اجماع امت اور عدالت صحابہ رضی اللہ عنہم
جعفر صادقاجماع امت اور عدالت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین:
ائمہ سلف و خلف اور تمام اہلِ السنت و الجماعت کا اس عقیدہ پر اجماع چلا آرہا ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بغیر کسی استثناء کے عادل اور واجب التعظیم والاحترام ہیں، ان کی روایت بلا چون و چرا قابلِ قبول اور واجب التسلیم ہے، ان میں سے کسی پر بھی طعن کرنا جائز نہیں۔ ان کے آپس کے مشاجرات کی بحث سے رکنا چاہیے۔ ہاں ان کے دامن کی صفائی بیان کرنے کے ذکر میں کوئی مضائقہ نہیں جب کہ نیت صحیح ہو۔ ان کی اجتہادی خطائوں کی صحیح تاویلیں ہیں۔
نیز یہ کہ اس پر بھی وہ ماجور ہوں گے کیونکہ حدیث نبوی میں آیا ہے کہ جب مجتہد اجتہاد کرے اگر اجتہاد صحیح نکلے تو اس کو دو اجر ملیں گے اوراگر غلط ہوجائے تو اس کو ایک اجر ملے گا۔
(بخاری و مسلم)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ اور سیدنا براء بن عازبؓ کے صراحتاً اور بقیہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے احادیث نبویہ کے ضمن میں کئی ارشادات منقول ہیں، اس باب کا افتتاح ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود المتوفی 33ھ کے اس سنہری فرمان سے کرتے ہیں:
عن ابن مسعود قال من کان مستنًا فلیستن بمن قد مات فان الحی لا تؤمن علیہ الفتنۃ أولٰئک أصحاب محمدﷺ کانوا أفضل ہذہ الأمۃ وأبرہا قلوبا وأعمقہا علما وأقلہا تکلفًا اختارہم اللّٰہ لصحبۃ نبیہ ولإقامۃ دینہ فاعرفوا لہم فضلہم اتبعوہم علی أثرہم وتمسکوا بما استطعتم من أخلاقہم وسیرہم فإنہم کانوا علی الہدی المستقیم۔
(رواہ رزین: بحوالہ مشکوٰۃ صفح 32)
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص سنت کا اتباع کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ فوت شدہ بزرگانِ دین کے نقشِ قدم پر چلے اس لیے کہ زندہ پر فتنہ کا اندیشہ رہتا ہے۔ ایسے بزرگانِ دین حضرت محمدﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہیں جو سب امت سے افضل، سب امت سے زیادہ پاکیزہ دلوں والے سب امت سے بڑھ کر گہرے اور ٹھوس علم والے اور سب سے کم تکلف والے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی کی صحبت کے لیے اور دین کی اقامت اور سربلندی کے لیے چن لیا۔ ان کی فضیلت کو پہچانو، ان کے نقشِ قدم کی پیروی کرو اور ان کے اخلاق اور سیرت کو حتی الوسع اپنانے کی کوشش کرو کہ وہ سیدھی راہ پر گامزن تھے۔
چار مذاہب کے ائمہ کی شہادت:
اب حضرات ائمہ اربعہ متبوعینؒ کے اقوال ملاحظہ ہوں:
امام اعظم نعمان بن ثابت ابوحنیفہؒ المتوفی (150ھ)
قرآن و سنت کے بعد بلا استثناء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کو دین میں حجت سمجھتے تھے۔ کسی مسئلہ میں اگر کسی صحابی سے کچھ مروی ہوتا تو اپنا اجتہاد ورائے چھوڑ دیتے تھے۔
امام ابوحنیفہؒ کا یہ قول مشہور ہے:
اٰخذ بکتاب اللہ فإن لم أجد فبسنۃ رسول اللہ فإن لم أجد فبقول الصحابۃ اٰخذ بقول من شئت منہم ولا أخرج عن قولہم الیٰ غیرہم۔
(تہذیب التہذیب: جلد، 1 صفحہ، 450 و مناقب ابی حنیفہؒ للذہبی)
ترجمہ: میں پہلے کتاب اللہ سے استدلال کرتا ہوں اگر اس میں مجھے دلیل نہ ملے تو رسول اللہ ﷺ کی سنت کو لیتا ہوں اور اگر اس میں بھی مجھے دلیل نہ ملے تو میں حسبِ مرضی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال سے استدلال کرتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کے قول کی طرف نہیں جاتا۔
امام شافعیؒ المتوفی 204ھ:
سنن الکبریٰ للبیہقی میں امام شافعیؒ المتوفی 204ھ سے منقول ہے:
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ کسی مسئلہ میں جب تک قرآن و سنت میں دلیل موجود ہو تو اس کا علم رکھنے والے کو قرآن و سنت کی اتباع کے بغیر چارہ نہیں اور اگر قرآن و سنت میں دلیل نہ ہو تو ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سب اقوال کی طرف یا ان میں سے کسی ایک کے قول کی طرف رجوع کریں گے۔
کچھ آگے فرماتے ہیں جب ائمہ خلفائے راشدینؓ سے کچھ ثبوت نہ ملے تو رسول اللہﷺ کے دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دین کے امین ہیں، ہم ان کے اقوال لیں گے اور صحابہ کرام کی اتباع دوسروں کی اتباع کی بہ نسبت ہمیں زیادہ مناسب ہے۔
(ازالۃ الخفاء: جلد 1، صفحہ، 64 فصل دوم لوازم خلافت خاصہ)
امام مالکؒ المتوفی 176ھ:
حنفیہؒ کی اصول سرخسی جلد 2 صفحہ 106 پر امام مالکؒ المتوفی 176ھ کا بھی یہی مذہب بتایا ہے۔ امام مالکؒ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکریم کا خاص اہتمام تھا چنانچہ قاضی عیاض اور ملا علی قاریؒ شرح شفا میں فرماتے ہیں:
امام مالکؒ فرماتے ہیں جس نے رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کو برا بھلا کہا خواہ سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ سیدنا علیؓ ہوں یا سیدنا امیرِ معاویہؓ اور سیدنا عمرو بن العاصؓ ہوں اگر یوں کہا کہ وہ کافر اور گمراہ تھے تو یہ واجب القتل ہے اور اگر عام لوگوں جیسی گالی دے تو اسے سخت سزا دی جائے۔
(شرح شفاء لملاعلی قاری: جلد 2 صفحہ 556)
امام احمد بن حنبلؒ المتوفی241ھ
الصارم المسلول علی شاتم الرسول، صفحہ 573 پر علامہ ابن تیمیہؒ امام احمد بن حنبلؒ المتوفی (241ھ) سے نقل فرماتے ہیں:
خیر الأمۃ بعد النَّبِیﷺ ابوبکرؓ و عمرؓ بعد أبی بکرؓ و عثمانؓ بعد عمرؓ و علیؓ بعد عثمانؓ و وقف قوم وہم خلفاء راشدون مہدیون ثم أصحاب رسولﷺ بعد ہؤلاء الأربعۃ خیر الناس لا یجوز لأحد أن یذکر شیئًا من مساوریہم ولا یطھعن علی أحد منہم بعیب ولا نقص فمن فعل ذلک فقد وجب تأدیبہ۔
(قال فی الرسالۃ التی رواہا ابوالعباس محمد بن یعقوب الاصطخری)
ترجمہ: حضورﷺ کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکرؓ ہیں، سیدنا ابوبکرؓ کے بعد سیدنا عمرؓ ہیں، سیدنا عمرؓ کے بعد سیدنا عثمانؓ ہیں، سیدنا عثمانؓ کے بعد سیدنا علیؓ ہیں۔
آخری قول میں ایک جماعت نے توقف کیا ہے یہ ہدایت یافتہ خلفائے راشدینؓ تھے پھر چار حضرات کے بعد سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب سے افضل ہیں کسی کو جائز نہیں کہ ان کی برائی کرے، کسی میں کوئی عیب اور نقص کی وجہ سے اعتراض نہ کرے جس نے ایسا کیا اسے سزا دینی واجب ہے۔
یہ تصریحات عدالت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو متضمن اورمستلزم ہیں کما لا یخفی۔
محدثین کرامؒ کی شہادت:
امام سفیان ثوریؒ المتوفی 167ھ سے منقول ہے:
قال عبد اللہ بن ہاشم الطوسی حدثنا وکیع قال سمعت سفیان یقول فی قولہ تعالیٰ قل الحمد للہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ، قال ہم أصحاب محمدﷺ۔
(الاصابہ لحافظ بن حجر: جلد، 1 صفحہ، 13)
ترجمہ: عبداللہ بن ہاشم طوسی کہتے ہیں کہ ہم سے وکیع بن الجراح نے سفیان ثوریؒ سے یہ نقل کیا ہے کہ اس آیت کا مصداق حضرت محمدﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں آپ کہیے سب تعریفیں اللہ ہی کیے لیے ہیں اور اللہ کے پر سلامتی ہو جن کو اس نے پسند کرلیا ہے۔
سہل بن عبد اللہ تستریؒ المتوفی کہتے ہیں جو علم وزہد اور جلالۃ شان میں مشہور ہیں کہ جس نے حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعظیم نہیں کی وہ صحیح طور پر حضورﷺ پر ایمان نہیں لایا۔
(رسالہ تائید مذہب اہلِ سنت: صفحہ، 52 از مجدد الف ثانیؒ)
علامہ مبارک بن محمد بن اثیر جزریؒ المتوفی 606ھ لکھتے ہیں:
الصحابۃ رضی اللہ عنہم أجمعین عدول بتعدیل اللہ عزوجل ورسولہﷺ لا یحتاجون إلی بحث عن عدالتہم وعلیٰ ہذا القول معظم المسلمین من الأئمۃ والعلماء من السلف والخلف۔
(جامع الاصول من احادیث الرسول: جلد، 1 صفحہ، 73)
ترجمہ: سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ نے ان کی تعدیل کر دی ہے ان کی عدالت کے متعلق بحث کرنے کی حاجت نہیں اسی اعتقاد پر مسلمانوں کے سربرآوردہ ائمہ کرام اور متقدمین متاخرین علماء کرام چلے آ رہے ہیں۔
حافظ محی الدین ابو زکریا بن شرف النوریؒ المتوفی 671ھ رقم طراز ہیں:
ولہٰذا اتفق أہل الحق ومن یعتد بہ فی الإجماع علی قبول شہاداتہم وروایاتہم وکمال عدالتہم رضی اللہ عنہم اجمعین۔
(شرح مسلم: جلد، 2 صفحہ، 272)
ترجمہ: اس لیے اہلِ حق جماعت اور جن کا اجماع معتبر ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مروی احادیث کی قبولیت ان کی شہادت کی صداقت اور کامل عدالت پر متفق ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوچکا۔
حافظ ابو عمرو یوسف بن عبد اللہ المعروف بابن عبدالبرؒ المتوفی 463ھ الاستیعاب فی معرفتہ الاصحاب کے آغاز میں لکھتے ہیں۔
سنن نبویہ کی حفاظت اور معین اسباب میں سے ان حضرات کی معرفت بھی ہے جنہوں نے سنن نبویہ علی حبہا الصلوٰۃ والتسلیم کو اپنے نبی سے نقل کر کے سب لوگوں تک پہنچایا اور اس کی کما حقہ حفاظت اور تبلیغ کی ہے۔ وہ لوگ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور حواری ہیں کہ انہوں نے سنت کو محفوظ کیا اور اسلام و مسلمانوں کی خیرخواہی سمجھ کر اس فریضہ کو ادا کیا حتیٰ کہ ان کی نقل اور روایت سے دین مکمل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی حجت مسلمانوں پر ثابت ہوگئی۔ یہی لوگ سب سے افضل اور سب امت سے بہتر تھے جو لوگوں کی تبلیغ کے لیے بھیجی گئی۔ ان تمام کی عدالت ثابت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے ان کی تعریف بیان کی ہے ان لوگوں سے بڑھ کر کوئی عادل نہیں ہوسکتا جن کو اللہ نے اپنے نبی کی صحبت اور مدد کے لیے چن لیا۔ اس سے بڑھ کر نہ کوئی تزکیہ کا مقام ہو سکتا ہے اور نہ ثبوتِ عدالت اس سے اکمل طریقے سے ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ الخ۔
(سورۃ الفتح: آیت، 29)
آگے اسی کتاب کے ،صفحہ 9 پر لکھتے ہیں۔
وإن کان الصحابۃ رضی اللہ عنہم قد کفینا البحث عن أحوالہم الجماع أہل الحق من المسلمین وہم أہل السنۃ والجماعۃ علیٰ أنہم عدول۔
ترجمہ: اگرچہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ہم کافی بحث کر چکے ہیں کیونکہ اہلِ حق مسلمانوں کا جو اہلِ السنت والجماعت ہی ہیں اس پراجماع ہے کہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عدول ہیں۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ المتوفی 852ھ الاصابہ: جلد، 1 صفحہ، 10 پر لکھتے ہیں:
وقال أبو محمد ابن حزمؒ الصحابۃ کلہم من أہل الجنۃ قطعا۔ قال اللّٰہ تعالیٰ لا یستوی منکم من أنفق من قبل الفتح وقاتل الآیۃ وقال تعالیٰ إن الذین سبقت لہم منا الحسنٰی۔ أولئک عنہا مبعدون فثبت أن الجمیع لأہل الجنۃ لأنہم یخاطبون بالآیۃ السابقۃ۔
ترجمہ: علامہ ابو محمد حافظ بن حزمؒ کہتے ہیں کہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اہلِ جنت ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس نے فتحِ مکہ سے پہلے انفاق و قتال کیا، وہ اس کے برابر نہیں جس نے بعد میں انفاق و قتال کیا الآیہ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جن لوگوں سے ہماری طرف سے بھلائی کا وعدہ ہوچکا ہے، یہ لوگ آگ سے دور رکھے جائیں گے، پس ثابت ہوا کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اہلِ جنت میں سے ہیں اس لیے کہ آیتِ سابقہ میں وہی فتحِ مکہ سے قبل اور بعد والے مؤمن مخاطب ہیں۔
اور یہ سوال کیا جائے کہ آیت مذکورہ میں انفاق اور قتال کی قید اور ایسے ہی احسان کی قید ہے کہ جو صحابی ان صفات سے موصوف نہ ہو یہ آیت اسے شامل نہ ہو حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہونے کے لیے یہ صریح آیتیں ہیں اسی لیے تو مازری نے شرح برہان میں لکھا ہے کہ الصحابۃ عدول سے ہر وہ صحابی مراد نہیں جسے ایک دن یا کبھی ایک ساعت آپﷺ کی زیارت نصیب ہوئی یا کسی اور غرض سے آپﷺ کی خدمت میں آیا اور چلاگیا ہو بلکہ اس سے وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مراد ہیں جو کافی عرصہ آپﷺ کی خدمت میں رہے آپﷺ کی توقیر اور نصرت کی اور آپﷺ پر نازل شدہ نور کی پیروی کی تو علامہ بن حزمؒ اس کا جواب یہ دیتے ہیں:
والجواب عن ذلک ان التقییدات المزکورۃ أخرجت تحرج الغالب وإلا فالمراد بالإنفاق والقتال بالفعل والقوۃ۔
ترجمہ: اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ قیدیں تغلیبی طور پر لگائی گئی ہیں کہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انفاق اور قتال کرتے تھے ورنہ انفاق وقتال سے مراد عام ہے بالفعل کیا ہو یا بالقوۃ کرنے کی طاقت رکھتے ہوں۔
اور حافظ ابنِ حجرؒ بھی اس قول کا تخطیہ یوں کرتے ہیں:
کہ مازری کے اس قول کی کسی نے موافقت نہیں کی بلکہ محققین اور فضلاء کی ایک جماعت نے اس پر طعن کیا ہے، شیخ صلاح الدین علائی کہتے ہیں کہ مازری کا یہ قول نادر ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو صحابیت اور روایت میں مشہور ہیں ان کو عادل نہ کہا جائے جیسے وائل بن حجر مالک بن الحویرث اور عثمان بن ابی العاص وغیرہم رضی اللہ عنہم۔ جو آپﷺ کی خدمت میں وفد کی صورت میں حاضر ہوئے تھے اور تھوڑی دیر ٹھہر کر چلے گئے تھے اور اسی طرح اس قول سے وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی عادل نہ ہوں گے جن کی روایت حدیث صرف ایک ہے یا آپﷺ کی خدمت میں ان کی مقدارِ صحبت معلوم نہیں جیسے عرب کے قبائل وغیرہ۔
والقول بالتعمیم ہو الذی صرح بہ الجمہور وہو المعتبر۔
(الاصابہ: جلد، 2 صفحہ، 11)
ترجمہ: تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عادل کہنے کی ہی جمہور علمائے امت نے تصریح کی ہے اور یہی معتبر مسلک ہے۔
خطیب بغدادی:
الکفایہ فی علوم الروایہ میں عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں: عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے موضوع پر احادیث بہت کثرت سے مروی ہیں ان تمام کا تقاضا یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین منافی عدالت امور سے طاہر ہوں اور قطعاً عادل اور برائیوں سے منزہ ہوں اللہ تعالیٰ کی ان کی عدالت پر شہادت کے بعد جوان کے باطن سے واقف ہے۔
کوئی صحابی ثبوت عدالت میں کسی مخلوق کی تعدیل کا محتاج نہیں اور وہ اسی وصفت پر سمجھے جائیں گے تا آنکہ کسی سے ایسے جرم کا ثبوت ہو جائے جو نافرمانی کے قصد ہی سے بلا احتمال غیر ہو سکتا ہو اور تاویل کی کوئی گنجائش نہ رہے تو عدالت کی نفی تسلیم کی جائے گی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے جرم کے ارتکاب سے بری اور ان کی شان کو اس سے برتر بنایا ہے علاوہ ازیں بالفرض خدا اور رسول خداﷺ کی جانب سے ان کی مذکورہ ثنا و تعدیل نہ بھی ہوتی تو بھی ان کی مندرجہ ذیل سیرت ان کے قطعی عادل اور گناہوں سے صاف ہونے پر قوی شہادت تھی۔ مثلاً ہجرت، جہاد فی سبیل اللہ، نصرتِ رسول اپنی جان و اموال کی قربانی، اپنے آبا و اجداد کو اور اولاد کو قتل کرنا، دین کی خیرخواہی اور ایمان میں قوت اور پختگی وغیرہ۔
خلاصہ کلام یہ کہ ان کے بعد آنے والوں میں جن جن کا تزکیہ اور شہادت عدالت دی جائے گی ان سب سے وہ افضل ہیں۔ یہی مذہب تمام علمائے امت اور قابلِ اعتماد فقہاء کا ہے۔
(اسد الغابہ فی معرفتہ الصحابہ: جلد، 1 صفحہ، 2)
پر علامہ جزریؒ لکھتے ہیں کہ
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب امور میں عام رواۃ کی صفات حفظ اتقان وغیرہ میں شریک ہیں مگر جرح تعدیل میں نہیں کیونکہ وہ سب کے سب عادل ہی ہیں ان پر جرح کی کوئی سبیل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے ان کو پاک صاف اور عادل قرار دیا ہے اور یہ مشہور چیز ہے جس کے ذکر کی حاجت نہیں۔
علامہ قرطبی مالکی محمد بن احمد الانصاریؒ المتوفی 611ھ لکھتے ہیں:
قلت فالصحابۃ کلہم عَدول أولیاء اللہ تعالیٰ وأصفیائہ وحیرتہ من خلقہ بعد أنبیائہ ورسلہ ہذا مذہب أہل السنۃ والذی علیہ الجماعۃ من أئمۃ ہذہ الأمۃ۔
ترجمہ: میں کہتاہوں سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل اللہ تعالیٰ کے دوست اس کے برگزیدہ بندے اور انبیاء اور رسول کے بعد اس کی سب مخلوقات سے افضل ہیں یہی اہلِ السنت و الجماعت کا مذہب ہے اور اس پر اس امت کے ائمہ کی ایک بڑی جماعت کا اعتقاد ہے۔
(تفسیر قرطبی: جلد، 14 صفحہ، 299)
علمائے اصولِ حدیث کی شہادت:
امام نوویؒ اور جلال الدین سیوطیؒ المتوفی 911ھ فرماتے ہیں:
الصحابۃ کلہم عدول مَن لَابَسَ الفِتَنَ وغیرہم فإجماع من یعتد بہ وقالت المعتزلۃ عدول إلا من قاتل علیہا وقیل اذا انفرد وقیل إلا المقاتل والمقاتل لہ وہذا کلہ لیس بصواب إحسانا للظن بہم وحملا لہم فی ذلک علی الاجتہاد الماجور فیہ کلہم منہم۔
(تقریب مع شرح تدریب الراوی: صفحہ 400)
ترجمہ: سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں فتنہ سے دو چار ہونے والے بھی اور دوسرے بھی اس پر معتمد ترین علماء کا اجماع ہے۔ معتزلہ کہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ سے لڑنے والوں کے سوا سب عدول ہیں ایک قول یہ ہے کہ جب صحابی تنہا روایت کرے تو عادل شمار نہ ہوگا ایک قول یہ بھی ہے کہ آپس میں لڑائی کرنے والے عادل نہیں یہ سب اقوال درست نہیں تاکہ صحابی سے حسنِ ظنی باقی رہے اور ان مشاجرات کو اس خطِ اجتہادی پر محمول کیا جائے جس میں ہر ایک کو اجر و ثواب ملے گا۔
سید قاسم الامذجافی المصباح: متوفی 211ھ لکھتے ہیں:
والصحابۃُ کلہم عَدُولٌ رضی اللہ عنہم سواء في ذلکَ مَنْ لَابَسَ الفِتَنَ ومن لم یُلَابِسْہا وذلک مما لا یشتبہُ أحدٌ من المسلمین الذین انتہت علیہم زِعامۃ وعنہم تَصْدُر الاراء والحُجَج۔
ترجمہ: سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں خواہ فتنہ میں شریک ہوئے ہوں یا نہ اور یہ وہ عقیدہ ہے جس میں کسی ایسے مسلمان کو اشتباہ نہیں جن پر مسلمانوں کی قیادت ختم ہے اورانہی سے شرعی دلائل اور آراء منقول ہوتی ہیں۔
علامہ ابنِ صلاح ابو عمر و عثمان بن عبد الرحمٰنؒ المتوفی 643ھ اپنے رسالہ علوم الحدیث المعروف بمقدمہ ابنِ صلاح: صفحہ، 264 میں لکھتے ہیں۔
الثانیۃ للصحابۃ بأسرہم خصیصۃ وہی أنہ لا یُسئل عن عدالۃ أحد منہم بل ذلک أمر مفروغ عنہ لکونہم علی الإطلاق معدلین بنصوص الکتاب والسنۃ وإجماع من یعتد بہ فی الاجماع من الامۃ۔
ترجمہ: دوسرا فائدہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک خصوصیت ہے وہ یہ کہ کسی کی عدالت کے متعلق باز پرس کا سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ مسئلہ طے شدہ ہے کیونکہ وہ مطلق کتاب و سنت کی نصوص اور تصریحات اور امت کے قابلِ اعتماد علماء کے اجماع سے عادل ہیں۔
پھر چند احادیث اور آیاتِ قرآنیہ پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت پر سب امت متفق ہے اورجو فتنہ میں مبتلا ہوئے اجماع میں قابلِ اعتماد علماء کے اجماع سے وہ بھی عادل ہیں ان پر حسنِ ظنی رکھتے ہوئے اور جو کچھ ان کے لیے فضائل منقول ہیں ان پرنظر رکھتے ہوئے یہ عقیدہ ضروری ہے گویا اللہ تعالیٰ نے ان کی عدالت پر اجماع قائم کرا دیا کیونکہ وہ شریعت کے نقل کرنے والے ہیں۔
(علوم الحدیث: صفحہ، 265)
علی بن محمد علامہ سخاویؒ المتوفی 663ھ فتح المغیث: جلد، 4 صفحہ، 35 پر رقم طراز ہیں:
إن للصحابۃ شرفا عظیما یمنع ما حبہا میزۃ خاصۃ وہی أن جمیع الصحابۃ عند من یعتد بہ من أہل السنۃ سواء من لابس الفتن منہم ولم یلابس عدول۔
(کما فی باعث المحیثث: صفحہ، 205)
ترجمہ: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے ایک بڑا شرف ہے۔ جو صحابی کو خاص امتیاز بخشتا ہے وہ یہ ہے کہ جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قابلِ اعتماد علمائے اہلِ سنت کے نزدیک عادل ہیں خواہ فتنہ سے دوچار ہوئے ہوں یا نہ۔
علامہ محمد بن اسماعیل حسنیؒ (امیر یمانی) المتوفی 1182ھ لکھتے ہیں:
ومن مہمات ہذ الباب ای باب معرفۃ الصحابۃ القول بعدالۃ الصحابۃ کلہم فی الظاہر اعلم انہ استدل الحافظ بن حجر فی اول کتاب الإصابۃ علی عدالۃ جملۃ الصحابۃ اتفق أہل السنۃ علی أن الجمیع عدول ولم یعالو فی ذلک الاشذوذ من المبتدعۃ۔
(توضیح الافکار؛ جلد، 2 صفحہ، 234)
ترجمہ: معرفتہ الصحابہ کے باب کے اہم مسائل میں سے یہ مسئلہ بھی ہے کہ ظاہراً تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت کا اعتقاد رکھا جائے۔ جاننا چاہیئے کہ حافظ ابن حجر نے اصابہ کے شروع میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کی عدالت پر آیاتِ قرآنیہ سے استدلال کیا ہے، تمام اہلِ سنت اس عقیدہ پر متفق ہیں کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں اور اس میں اہلِ سنت سے اختلاف صرف اہلِ بدعت کے چند افراد نے کیا ہے۔
مولانا عبدالعزیز فرہاروی المتوفی 1300ھ کوثر النبالنَّبِیﷺ: صفحہ، 79 میں لکھتے ہیں:
اجمع اہل السنت علی ان الصحابۃ کلہم عدول۔
ترجمہ: تمام اہلِ السنت و الجماعت کا اجماع ہے کہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں۔
علمائے اصولِ فقہ کی شہادت:
شیخ محمد خضریؒ کی کتاب اصول فقہ: صفحہ، 218 پر ہے۔
الصحابۃ کلہم عدول۔
ترجمہ: سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عدول ہیں۔
مسلم الثبوت: صفحہ، 194 میں علامہ بہاریؒ لکھتے ہیں:
الأکثر الأصل فی الصحابۃ العدالۃ۔
اکثر امت کا مذہب ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں عدالت اصل ہے۔
علامہ ابنث حاجبؒ کی تالیف شرح مختصرالمنتہیٰ: جلد، 2 صفحہ، 67 پر ہے۔
الأکثر علی عدالۃ الصحابۃ أقول أکثر الناس علی أن الصحابۃ عدول۔
ترجمہ: امت کی اکثریت عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قائل ہے میں کہتاہوں کہ اکثر لوگوں کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں۔
یہاں الاکثر اور اکثر الناس سے مراد جمیعِ امت کی اکثریت ہے اہلِ سنت کی اکثریت مراد نہیں کیونکہ اہلِ سنت تو سب کے سب عدالت جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قائل ہیں۔
مسلم الثبوت کی شرح فواتح الرحموت: جلد، 2 صفحہ، 401 پر ہے:
إن عدالۃ الصحابۃ مقطوعۃ لاسیما أصحاب بدر و بیعۃ الرضوان کیف لا وقد اثنی اللّٰہ تعالیٰ علیہم فی مواضع عدیدۃ من کتابہ وبین رسول اللہﷺ فضائلہم غیر مرۃ۔
ترجمہ: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت قطعی ہے خصوصاً اصحابِ بدر اور بیعتِ رضوان والوں کی قطعی کیوں نہ ہو جب کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بہت سے مقامات پر ان کی تعریف اور رسول اللہﷺ نے کئی مرتبہ ان کے فضائل بیان فرمائے ہیں۔
اسی کتاب میں دوسرے مقام پر بحث عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں فرماتے ہیں:
جاننا چاہیئے کہ ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت قطعی ہے جو جنگِ بدر اور بیعتِ رضوان میں شریک رہے۔ کسی مومن کے لائق نہیں کہ ان کی عدالت میں شک کرے بلکہ جو لوگ فتحِ مکہ سے قبل ایمان لائے وہ بھی قطعی عادل اور مہاجرین و انصار میں داخل ہیں۔ البتہ فتحِ مکہ کے دن اسلام لانے والوں میں اشتباہ ہے کیونکہ کچھ ان میں مؤلفۃ القلوب جن کو مال دے کر اسلام کی طرف مائل کیا گیا ہیں اور انہی کے بارے میں اختلاف ہے ہمارے ذمے واجب ہے کہ انکا ذکر بھلائی ہی سے کریں، خوب سمجھ لو!
لیکن ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ فتحِ مکہ کے دن اسلام قبول کرنے والوں کا معاملہ متوقف اور مشتبہ ہونا صحیح نہیں ہے کیونکہ سورۃ الحدید کی آیت کریمہ لَا يَسۡتَوِىۡ مِنۡكُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ الخ۔
(سورۃ الحدید آیت 10)
قطعیت سے ان کے جنتی ہونے پر دلالت کرتی ہے اور مؤلفۃ القلوب بھی کامل الایمان تھے۔
اولاً: اس لیے کہ اگر ان کو مذبذب یا مشکوک الایمان سمجھا جائے تو وہ زکوٰۃ کا مصرف کیسے ہوسکتے ہیں جب کہ مصارفِ زکوٰۃ کے لیے مسلم ہونا شرط ہے۔
ثانیاً: اس لیے کہ تالیفِ قلوب کے اس طرز نے ان کو مزید پختہ اوراسلام کا وفادار بناہی دیا ورنہ تالیف قلوب کی مشروعیت اوراس پر عمل درآمد کا کوئی فائدہ نہیں۔
(فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمۃ)
علماء علمِ عقائد وکلام کی شہادت
اب علماء متکلمین وعقائد کے چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔
محقق ابن ہمامؒ کی تحریر الاصول اوراس کی شرح تقریر الاصول: جلد، 2 صفحہ، 260 پر ہے:
علی أن ابنِ عبد البرؒ حکی إجماع أہل الحق من المسلمین وہم أہل السنۃ والجماعۃ علی أن الصحابۃ کلہم عدول۔
ترجمہ: علاوہ ان دلائل کے علامہ ابنِ عبدالبرؒ نے ہی ہیں اس عقیدہ پر اجماع نقل کیا ہے کہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں۔
پر آگے لکھتے ہیں: وقال السبکی: والقول الفصل إنا نقطع بعدالتہم من غیر التفات الیٰ ہذیان الہاذین وزیغ المبطلین وقد سلف اکتفائنا فی العدالۃ بتزکیۃ الواحد منا فکیف بمن زکاہم علام الغیوب الذی لا یعزب عن علمہ مثقال ذرۃ فی الأرض ولا فی السماء فی غیر آیاتہ۔
ترجمہ: علامہ سبکی المتوفی 771ھ کہتے ہیں کہ فیصلہ کن بات یہ ہے کہ ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت کے قطعیت کے ساتھ قائل ہیں اور بکواسیوں کی بکواس اور باطل پرستوں کی گمراہی کی طرف ذرہ توجہ نہیں کرتے۔ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ہمارے جیسے ایک آدمی کے تزکیہ کرنے سے راوی عادل سمجھا جاتا ہے پس وہ لوگ کیسے عادل نہ ہوں جن کا تزکیہ اس علام الغیوب نے کئی آیات میں کیا ہے جس کے علم سے ذرہ برابر کوئی چیز زمین یا آسمان میں مخفی نہیں۔
ملا علی قاریؒ المتوفی 1014ھ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:
ولذلک ذہب جمہور العلماء إلی أن الصحابۃ کلہم عدول قبل فتنۃ عثمان وعلی وکذا بعدہا ولقولہ علیہ السلام أصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم۔
ترجمہ: اسی لیے جمہور علماء کا یہی مذہب ہے کہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں سیدنا عثمانؓ سیدنا علیؓ کے فتنہ سے پہلے والے بھی اور اسی طرح بعد والے بھی اور نیز اس لیے بھی کہ حضورﷺ نے فرمایا ہے میرے ساتھی ستاروں کی مثل ہیں جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پائوگے۔
علامہ ابنِ کمال الدینؒ المتوفی 806ھ اور کمال الدین بن شریف المتوفی 804ھ لمسامرہ شرح مسایرہ صفحہ، 313 میں لکھتے ہیں:
واعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ رضی اللہ عنہم وجوبا باثبات العدالۃ منہم والکف عن الطعن علیہم اثنی اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ الیہم۔
ترجمہ: تمام اہلِ السنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یقینی طور پر تزکیہ شدہ اور عادل ہیں ان کی بدگوئی سے رکنا واجب ہے ان کی تعریف کرنی ضروری جیسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔
علامہ ابنِ حجر ہیثمیؒ المتوفی 974ھ لکھتے ہیں:
معلوم ہونا چاہیئے کہ جس مسئلہ پر اہلِ السنت و الجماعت کا اجماع ہے وہ یہ ہے کہ ہر مسلم پر واجب ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تزکیہ اور احترام یوں کرے کہ ان کے لیے عدالت کا اعتقاد رکھے ان کی بدگوئی سے رکے۔ ان کی مدح و ثنا کرتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بہت سی آیات میں ان کی تعریف کی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے اے صحابہ تم سب امت سے بہتر ہو جو لوگوں کی ہدایت کے لیے بنائی گئی ہے پس اللہ تعالیٰ نے تمام امتوں پر ان کی فضیلت ثابت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ان کی فضیلت پر اس شہادت کے برابر کوئی شہادت نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اور ان سے صادر ہونے والے جمیعِ اعمالِ حسنہ کو خوب جانتے ہیں بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں سب امتوں سے افضل ہونے کی گواہی دی تو ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اس پر اعتقاد رکھے اوراس پر ایمان لائے ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس خبر دینے میں تکذیب کرے گا اور بلاشبہ جو شخص بھی کسی ایسی چیز کی حقیقت میں جس کی خبر اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے۔ شک کرے تو وہ تمام مسلمانوں کے نزدیک کافر ٹھہرے گا۔
(الصواعق المحرقۃ لاہل الزندقۃ)
قارئین کرام! خوف ہے کہ ایک ہی قسم کے اقوال آپ پڑھتے پڑھتے کہیں اکتا نہ جائیں بقول شاعر۔
اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است۔
اس لیے ہر صنف کے علماء کے اقوال میں سے صرف دو چار کے لکھنے پر اکتفا کیا ہے اور عقل مند آدمی کے لیے یہی کافی ہیں اور ہٹ دھرم اور معاند کے لیے دفتر کے دفتر بھی بے کار ہیں ورنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت اور ان کی عزت و تکریم کے ضروری ہونے پر اسی اکثیرت سے علمائے امت کی تصریحات موجود ہیں کہ ان کو جمع کرنے سے ایک ضخیم جلد تیار تو ہوجائے مگر وہ ختم نہ ہوں اس مختصر سے مضمون میں اتنی گنجائش ہی کہاں؟ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و محامد پر مشتمل مواد کا عشر عشیر بھی سمیٹ سکے۔
دامانِ نگاہ تنگ گلِ حسن تو بسیار گل چین بہار تو ز دامن گلہ دارد۔
الغرض ہر مکتب فکر کے علمائے امت نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دربار میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ مفسرین و محدثین نے اس لیے کہ ذخیرہ حدیث و تفسیر کے راویان اول اور انہیں حدیث و تفسیر سے ربط آشنائی دینے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہیں۔فقہاء اور علماء اصول نے اس لیے کہا انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مرویات اور اقوالِ طیبہ سے خوش چینی کر کے اجتہاد و استنباط کا ملکہ پایا اور ان کے متعلق قوانین مدون کیے۔
متکلمین اور علمائے عقائد نے اس لیے بحث کی تاکہ قرآن و سنت کے ان پاسبانوں کو دشمن کے حملہ سے محفوظ رکھا جائے اوراہلِ حق کا اہلِ باطل سے امتیاز بھی ہو جائے۔ علماء رجال اور مؤرخین نے اس لیے مدح سرائی کی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سوانحِ نگاری اوران کے پاکیزہ حالات نے ان کے فن اور خدمات کو جلا بخشی اور دنیا میں ان کا نام روشن کرایا بقول سیدنا حسانؓ۔
ما إن مدحتُ محمدًا بمقالتی لکن مدحتُ مقالتی بمحمد۔
میں نے اپنی نظم میں حضورﷺ کی تعریف نہیں کی ہاں آپﷺ کے ذکرِ خیر سے اپنی نظم کی تعریف کردی ہے۔
رضی اللہ تعالیٰ ورسولہ عنہم اجمعین۔
تمام علمائے اصول حدیث میں سے صرف صاحب تنقیح الازہار۔ جو شیعی زیدی مسلک کے ہیں اور اس کے شارح ابراہیم وزیر یعنی امیریمانی نے ایک دو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عدالت سے مستثنیٰ کیا ہے چنانچہ الصحابۃ کلہم عدول سے استثناء کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
إلا من قام الدلیل علی أنہ فاسق تصریح۔
(توضیح الافکار: جلد، 2 صفحہ، 436)
سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں
مگر جس پر کوئی دلیل قائم ہو جائے کہ وہ صریح بے حکم تھا۔
پھر سیدنا ولید بن عقبہؓ اور سیدنا یسر بن ابی ارطاۃؓ کا ذکر کیا ہے اورامیر یمانی روض الباسم فی الذب عن سنتہ ابی القاسم: صفحہ، 120 پر بھی عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: محدثین نے جو یہ کہا ہے کہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں تو ظاہری سیرت کے اعتبار سے ہے جیسے ہم بیان کر چکے ہیں اور یہ ظاہر کی قید اس لیے ہے تاکہ جس نے بغیر تاویل کبیرہ کا ارتکاب کیا وہ نکل جائے، جیسے سیدنا ولید بن عقبہؓ اور محدثین نے کہا ہے کہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین علی الاطلاق عادل ہیں اس لیے کہ تقریباً سبھی ایسے تھے اور بہت معمولی نادر اس سے مستثنیٰ ہو سکتے ہیں پس ایسا فاسق جس نے اس زمانہ میں اپنے عمل کی کوئی تاویل ظاہر نہیں کی وہ ایسا ہی ہے، جیسے سفید رنگ کے بیل میں ایک آدھا بال کالا بھی ہو۔
مگر ہم کہتے ہیں کہ ان کا یہ قول مردود ہے کیونکہ خلافِ جمہور خلافِ اجماع اہلِ حق ہے کسی نے بھی استثناء کو جائز قرار نہیں دیا اور سیدنا ولیدؓ یا سیدنا بسر بن ابی ارطاۃؓ کو جن تاریخی روایات کی بناء پر غیر عادل کہا جاتا ہے وہ روایات مخدوش ہیں بلکہ اکثر مواد دشمنانِ اسلام و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین روافض کی من گھڑت ہے نیز وہ نصوصِ قطعیہ قرآنیہ اور احادیث صحیحہ جو جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت پر روشن دلیلیں ہیں کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ اگر کوئی روایت قابلِ اعتماد بھی ہو تب بھی وہ مؤول اور مصروف عن الظاہر ہوگی اوراس کا کوئی جائز مصداق اور محمل ہوگا کیونکہ اس کے ظاہری و ظنی مفہوم کی بدولت قرآن وحدیث اور اجماع کے قطعی الثبوت و قطعی الدلالت مفہوم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
علاوہ ازیں ہمارے معاصر محققین بھی یہ ثابت کرچکے ہیں کہ سیدنا ولیدؓ بن عقبہ پر شراب نوشی کا الزام کوفہ کے شریروں نے انتقامی طور پر لگایا تھا اور سیدنا عثمانؓ کے سامنے انہوں نے گواہی دی تب ان پر حد جاری ہوئی بہرحال اصل الزام غلط ہے۔
(دیکھیئے عادلانہ دفاع حصہ اول از مولانا نورالحسن شاہ صاحب بخاری)۔
ایسے ہی بسر بن ابی ارطاۃؓ کے متعلق ظلم و ستم، بچوں کو قتل کرنے مسلمانوں کو اسیر بنانے کی روایات وضعی داستان سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتیں جن کے موجد شیعہ ہیں۔
ایسی غیر معتبر روایات پر اعتماد کرکے ہم کیسے ایک صحابی سے بدظن ہوں یا ان سے عدالت ساقط کر دیں جب کہ سب امت کا فیصلہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت کا ہے۔
مؤرخین کی ایسی ہی رطب ویابس روایات کے متعلق حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلویؒ المتوفی 1239ھ فرماتے ہیں:
لان المؤرخینَ ینقلون ما خَبُثَ وطابَ ولا یُمَیِّزُوْن بین الصحیح والموضوع والضعیف وأکثرہم حَاطِبُ لیلٍ وَلَا یَدْرِی ما یَجْمَعُ فالاعتماد علی ذلک فی مثلِ ہذا المقامِ الخَطْرِ والطریقِ الوَعْرِ وَالمہمۃِ القَفَرِ التی تَضِلُّ فیہ القَطَا وتَقْصُرُ دونہ الخُطَا مما لا یلیق بشأن عاقل فضلا عن فاضل۔
(مختصر التحفہ الاثنی عشریہ: صفحہ، 282)
ترجمہ: سیدنا امیرِ معاویہؓ پر سبِ علی کے الزام کی طرف توجہ ہی نہ کی جائے کیونکہ مؤرخین پاک نا پاک سب نقل کرتے ہیں۔ صحیح، من گھڑت اور کمزور روایات میں فرق نہیں کرتے ان کی اکثریت رات کو لکڑیاں جمع کرنے والے کی طرح ہے جو نہیں جانتا کہ خشک و تر کیا جمع کر رہا ہے۔ ایسے پر خطر مقام، سنگین راستے اور بیاباں جنگل میں جس میں پرندے بھی گم ہوجاتے ہیں اور قدم وہاں پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایسی روایات پر اعتماد عقل مند کی شان نہیں چہ جائے کہ اہلِ علم و فاضل ایسا کرے۔
(واللہ الہادی)