ابتلاء اور حبشہ کی طرف ہجرت
علی محمد الصلابیابتلاء اور حبشہ کی طرف ہجرت
ابتلاء کی سنتِ الہٰی افراد و جماعت اور اقوام و ملل میں جاری ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہ سنت جاری رہی انہوں نے ان مصائب و آلام کا اس طرح مردانہ وار سامنا کیا جس سے دیوہیکل پہاڑ عاجز آ جائیں۔ اللہ کی راہ میں انہوں نے اپنا مال و خون بہایا اور مشقتیں برداشت کیں، اعلیٰ حسب و نسب کے مسلمان بھی اس ابتلاء سے محفوظ نہ رہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی اپنے چچا حکم بن ابی العاص بن امیہ کے ہاتھوں اللہ کی راہ میں اذیت پہنچائے گئے۔ چچا نے آپؓ کو رسّی سے جکڑ دیا اور کہا کیا تم نے اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر نئے دین کو اختیار کر لیا ہے؟ میں تم کو اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ تم اس دین سے پھر نہیں جاتے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں کبھی اس دین کو چھوڑ نہیں سکتا، جب حکم نے دین پر استقامت اور ان کی اپنے موقف میں صلابت دیکھی تو چھوڑ دیا۔
(التمہید و البیان: صفحہ، 22)
ایذا رسانی کا یہ سلسلہ تمام مسلمانوں کے ساتھ شدت اختیار کر گیا اور حد سے تجاوز کر گیا، سیدنا یاسر اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہما شہید کر دیے گئے۔ اس صورتِ حال سے رسول اللہﷺ سخت پریشان ہوئے اور مسلمانوں کے سلسلہ میں فکر مند ہوئے کہ ان کے لیے جائے سکون کہاں ہے؟ پھر آپﷺ کو حبشہ کا خیال آیا اور مسلمانوں سے فرمایا:
لو خرجتم إلی الحبشۃ فإن بہا ملکا صالحا لا یظلم عندہ احد۔
ترجمہ: ’’اگر تم حبشہ چلے جاؤ تو بہتر ہو گا، وہاں صالح بادشاہ ہے اس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا ہے۔‘‘
(الھجرۃ فی القرآن الکریم: صفحہ، 290 السیرۃ النبویۃ لابنِ ہشام: جلد، 1 صفحہ، 413)
حبشہ کی طرف ہجرت کا آغاز ہوا اور رسول اللہﷺ الم زدہ ہوئے، آپﷺ دیکھ رہے تھے کہ مسلمان چپکے چپکے مکہ سے نکل رہے ہیں
(دماء علی قمیص عثمان: صفحہ، 15 الطبقات: جلد، 1 صفحہ، 204)
اور سمندری سفر کر رہے ہیں۔ بعض سواری پر اور بعض پیدل چل کر بحرِ احمر کے ساحل پر پہنچے پھر سب نے سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر بنا لیا، اللہ کی مشیت سے انہیں دو کشتیاں مل گئیں اور نصف نصف دینار کے عوض سب سوار ہو گئے۔ جب قریش کو ان کے سلسلہ میں خبر ملی تو جلدی سے ساحل سمندر پہنچے لیکن دونوں کشتیاں روانہ ہو چکی تھیں۔
(الطبقات: جلد، 1 صفحہ، 204 تاریخ الطبری: جلد، 2 صفحہ، 69)
حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا شرف پہلی اور دوسری مرتبہ جن نفوس کو حاصل ہوا ان میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما اور ان کی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا شامل ہیں۔
یہ لوگ رجب 5 نبوی میں حبشہ پہنچے، وہاں انہیں امن و امان اور عبادت کی آزادی حاصل ہوئی، قرآن پاک نے ہجرتِ حبشہ کا ذکر کیا ہے۔
ارشادِ الہٰی ہے:
وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِی اللّٰهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْيَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (سورة النحل: آیت، 41)
ترجمہ: ’’جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں ترکِ وطن کیا ہے ہم انہیں بہتر سے بہتر ٹھکانا دنیا میں عطا فرمائیں گے اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی بڑا ہے کاش! لوگ اس سے واقف ہوتے۔‘‘
امام قرطبی رحمۃ اللہ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرت قتادہ رحمۃ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہاں مقصود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جن پر مکہ کے مشرکین نے ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے اور انہیں مکہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا یہاں تک کہ ان کا ایک گروہ حبشہ جا پہنچا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مدینہ میں جائے قرار عطا فرمایا، اور ان کے لیے اہلِ ایمان میں سے انصار بنائے۔
(الجامع لاحکام القرآن، القرطبی: جلد، 10 صفحہ، 107)
ارشاد الہٰی ہے:
قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِی هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَأَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (سورة الزمر: آیت، 10)
ترجمہ: ’’کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو، جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لیے نیک بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ ہے، صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بے شمار اجر دیا جاتا ہے۔‘‘
سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مقصود سیدنا جعفرؓ بن ابی طالب اور وہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔
(الجامع لاحکام القرآن، القرطبی: جلد، 15 صفحہ، 240 )
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس ہجرت سے استفادہ کیا، اپنے تجربات میں اضافہ کیا اور اس بابرکت سفر میں دروس و اسباق حاصل کیے ان میں سے اہم ترین دروس و عبریہ تھے:
1: دہشت گردوں اور گمراہوں کے انواع و اقسام کے مظالم کے باوجود اہلِ ایمان کا اپنے عقیدہ پر ثابت قدم رہنا ان کے صدقِ ایمان، اخلاص عقیدہ اور بلندی نفس کی دلیل ہے کیوں کہ یہ لوگ راحت ضمیر، اطمینانِ نفس و عقل اور اللہ کی رضا کو جسمانی تعذیب و حرمان اور جو تکلیف انہیں پہنچتی ہے اس سے کہیں زیادہ عظیم تصور کرتے ہیں، کیوں کہ مومنین صادقین اور مخلصین داعیان کے یہاں غلبہ ہمیشہ ارواح کو حاصل ہوتا ہے اجسام کو نہیں، یہ نفوس ارواح کے مطالب کو پورا کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور اجسام کے مطالب، راحت و آرام، لذت و آسودگی کی پروا نہیں کرتے اور اسی طرح دعوت و تحریکات پروان چڑھتی ہیں اور ظلم و جہالت سے لوگوں کو نجات ملتی ہے۔
(السیرۃ النبویۃ، الدکتور مصطفٰی السباعی: صفحہ، 57)
2: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ سے امت پر شفقت کا درس سیکھا تھا اور یہ شفقت ایامِ خلافت، عہدِ نبوی، اور سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں نمایاں ہوئی۔ آپؓ نے اپنی بصارت و بصیرت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر نبی کریمﷺ کی شفقت و رحمت اور ان کے امن و راحت پر حرص شدید کا مشاہدہ کیا تھا، یہ آپؓ کی شفقت ہی تھی کہ آپﷺ نے عادل بادشاہ کے پاس انہیں چلے جانے کا اشارہ کیا جس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ معاملہ ویسا ہی تھا جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو امن و امان کے ساتھ دین پر عمل پیرا ہونے کی آزادی ملی اور بہترین جائے اقامت ملی۔
(الہجرۃ فی القرآن الکریم: صفحہ، 312)
رسول اللہﷺ ہی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توجہ حبشہ کی طرف مبذول کرائی تھی اور آپﷺ ہی نے اپنی جماعت اور دعوت کے لیے پر امن جگہ کا انتخاب فرمایا تھا تاکہ اس کو تباہی و بربادی سے محفوظ رکھ سکیں۔ ہر دور میں مسلم قائدین کے لیے یہ نبوی تربیت ہے کہ وہ دعوت و داعیان حق کی حمایت کے لیے بڑی حکمت اور دور اندیشی سے منصوبہ بندی کریں اور پر امن سر زمین کا انتخاب کریں جو ایسے وقت میں دعوت اسلامی کا احتیاطی صدر مقام اور مرکز تحریک ثابت ہو جب کہ مرکز کو خطرہ لا حق ہو، داعیان حق ہی اصل ثروت ہیں، ان کی حفاظت و حمایت کے لیے تمام کوششیں صرف ہونی چاہییں، ان کے امن و راحت میں کوئی تفریط واقع نہیں ہونی چاہیے۔ ایک مسلمان پوری روئے زمین کے کفار و مشرکین کے برابر نہیں ہے۔
(التربیۃ القیادیۃ، منیر الغضبان: جلد، 1 صفحہ، 333)
3: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ہجرتِ حبشہ میں نبی کریمﷺ کے طرزِ عمل سے یہ سیکھا تھا کہ خطرات کے مواقع پر قائد کے مقربین، اس کے اہلِ و عیال اور خاندان پیش پیش ہوں۔ اگر اس کے برعکس قائد کے مقربین اور خواص خطرات کے موقع سے دور رکھے جائیں اور دوسرے لوگوں کو پیش پیش رکھا جائے تو یہ چیز نبوی منہج کے بالکل بر خلاف ہے۔
(التربیۃ القیادیۃ: جلد، 1 صفحہ، 333 السیرۃ النبویۃ للصلابی: جلد، 1 صفحہ، 348)
اسی لیے جب سیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو اپنے اقرباء کو اسلامی فوج میں پیش پیش رکھا۔ سیدنا عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو افریقہ کو فتح کرنے کے لیے آگے بڑھایا، سیدنا عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو مشرق کی فتوحات میں پیش پیش رکھا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو سمندری فتوحات پر روانہ کیا، ان کے ساتھ ان کی بیوی بھی تھیں، ان کی تفصیلات فتوحات کے بیان میں آئیں گی۔
4: اس امت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
(الصواعق المرسلۃ: جلد، 1 صفحہ، 314)
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
صحبھما اللہ، إن عثمان لأول من ھاجر إلی اللہ بأھلہ بعد لوط۔
(المعرفۃ والتاریخ: جلد، 3 صفحہ، 268 ضعیف الإسناد)
ترجمہ: ’’ان دونوں کے ساتھ اللہ ہو، یقیناً سیدنا عثمانؓ، حضرت لوط علیہ السلام کے بعد پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی ہے۔‘‘
جب یہ افواہ پھیل گئی کہ مکہ والے اسلام لے آئے ہیں اور یہ بات مہاجرین حبشہ کو پہنچی تو وہ لوگ مکہ کے لیے روانہ ہو گئے اور جب مکہ سے قریب پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی تھی چنانچہ بعض اہلِ مکہ کی ضمانت میں مکہ میں داخل ہوئے، ان واپس آنے والوں میں سیدنا عثمان اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہما بھی تھے۔
(السیرۃ النبویۃ، ابنِ ہشام: جلد، 1 صفحہ، 402)
اس کے بعد آپؓ نے مکہ میں اقامت اختیار کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا۔ آپؓ نے جب سے اسلام قبول فرمایا نبی کریمﷺ کی صحبت کو لازم پکڑا صرف ہجرت کے وقت جدائی اختیار کی، اور وہ بھی نبی کریمﷺ کی اجازت سے یا پھر ایسی مہم کے موقع پر جہاں آپؓ ہی موزوں تھے آپؓ کا بدل کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ دیگر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی طرح اس سلسلہ میں آپ کی بھی حالت رہی، گویا کہ یہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی ان بنیادی خصوصیات میں ہے جس کی بنیاد پر یکے بعد دیگرے خلافت کے مستحق بنے۔ (عثمان بن عفان، العقاد: صفحہ، 80)
سیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا تعلق دعوت سے پہلے ہی سال سے مضبوط رہا۔ نبی کریمﷺ کی زندگی کے خاص و عام امور آپؓ سے فوت نہ ہوئے یا آج کی اصطلاح میں یوں کہہ لیجیے کہ اسلامی سلطنت کی تاسیس کے اعمال میں سے کسی عمل سے آپؓ پیچھے نہ رہے۔ (عثمان بن عفان، العقاد: صفحہ، 78)