Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت ابوبکر کو رسول اللہ نے فرمایا کہ تمہارے دل میں شرک چیونٹی سے بھی زیادہ مخفی ہے۔

  جعفر صادق

شیعہ اعتراض 
حضرت ابو بکرصدیق میں چیونٹی کی رفتار سے مخفی شرک تھا۔



الجواب:

شرک کی دو قسمیں احادیث میں بیان کی گئی ہیں:

(١)شرک خفی جیسے ریاکاری کرنا وغیرہ

(٢)شرک جلی جیسے الله تعالی کی ذات و صفات میں کسی غیر اللہ کو شریک ٹھہرانا.

(1) یہاں شرک سے مراد وہ شرک نہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں کسی غیر کو شریک کرنے سے پیدا ہوتا ہے بلکہ شرک خفیف مراد ہے نبی کریم فرماتے ہیں کہ "الرياء شرك خفيف " دکھلاوا شرک خفیف ہے۔

اور یہ وہم اور خدشہ تو ہر شخص کو رہنا چاہئے کہ کہیں شیطان وسوسہ کی بنا پر معمولی سی نیت کی خرابی پر انسان کے عمل کو برباد نہ  کر دے، جو شخص ایمان میں جتنا ترقی کرتا جا تا ہے اپنے عمل کو ضائع ہونے سے بچانے کی فکر میں اتنا ہی حساس اور فکر مند ہوتا چلا جاتا ہے گویا یہ احساس جو سیدنا صدیق اکبر  رضی کو پیدا ھوا اسطرح کا احساس دل میں پیدا ہونا علامت ایمان ہے نہ کہ باعث اعتراض۔

(٢) رافضی مکار نے یہاں بھی شاطرانہ کردار ادا کرتے ہوئے حضرت ابوکر پر مذکورہ بات فٹ کر دی ہے ورنہ مذکورہ
حدیث میں تو کم ، ضمیر جمع مخاطب کی ہے فیکم فرمایا فیک ایک نہیں فرمایا جس کا مطلب ہے کہ تم تمام لوگ یعنی یہ خدشہ اور خطرہ تمام لوگوں میں موجود ہے یہاں خطاب تو پوری امت کیلئے ہے مگر شاطر قلمکار نے اس کو خاص صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر ہی فٹ کر دیا۔

ذرا حدیث پاک کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت معقل بن یسار کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا اے ابوبکر شرک تم لوگوں میں چیونٹی کی چال سے بھی خفیف طور پر رینگتا ہے میں تم کو وہ چیز بتاتا ہوں کہ جب تم اس کو کہو گے تو شرک تھوڑا ہو یا بہت تم سے نکل جائے گا۔ یہ دعا پڑھا کرو
اللهم اني اعوذ بك من ان اشرك بك و انا اعلم و استغفرك لما لا اعلم به .

اس روایت سے معلوم ہوا کہ

(١) خطاب فیکم جمع مخاطب کی ضمیر کے ساتھ ہے اس خطاب میں تمام لوگ مخاطب ہیں نہ کہ صرف صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ.
(٢) اس شرک سے وہ شرک مراد نہیں جو بت پرست، سورج پرست، آگ پرست وغیرہ لوگوں نے اپنایا ہوا ہے۔ بلکہ شرک خفيف مراد ہے کہ کوئی نیک کام کرتے ہوئے نیت میں نقص پیدا ہو جائے اور خالص اللہ تعالی کو دکھانے کی بجائے لوگوں کو دکھانے کا خیال دل میں جگہ پکڑ لے۔

(٣)رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا بتلا کر اس خفیف شرک کا علاج بھی فرما دیا کہ یہ دعا پڑھ لو تو دل میں جو ریا کاری پیدا ہونے سے خرابی پیدا ہوگئی اس دعا کی برکت سے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔
یہ تو حدیث پاک کا درست محل اور صحیح مطلب ہے جس میں صدیق اکبر (رض) کی اہانت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ یہ محض رافضی تعصب کا کمال ہے جو مربی کی بات کا غلط مطلب تراش کر عامة الناس کو گمراہ کرتے اور راہ حق سے برگشتہ کرتے ہیں۔

الجواب 2:

اہل رفض و ضلال نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف روئے سخن ہونے کی وجہ سے آپ کو مورد الزام ٹھہرا لیا اور ان کے دل کی مرض کی تشخیص کا دعویٰ کر دیا حالانکہ دیگر دلائل کتاب و سنت کے مقابل اس شبہ کا سہارا لینا بے سود ہے۔ جو ان کے اخلاص پر صریح الدلالت ہیں۔

علاوہ ازیں یہاں چند امور توجہ طلب ہیں۔

1: بسا اوقات ایک اہم ہستی کی طرف روئے سخن کیا جاتا ہے، لیکن مراد دوسرے لوگ ہوتے ہیں اور اس خطاب کا مقصد دوسروں کے دلوں میں اس حکم کی اہمیت کا راسخ کرنا ہوتا ہے ۔ جس طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ولا تمدن عینیک الی مامتعنا بہ ازواجا منھم زھرۃ الحیوٰۃ الدنیا

آپ آنکھیں بڑھا کر اور اٹھا کر ہرگز نہ دیکھیں ان چیزوں کی طرف جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو عطا کی ہیں حیاۃ دنیویہ کی زینت کے طور پر۔

حالانکہ اس ذات مقدس نے کونین کی نعمتوں کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے فقر و مسکنت کو اختیار فرمایا ہوا تھا، لہٰذا یہاں روئے سخن آپ کی طرف ہے اور مراد دوسرے لوگ ہیں اور یہی معاملہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے۔ لہٰذا حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے مرض قلب کی نشاندہی تو اس سے نہیں ہوتی البتہ معترض کے مرض قلب و روح کی نشاندہی ضرور ہوتی ہے۔

2: الشرک اخفی فیکم کا خطاب اگرچہ عام ہے لیکن کبھی عام سے عموم والا معنی مراد نہیں ہوتا بلکہ بعض کا فعل ہوتا ہے، مگر اس کی نسبت سب کی طرف کر دی جاتی ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل میں سے بعض نے قتل کا ارتکاب کیا لیکن نسبت سب کی طرف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

واذ قتلتم نفسا فادا رائتم فیھا

اس وقت کو یاد کرو جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا پھر اس قتل کو ایک دوسرے پر ڈالا۔

اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:

فابدلنا بعد الضلالۃ بالھدی واعطانا البصیرۃ بعد العمی(نھج البلاغہ مصری جلد 1 ص 539)

اللہ تعالیٰ نے ہمیں گمراہی کے بعد اس کے بدلے ہدایت عطا فرمائی اور دل کے نابینا اور اندھے ہونے کے بعد قلبی بصیرت عطا فرمائی۔

اگر اس کلام کو ظاہر پر رکھو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی پہلے گمراہ ہونا اور قلبی بصیرت سے محروم ہونا لازم آئے گا، حالانکہ نہ شیعہ اس کے قائل ہیں اور نہ ہی ہم اس کے معتقد ہیں۔ اسی طرح حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے حق میں بھی دوسرے دلائل کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی تاویل متعین ہوگی ورنہ خطاب عام ہونے کی صورت میں خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس میں داخل ہوں گے اور شرک خفی کا آپ میں بھی سرایت کرنا لازم آئے گا اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اس مضمون کو دوسری روایت میں الشرک فی ھذہ الامۃ اخفی من دبیب النملسے تعبیر کیا گیا ہے ۔ (مفردات راغب: ص 260)

اور امت میں حضرت علی ، حضرت ابو ذر ، حضرت مقداد اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہم اجمعین بھی داخل ہیں۔ حالانکہ وہ اس سے مبرا و منزہ ہیں اور خطاب چونکہ امت کے متعلق ہے لہٰذا قیامت تک پیدا ہونے والے لوگوں میں سے کوئی بھی اس شرک خفی میں مبتلا ہو تو آپ کا فرمان بھی صادق ہو جائے گا لیکن صدر اول اور مہاجرین و انصار اور علی الخصوص بدری صحابی ہی اس کا نشانہ بنانے کیوں ضروری ہیں؟ کیا صرف اس لیے کہ ابن سبا کی قوم اور مجوسیوں کو ان سے تکلیف پہنچی؟

لمحہ فکریہ:

وعدہ خلافت ہو تو پھر خطاب کی ضمیر ہونے کے باوجود مصداق حضرت مہدی علیہ السلام بن جائیں گے جیسے کہ تفسیر صافی وغیرہ میں زیر آیت وعداللہ الذین آمنوا منکم وعملو الصالحات لیستخلفنھم(الآیہ) لکھا ہے کہ اس سے مراد حضرت مہدی علیہ السلام کی امامت و خلافت کا وعدہ ہے اور اگر ریاکاری اور شرک خفی کے بیان میں ضمیر خطاب وارد ہو تو پھر صرف ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات مراد ہوگی ۔

کیا یہ انصاف کا تقاضا ہے یا علم تحقیقی اور شان اجتہادی کا کہ کہیں تو ضمیر خطاب سے ڈیڑھ ہزار سال بعد والے یا اس سے بھی متاخر لوگ مراد ہوں اور کہیں صرف نبی اکرم ﷺ کے تربیت یافتہ اور قریبی صحابی مراد ہوں ، جو مہاجرین اولین میں سے ہوں اور مجاہدین بدر و احد، خندق و خیبر اور غازیان تبوک میں سے، جن کا اخلاص بیسیوں آیات، سینکڑوں احادیث اور ارشادات ائمہ سے مہر نیمروز کی طرح واضح اور عیاں ہو، بریں عقل و دانش بباید گریست۔

3: خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اخلاص کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا:

کان افضلھم فی الاسلام کما زعمت وانصحھم اللہ ولرسولہ الخلیفۃ الصدیق وخلیفۃ الخلیفۃ الفاروق ولعمری ان مکانھما فی السلام لعظیم و ان المصاب بھما لجرح فی الاسلام شدید ۔۔الخ

(شرح ابن میثم بحرانی جلد 3 صفحہ 488)

یعنی ان سب مہاجرین میں سے افضل جیسے کہ تیرا قول اور نظریہ ہے اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے لیے خلوص رکھنے والے خلیفہ رسول ابوبکر صدیق ہیں اور ان کے خلیفہ عمر فاروق اور مجھے اپنی حیات کے خالق کی قسم ، ان کا مرتبہ اسلام میں بہت بڑا ہے اور ان کا دنیا سے رخصت ہونا اسلام کے لیے ناقابل تلافی نقصان اور نہ مندمل ہونے والا زخم ہے۔

ایک طرف قرآن مجید ان کے اخلاص کی گواہی دے اور دوسری طرف سرور عالم ﷺ ان کے فضائل و مناقب بیان کریں اور خود علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ ان کو سب سے زیادہ افضل اور مخلص اللہ و رسول قرار دیں اور ان کی جدائی کو اسلام کے قلب و جگر کا نہ مندمل ہونے والا زخم قرار دیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول گرامی ﷺ اور معدن ولایت علی مرتضی سے بڑھ کر کون زیادہ حکیم ہے کہ اس نے تو مرض قلب کی تشخیص کر لی، لیکن ان حضرات کو کچھ پتہ نہ چل سکا۔ نعوذباللہ من ذلک۔

4: علاوہ ازیں شرک خفی نام ہے ریاکاری کا اور کبھی اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی اور وہ اندر ہی اندر ترقی کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا طبیب روحانی نے زیر تربیت اپنے غلاموں کو اس کی اہمیت جتلانے کے لیے فرمایا کہ ریاء چیونٹی کی چال میں غیر محسوس طریقہ پر انسان میں سرایت کرتا رہتا ہے لہٰذا اس سے ہوشیار اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور دل کی پاسبانی اور نگرانی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا یہ تربیت اخلاق اور اعلیٰ ترین اوصاف کے ساتھ متصف ہونے کی ترغیب ہے نہ کہ مرض قلب کا اثبات اور اس کے لاعلاج ہونے کا بیان۔ نعوذباللہ من ذلک۔

وہی روایت جس کا ایک جملہ اہل رفض و ضلال نے مفید مطلب سمجھ کر لکھ دیا، خود اسی روایت سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ آپ نے فرمایا:

الا ادلک علی شی اذا قلتہ ذھب قلیلہ و کثیرہ۔ 

کیا میں تجھے ایسا وظیفہ نہ بتلاؤں کہ جب تو اسے پڑھے تو قلیل و کثیر ہر طرح کا شرک دور ہو جائے؟

قل اللھم انی اعوذبک ان اشرک بک وانا اعلم و استغفرک لمالا اعلم 

(تفسیر درمنثور جلد 4 صفحہ 54)

اس طرح کہا کرو اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس کی کہ تیرے ساتھ شریک کروں دیدہ دانستہ اور میں تجھ سے استغفار کرتا ہوں اور بخشش طلب کرتا ہوں اس کی جو میں نہیں جانتا۔

تو کس قدر مطلب اور مفہوم واضح ہے کہ طبیب روحانی اپنے مخلص غلام کو تربیت دے رہا ہے اور امکانی صورت کا تدارک بتلا رہا ہے لہٰذا اس صورت میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ پر اعتراض کا کیا جواز ہے ؟ اور اگر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں شرک تھا تو ان سے قریبی مراسم قائم کرنا اور برادرانہ روابط روا رکھنا کیا قرآن مجید کے اس ارشاد کی کھلی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟

یاایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم

 (سورت التوبہ 73) یعنی اے نبی ﷺ ، کفار و منافقین کے ساتھ جہاد کرو اور ان پر سختی کرو۔

اور اسی طرح فرمان باری تعالیٰ کی بھی :

"ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار"

ظالموں کی طرف ادنیٰ میلان اور معمولی رغبت بھی نہ رکھو ورنہ تمہیں دوزخ کی آگ اپنی لپیٹ میں لے لے گی،

اور کون سا مسلمان ہے جو نبی اکرم ﷺ کے حق میں اس خلاف ورزی کو روا رکھے؟

 اہل رفض و ضلال نے لفظ شرک مطلق لکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہاں شرک جلی اور شرک اکبر مراد ہے ۔ حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے ۔ اس میں چیونٹی کی چال کی طرح چلنے کا کیا مطلب؟ بلکہ یہاں ریا مراد ہے جیسے کہ سرور عالم ﷺ کا ارشاد ہے۔

ان یسیر الریاء الشرک

معمولی سی ریاکاری بھی شرک ہے۔

اور ریا کا صدور انسان کو کافر و مشرک شرعی نہیں بناتا لہٰذایہاں بھی ڈنڈی ماری گئی ہے ۔ خود اسی روایت میں یہ تصریح ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

ھل الشرک الامن جعل مع اللہ الھا آخر

اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے عرض کیا:

ھل الشرک الاماعبد من دون اللہ اوما دعی مع اللہ

یعنی کیا شرک تو صرف یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو الٰہ اور معبود مانا جائے اور ہم تو آپ کے غلام ہیں اور توحیدر و رسالت کے عقیدہ پر کاربند ہیں تو آپ نے فرمایا نہیں، وہ چیونٹی کی طرح سرایت کرنے والا بھی ہوتا ہے اور وظیفہ بتلاتے ہوئے اس کا اثر بھی یہی بتلایا کہ اس سے قلیل اور کثیر ہر دو شرک دور ہو جائیں گے ۔ حالانکہ شرک جلی تو قلیل نہیں ہو سکتا وہ تو "ان الشرک لظلم عظیم" کا مصداق ہے اور کثیر و عظیم ہی ہے۔ اس صورت میں بھی ڈھکو صاحب کی تشخیص غلط ہو گئی اور اس کی دھاندلی واضح ہو گئی۔ کیونکہ شرک جلی منافی ایمان ہے ، شرک خفی تو ایمان کے منافی نہیں، البتہ کمال صدیقی کے منافی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن مجید میں الاتقی فرمایا ہے:

سیجنبھا الاتقی الذی یوتی مالہ یتزکیٰ

دوزخ کی دہکتی آگ سے وہ شخص ضرور دور رکھا جائے گا جو زیادہ پرہیز گار ہے جو کہ مال کو تزکیہ قلب کے حصول کے لیے راہ خدا میں دیتا ہے ۔

اس آیت کریمہ کے تحت ابو علی طبرسی نے مجمع البیان میں کہا کہ اس سے مراد ابوبکر ہیں:

عن ابن الزبیر قال ان الایۃ نزلت فی ابی بکر لانہ اشتری المما لیک الذین اسلموا مثل بلال وعامر ابن فھیرۃ وغیرھما واعتقھما

 (مجمع البیان : جلد5 صفحہ 502)

ابن الزبیر سے مروی ہے کہ یہ آیت کریمہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ انہوں نے ان غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جو اسلام لا چکے تھے۔ مثلاً حضرت بلال ، عامر بن فہیرہ اور دیگر غلام۔

لہٰذا ایسی ہستی میں قلیل ترین ریا کاری بھی قابل برداشت نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے اس کی اہمیت بھی واضح فرمائی اور اس کا علاج بھی بتلایا۔ اس لیے یہ روایت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خصوصی تربیت اور اعلیٰ تہذیب کی دلیل ہے نہ کہ تنقیص شان کی۔