اخی فی الدنیا والاخرة انصاف مطلوب
الجواب:
دعوت ذوالعشیرہ کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں۔
دعوت ذوالعشیرہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کہاں تھے؟
اب دوسرے جز کی بابت تحریر کرتے ہیں۔
اول حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جزوی فضیلت ہے جو کہ کلی فضیلت کو مستلزم نہیں ہے۔ متعدد خصوصیات دیگر انبیاء کرام کے لئے بیان ہوئی مگر وہ صراحت کے ساتھ حضور ﷺ کے لئے بیان نہ کی گئی مگر اس کے باوجود تمام انبیاء و رُسل پر ہمارے آقا ﷺ کی فضیلت ایک مسلمہ امر ہے مثلا حضرت آدم علیہ السلام کو صفی اللہ، نوح علیہ السلام کو نجی اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ وغیرہ ، مگر ان الفاظ کی صراحت نبی کریم کی طرف مذکور نہیں ہیں، اس کے باوجود نبی کریم سردار الانبیاء ہیں۔
اس سے ثابت کرنا یہ مقصود ہے کہ جزوی فضیلت سے کلی فضیلت کا اثبات نہیں ہو سکتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ کا اخی فرمانا یقینا باعث فضیلت ہے مگر جزوی فضیلت سے کلی فضیلت کا اثبات شیعہ کی جہالت پر دال ہے یہ الفاظ حقیقی سرکار ﷺ کے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے مرقوم ومذکور ہیں حدیث بخاری میں ہے کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا
"لو کنت متخذا من امتی خلیلا لاتخذت ابابکر ولکن اخی وصاحبی وفی روایة لاتخذت خلیلا ولکن اخوة الاسلام افضل او کما قال علیہ السلام"
اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو یقین ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور دوست ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ میں ان کو خلیل بناتا مگر اسلام کا بھائی چارہ بڑا افضل ہے۔
بخاری جلد 1 صفحہ 516 ، مصابیح السنہ جلد 4 صفحہ 148
بلکہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کے
انت اخونا و مولانا
تم ہمارے بھائی اور محبوب ہو
بخاری جلد 1 صفحہ528
تو اب کہیے کہ اس افضلیت سے کیا ثبوت ملتا ہے ؟؟
اس کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت تو پوری امت مسلمہ کے اجماع سے بھی ثابت ہے اور قرآن و سنت کے بے شمار دلائل قاہرہ سے ثابت ہے بلکہ خود علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس امت میں رسول ﷺ کے بعد ابوبکر و عمر سب سے بہتر ہیں۔
کنزالعمال جلد 13 صفحہ 20
پھر علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرو تم ہدایت پا جاؤ گے اور ان دونوں کے اقتداء کرو ہدایت پا جاؤ گے
تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر جلد 32 صفحہ 149
مزید ایک روایت مرفوع ملاحظہ ہو
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد تم ان دونوں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی اقتداء کرو
ترمذی جلد 2 صفحہ 207
مشکاۃ المصابیح عربی صفحہ 560
ابن ماجہ صفحہ 10
مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 290 ابن حبان جلد 10 صفحہ 26
شرح السنہ جلد 14 صفحہ
مسند احمد جلد 5 صفحہ386 مصابیح السنہ جلد 4 صفحہ 162
مزید فرماتے ہیں کہ
سب سے پہلے جنت میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما داخل ہوں گے
کنزالعمال جلد 13 صفحہ
محمد ابن حنفیہ رحمہ اللہ نے سوال کیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے لوگوں میں حضرت رسول ﷺ کے بعد سب سے افضل کون ہے علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں نے عرض کیا پھر کون فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ
بخاری جلد 1 صفحہ 518
ابن ابی شیبہ جلد 12 صفحہ 12
تاریخ بنی عساکر جلد32 صفحہ 229
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دوران خلافت برسرمنبر ارشاد فرمایا رسول ﷺ کے بعد ساری امت میں سب سے افضل ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں
مسند احمد جلد 1 صفحہ 277 کنزالعمال جلد 13 صفحہ 20
امام سیوطی نے امام ذہبی سے نقل کیا ہے کہ یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تواتر سے ثابت ہے
تاریخ الخلفا صفحہ 45
حضرت علی رضی اللہ نے خلفائے اربعہ کے حوالے سے پوری ترتیب فضیلت بیان فرمائی ہے رسول ﷺ کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور پھر میں ہوں
تاریخ دمشق مدینہ لابن عساکر جلد 41 صفحہ 104
اس کے علاوہ کثیر تعداد میں اس پر دلائل قائم کیے جا سکتے ہیں اختصار مانع ہے
اب شیعہ کی کتاب رجال کشی سے روایت ملاحظہ فرمائیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو کہ مجھے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دیتا ہوں میں اسے کوڑے لگاؤں گا جو مفتری اور کذاب کی حد ہے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھنا ایمان اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے۔
رجال کشی صفحہ 338
شیعہ کتاب احتجاج طبرسی میں ہے کہ امام باقر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا
میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت کا منکر نہیں ہوں مگر افضل حضرت ابوبکر صدیق ہیں
احتجاج طبرسی جلد 2 صفحہ 479
حضرت علی رضی الله عنہ نے دعا فرمائی اے اللہ ہم پر رحم فرما جس طرح تو نے خلفائے راشدین پر رحم فرمایا تو ایک قریشی نوجوان نے سوال کیا کہ یہ خلفائے راشدین کون ہے علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ دونوں میرے محبوب اور تمہارے چچا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں دونوں ہدایت کے امام اسلام کے بزرگ اور قریش کی شخصیتیں ہیں رسول اللہ کے بعد ان دونوں کی اقتداء ہے جس نے ان کی اقتداء کی محفوظ ہو گیا جس نے ان کے فرامین کی اتباع کی وہ صراط مستقیم پر ہے
تلخیص الشافی جلد 3 صفحہ 318
پھر علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ھی اپنے ایام وصال میں سرکار دوعالم صلی اللہ وسلم نے سرکارے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنا مصلی عطا فرمایا اور امامت کا حکم دیا اس کو شیعہ نے بھی تسلیم کیا ہے۔
درہ نجفیہ صفحہ 225
ناسخ تواریخ جلد 1 صفحہ 547
اس کے علاوہ بھی کتب شیعہ سے متعدد دلائل دیئے جاسکتے ہیں اختصار مانع ہیں ہمارے ان تمام دلائل سے پوری امت میں انبیاء کرام کے بعد افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہے جو ثابت ہوگی اور شیعہ کے استدلال باطل کا منہ توڑ جواب ہوگیا