سنی لڑکے کا جبراً غالی شیعہ کی لڑکی سے نکاح کا حکم
سنی لڑکے کا جبراً غالی شیعہ کی لڑکی سے نکاح کا حکم:
سوال؛ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک سنی لڑکے کا نکاح شیعہ اثناء عشری کی لڑکی کے ساتھ کر دیا گیا حالانکہ نکاح کے موقع پر لڑکے کے والدین موجود نہ تھے اور نہ ہی انہیں کسی بات کا علم تھا اور نہ ہی انہیں بلوایا گیا، لڑکی کے ورثاء نے اپنی مرضی سے نکاح کر دیا تو کیا یہ نکاح ازروئے شرع ہوا یا نہیں؟
جواب: اگر شیعہ غالی اثناء عشریہ ہیں جو سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ پر لعن طعن کریں۔ اور ان دونوں کی صحابیت کا انکار کریں اور سیدہ عائشہؓ پر تہمت کے قائل ہوں تو یہ عملاً نصِ قطعی کا انکار بھی ہے، جس کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج ہیں، ان کی لڑکیوں کے ساتھ مسلمان سنی لڑکے کا نکاح درست نہیں ہے۔
لہٰذا اگر وہ لڑکی شیعت سے توبہ کرکے سنیت میں داخل ہو جاتی ہے تو اس کے بعد نکاح درست ہو سکتا ہے۔ اس کے بغیر اس لڑکی کے ساتھ نکاح درست نہیں ہے، لہٰذا اس لڑکے کو اس لڑکی کے ساتھ رہنا درست نہیں ہے۔
:وفي الشامي نعم لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة او انكر صحبة الصديق او أعتقد الألوهية في علي او ان جبريل عليه السلام غلط في الوحي او نحو ذالك من الكفر الصريح المخالف للقران و في أن الرافضى إذا كان يسب الشيخين و يلعنهما فهو كافر و في الهندية و لا يجوز للمرتد ان يتزوج مرتدة و لا مسلمة و لا كافرة اصلية و كذا لا يجوز نكاح المرتد مع احد:
(فتاویٰ قاسمیه:جلد:13:صفحہ:247)