امام باڑہ کے اوپر مدرسہ بنانے کا حکم
امام باڑہ کے اوپر مدرسہ بنانے کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: شہر جل پوری میں مسلمانوں کا امام باڑہ ہے، جو پورے سال دوسروں کے پاس کرایہ پر رہتا ہے، لیکن محرم کی یکم تاریخ سے 10 تاریخ تک کرایہ داروں سے خالی کرا لیا جاتا ہے، علم اور سواری رکھنے کیلئے باقاعدہ اس کی رجسٹرڈ کمیٹی ہے، یہ کمیٹی چاہتی ہے کہ دھیرے دھیرے یہ ساری خرافات ختم ہوں، تو کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ اس عمارت کے اوپر ایک مدرسہ تعمیر کیا جائے اور اس میں بچوں کی دینی تعلیم کیلئے مدرس رکھے جائیں تاکہ یہ خرافات بند ہو سکیں۔ آیا اس امام باڑہ کی جو سال بھر کرایہ کی آمدنی ہے اس میں سے مدرس کی تنخواہ دینا جائز ہے؟
جواب: تعزیہ نکالنا امر معصیت ہے اور اس کیلئے امام باڑ بنانا اور اسی کے نام سے وقف کرنا شرعی طور پر ناجائز اور باطل ہیں۔ لہٰذا مذکورہ عمارتیں اور دوکانیں صرف کمیٹی والوں کے تحت جائیداد ہیں۔ لہٰذا کمیٹی والوں کے مشورہ سے ان عمارتوں اور دوکانوں کو مدرس کے تحت لانا اور اس کے اوپر باقاعدہ دینی مدرسہ بنانا جائز اور درست ہو گا، ایک چیز جو ناجائز کام میں چل رہی تھی وہ ایک دینی کام میں شامل ہو جائے گی۔ اور جو لوگ مدرسہ بنانے میں شامل ہوں گے وہ سب بہت بڑے اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے، اور دوکانوں کی آمدنی سے مدرسین کو تنخواہ دینا بھی جائزہ ہو گا۔
:وفى الهندية من شرائط الوقف ان يكون قربة في ذاته، وعند التصرف، فلا يصح : وقف المسلم على البيعة والكنيسة أو على فقراء اهل الحرب الخ:
(فتاویٰ قاسمیه:جلد:19:صفحہ:123)