حضور ﷺ نے باغ فدک حضرت فاطمہ زہرا کو دیا تھا جسے حضرت صدیق اکبر نے اپنے دور خلافت میں غصب کر لیا اور حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے فاطمہ کو ستایا اس نے مجھ کو ستایا تو اس حدیث شریف کی روشنی میں حضرت صدیق اکبر کا کیا حال ہے؟
مفتی جلال الدین احمد امجدیسوال:
رافضی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے باغ فدک حضرت فاطمہ زہرا کو دیا تھا جسے حضرت صدیق اکبر نے اپنے دور خلافت میں غصب کر لیا اور حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے فاطمہ کو ستایا اس نے مجھ کو ستایا تو اس حدیث شریف کی روشنی میں حضرت صدیق اکبر کا کیا حال ہے؟
الجواب:
بعون الملك العزيز الوهاب
بعض حصہ زمین جو کفار نے مغلوب ہوکر بغیر لڑائی کے مسلمانوں کے حوالے کر دیا تھا ان میں سے ایک فدک بھی تھا جس کی آمدنی حضور سید عالم ﷺ اپنے اہل وعیال ازواج مطہرات وغیرہ پر صرف فرماتے تھے اور تمام بنی ہاشم کو بھی اس کی آمدنی سے کچھ مرحمت فرماتے تھے ۔مہمان اور بادشاہوں کے سفر کی مہمان نوازی بھی اس آمدنی سے ہوتی تھی ۔ اس سے غریبوں اور یتیموں کی امداد بھی فرماتے تھے۔ جہاد کے سامان تلوار، اونٹ اور گھوڑے وغیرہ اس سے خریدے جاتے تھے اور اصحاب صفہ کی حاجتیں بھی اس سے پوری فرماتے تھے۔ ظاہر ہے کہ فدک اور اس قسم کی دوسری زمینوں کی آمدنی مذکورہ بالا تمام مصارف کے مقابلہ میں بہت کم تھی اسی سبب سے بنی ہاشم کا جو وظیفہ حضور ﷺ نے مقرر فرما دیا تھا وہ زیادہ نہیں تھا اور سیدہ فاطمہ زہرا ؓ جو حضور کو حد سے زیادہ پیاری تھیں مگر آپ ﷺ ان کی بھی پوری کفالت نہیں فرماتے تھے جس سے ثابت ہوا کہ اس قسم کی زمینوں کی آمدنی مخصوص مدوں میں حضور صرف فرماتے تھے۔ اللہ تعالی کا مال اس کی راہ میں خرچ فرماتے تھے آپ نے ان کو ذاتی ملکیت نہیں قرار دیا تھا۔
پھر جب سرکار اقدس ﷺ کا وصال ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی فدک کی آمدنی کو انہی تمام مدوں میں خرچ کیا جن میں حضور ﷺ خرچ فرمایا کرتے تھے۔ فدک کی آمدنی خلفائے اربعہ کے زمانہ تک اسی طرح صرف ہوتی رہی ۔ یعنی حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ ، حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت مولی علی رضوان اللہ علیھم اجمعین سب نے فدک کی آمدنی کو انہیں مدوں میں خرچ کیا جن میں حضور خرچ کیا کرتے تھے۔ حضرت علی ؓ کے بعد باغ فدک حضرت امام حسن ؓ کے قبضہ میں رہا پھر حضرت امام حسین ؓ کے اختیار میں رہا۔ ان کے بعد علی بن حسین اور حسن بن حسن کے ہاتھ آیا۔ ان کے بعد زید بن حسن بن علی برادرحسن بن حسن کے تصرف میں آیا۔ پھر مروان اور مروانیوں کے اختیار میں رہا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کا زمانہ آیا تو انہوں نے باغ فدک حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد کے قبضہ و تصرف میں دے دیا۔ باغ فدک کی اس تاریخ سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ معاملہ کچھ بھی نہ تھا مگر لوگوں نے بلا وجہ حضرت ابو بکر صدیق بنیتوں پر الزام لگا کر ان کو مطعون کیا۔